ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ہا ہا ہا ہا !!! بہت خوب راحل بھائی ! آپ نے میرے کندھے پر بندوق رکھ کر میر کا مصرع خود میر ہی کے متھے مار دیا ۔ بیشک میر صاحب کہہ گئے ہیں کہ مستند ہے اُن کا فرمایا ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میر کی زبان اور کلام ہر معاملے میں حجت نہیں ہے ۔ بہت کچھ اگڑم بگڑم بھی لکھ گئے ہیں موصوف۔ ان کی زبان ان کے عہد کی آئینہ دار تھی ۔ درجنوں الفاظ اور نحوی اسلوب جو وہ استعمال کر گئے کب کے متروک ہوچکے ہیں ۔ تب سے اب تک اردو بہت سنور چکی اور ترقی کرچکی ہے ۔ ارتقائی عمل جاری ہے ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا پاؤں بروزن فعلن بھی متروک ہو چکا ۔ لیکن تسہیل اور کشادگی کی غرض سے میں سمجھتا ہوں کہ اسے بروزن فعلن باندھنے کی اجازت ہونی چاہئے ۔ وجوہات پہلے ہی تفصیلاً عرض کرچکا ہوں۔ میر کے اشعار تو لفظ مذکور کا ارتقا دکھانے کے لئے نقل کئے تھے ۔ظہیرؔ بھائی، آداب!
سر تسلیم خم ۔۔۔ آپ کی بات عین مناسب ہے ۔۔۔ لیکن پاؤں (بمعنی پانا) اور پاؤں (بمعنی پیر) کے جدید تلفظ میں بہرحال معمولی فرق تو ہے۔ پاؤں(پانا) میں تو واؤ واضح طور پر معروف سنائی دیتی ہے جبکہ پاؤں(پیر) میں کچھ کچھ مجہول۔ دراصل میرا یہ نکتہ اٹھانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ کئی مرتبہ ایسا دیکھا ہے کہ کوئی شاعر پاؤں (بمعنی پیر) کو دعاؤں، خطاؤں وغیرہ کے ساتھ قافیہ لایا تو اساتذہ نے تلفظ کی بنیاد پر ٹوک دیا۔ بس اسی لئے یہ بات کی کہ اگر مستقبل میں قافیہ کے باب میں کبھی کسی کو اس اعتراض کا سامنا ہو تو وجہ ذہن نشین رہے۔
بہرحال، ظاہر ہے کہ آپ کی بات میری رائے سے کہیں زیادہ وزن رکھتی ہے کہ مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا آپ کے مطالعے کا ایک چوتھائی بھی ہمارے پاس ہوتا تو کیا بات تھی
دعاگو،
راحلؔ۔
قافیہ کا نکتہ آپ نے بہت اچھا اٹھایا۔ بیشک پاؤں بمعنی قدم کو دعاؤں ، صداؤں کا قافیہ نہیں بنایا جاسکتا کہ تلفظ میں فرق ہے ۔ لیکن لوگ اب بنارہے ہیں کہ تلفظ میں فرق معمولی سا ہے ۔ جمال احسانی کی یہ غزل دیکھئے گا ۔