قرۃالعین اعوان
لائبریرین
خواب میں دیکھئے ہوئے منظِر حیرانی کی
عشق میں بیتی ہوئی پہلی پریشانی کی
عرصہ ء جاں میں کسی گوشہ ء ویرانی کی
یاد بن جاؤں
جھلک بن کے رہوں
جس طرح گلشنِ ہستی میں کوئی موجِ ہوا ہوتی ہے
جیسے جتلائی نہیں جاتی مگر رسمِ وفا ہوتی ہے
جیسے وہ جانتا ہے جس پہ گزرتا ہے فراق
پھانس ٹوٹی ہوئی امید کی کیا ہوتی ہے
جس طرح لمحہ ء کمزور میں گرجائے کوئی غم
لبِ بے قابو سے
جس طرح ہوتی ہوئی فتح بنے
بس یونہی پل بھر میں شکست
جیسے عمروں کا بھرم ہوتا ہو اک آن میں ریزہ ریزہ
چشمِ مجبور کے اک آنسو سے
جس طرح اٹھ کےاچانک ہی چلا جائے کوئی پہلو سے
جیسے بچھڑے ہوئے کوئی جلوت کا شناسا
کوئی خلوت کا رفیق
دور ہوجائے کوئی جسم کا ساتھی
کوئی راتوں کا شریک
جیسے غم خوارِ محبت ہی بنے
لطفِ محبت میں فریق
یوں لہو کو تیرے شعلاؤں
تپک بن کے رہوں
میں تیرے دل میں۔۔۔ہمیشہ کی
کسک بن کے رہوں
بے حد پسندیدہ!