کاشفی
محفلین
غزل
(فیض احمد فیض)
کس حرف پہ تونے گوشہء لب اے جان جہاں غماز کیا
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا
سو پیکاں تھے پیوست گلو، جب چھیڑی ہم نے رقص آغاز
سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا
بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر، اس ہاتھ پہ سر، اُس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقت سفر نظارہء بام ناز کیا
جس خاک میں مل کر خاک ہوئے، وہ سرمہء چشم خلق بنی
جس خار پہ ہم نے خوں چھڑکا، ہمرنگ گل طناز کیا
لو وصل کی ساعت آپہنچی، پھر حکم حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کئے، اور سینے کا در باز کیا
(فیض احمد فیض)
کس حرف پہ تونے گوشہء لب اے جان جہاں غماز کیا
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا
سو پیکاں تھے پیوست گلو، جب چھیڑی ہم نے رقص آغاز
سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا
بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر، اس ہاتھ پہ سر، اُس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقت سفر نظارہء بام ناز کیا
جس خاک میں مل کر خاک ہوئے، وہ سرمہء چشم خلق بنی
جس خار پہ ہم نے خوں چھڑکا، ہمرنگ گل طناز کیا
لو وصل کی ساعت آپہنچی، پھر حکم حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کئے، اور سینے کا در باز کیا