فرخ منظور
لائبریرین
کسے دیکھا کہاں دیکھا نہ جائے
وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے
میری بربادیوں پر رونے والے
تجھے محو فغاں دیکھا نہ جائے
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے
سفر ہے اور غربت کا سفر ہے
غم صد کارواں دیکھا نہ جائے
کہیں آگ اور کہیں لاشوں کے انبار
بس اے دور زماں دیکھا نہ جائے
در و دیوار ویراں شمع مدھم
شبِ غم کا سماں دیکھا نہ جائے
پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
بھری برسات خالی جا رہی ہے
سر ابرِ رواں دیکھا نہ جائے
کہیں تم اور کہیں ہم ، کیا غضب ہے
فراقِ جسم و جاں دیکھا نہ جائے
وہی جو حاصل ہستی ہے ناصر
اسی کو مہرباں دیکھا نہ جائے
وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے
میری بربادیوں پر رونے والے
تجھے محو فغاں دیکھا نہ جائے
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے
سفر ہے اور غربت کا سفر ہے
غم صد کارواں دیکھا نہ جائے
کہیں آگ اور کہیں لاشوں کے انبار
بس اے دور زماں دیکھا نہ جائے
در و دیوار ویراں شمع مدھم
شبِ غم کا سماں دیکھا نہ جائے
پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
بھری برسات خالی جا رہی ہے
سر ابرِ رواں دیکھا نہ جائے
کہیں تم اور کہیں ہم ، کیا غضب ہے
فراقِ جسم و جاں دیکھا نہ جائے
وہی جو حاصل ہستی ہے ناصر
اسی کو مہرباں دیکھا نہ جائے