محمود احمد غزنوی
محفلین
دیکھئے وہ 60 عیسائیوں کا وفد جو نجران سے آیا تھا، وہ ذمّی نہیں تھے۔ اور میرا پوائنٹ جس پر آپ نے غور نہیں کیا وہ فقط اتنا تھا کہ اسلام اتنا تنگ دل اور تنگ نظر نہیں ہے۔ اگر نبی کریم عیسائیوں کو جنہوں نے دعوتِ اسلام ٹھکرا دی اور جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے یعنی شرک میں غرق تھے، ان سب کو اپنی پاک مسجد مین اپنے طریقے سے نماز ادا کرنے کی اجازت عطا فرما دی تو اس میں ہم مسلمانوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے کہ ہم بھی کم از کم اتنی رواداری اور Tolerance اور تالیفِ قلوب کا جذبہ اپنے اندر رکھیں۔اس سے تو پتا چلتا ہے کہ اسلام لانے کیلئے کوئی سختی نہیں ہے نہ کسی کو مجبور کیا جا سکتا ہے۔ کسی ذمی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جبرا اسلام قبول کرے اور یہی آپ ٌصلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ تھے کہ انہیں اجازت دی کہ وہ اپنے طریقے پر عبادت کریں تاکہ وہ تنگ نظری محسوس نہ کریں بلکہ سوچ سمجھ کر اور حق جان کر دین اسلام کو قبول کریں۔ اس سے یہ تو سمجھ میں نہیں آتا محموداحمدغزنوی بھائی کہ ان کی عبادت و تہوار میں خود بھی شریک ہوجاؤ۔
فی الحقیقت آپ نے آخری جملہ لکھ کر فقہائے اسلام پر بڑا ظلم کیا ہے۔ آپ کو کس نے کہہ دیا کہ فقہاء تنگ نظر تھے ؟ یا دین اُن کا تھا ؟ بلاشبہ دین اللہ کا ہے اور تمام انبیاء علیھم السلام ایک ہی دین اسلام کے داعی و پیروکار تھے۔ فقہائے اسلام نے اپنی زندگیاں صرف کرکے اس دین کو ہمارے لیے آسان کیا کیونکہ انہوں نے اپنے سے پہلے لوگوں سے علم دین حاصل کیا جو بالعموم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین رحمھم اللہ تھے۔ فقہاء نے آنے والے لوگوں کیلئے آسانی پیدا کردی اور پورا ایک نظام مرتب کرکے دنیا سے رخصت ہوئے کیونکہ جن سے انہوں نے فیض حاصل کیا تھا ، کیا ان کے بعد آنے والے ویسی ہستیوں کو پا سکتے تھے ؟
ٹھنڈے دل سے سوچیے گا۔ ہم سب اکثر باتیں بغیر سوچے سمجھے بیان کردیتے ہیں ۔
نبی کریم نے تو بیت اللہ کا طواف بھی اس ماحول میں کیا ہے کہ جب اسکے اندر 360 بت پڑے ہوئے تھے اور مشرکینِ مکّہ بھی آپکے ہمراہ اسی بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوتے تھے۔ دیکھنے والوں کو تو ظاہری عمل کے اعتبار سے کوئی فرق نظر نہیں آئے گا لیکن کس کا طواف درحقیقت کس کے لئے ہے، اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ظاہر پرستی کے اعتبار سے تو دیکھیں تو متشدد فقہاّ اگر اس زمانے میں کسی اتھارٹی پر فائز ہوتے تو معاذ اللہ نبی کریم کے اس عمل کو بھی غلط قرار دے دیتے۔ اسکی ایک مثال بھی ہے کہ جب نبی کریم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ایک اسی قسم کے شخص نے آپکے اس عمل پر اعتراض کیا اور کہہ اٹھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) !اللہ سے ڈرو اور عدل کرو۔۔۔استغفراللہ۔
میں نے اگر یہ کہا کہ فقہاء تنگ نظر تھے تو یہ سب کیلئے نہیں ہے۔ میں نے خود فقہ کے بعض "احکام " میں یہ لکھا دیکھا ہے کہ مسلمان اگر ایک تنگ راستے سے گذر رہا ہو اور سامنے سے کوئی ذمی کافر آرہا ہو تو مسلمان کو چاہئیے کہ خوب چوڑا ہوکر اور اکڑ کر چلے تاکہ اس ذمی کو سمٹ کر بالکل دیوار کے ساتھ لگ کر گذرنا پڑے۔۔۔اور حکمت انہوں نے اس عمل کی یہ لکھی تھی کہ حکمت اس میں یہ ہے کہ اسلام کی عزت اور کفر کی ذلت کا اظہار ہو۔۔۔
اور نبی کریم تو یہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو سلام کرو (Greetings) خواہ تم انہیں جانتے ہو یا نہیں جانتے۔۔۔لیکن فقہاء فرما رہے ہیں کہ پہلے اس شخص کے عقیدے پر غور کرو،اگر وہ مسلمان ہے تو سلام کرو اور اگر کسی نے سلام میں پہل کردی، تب بھی جواب دینے سے پہلے دوسرے کے عقیدے پر غور کرو، اگر وہ مسلمان ہے تو ٹھیک ورنہ السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ کہہ دیا جائے۔۔۔
نبی کریم نے تو عورتوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی اور وہ نماز ادا بھی کرتی تھیں، لیکن ہمارے بعض فقہاء نے منع کردیا کہ جی اس سے فتنہ پھیلتا ہے۔ یہاں عرب ممالک میں ہر مسجد میں خواتین کیلئے جگہ مختص ہوتی ہے اور وہ بھی مساجد میں نماز ادا کرتی ہیں، یہاں تو کوئی فتنہ نہیں پھیلتا۔۔۔۔۔۔۔
دین اللہ کا ہے فقہاء کا نہیں۔۔۔