طارق شاہ
محفلین
غزل
فراق گورکھپوری
کسی کا یوں تو ہُوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حُسن وعشق تو دھوکہ ہے سب، مگر پھر بھی
ہزار بار زمانہ اِدھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہےکچھ تیری رہگزر پھر بھی
خوشا اشارہٴ پیہم، زہے سکوتِ نظر
دراز ہوکے فسانہ ہے مختصر پھر بھی
جھپک رہی ہے زمان ومکان کی آنکھیں
مگر ہے قافلہ، آمادۂ سفر پھر بھی
شبِ فِراق سے آگے ہے آج میری نظر
کہ کٹ ہی جائے گی یہ شامِ بے سحر پھر بھی
کہیں یہی تو نہیں کاشفِ حیات ومُمات
یہ حُسن وعشق بظاہر ہیں بے خبر پھر بھی
لُٹا ہوا چمنِ عشق ہے، نگاہوں کو
دِکھا گیا وہی کیا کیا گل وثمر پھر بھی
خراب ہو کے بھی سوچا کئے ترے مہجور
یہی کہ تیری نظر ہے تِری نظر پھر بھی
ہو بے نیازِ اثر بھی کبھی تِری مٹّی
وہ کیمیا ہی سہی، رہ گئی کسر پھر بھی
لپٹ گیا تِرا دیوانہ گرچہ منزل سے
اُڑی اُڑی سی ہے کچھ خاکِ رہگزر پھربھی
تِری نِگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے
اُتر گیا رگ جاں میں یہ نیشتر پھر بھی
غمِ فراق کے کُشتوں کا حشر کیا ہوگا
یہ شامِ ہجر تو ہوجائے گی سحر پھر بھی
فنا بھی ہو کے گرانباریِ حیات نہ پوچھ
اُٹھائے اُٹھ نہیں سکتا یہ درد سر پھر بھی
سِتم کے رنگ ہیں ہر اِلتفاتِ پنہاں میں
کرم نُما ہیں تِرے زور سر بسر پھر بھی
خطا معاف! ترا عفْو بھی ہے مثلِ سزا
تِری سزا میں ہے اک شانِ درگزر پھر بھی
اگرچے بیخودیِ عشق کو زمانہ ہوا !
فراق، کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی