آج مدتوں بعد نجانے کیوں یہ نظم یاد آ رہی ہے، بہت مرتبہ سنی اور سننے کے بعد سوچا کہ اسے دیگر ساتھیوں کے ساتھ بھی share کروں۔ شاعر کا نام مجھے معلوم نہیں البتہ اس کا آڈیو ورژن اپ لوڈ کیے دیتا ہوں، اس نظم کا اصل مزا سننے میں ہی ہے۔
مندرجہ بالا ربط سے ڈاؤن لوڈ کر لیں:
کسی شب میں اچانک لوٹ آؤں گا
کسی شب میں اچانک لوٹ آؤں گا
ہے مسلک جب وفا رکھنا تو تم سے راز کیا رکھنا
مجھے غازی بلاتے ہیں تو جاں کیوں دبا رکھنا
میرے اس راز پنہاں کو درون دل چھپا رکھنا
اگر میں دیر بھی کر لوں نہ مجھ سے کچھ گلہ رکھنا
بپا ہے جنگ طوفانی شہیدوں کا پتہ رکھنا
جو ظالم ہوں وہ غارت ہو لبوں پہ یہ دعا رکھنا
غم جاں کو دبا رکھنا خدا کا آسرا رکھنا
دریچے کو کھلا رکھنا دیا اس میں جلا رکھنا
اگر میں کام آ جاؤں تو سن کر دل بڑا رکھنا
جو کچھ نالے اٹھانے ہوں قیامت پر اٹھا رکھنا
زمانے کے حوادث سے امیدوں کو بچا رکھنا
اگر شب میں ہو تنہائی تو خوابوں کو جگا رکھنا
کسی شب میں اچانک لوٹ آؤں گا