حسن محمود جماعتی
محفلین
کر رہے قریہ قریہ زندگی کی جستجو ، میں اور تُو
ہو گئے آوارگی کے نام پر بے آبرو، میں اور تُو
تھے جہاں رسموں رواجوں کے اندھیروں پر فدا، اب اُس جگہمعذرت بن کر کھڑے ہیں روشنی کے روبرو، میں اور تُو
کُچھ دنوں سے میں تری اور تُو مری مہمان ہے،کیا شان ہے
بن چکے ہیں عکسِ جاں اک دوسرے کا ہو بہو،میں اور تُو
آج کی ساری بہاریں آج کی ہر اک خزاں،نا مہرباں
رُت نئی کب آئے گی کب ہوں گے آخر سُرخرو ، میں اور تو
کل بھی اپنی ذات میں ہم سرمدو منصور تھے،مسرور تھے
کر رہے ہیں آج بھی ذوقِ انا کی آرزو، میں اور تُو
یہ ضروری تو نہیں حرف و صدا پُر زور ہو، اک شور ہو
بند ہونٹوں سے بھی کرتے آرہے ہیں گفتگو،میں اور تُو
اس گلستاں میں قتیلؔ اب نغمگی کے رازداں،ہوں گے کہاں
دو ہی رہ جائیں گے باقی طائرانِ خوش گلو، میں اور تُو