سید زبیر
محفلین
کرنل محمد خان کی کتاب " بجنگ آمد " سے اقتباس
حسان خان ، حسیب نذیر گِل ، عائشہ خٹک عاطف بٹ ، شمشاد ساجد تلمیذ روحانی بابا نیرنگ خیال الف نظامی ، نایاب فرحت کیانی عسکری
" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دورے کی ابتدا لنڈی کوتل سے کی ۔جاتے ہوئے درہ خیبر سے گزرے ،جس سے ہمارا پہلے بھی تعارف تھا لیکن گزشتہ چھ سالوں میں درہ خیبر نے جنگ کی اس قدر تیاری کرلی تھی کہ پہچانا نہ جاتا تھا ۔سڑک پر جا بجا روڈ بلاک رکھے ہوئے تھے ۔نیچے نالے میں ٹینکوں کی رکاوٹیں کھڑی تھیں ۔یوں جیسے کنکریٹ کی کھمیاں اگ آئی ہوں۔اب تو سچ مچ درہ خیبر سے گھٹا بچ کر نکلتی تھی اور ہوا تھر اکر چلتی تھی ۔لیکن ہمارا معاملہ ہوا سے ذرا مختلف تھا ۔ہم فرنٹئر کور کے افسر تھے اور درہ خیبر کے سگے رکھوالے،سو بے باکانہ سینہ ابھار کر چلے
لنڈی کوتل پہنچے تو جس کوارٹر گارڈ کے معائنے اور سلامی کا انتظار یا اشتیاق تھا موجود پائی۔فارغ ہوئے تو انگریز کرنل سے تبادلہ خیالات ہوا اور محسوس ہوا کہ جب اس نے چائے پیش کی تو خود خون کے گھونٹ پی رہا تھا ۔کیونکہ فرنٹئر کو رمیں دو دیسی افسروں کے آنے کا یہ مطلب تھا کہ سلطنت برطانیہ کے کم از کم دو سو مربع میل پر سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ۔کیپٹن مومن شا ہ نے تو کرنل صاحب سے یہ سوال بھی پوچھ لیا کہ کرنل صاحب ، ٓپ اپنا فیملی ولائت کب بھیجے گا ۔ادھر تو اب گرمی آنے والا ہے اس وقت اگر کوئی کرنل صاحب کو تھرمامیٹر لگاتا تو تھرما میٹر کھول اٹھتا۔کرنل صاحب کی گرمیاں آچکی تھیں۔
لنڈی کوتل سے پاراچنار گئے ۔کوہاٹ اور تھل(ٹل) کے سنگستان سے گزر کر دریائے کرم کی وادی میں داخل ہوئے تو ہم پر اس مقام کا راز کھلا جہاں اقبال حسن بے پروا کو بے حجاب دیکھ کر اس سوچ میں پڑ گئے تھے کہ ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن ؟ پارا چنار کا حسن کشمیر سے بھی زیادہ بے آلائش ہے ۔ہم نے پورے تین دن کرم ملیشیا اور اس کے کاروبار کا جائزہ لیا۔آخر دورے کا بھی کچھ مقصد تھا لیکن وہاں سے رخصت ہوئے تو حاصل دورہ کرم ملیشیا کے اعدادوشمار نہ تھے بلکہ رخ پاراچنار کے نقش و نگار جو آج تک ذہن سے محو نہ ہو سکے۔
پاراچنار سے سنگینوں کے سائے میں بنوں اور میرعلی کے راستہ میراں شاہ پہنچے ۔یہ وہی میراں شاہ تھا جہاں سے ہم نے چھ سال پہلے جنگی زندگی کی ابتدا کی تھی یا انگریزوں نے کرائی تھی کہ ایک دوسرا انگریز پشاور جا کر برج کھیل سکے ۔اس وقت ہم نیم لیفٹین تھے اور عالی دماغ میراں شاہ کو ہماری آمدورفت کا احساس تک نہ تھا ۔اب میراں شاہ کے قلعے میں قدم رکھا تو ٹوچی سکاؤٹ کے کمان افسر کنل سینڈیسن خود خیر مقدم کو آئے اور میراں شاہ نے تو گویا اپنا نامہ اعمال کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا اور ہم نے بکمال فیاضی اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئیے۔
قبائلی سرداروں کو ہماری آمد کا علم ہوا تو ہم تواضع کے ہاتھوں محصور سے ہو گئے وہ صوبیدار میجر سے لیکر سپاہیوں تک کی طرف سے دعوتیں ، وہ پیٹ بھر جانے پر ہمارا مزید کھانے سے انکار اور میزباں کا فقط ایک سالم دنبہ اور کھلانے پر اصرار وہ رات کو جوانوں کا بلبلہ (پشتو میں رقص و سرور کی محفلوں کو کہتے ہیں ) اور دن کو زبانوں کا زلزلہ (ہمارے کان پشتو سے تازہ آشنا ہو رہے تھے )
دوسرے روز دفتر میں کرنل صاحب سے سے تعلیمی معاملات پر بحث ہوئی تو ہمارے علم و فن سے بہت مرعوب ہوئے۔لنچ کے وقت میس میں شکار کا ذکر چلا تو مختلف پرندوں کے نام لئے جانے لگے ۔اس ضمن میں کرنل سینڈیسن ایک پرندے کا اردو نام پوچھ بیٹھے جسے انگریزی میں بسٹرڈ کہتے ہیں ۔اس خاکسار کا علم و فن جواب دے گیا اور لا علمی کا اظہار کرنے والا ہی تھا کہ مومن شاہ نہائت آرام سے کسی قدر عالمانہ انداز میں بولے " اردو میں اسے ناجائز اولاد کہتے ہیں " کرنل سینڈیسن اردو سے خاصے آشنا تھے ۔ہماری سخن فہمی ان پر آشکارا ہوئی تو مضمون بدل کر موسم کی بات کرنے لگے ۔حسب معمول کوئی مہینہ بھر بعد کیپٹن مومن شاہ ہنس کر کہنے لگے ۔
یارا ،وہ بسٹرڈ کے معنی خو ٹیک (ٹھیک ) نہیں تھے ۔یہ داؤس تو پرندہ ہوتا ہے
میراں شاہ کے بعد ہماری منزل جنڈولہ تھی ۔پہنچے تو شام کا وقت تھا ،شام کے دھندلکے میں جنوبی وزیرستان کے کوہ و دمن خیبر سے بھی زیادہ دلکش نظر آتے ہیں وہی عظمت اور وہی شن دلآویزی لیکن بہت بڑے پیمانے پر ہمارے دل نے اس کشش کی شدت محسوس کی ۔جنڈولہ کے قلعے میں داخل ہوئے تو اس کے وسیع صحن میں سبز گھاس پر دس بارہ انگریز افسر ،بیس بائیس مختلف النسل کےکتوں کے دائرے میں آرام کرسیوں پر بیٹھے پی رہے تھے ہمیں داخل ہوتے دیکھا تو خیر مقدم کے لیے ہماری طرف بڑھے ۔ انگریز نہیں 'کتے !اور گرم جوشی مگر خامو شی سے ہمیں خوش آمدید کہا ۔اچھے انگریز اپنے کتوں کو بھونکتا دیکھیں تو انہیں جنگلی کہتے ہیں اور اچھے کتے اس نکتے سے آشنا ہیں ۔لہٰذا اول تو بھونکتے ہی نہیں اور ایمر جنسی میں کچھ کرنا ہی پڑ جائے تو بقول پطرس ہلکی سی بخ کردیتے ہیں ۔
انگریزوں کے قریب پہنچے تو انہیں اپنے کتوںسے بھی زیادہ کم گو پایا لیکن ان کی کم گوئی تہذیب کا تقاضا نہ تھا بلکہ جلاپے کا اظہار تھا ۔اس قلعے میں آج تک کوئی غیر انگریز داخل نہیں ہوا تھا سوائے اس کے کہ بیرا ہو یا اردلی ۔اور آج یہ مقدس روائت جنڈولہ کی نرم و نازک گھاس کے ساتھ پا ما ل ہو رہی تھی ایک انگریز میجر نے بصد مشکل کیپٹن مومن شاہ کو پشتو میں کچھ کہنے کی زحمت گوارا کی کہ اپنے بروں خانساموں سے بولنے کا یہی انگریزی دستور تھا کیپٹن مومن شاہ نے نہائت شستہ انگریزی میں جواب دیا
“Your Pashto is A little Too Good for me , Would you mind saying the samething in English”
طوطے اڑنے کا محاورہ سن رکھا تھا آج ہم نے سچ مچ طوطے اڑتے دیکھے ۔انگریزی طوطے !اس کے بعد انگریزوں نے حسب توقع دانت تو پیسے مگر ادب قرینے سے۔
جنوبی وزیرستان کے قبائلی جوانوں کو جب علم ہوا کہ دیسی مسلمان افسر آئے ہوئے ہیں تو ہیں ملنے کے لیے بیتاب ہونے لگے ۔ہم نے یہ تقریب دوسرے روز نماز جمعہ تک اٹھا رکھی اور جب سکاؤٹوں کی مسجد میں گئے تو سینکڑوں صحت مند اور کسرتی سکاؤٹوں کی شوخی ،معانقہ کے بعد پسلیاں نقش فریادی بن کر رہ گئیں ۔قبائلی علاقوں میں اخوت اسلامی کا اظہار اچھا خاصا جسمانی بلکہ پہلوانی معاملہ ہے ۔ملاقات کے جوش و خروش کے بعد جب ان لوگون کی تعلیم کے متعلق استفسار کیا تو پتہ چلا کہ وزیرستان کی بارش کی طرح یہاں کی تعلیم کی اوسط بھی کوئی ایک انچ سالانہ ہے
الغرض یہی کیفیت ژوب ملیشیا (فورٹ سنڈیمن) اور پشین سکاؤٹس (چمن) میں نظر آئی ۔انگریز افسر نا خوش ،پٹھان سپاہی خوش،علم کی قلت ،چلم کی کثرت ،معانقوں کی شدت اور پسلیوں کی شامت۔لیکن دوسری طرف چترال اور گلگت گئے تو ان لوگوں کا مزاج کسی قدر مختلف پایا ۔یہاں کا درجہ حرارت اور اور درجہ اخوت مقابلتاً ملائم تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "