اقتباسات کرنل سید وحید الدین کی کتاب 'روزگار فقیر ' سے اقتباس

سید زبیر

محفلین
کرنل سید وحید الدین کی کتاب 'روزگار فقیر ' سے اقتباس​
" ڈاکٹر صاحب مدت سے درد گردہ اور نقرس میں مبتلا تھے ۱۹۳۴میں عید کی نماز پڑھ کےآئے گرم گرم سویٔاں کھالیں فوراً گلا بیٹھ گیا ۔کئی طبیبوں اور ڈاکٹروں کا علاج کرایا کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ہر مرتبہ نئی تشخیص ، نیا علا ج ،نئی دوائیں پھر بڑا سخت قسم کا پرہیز کبھی کبھی تھوڑ ا بہت افاقہ ہو جاتا لیکن مرض دور ہونے میں نہیں آتا ۱۹۳۵ میں جاوید کی والدہ کا انتقال ہو گیا ۔ان کی صحت پر اس سانحہ کا بڑا نا گوار اثر پرا اور کئی دوسرے عوارض پیدا ہو گئے اور عوارض تو ایسے خطرناک نہیں تھے لیکن ایک بڑی پیچیدگی یہ پیدا ہوگئی کہ قلب پھیلنا شروع ہو گیا ان کے معالج اچھی طرح جانتے تھے کہ بچنا محال اور خود وہ بھی اپنی صحت کی جانب سے مایوس ہو چکے تھے لیکن وہ نہ تو مضطرب تھے اور نہ ہی موت سے خائف ، اس زمانے میں بھی ان کے ہاں محفلیں جمتی تھیں بڑے بڑے دقیق فلسفیانہ مسائل پر اظہار خیال کیا جاتا تھا ۔بین الاقوامی صورت حال 'اٹلی اور ایبے سینا کی کشمکش'ہندوستان کے مسائل 'لیگ اور کانگریس ، مسلمانوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے ذرائع و وسائل پر لمبی لمبی بحثیں اور گفتگوئیں ہوتی تھیں ۔انہیں باتیں کرنے میں تکلیف ہوتی تھی اس لیے ان کے عقیدتمند اس کوشش میں رہتے کہ انہیں زیادہ بولنے کا موقع نہ دیا جائے ۔ڈاکٹروں اور طبیبوں کی بھی یہی رائے تھی کہ انہیں زیادہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں لیکن جب ان کی طبیعت حاضر ہوتی تھی تو وہ نقاہت کے باوجود مسلسل باتیں کرتے چلے جاتے تھے ۔شعر و شاعری کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔میں جب ان کی خدمت میں حا ضر ہوتا تو خاموش بیٹھا رہتا تھا کوئی ایسی بات نہیں کرتا تھا جو انہی کوئی لمبی بحث چھیڑنے پر آمادہ کر دے لیکن جب وہ کسی مسئلہ پر اظہار خیال شروع کر دیتے تھے تو انہیں روکنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی اس زمانے میں ایک مرتبہ اپنے ایک دوست نانک چند کے ساتھ جو سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور ڈاکٹر صاحب سے ملنے کے لیے بے چین معلوم ہوتے تھے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا ۔یہ نانک چند ڈاکٹر صاحب کے استاد گرامی مولوی سید میر حسن کی محفل میں اکثر شریک ہوتے رہتے تھے ۔ان سے مل کر ڈاکٹر صاحب کو پرانا زمانہ یاد آگیا ان دنوں ان کی حالت بہتر معلوم ہوتی تھی اور ان کا اندز گفتگو میں پرانے زمانے کی نظر آتی تھی​
لیکن اس واقعہ کے چند ہفتے بعد یعنی ۲۱ اپریل کو صبح آٹھ بجے شہر بھر میں یہ خبر پھیل گئی کہ حکیم الامت اپنے مولا سے جا ملے میں نے یہ خبر سنی تو آنکھوں میں آنسو امڈ آئے فوراً جاوید منزل کا رخ کیا ڈاکٹر صاحب کا وفادار بوڑھا ملازم علی بخش کوٹھی کے باہر چیخیں مار مار کے رو رہا تھا مرحوم جس کمرے میں سویا کرتے تھے اسی کمرے میں اسی پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے اور سکوت ابدی نے نہیں اپنی آغوش میں لے لیا تھا ان کے قریب چند اصحاب کے ساتھ چودھری محمد حسین اور مسٹر محمد شفیع جو آج کل پاکستان ٹائمز کے چیف رپورٹر ہیں کحڑے تھے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور شدت گریہ سے ہچکی بندھی ہوئی تھی میں کچھ دیر تک چپ چاپ ان کے چہرے کو تکتا رہا ۔ چہرہ اضمحلال اور پژمردگی کے آثار سے مکمل پاک تھا پیشانی پر طمانیت کے زاویے ابھرے ہوئے تھے اور ہونٹوں پر اس طرح مسکراہٹ کھیل رہی تھی گویا حکیم الامت زیر لب گنگنا رہے ہیں​
سحر ہا در گریبان شب اوست​
دو گیتی را فروغ از کو کب اوست​
نشان مرد مومن با تو گویم​
چو مرگ آید تبسم بر لب اوت​
میں کچھ دیر یوں ہی چپ چاپ استغراق کے عالم میں کھڑا دیکھتا رہا پھر یکبارگی چونک پڑا اور بے تابانہ مرحوم کے کمرے سے نکل آیا ہجوم ہر لمحہ بڑھتا چلا جاتا تھا ہر شخص حکیم الامت کا دیدار کرنا چاہتا تھا خواب گاہ کے قریب غسل خانہ تھا اس کا دروازہ کھلوایا گا تاکہ لوگ آخری مرتبہ ان کا دیدار کرلیں ڈاکٹر صاحب کے جگری دوست چودھری محمد حسین تجہیز و تکفین دوسرے لوگوں کے سپرد کر کے مرحوم کی ابدی خوابگاہ کے لیے مناسب جگہ کی تلاش میں مصروف ہو گئے سب کا یہی خیال تھا کہ ان کے مزار کے لیے کوئی ایسی جگہ منتخب کی جائے جو ان کے شایان شان ہو چودھری صاحب کی رائے تھی کہ علامہ کو مسجد عالمگیری کے سامنے دفن کیا جائے اس کے لیے محکمہ آثار قدیمہ کے افسروں کی اجازت حاصل کرنا ضروری تھاچناچہ ٹیلیفون کے ذریعے اجازت حاصل کی گئی میں شام تک برابر جاوید منزل میں موجود رہا لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ جنازہ کب روانہ ہوگا لیکن شام کے پانچ بجے جاوید منزل سے جنازہ اٹھا تو کثیر تعداد میں لوگ اس کے ساتھ تھے راستہ میں لوگ جوق در جوق جنازہ میں شامل ہو جاتے تھے اسلامیہ کالج کے قریب پہنچ کر مجمع بہت زیادہ ہو گیا جنازہ شہر کے وسط میں پہنچا تو لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جنازہ کو کندھا دینا نا ممکن ہو گیا شاہی مسجد کے سامنے پہنچ کے نماز ادا کی گئی اور حکیم الامت کی نعش سپرد خاک کردی گئی​
سر شوریدہ بر بالین اسائش رسید اینجا​
اس حادثے کو بارہ برس گزر چکے ہیں لیکن کبھی کبھی یہ واقعات ایک ایک کرکے نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں گویا یہ سب کچھ ابھی ابھی گزرا ہے ڈاکٹر صاحب کی نعش سپید کفن میں لپٹی ہوئی ہے ۔ان کے عقیدتمند اور احباب جمع ہیں دبی دبی سسکیوں کی آواز کی آوازیں آرہی ہیں پھر میں دیکھتا ہوں جنازہ اٹھا ہے گریہ وزاری کا شور برپا ہے جنازہ شہر کے گلی کوچوں میں سے گزرا چلا جا رہا ہے لوگوں کے سر جھکے ہیں چہرے اداس ،آنکھوں کے گرد حلقے ہر شخص یہ محسوس کر رہا ہے کہ اقبال کی موت اس کا ذاتی نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے پھر میں محسوس کرتا ہو کہ ہم ان کے مزار کے کنارے کھڑے ہیں قبر کو مٹی دی جارہی ہے میرا سر جھک جاتا ہے اور زبان سے بے اختیار یہ شعر نکل جاتا ہے​
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے​
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
واقعی یوں لگا جیسے ہم لوگ بھی موجود تھے ً وہاں
بڑے اور عظیم انسانوں کی کچھ ایسی ہی خوبیاں تو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
اب کیا کہوں کہ حکیم الامت جس درد میں دنیا سے گئے وہ آج بھی جوں کا توں ہے :cry:
آہ
مولانا ظفر علی خان یاد آ گئے کہ
گھر گھر میں چرچے ہیں کہ اقبالؒ کا مرنا
اسلام کے سر پہ ہے قیامت کا گزرنا
 

نایاب

لائبریرین
حق مغفرت فرمائے عجب آزاد درویش صفت انسان تھا ۔
بہت شکریہ محترم سید زبیر بھائی
ہم بھی گویا شامل ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
روزگارِ فقیر، اوائلِ لڑکپن میں پڑھی تھی اور اس کتاب کا پہلا نسخہ شاید اب بھی والد صاحب کے پاس موجود ہو ۔ پرانی یادیں تازہ کردیں آپ نے۔ شکریہ زبیر صاحب!
 
Top