عادل ـ سہیل
محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
انسانی زندگی کے لوازمات میں سے ہے کہ انسان ایک دوسرے کی تعریف بھی کرتے ہیں اور برائی بھی ، کسی کو برا کہنا تو یقینا نقصان دہ ہی سمجھا جاتا ہے ، لیکن کسی کی تعریف کرنا عموما نقصان دہ خیال نہیں کیا جاتا کیونکہ بظاہر اس میں کوئی نقصان نظر نہیں آتا ، جب کہ حقیقتا اس میں کئی تقصانات ہوتے ہیں ، حتی کہ اگر کوئی کسی کی تعریف کسی بھی دنیاوی مقصد کے لیے نہ کرے ، بلکہ واقعتا دل سے راضی ہو کر کسی لالچ کے بغیر ہی کرے ، تو بھی اگر اس کو درست طور پر نہ کیا جائے تو وہ تعریف کرنے اور جس کی تعریف کی جائے دونوں کے لیے نقصان کا باعث ہے ، اس موضوع کو میں نے کافی عرصہ پہلے """ بات ہی تو ہے """ میں بھی بیان کیا تھا ، اب ایک الگ موضوع کے طور پر کچھ تفصیل سے عرض کر رہا ہوں ،
کسی بھی انسان کو صرف وہ قول ، اور عمل ، جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکامات کی حدود میں ہو گا وہ اس کے لیے دین دنیا اور آخرت کی خیر والا ہو گا ، """"""""" یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دنیا کے مال و عزت و حیثیت و صحت و طاقت و قوت وغیرہ میں اضافہ خیر کی دلیل نہیں """"
آئیے ، دیکھتے بلکہ سیکھتے ہیں کہ کسی کی تعریف کرنے کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کیا تعلیم دی ہے
::::::: ابی بکرہ الثقفی رضی اللہ عنہ ( یہ ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نہیں ایک اور صحابی ہیں ) سے روایت ہے کہ """"" ایک دفعہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے کسی کی تعریف کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کئی دفعہ ارشاد فرمایا ((( ویحک ، قطعت عنک صاحبک ، قطعت عنک صاحبک ، مَن کان مادحاً اخاہ لا محالۃ فلیقُل ، أحسبُ فُلاناً ، واللہ حسیبہُ ، و لا اُزکی علی اللہ احداً ، أحسبہُ کذا و کذا اِن کان یعلم مِنہُ ::: تمہارا برا ہو ، تم نے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی ، تم نے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی اگر کوئی اپنے (کسی مُسلمان) بھائی کی کسی خوبی کو جانتا ہو اور اس کی تعریف کرنا بہت ضروری سمجھتا ہو تو وہ یوں کہے ، میرا خیال ھے کہ فُلان ایسا ایسا ھے ، اور اللہ ھی اس کے بارے میں بہتر جانتا ھے ، میں اللہ کے سامنے کسی کی تعریف نھیں کر رھا ، ( اسکے بارے میں )میرا خیال یوں ھے ))) """"" صحیح البخاری/حدیث٢٦٦٢/کتاب الشھادات/باب ١٦ ،،صحیح مُسلم/حدیث ٣٠٣٠/کتاب الزھد/باب ١٤ .
::::::: ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ """"" ایک دفعہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے کسی کی تعریف کی اور خوب تعریف کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((( أھلکتُم ۔۔۔ أو ۔۔۔ قطعتُم ظھر الرَجُل ::: تُم لوگوں نے اس (یعنی جس کی تعریف کی جا رہی ہے اُس ) کو ھلاک کر دیا ۔۔۔۔ یا فرمایا ۔۔۔۔ اس کی کمر توڑ دی ))) """""
::: فقہ الحدیث ::: (۱) کسی کی اس کے سامنے تعریف کرنا حرام قرار دیا گیا ، کیونکہ جس کی تعریف کی جاتی ہے اس کا دین خطرے میں پڑ جاتا ہے ، کہ ، تعریف اس کے نفس میں تکبر اور گمراہی کا سبب بن سکتی ہے اور عام انسانی فطرت اس کی شاہد ہے ،
(۲) کسی کی تعریف کرنا ، حسن ظن ، یعنی نیک خیالی کی بنا پر ہونا چاہیے نہ کی حتمی فیصلے کے طور پر ، اگر کسی کی تعریف کرنا بہت ہی ضروری ہو تو تعریف کرنے والا اپنے خیال کے طور پر بیان کرے ، اور فیصلہ و حکم اللہ کی طرف پلٹائے ، کیونکہ اللہ ہی ہر معا ملے کی حقیقیت جانتا ہے ، خود سے ایسا حکم لگانے کا درجہ ، کم سے کم اللہ کی شان میں گستاخی ہے ،
اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اللہ کی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مکمل عملی تابع فرمانی کریں اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے اور اسی پر ہماری حاضری ہو ، و السلام علیکم۔
انسانی زندگی کے لوازمات میں سے ہے کہ انسان ایک دوسرے کی تعریف بھی کرتے ہیں اور برائی بھی ، کسی کو برا کہنا تو یقینا نقصان دہ ہی سمجھا جاتا ہے ، لیکن کسی کی تعریف کرنا عموما نقصان دہ خیال نہیں کیا جاتا کیونکہ بظاہر اس میں کوئی نقصان نظر نہیں آتا ، جب کہ حقیقتا اس میں کئی تقصانات ہوتے ہیں ، حتی کہ اگر کوئی کسی کی تعریف کسی بھی دنیاوی مقصد کے لیے نہ کرے ، بلکہ واقعتا دل سے راضی ہو کر کسی لالچ کے بغیر ہی کرے ، تو بھی اگر اس کو درست طور پر نہ کیا جائے تو وہ تعریف کرنے اور جس کی تعریف کی جائے دونوں کے لیے نقصان کا باعث ہے ، اس موضوع کو میں نے کافی عرصہ پہلے """ بات ہی تو ہے """ میں بھی بیان کیا تھا ، اب ایک الگ موضوع کے طور پر کچھ تفصیل سے عرض کر رہا ہوں ،
کسی بھی انسان کو صرف وہ قول ، اور عمل ، جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکامات کی حدود میں ہو گا وہ اس کے لیے دین دنیا اور آخرت کی خیر والا ہو گا ، """"""""" یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دنیا کے مال و عزت و حیثیت و صحت و طاقت و قوت وغیرہ میں اضافہ خیر کی دلیل نہیں """"
آئیے ، دیکھتے بلکہ سیکھتے ہیں کہ کسی کی تعریف کرنے کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کیا تعلیم دی ہے
::::::: ابی بکرہ الثقفی رضی اللہ عنہ ( یہ ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نہیں ایک اور صحابی ہیں ) سے روایت ہے کہ """"" ایک دفعہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے کسی کی تعریف کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کئی دفعہ ارشاد فرمایا ((( ویحک ، قطعت عنک صاحبک ، قطعت عنک صاحبک ، مَن کان مادحاً اخاہ لا محالۃ فلیقُل ، أحسبُ فُلاناً ، واللہ حسیبہُ ، و لا اُزکی علی اللہ احداً ، أحسبہُ کذا و کذا اِن کان یعلم مِنہُ ::: تمہارا برا ہو ، تم نے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی ، تم نے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی اگر کوئی اپنے (کسی مُسلمان) بھائی کی کسی خوبی کو جانتا ہو اور اس کی تعریف کرنا بہت ضروری سمجھتا ہو تو وہ یوں کہے ، میرا خیال ھے کہ فُلان ایسا ایسا ھے ، اور اللہ ھی اس کے بارے میں بہتر جانتا ھے ، میں اللہ کے سامنے کسی کی تعریف نھیں کر رھا ، ( اسکے بارے میں )میرا خیال یوں ھے ))) """"" صحیح البخاری/حدیث٢٦٦٢/کتاب الشھادات/باب ١٦ ،،صحیح مُسلم/حدیث ٣٠٣٠/کتاب الزھد/باب ١٤ .
::::::: ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ """"" ایک دفعہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے کسی کی تعریف کی اور خوب تعریف کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((( أھلکتُم ۔۔۔ أو ۔۔۔ قطعتُم ظھر الرَجُل ::: تُم لوگوں نے اس (یعنی جس کی تعریف کی جا رہی ہے اُس ) کو ھلاک کر دیا ۔۔۔۔ یا فرمایا ۔۔۔۔ اس کی کمر توڑ دی ))) """""
::: فقہ الحدیث ::: (۱) کسی کی اس کے سامنے تعریف کرنا حرام قرار دیا گیا ، کیونکہ جس کی تعریف کی جاتی ہے اس کا دین خطرے میں پڑ جاتا ہے ، کہ ، تعریف اس کے نفس میں تکبر اور گمراہی کا سبب بن سکتی ہے اور عام انسانی فطرت اس کی شاہد ہے ،
(۲) کسی کی تعریف کرنا ، حسن ظن ، یعنی نیک خیالی کی بنا پر ہونا چاہیے نہ کی حتمی فیصلے کے طور پر ، اگر کسی کی تعریف کرنا بہت ہی ضروری ہو تو تعریف کرنے والا اپنے خیال کے طور پر بیان کرے ، اور فیصلہ و حکم اللہ کی طرف پلٹائے ، کیونکہ اللہ ہی ہر معا ملے کی حقیقیت جانتا ہے ، خود سے ایسا حکم لگانے کا درجہ ، کم سے کم اللہ کی شان میں گستاخی ہے ،
اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اللہ کی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مکمل عملی تابع فرمانی کریں اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے اور اسی پر ہماری حاضری ہو ، و السلام علیکم۔