حمیرا حیدر
محفلین
2020 کے آنے سے قبل بہت شور تھا کہ یہ بڑا ہی اہم سال ہو گا(علم اعداد کے حساب سے) مگر جب سے یہ سال چڑھا ہے بس چن ہی چڑھ گیا ہے۔ آتے ساتھ ہی دنیا کو ایسی وبا کا تحفہ دیا ہے جو کہ معیشت سے لے کر تعلیم اور زراعت سے لے کرشعر و ادب ہر ایک پر اسکی واضح چھاپ لگی ہے۔ یہاں تک کہ تہواروں پر بھی جو ملنا ملانا تھا لوگ اس سے بھی محروم ہو گئے۔ باقی مذاہب کی طرح مسلمانوں کے عظیم تہوار بھی عالمی طور پر اس کی نظر ہو گئے۔ عید الفطر کے شیرخورمے تو ہم کافی رو چکے ہیں۔ اب آنے والی ہے بقر عید ، جس میں ہوتی ہیں قربانی مگر محسوس یہ ہو رہا ہے کہ اس بار قربانی نہیں بلکہ "کروبانی" ہو گی۔ جیسا کہ 2020 پچھلے سارے سالوں سے مختلف ہے اسی طرح یہ عید قربان بھی مختلف نظر آ رہی ہے۔
اس کروبانی نے عوام الناس کو بہت سے دلچسپ نظاروں سے بھی محروم کر دیا ہے۔ جس میں سر فہرست منڈی مویشیاں ہے۔ملیر کی منڈی سے تو سب واقف ہیں۔ عام دنوں میں جہاں دھول مٹی اڑ رہی ہوتی ہے، عید قربان کی آمد کے ساتھ ہی یہاں گہما گہمی نظر آتی ہے۔ لوگ دور دور سے خوبصورت جانور دیکھنے آتے ہیں ۔ جانوروں کے ساتھ سیلفیاں لی جاتی ہیں ۔ مختلف کھانوں کے سٹال لگے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک میلے کا سماں ہوتا ہے۔اس بار منڈی کچھ الگ شان سے سجی ہے۔ جانور تو حسبِ سابق بہت حسین و جمیل آ رہے ہیں مگر مویشی مالکان اور بیوپاری حضرات کرونا کا رونا روتے دیکھے جا رہے ہیں ۔ جس کی اہم وجہ منڈی کے کرائے کے علاوہ اضافی فیس بھی ہے۔انہیں فی بڑا جانور 1000 سے 1500 تک اضافی چارجز دینے پڑ رہے ہیں جو کہ جانوروں کے سیناٹائزیشن اور فیومیگیشن کے چارجز ہیں ۔ لامحالہ اس کا اثر جانوروں کی قیمتوں پر پڑے گا۔ بلکہ جو جانور جس قدر زیادہ سیناٹائز ہوگا، گاہکوں کی نگاہوں کا مرکز ہو گا۔ یہی حال لاہور ، پنڈی اور پشاور کی مویشی منڈیوں کا ہے۔ وہاں تو خاص طور پر مہنگے خوشبودار ایمپورٹڈ سیناٹائزر استعمال ہونے کا قوی امکان ہے۔ اب اس سے مویشی مالکان پر جو بوجھ پڑا سو پڑا مگر جانور بھی اس عمل سے پریشان ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جانوروں سے اس وبا کے پھیلنے کے شواہد نہیں ملے تاہم کوئی متاثرہ شخص اگر جانور کو ہاتھ لگائے تو جراثیم کھال پر رہ جائیں گے اور کسی دوسرے کو منتقل بھی ہو سکتے ہیں۔ اب ناصرف مویشی مالکان بلکہ جانور بھی محتاط نظر آ رہے ہیں۔ جانور پہلے ہی انسانوں کو پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتے تھے۔ اب تو چھ فٹ کا سماجی فاصلہ رکھیں گے تاکہ کوئی انسان انکے قریب نہ آنے پائے۔ اس سے پہلے انسان جانوروں کو مختلف وائرسوں کی وجہ سے خاصا بدنام کر چکے ہیں۔ اب کرونا نے ان کو موقع دیا ہے بدلہ لینے کا۔ گویا کہ اب جانوروں کو انسانوں سے خطرہ ہے۔جون ایلیا صاحب سے معذرت کے ساتھ
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
منڈی مویشیاں میں ذوق و شوق سے آنے والے افراد میں بڑی تعداد بچوں اور بوڑھوں کی ہوا کرتی ہے۔ جانور خریدنے جانا گویا عید قربان کی تیاریوں کا لازم جزو ہے۔ مگر کیا کریں اس عالمی وبا کا کہ اس بار 10 سال سے کم اور 50 سال سے زیادہ عمر کے افراد کا داخلہ ممنوع قرار پایا ہے۔ اس خبر سے ادھیڑ عمر افراد کافی رنجیدہ خاطر نظر آتے ہیں۔ ان کی ماہرانہ رائے کے بغیر اب لڑکے بالے لاکھوں کے سودے کریں گے۔ منڈی میں ماسک اور دستانے لازم قرار دیئے گئے ہیں۔ جانور حیران ہیں کہ یہ "چھکلی" تو ہم پہنا کرتے تھے۔ اب انسان بھی اسی "چھکلی" (ماسک) کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ زیادہ تر افراد ایسی تمام پابندیوں سے آزاد ہی نظر آ رہے ہیں۔البتہ جانوروں کو یک گونہ سکون ہے کہ اب ہر ایرا غیرا ان کے دانت چیک کرتا نظر نہیں آئے گا۔ سماجی فاصلے کو برقرار رکھتے ہوئے بیوپاری کی گنتی(دانتوں) پر بھروسہ کرنا مجبوری ہے۔ اس بار پہلے کی نسبت دام ناصرف منڈی میں زیادہ ہیں بلکہ گاؤں دیہاتوں کے لوگ بھی خاصے سیانے ہو گئے ہیں۔ جانور کی خریداری کا بعد مرحلہ آتا ہے جانور کی نمائش اور ڈبل قیمت بتانے کا( پتا سب کو ہوتا ہے کہ اصل قیمت کوئی نہیں بتائے گا)۔
عموماً بچوں کو شام میں اپنے بکروں کو نہلا دھلا کر سیر کرانے لے جانا ہوتا ہے۔ جبکہ بڑے جانور کو قابو کرنا بڑوں کا ہی کام ہے۔ کچھ بکرے نہایت شرارتی واقع ہوتے ہیں، جو گلی سے گزرنے والی خواتین سے علیک سلیک کی کوشش کرتے ہیں اور نسوانی چیخیں گونجتی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے خواتین بکرے کے مالک کی منت کرتی نظر آتی ہیں کہ بکرے کو مضبوط پکڑے رکھنا۔ اس بار محسوس یہ ہو رہا ہے کہ جانوروں کی بتائی گئی دگنی تگنی قیمت کو ماننا پڑے گا بلکہ اس بات کا بھی یقین کرنا پڑے گا کہ جانور اور مالک دونوں کرونا کا ٹیسٹ بھی کرا چکے ہیں۔ بکرے کو باہر لے جاتے وقت اور واپس گھر لاتے وقت اچھی طرح سیناٹائز کیا جائے گا۔
عید قربان میں ہرا اور سوکھا چارا بھی خوب بکتا ہے۔ ظاہر ہے قربانی کی خدمت کی جاتی ہے۔ چارہ بھی ایسی دکان سے خریدا جائے جو ایس او پیز پر مکمل عمل پیرا ہوں۔ چارہ اچھی طرح سیناٹائز کرکے ہی گھر لانا اور جانور کو کھلانا اہم ہے۔ ظاہر ہے ہر ایرے غیرے سے یونہی لے لیں؟ گوشت ہم نے نہیں کھانا کیا؟
اب آتا ہے سب سے اہم مرحلہ ۔۔۔قصائی کی بکنگ ۔۔ 99 فیصد قصائی عید کے دن جل دے جاتے ہیں۔ ہزار ہا فون اور تاکید کے باوجود بھی وقت پر نہیں آتے۔ بلکہ اگلے دن پر ٹال جاتے ہیں۔ بہت سے ناتجربہ کار لوگ بھی چھریاں ٹوکے لئے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ عید قربان کے دوران قصائی کا مل جانا کسی اچھے گھر سے برسرروزگار داماد مل جانے کے برابر خوشی کا باعث ہوتا ہے۔اور جب قصائی وقت کی پابندی کرنے والا ہو تو گویا سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ ورنہ عید کے دن جب اردگرد محلے سے گوشت بھننے کی خوشبوئیں آ رہی ہوں اور آپ کا بکرا/بیل سلامت کھڑا ہو تو دل چاہتا ہے کہ زندہ بیل کو ہی مصالحہ لگا دیں۔ چونکہ یہ کروبانی ہے تو اب کی بار قصائی بھی ایسا ڈھونڈنا پڑے گا جو کرونا ٹیسٹ کرا چکا ہو، مکمل ایس او پیز کے ساتھ فیس سکرین بھی لگائے ہو۔ ممکن ہے اہل خانہ اسے پہلے غسل اور سیناٹائز کرنے کے بعد قربانی تک جانے دیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ قصائی کہاں کہاں سے قربانی کر کے آیا ہے۔ عید کے دن عید کی نماز سے زیادہ فکر قصائی اور ذبح کرنے کی ہوتی ہے۔ اگر عید کی نماز شرط نہ ہوتی قربانی کی، تو ممکن ہے رات سے ہی قصائی بلا کر کام ختم کرا دیا جاتا۔ایس او پیز والے قصائی کے ریٹ بھی پچھلے سالوں سے زیادہ ہوں گے۔
قربانی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جانا لازم ہوتا ہے، پھر بے شک وہ حصے اپنے ہی فریزر میں ڈال دیئے جائیں۔ خیر گوشت کی تقسیم بھی ایک بہت اہم مرحلہ ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ جس قدر بےکار گوشت ہو وہ دوسروں کو بھیج دیا جائے(دوسروں کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے) ۔ البتہ ایک حسین بوٹی سب سے اوپر رکھی جاتی ہے۔ گویا وزیراعظم ہینڈسم تو بہت ہے۔
عید کے دن گوشت مانگنے والے بچے سارا دن گھروں کی گھنٹیاں بجا بجا کر اہل خانہ کو عاجز کر دیتے ہیں اور اسی لیے عموما لوگ گھروں کی گھنٹیاں بند کر دیتے ہیں۔ پھر بھی وہ استقامت کی تصویر بنے گیٹ بجا رہے ہوتے ہیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ گوشت ختم ہو گیا تو آواز آتی ہے جو فریج میں رکھا ہے،اسی میں سے دے دیں۔ بہرحال قربانی کرنے والے افراد ضرور نادار اور غریب طبقے تک گوشت پہنچائیں ۔ خاص کر اپنے اردگرد ان سفید پوش گھروں کی خبر ضرور رکھیں جو دروازے بجا کر مانگ نہیں سکتے۔
اب آتا ہے وہ مرحلہ، جس کا سب کو انتظار ہوتا ہے اور وہ ہے رج کے گوشت کھانے کا۔عید قربان کلیجی پارٹی سے شروع ہوتی اور پھر تکہ پارٹی، کباب پارٹی، ران پارٹی، چانپ پارٹی،نہاری پارٹی سے ہوتی ہوئی بالآخر سری پائے پارٹی پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ مختلف تراکیب یو ٹیوب یا دوسری ویب سائیٹس سے حاصل کی جاتی ہیں اور آزمائی بھی جاتی ہیں۔اس دوران اس قدر گوشت کھایا اور کھلایا جاتا ہے کہ دال، سبزی نعمت محسوس ہونے لگتا ہے ۔وہ مہمان دسترخوان پر رغبت سے سبزی کھاتے نظر آ رہے ہوتے ہیں جنھیں عام طور پر بوٹی کے چھوٹے سائز پر بھی اعتراض ہوتا ہے ۔ جانوروں کی خصوصیات کچھ کچھ انسانوں میں سرایت کرتی محسوس ہوتی ہیں ۔ مثلا بھینس کا تساہل پن، بیل کا غصیلا پن، اونٹ کا اکھڑپن اور بکروں کا ضدی پن انسانوں میں سرایت ہوتا نظر آتا ہے۔ کروبانی میں اب مہمان بھی وہ بلائے جائیں گے جن کو زکام، گلہ خراب، یا بخار نہ ہو۔ ہر آنے والے کا درجہ حرارت دروازے پر ہی چیک کیا جائے مگر اس سے آنے والے کے دماغی درجہ حرارت کا نقطہ کھولاؤ تک چلے جانا عین ممکن ہے ۔اس لئے میری صلاح ہے کہ اس سے احتراز برتا جائے۔
اس عید کی شاپنگ میں سب سے زیادہ اہم شاپنگ مصالہ جات کی ہوتی ہے۔ کچری پاؤڈر ،پپیتا پاؤڈر، گوشت گلانے کا پاؤڈر، (نامعلوم کون کون سا گھاس پھوس گوشت کو شرطیہ گلانے کے نام پر مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے)۔ اس کے علاوہ سیخیں، کوئلہ، مٹی کا تیل، ہاتھ والے پنکھے( جو کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پہلے ہی گھر کا لازمی جز ہیں) شامل ہیں۔ سبزی میں ٹماٹر ،پیاز، دھنیا، پودینہ اور ہری مرچوں کی قیمتیں دگنی تگنی ہو جاتی ہیں۔
بیرونی ممالک یعنی پردیسیوں کی عید دیس کی عید سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ عید قربان تو مزید عجیب ہوتی ہے۔ زیادہ تر افراد تو اپنی قربانی اپنے اہل و عیال کو کرنے کا کہہ دیتے ہیں اور بے فکر ہو جاتے ہیں۔ جنہوں نے قربانی خود کرنی ہوتی ہے تو بہت لمبے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ عید سے پہلے جا کر بکرے کی بکنگ کی جاتی ہے۔ پھر عید کے دن سلاٹر ہاؤس جا کر اپنے بکروں سمیت قطار میں کھڑے ہونا اور باری کا انتظار کرنا۔ وہ قطار اتنی ہی پتلی ہوتی ہے کہ ایک طرف بکرا لے کر آدمی کے بمشکل کھڑے ہونے کی جگہ ہوتی ہے۔ اس دوران بکروں کو کھلانے پلانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا اور بے چارے بکرے اپنے مالک کے کپڑے ہی کھانے کے پر مائل نظر آتے ہیں
بہرحال اللہ اللہ کرتے نمبر آیا۔ جانور کی کھال ادھیڑی(اتاری) گئی اور چار ٹکڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ اب اگلے مرحلے پر قصائی کی دکان پر لے جا کر اسے مناسب طریقے سے کٹوانا ہوتا ہے۔ تو جناب یہ سارا کام عصر مغرب تک بمشکل انجام پاتا ہے۔ پھر کچھ فیملی فرینڈز کو اور کچھ لوگوں کو تلاش کر کے گوشت تقسیم کیا جاتا ہے اللہ اللہ خیر صلا۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں بڑی عید سات دن ہوتی ہے۔ آپ کو یہ ساتوں دن مبارک ہوں۔ گوشت کھائیں، دوسروں کو کھلائیں(احتیاط کے ساتھ کہ آج کل ہسپتال جانا خطرے سے خالی نہیں)۔ گوشت محفوظ کرنا چاہیں تو ضرور کریں مگر اتنا بھی نہ ہو کہ اگلی قربانی تک یہی استعمال ہو رہا ہو۔
سال 2020 کچھ نئے رنگ ڈھنگ لے کر آیا ہے۔ ہمیں انہی رنگوں سے اپنی زندگی کو سجانا ہے, سنوارنا ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیسے ان رنگوں سے اپنی زندگی کے ڈھنگ درست کرتے ہیں۔
اس کروبانی نے عوام الناس کو بہت سے دلچسپ نظاروں سے بھی محروم کر دیا ہے۔ جس میں سر فہرست منڈی مویشیاں ہے۔ملیر کی منڈی سے تو سب واقف ہیں۔ عام دنوں میں جہاں دھول مٹی اڑ رہی ہوتی ہے، عید قربان کی آمد کے ساتھ ہی یہاں گہما گہمی نظر آتی ہے۔ لوگ دور دور سے خوبصورت جانور دیکھنے آتے ہیں ۔ جانوروں کے ساتھ سیلفیاں لی جاتی ہیں ۔ مختلف کھانوں کے سٹال لگے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک میلے کا سماں ہوتا ہے۔اس بار منڈی کچھ الگ شان سے سجی ہے۔ جانور تو حسبِ سابق بہت حسین و جمیل آ رہے ہیں مگر مویشی مالکان اور بیوپاری حضرات کرونا کا رونا روتے دیکھے جا رہے ہیں ۔ جس کی اہم وجہ منڈی کے کرائے کے علاوہ اضافی فیس بھی ہے۔انہیں فی بڑا جانور 1000 سے 1500 تک اضافی چارجز دینے پڑ رہے ہیں جو کہ جانوروں کے سیناٹائزیشن اور فیومیگیشن کے چارجز ہیں ۔ لامحالہ اس کا اثر جانوروں کی قیمتوں پر پڑے گا۔ بلکہ جو جانور جس قدر زیادہ سیناٹائز ہوگا، گاہکوں کی نگاہوں کا مرکز ہو گا۔ یہی حال لاہور ، پنڈی اور پشاور کی مویشی منڈیوں کا ہے۔ وہاں تو خاص طور پر مہنگے خوشبودار ایمپورٹڈ سیناٹائزر استعمال ہونے کا قوی امکان ہے۔ اب اس سے مویشی مالکان پر جو بوجھ پڑا سو پڑا مگر جانور بھی اس عمل سے پریشان ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جانوروں سے اس وبا کے پھیلنے کے شواہد نہیں ملے تاہم کوئی متاثرہ شخص اگر جانور کو ہاتھ لگائے تو جراثیم کھال پر رہ جائیں گے اور کسی دوسرے کو منتقل بھی ہو سکتے ہیں۔ اب ناصرف مویشی مالکان بلکہ جانور بھی محتاط نظر آ رہے ہیں۔ جانور پہلے ہی انسانوں کو پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتے تھے۔ اب تو چھ فٹ کا سماجی فاصلہ رکھیں گے تاکہ کوئی انسان انکے قریب نہ آنے پائے۔ اس سے پہلے انسان جانوروں کو مختلف وائرسوں کی وجہ سے خاصا بدنام کر چکے ہیں۔ اب کرونا نے ان کو موقع دیا ہے بدلہ لینے کا۔ گویا کہ اب جانوروں کو انسانوں سے خطرہ ہے۔جون ایلیا صاحب سے معذرت کے ساتھ
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
منڈی مویشیاں میں ذوق و شوق سے آنے والے افراد میں بڑی تعداد بچوں اور بوڑھوں کی ہوا کرتی ہے۔ جانور خریدنے جانا گویا عید قربان کی تیاریوں کا لازم جزو ہے۔ مگر کیا کریں اس عالمی وبا کا کہ اس بار 10 سال سے کم اور 50 سال سے زیادہ عمر کے افراد کا داخلہ ممنوع قرار پایا ہے۔ اس خبر سے ادھیڑ عمر افراد کافی رنجیدہ خاطر نظر آتے ہیں۔ ان کی ماہرانہ رائے کے بغیر اب لڑکے بالے لاکھوں کے سودے کریں گے۔ منڈی میں ماسک اور دستانے لازم قرار دیئے گئے ہیں۔ جانور حیران ہیں کہ یہ "چھکلی" تو ہم پہنا کرتے تھے۔ اب انسان بھی اسی "چھکلی" (ماسک) کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ زیادہ تر افراد ایسی تمام پابندیوں سے آزاد ہی نظر آ رہے ہیں۔البتہ جانوروں کو یک گونہ سکون ہے کہ اب ہر ایرا غیرا ان کے دانت چیک کرتا نظر نہیں آئے گا۔ سماجی فاصلے کو برقرار رکھتے ہوئے بیوپاری کی گنتی(دانتوں) پر بھروسہ کرنا مجبوری ہے۔ اس بار پہلے کی نسبت دام ناصرف منڈی میں زیادہ ہیں بلکہ گاؤں دیہاتوں کے لوگ بھی خاصے سیانے ہو گئے ہیں۔ جانور کی خریداری کا بعد مرحلہ آتا ہے جانور کی نمائش اور ڈبل قیمت بتانے کا( پتا سب کو ہوتا ہے کہ اصل قیمت کوئی نہیں بتائے گا)۔
عموماً بچوں کو شام میں اپنے بکروں کو نہلا دھلا کر سیر کرانے لے جانا ہوتا ہے۔ جبکہ بڑے جانور کو قابو کرنا بڑوں کا ہی کام ہے۔ کچھ بکرے نہایت شرارتی واقع ہوتے ہیں، جو گلی سے گزرنے والی خواتین سے علیک سلیک کی کوشش کرتے ہیں اور نسوانی چیخیں گونجتی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے خواتین بکرے کے مالک کی منت کرتی نظر آتی ہیں کہ بکرے کو مضبوط پکڑے رکھنا۔ اس بار محسوس یہ ہو رہا ہے کہ جانوروں کی بتائی گئی دگنی تگنی قیمت کو ماننا پڑے گا بلکہ اس بات کا بھی یقین کرنا پڑے گا کہ جانور اور مالک دونوں کرونا کا ٹیسٹ بھی کرا چکے ہیں۔ بکرے کو باہر لے جاتے وقت اور واپس گھر لاتے وقت اچھی طرح سیناٹائز کیا جائے گا۔
عید قربان میں ہرا اور سوکھا چارا بھی خوب بکتا ہے۔ ظاہر ہے قربانی کی خدمت کی جاتی ہے۔ چارہ بھی ایسی دکان سے خریدا جائے جو ایس او پیز پر مکمل عمل پیرا ہوں۔ چارہ اچھی طرح سیناٹائز کرکے ہی گھر لانا اور جانور کو کھلانا اہم ہے۔ ظاہر ہے ہر ایرے غیرے سے یونہی لے لیں؟ گوشت ہم نے نہیں کھانا کیا؟
اب آتا ہے سب سے اہم مرحلہ ۔۔۔قصائی کی بکنگ ۔۔ 99 فیصد قصائی عید کے دن جل دے جاتے ہیں۔ ہزار ہا فون اور تاکید کے باوجود بھی وقت پر نہیں آتے۔ بلکہ اگلے دن پر ٹال جاتے ہیں۔ بہت سے ناتجربہ کار لوگ بھی چھریاں ٹوکے لئے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ عید قربان کے دوران قصائی کا مل جانا کسی اچھے گھر سے برسرروزگار داماد مل جانے کے برابر خوشی کا باعث ہوتا ہے۔اور جب قصائی وقت کی پابندی کرنے والا ہو تو گویا سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ ورنہ عید کے دن جب اردگرد محلے سے گوشت بھننے کی خوشبوئیں آ رہی ہوں اور آپ کا بکرا/بیل سلامت کھڑا ہو تو دل چاہتا ہے کہ زندہ بیل کو ہی مصالحہ لگا دیں۔ چونکہ یہ کروبانی ہے تو اب کی بار قصائی بھی ایسا ڈھونڈنا پڑے گا جو کرونا ٹیسٹ کرا چکا ہو، مکمل ایس او پیز کے ساتھ فیس سکرین بھی لگائے ہو۔ ممکن ہے اہل خانہ اسے پہلے غسل اور سیناٹائز کرنے کے بعد قربانی تک جانے دیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ قصائی کہاں کہاں سے قربانی کر کے آیا ہے۔ عید کے دن عید کی نماز سے زیادہ فکر قصائی اور ذبح کرنے کی ہوتی ہے۔ اگر عید کی نماز شرط نہ ہوتی قربانی کی، تو ممکن ہے رات سے ہی قصائی بلا کر کام ختم کرا دیا جاتا۔ایس او پیز والے قصائی کے ریٹ بھی پچھلے سالوں سے زیادہ ہوں گے۔
قربانی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جانا لازم ہوتا ہے، پھر بے شک وہ حصے اپنے ہی فریزر میں ڈال دیئے جائیں۔ خیر گوشت کی تقسیم بھی ایک بہت اہم مرحلہ ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ جس قدر بےکار گوشت ہو وہ دوسروں کو بھیج دیا جائے(دوسروں کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے) ۔ البتہ ایک حسین بوٹی سب سے اوپر رکھی جاتی ہے۔ گویا وزیراعظم ہینڈسم تو بہت ہے۔
عید کے دن گوشت مانگنے والے بچے سارا دن گھروں کی گھنٹیاں بجا بجا کر اہل خانہ کو عاجز کر دیتے ہیں اور اسی لیے عموما لوگ گھروں کی گھنٹیاں بند کر دیتے ہیں۔ پھر بھی وہ استقامت کی تصویر بنے گیٹ بجا رہے ہوتے ہیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ گوشت ختم ہو گیا تو آواز آتی ہے جو فریج میں رکھا ہے،اسی میں سے دے دیں۔ بہرحال قربانی کرنے والے افراد ضرور نادار اور غریب طبقے تک گوشت پہنچائیں ۔ خاص کر اپنے اردگرد ان سفید پوش گھروں کی خبر ضرور رکھیں جو دروازے بجا کر مانگ نہیں سکتے۔
اب آتا ہے وہ مرحلہ، جس کا سب کو انتظار ہوتا ہے اور وہ ہے رج کے گوشت کھانے کا۔عید قربان کلیجی پارٹی سے شروع ہوتی اور پھر تکہ پارٹی، کباب پارٹی، ران پارٹی، چانپ پارٹی،نہاری پارٹی سے ہوتی ہوئی بالآخر سری پائے پارٹی پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ مختلف تراکیب یو ٹیوب یا دوسری ویب سائیٹس سے حاصل کی جاتی ہیں اور آزمائی بھی جاتی ہیں۔اس دوران اس قدر گوشت کھایا اور کھلایا جاتا ہے کہ دال، سبزی نعمت محسوس ہونے لگتا ہے ۔وہ مہمان دسترخوان پر رغبت سے سبزی کھاتے نظر آ رہے ہوتے ہیں جنھیں عام طور پر بوٹی کے چھوٹے سائز پر بھی اعتراض ہوتا ہے ۔ جانوروں کی خصوصیات کچھ کچھ انسانوں میں سرایت کرتی محسوس ہوتی ہیں ۔ مثلا بھینس کا تساہل پن، بیل کا غصیلا پن، اونٹ کا اکھڑپن اور بکروں کا ضدی پن انسانوں میں سرایت ہوتا نظر آتا ہے۔ کروبانی میں اب مہمان بھی وہ بلائے جائیں گے جن کو زکام، گلہ خراب، یا بخار نہ ہو۔ ہر آنے والے کا درجہ حرارت دروازے پر ہی چیک کیا جائے مگر اس سے آنے والے کے دماغی درجہ حرارت کا نقطہ کھولاؤ تک چلے جانا عین ممکن ہے ۔اس لئے میری صلاح ہے کہ اس سے احتراز برتا جائے۔
اس عید کی شاپنگ میں سب سے زیادہ اہم شاپنگ مصالہ جات کی ہوتی ہے۔ کچری پاؤڈر ،پپیتا پاؤڈر، گوشت گلانے کا پاؤڈر، (نامعلوم کون کون سا گھاس پھوس گوشت کو شرطیہ گلانے کے نام پر مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے)۔ اس کے علاوہ سیخیں، کوئلہ، مٹی کا تیل، ہاتھ والے پنکھے( جو کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پہلے ہی گھر کا لازمی جز ہیں) شامل ہیں۔ سبزی میں ٹماٹر ،پیاز، دھنیا، پودینہ اور ہری مرچوں کی قیمتیں دگنی تگنی ہو جاتی ہیں۔
بیرونی ممالک یعنی پردیسیوں کی عید دیس کی عید سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ عید قربان تو مزید عجیب ہوتی ہے۔ زیادہ تر افراد تو اپنی قربانی اپنے اہل و عیال کو کرنے کا کہہ دیتے ہیں اور بے فکر ہو جاتے ہیں۔ جنہوں نے قربانی خود کرنی ہوتی ہے تو بہت لمبے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ عید سے پہلے جا کر بکرے کی بکنگ کی جاتی ہے۔ پھر عید کے دن سلاٹر ہاؤس جا کر اپنے بکروں سمیت قطار میں کھڑے ہونا اور باری کا انتظار کرنا۔ وہ قطار اتنی ہی پتلی ہوتی ہے کہ ایک طرف بکرا لے کر آدمی کے بمشکل کھڑے ہونے کی جگہ ہوتی ہے۔ اس دوران بکروں کو کھلانے پلانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا اور بے چارے بکرے اپنے مالک کے کپڑے ہی کھانے کے پر مائل نظر آتے ہیں
بہرحال اللہ اللہ کرتے نمبر آیا۔ جانور کی کھال ادھیڑی(اتاری) گئی اور چار ٹکڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ اب اگلے مرحلے پر قصائی کی دکان پر لے جا کر اسے مناسب طریقے سے کٹوانا ہوتا ہے۔ تو جناب یہ سارا کام عصر مغرب تک بمشکل انجام پاتا ہے۔ پھر کچھ فیملی فرینڈز کو اور کچھ لوگوں کو تلاش کر کے گوشت تقسیم کیا جاتا ہے اللہ اللہ خیر صلا۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں بڑی عید سات دن ہوتی ہے۔ آپ کو یہ ساتوں دن مبارک ہوں۔ گوشت کھائیں، دوسروں کو کھلائیں(احتیاط کے ساتھ کہ آج کل ہسپتال جانا خطرے سے خالی نہیں)۔ گوشت محفوظ کرنا چاہیں تو ضرور کریں مگر اتنا بھی نہ ہو کہ اگلی قربانی تک یہی استعمال ہو رہا ہو۔
سال 2020 کچھ نئے رنگ ڈھنگ لے کر آیا ہے۔ ہمیں انہی رنگوں سے اپنی زندگی کو سجانا ہے, سنوارنا ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیسے ان رنگوں سے اپنی زندگی کے ڈھنگ درست کرتے ہیں۔