جب ہم لڑکپن کی عمر میں ہوا کرتے تھے تو اپنے والدین کے نزدیک اتنے قابلِ اعتماد ٹھہر چکے تھے کہ قریب کے شہروں میں موجود رشتہ داروں کے ہاں آنے جانے کے لئے ہمیں بھیج دیا جاتا تھا۔ والد صاحب تو کچھ زیادہ نصیحتیں نہ کرے لیکن ہماری والدہ ہمیں الگ سے لے جا کر سمجھاتیں کہ” دیکھو سفر میں کسی سے زیادہ بات نہیں کرنی ۔ بس یا ٹرین میں بیٹھ کر سونا نہیں ہے۔ اپنا بیگ اپنی سیٹ کے نیچے رکھنا اور جب بھی سواری رکے تو اس پر نگاہ رکھنا۔ یہ پیسے جو میں تمہارے خرچے کے لئے دے رہی ہوں ان کی کوئی چیز کھا لینا لیکن اپنی منزل پر پہنچ کر ، راستے میں کسی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی ، اور دورانِ سفر سامان بیچنے والوں سے کچھ نہیں خریدنا“۔
ہم اپنی والدہ کی یہ نصیحتیں سن تو رہے ہوتے لیکن دماغ ہمارا بس میں بیٹھنے سے پہلے ہی سفر کے مزے لے رہا ہوتا لیکن ایک بات ضرور تھی کہ ان کی ساری باتیں سُنی ان سنی کرنے کے باوجود یاد رہتی تھیں اور ہم سفر کے دوران اسی طرح رہتے جیسا کہ ہمیں کہا گیا تھا۔
وقت گزر گئے اور اب ہمارے صاحبزادے اس عمر مین ہیں جس میں ہم ان کو موٹر سائیکل کی چابی پکڑانے سے پہلے ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ”دیکھو بیٹا سروس روڈ پر ہی رہنا مین روڈ پر ہرگز مت جانا“ اور ان کی تخفی طبع کے لئے انہیں ہم ٹریفک وارڈنز کے ”ظالم اور بد تمیز“ ہونے کا تڑکا بھی لگا دیتے ہیں۔
آج ایک امریکی خاتون کے لٹنے کی خبر پڑھ کر جہاں ہمیں اپنی والدہ کی دوران سفر کچھ بھی نہ خریدنے کی نصیحت یاد آ گئی وہیں ہمیں ایک ضرب المثل کی صداقت کا بھی اعتبار آ گیا۔وہ ضرب المثل کیا تھی ؟ خبر پڑھئے تو آپ کے ہونٹوں پر اس کا اجراء خود ہی ہو جائے گا۔
خبر کچھ یوں ہے کہ آرلنگٹن (ٹیکساس) کی ایک خاتون جالُونٹا فری مین نے دورانِ سفر ایک ipad خریدا ۔ بڑی مناسب قیمت میں مل گیا یعنی صرف 200 ڈالر میں ۔ بیچنے والا چونکہ ہمارے ہاں کے گھڑی اور عینکیں بیچنے والے پٹھانوں کی طرح کا گشتی بزنس مین تھا لہذا پیسے اُدھر اور ipad ادھر ۔ خریدنے والے کا کچھ پتہ نہ بیچنے والے کی خبر۔ اب جو خاتون نے شوق سے پردہ نشیں ipad کو بے پردہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ تو Mirror یعنی جعلی تھا۔ اسے نہ صرف بڑی عیاری سے ipad سکرین سے ملتے جلتے ورق میں ملفوف کیا گیا تھا بلکہ اسے FedEx کے کارڈ بورڈ میں پیک بھی کیا گیا تھا۔یعنی محترمہ کے دو سو ڈالر کا جھٹکا ہو چکا تھا۔
اب ان خاتون نے بھی میری مرحوم والدہ کی طرح سب کو نصیحت کی ہے کہ ”دورانِ سفر کسی سے کچھ مت خریدنا“۔ بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر آپ کی ماں یا بہن کو بھی کوئی ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے تو انہیں بھی اس سے آگاہ کر دیں۔ ہمیں ان خاتون سے مکمل اتفاق ہے اور ان کی نصیحت ہم نے اپنی پینٹ کی جیب میں اڑس لی ہے ، قمیض پہنی ہوتی تو پَلے سے باندھ لیتے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر ان کی ماں نے بھی انہیں وقت پہ ایسی نصیحت کی ہوتی تو شاید یہ خاتون 200 ڈالرز سے محروم نہ ہوتیں۔
ہم اپنی والدہ کی یہ نصیحتیں سن تو رہے ہوتے لیکن دماغ ہمارا بس میں بیٹھنے سے پہلے ہی سفر کے مزے لے رہا ہوتا لیکن ایک بات ضرور تھی کہ ان کی ساری باتیں سُنی ان سنی کرنے کے باوجود یاد رہتی تھیں اور ہم سفر کے دوران اسی طرح رہتے جیسا کہ ہمیں کہا گیا تھا۔
وقت گزر گئے اور اب ہمارے صاحبزادے اس عمر مین ہیں جس میں ہم ان کو موٹر سائیکل کی چابی پکڑانے سے پہلے ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ”دیکھو بیٹا سروس روڈ پر ہی رہنا مین روڈ پر ہرگز مت جانا“ اور ان کی تخفی طبع کے لئے انہیں ہم ٹریفک وارڈنز کے ”ظالم اور بد تمیز“ ہونے کا تڑکا بھی لگا دیتے ہیں۔
آج ایک امریکی خاتون کے لٹنے کی خبر پڑھ کر جہاں ہمیں اپنی والدہ کی دوران سفر کچھ بھی نہ خریدنے کی نصیحت یاد آ گئی وہیں ہمیں ایک ضرب المثل کی صداقت کا بھی اعتبار آ گیا۔وہ ضرب المثل کیا تھی ؟ خبر پڑھئے تو آپ کے ہونٹوں پر اس کا اجراء خود ہی ہو جائے گا۔
خبر کچھ یوں ہے کہ آرلنگٹن (ٹیکساس) کی ایک خاتون جالُونٹا فری مین نے دورانِ سفر ایک ipad خریدا ۔ بڑی مناسب قیمت میں مل گیا یعنی صرف 200 ڈالر میں ۔ بیچنے والا چونکہ ہمارے ہاں کے گھڑی اور عینکیں بیچنے والے پٹھانوں کی طرح کا گشتی بزنس مین تھا لہذا پیسے اُدھر اور ipad ادھر ۔ خریدنے والے کا کچھ پتہ نہ بیچنے والے کی خبر۔ اب جو خاتون نے شوق سے پردہ نشیں ipad کو بے پردہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ تو Mirror یعنی جعلی تھا۔ اسے نہ صرف بڑی عیاری سے ipad سکرین سے ملتے جلتے ورق میں ملفوف کیا گیا تھا بلکہ اسے FedEx کے کارڈ بورڈ میں پیک بھی کیا گیا تھا۔یعنی محترمہ کے دو سو ڈالر کا جھٹکا ہو چکا تھا۔
اب ان خاتون نے بھی میری مرحوم والدہ کی طرح سب کو نصیحت کی ہے کہ ”دورانِ سفر کسی سے کچھ مت خریدنا“۔ بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر آپ کی ماں یا بہن کو بھی کوئی ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے تو انہیں بھی اس سے آگاہ کر دیں۔ ہمیں ان خاتون سے مکمل اتفاق ہے اور ان کی نصیحت ہم نے اپنی پینٹ کی جیب میں اڑس لی ہے ، قمیض پہنی ہوتی تو پَلے سے باندھ لیتے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر ان کی ماں نے بھی انہیں وقت پہ ایسی نصیحت کی ہوتی تو شاید یہ خاتون 200 ڈالرز سے محروم نہ ہوتیں۔