نوید اکرم
محفلین
کسی ہاتھ کو تھامنا چاہتا ہوں
اسے تھامے چلنا سدا چاہتا ہوں
مکمل نہیں ہوں، کمی سی ہے کوئی
کرے کوئی پُر یہ خلا، چاہتا ہوں
میں عاشق نہیں تھا، میں واللہ نہیں تھا
اسے مل کے اب میں ہوا چاہتا ہوں
محبت ہے جس سے بے پایاں مجھ کو
رفاقت میں اس کی سدا چاہتا ہوں
ہمیشہ دِکھی ہے جو چادر میں لپٹی
اسے باہوں میں بے ردا چاہتا ہوں
جو آنکھیں ہیں اس کی ستاروں کے جیسی
وہ آنکھیں سدا دیکھنا چاہتا ہوں
رسیلے جو لب ہیں گلابوں کے جیسے
وہ پیارے سے لب چومنا چاہتا ہوں
مرا دل اسی کی امانت ہے, اب میں
اس دل میں اپنی جگہ چاہتا ہوں
وہ چاہے کرے نہ ذرا بھی توجہ
اسے میں تو حد سے سوا چاہتا ہوں
وہ چاہت ہے میری، محبت ہے میری
کرے بہتری اب خدا، چاہتا ہوں
جو ہو نعمتِ جاوداں میری خاطر
میں ایسا صنم باوفا چاہتا ہوں
اسے تھامے چلنا سدا چاہتا ہوں
مکمل نہیں ہوں، کمی سی ہے کوئی
کرے کوئی پُر یہ خلا، چاہتا ہوں
میں عاشق نہیں تھا، میں واللہ نہیں تھا
اسے مل کے اب میں ہوا چاہتا ہوں
محبت ہے جس سے بے پایاں مجھ کو
رفاقت میں اس کی سدا چاہتا ہوں
ہمیشہ دِکھی ہے جو چادر میں لپٹی
اسے باہوں میں بے ردا چاہتا ہوں
جو آنکھیں ہیں اس کی ستاروں کے جیسی
وہ آنکھیں سدا دیکھنا چاہتا ہوں
رسیلے جو لب ہیں گلابوں کے جیسے
وہ پیارے سے لب چومنا چاہتا ہوں
مرا دل اسی کی امانت ہے, اب میں
اس دل میں اپنی جگہ چاہتا ہوں
وہ چاہے کرے نہ ذرا بھی توجہ
اسے میں تو حد سے سوا چاہتا ہوں
وہ چاہت ہے میری، محبت ہے میری
کرے بہتری اب خدا، چاہتا ہوں
جو ہو نعمتِ جاوداں میری خاطر
میں ایسا صنم باوفا چاہتا ہوں