فرحان محمد خان
محفلین
کسی کے لب پہ جب اس بے وفا کا نام آتا ہے
طبیعت کو بڑا تکلیفِ دہ آرام آتا ہے
نگاہِ بے محابا ڈال دے ادراکِ ہستی پر
کہ میری میکشی پر ہوش کا الزام آتا ہے
محبت کے فسانے کی بناوٹ ہی کچھ ایسی تھی
اِدھر آغاز ہوتا ہے، اُدھر انجام آتا ہے
بڑی تاخیر سے تسکین کے اسباب بنتے ہیں
بڑی تکلیف سے ساقی لبوں تک جام آتا ہے
سیہ گیسو، سیہ آنچل اور ان میں پھول سا چہرہ
تصّور آپ کا مثلِ ورودِ شام آتا ہے
گزارا کس طرح ہو گا نہ جانے اہلِ دنیا سے
نہ کوئی بات آتی ہے نہ کوئی کام آتا ہے
نظر ڈوبی ہوئی، رخ مضمحل، رفتار افسردہ
عدمؔ آتا ہے یا اک سایہِ آلام آتا ہے
طبیعت کو بڑا تکلیفِ دہ آرام آتا ہے
نگاہِ بے محابا ڈال دے ادراکِ ہستی پر
کہ میری میکشی پر ہوش کا الزام آتا ہے
محبت کے فسانے کی بناوٹ ہی کچھ ایسی تھی
اِدھر آغاز ہوتا ہے، اُدھر انجام آتا ہے
بڑی تاخیر سے تسکین کے اسباب بنتے ہیں
بڑی تکلیف سے ساقی لبوں تک جام آتا ہے
سیہ گیسو، سیہ آنچل اور ان میں پھول سا چہرہ
تصّور آپ کا مثلِ ورودِ شام آتا ہے
گزارا کس طرح ہو گا نہ جانے اہلِ دنیا سے
نہ کوئی بات آتی ہے نہ کوئی کام آتا ہے
نظر ڈوبی ہوئی، رخ مضمحل، رفتار افسردہ
عدمؔ آتا ہے یا اک سایہِ آلام آتا ہے
عبد الحمید عدمؔ
آخری تدوین: