کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاوں اسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناوں اسے
وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاوں اسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے
میں کیسے بات کروں اور کہاں سے لاوں اسے
مگر وہ زود فراموش زود رنج بھی ہے
کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاوں اسے
وہی جو دولتِ دل ہے وہی جو راحتِ جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواوں اسے
جو ہمسفر سرِ منزل بچھڑ رہا ہے فراز
عجب نہیں کہ اگر یاد بھی نہ آوں اسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناوں اسے
وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاوں اسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے
میں کیسے بات کروں اور کہاں سے لاوں اسے
مگر وہ زود فراموش زود رنج بھی ہے
کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاوں اسے
وہی جو دولتِ دل ہے وہی جو راحتِ جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواوں اسے
جو ہمسفر سرِ منزل بچھڑ رہا ہے فراز
عجب نہیں کہ اگر یاد بھی نہ آوں اسے