طارق شاہ
محفلین
غزلِ
احمد فراز
کسی کی یاد میں اِتنا نہ رو، ہُوا سو ہُوا
کہ دل گنوا کے اب آنکھیں نہ کھو، ہُوا سو ہُوا
کوئی اُسے نہ سُنائے ہمارا حالِ خراب
مبادہ اس کو بھی افسوس ہو، ہُوا سو ہُوا
جدائیوں کے زمانوں کا پوچھتے کیا ہو
گزرگئی جو گزرنی تھی، جو ہُوا سو ہُوا
محبتوں میں عجب تو نہیں اجڑ جانا
سو مجھ کو دیکھ کے حیراں نہ ہو، ہُوا سو ہُوا
ہزار اور بھی دُکھ دل نے پال رکھے ہیں
چلو یہ عشق کا آزار تو ہُوا سو ہُوا
وفا میں ایسے کہاں ہم بھی خوش معاملہ تھے
فقط اُسی سے گِلہ کیوں کرو ہُوا سو ہُوا
فراز! خوش ہو متاعِ ہُنر سلامت ہے
بلا سےعشق کی بازی میں جو ہُوا سو ہُوا
فراز
احمد فراز
کسی کی یاد میں اِتنا نہ رو، ہُوا سو ہُوا
کہ دل گنوا کے اب آنکھیں نہ کھو، ہُوا سو ہُوا
کوئی اُسے نہ سُنائے ہمارا حالِ خراب
مبادہ اس کو بھی افسوس ہو، ہُوا سو ہُوا
جدائیوں کے زمانوں کا پوچھتے کیا ہو
گزرگئی جو گزرنی تھی، جو ہُوا سو ہُوا
محبتوں میں عجب تو نہیں اجڑ جانا
سو مجھ کو دیکھ کے حیراں نہ ہو، ہُوا سو ہُوا
ہزار اور بھی دُکھ دل نے پال رکھے ہیں
چلو یہ عشق کا آزار تو ہُوا سو ہُوا
وفا میں ایسے کہاں ہم بھی خوش معاملہ تھے
فقط اُسی سے گِلہ کیوں کرو ہُوا سو ہُوا
فراز! خوش ہو متاعِ ہُنر سلامت ہے
بلا سےعشق کی بازی میں جو ہُوا سو ہُوا
فراز