یاسر شاہ
محفلین
غزل
(اعجاز عبید)
کس سے ملا چاہیے، کس سے جفا پائیے، کس سے وفا کیجیے
یہ تو عجب شہر ہے، دل بھی لگائیں کہاں، کس سے لڑا کیجیے
رات میں کرنوں کی جنگ، دشت میں اک جل ترنگ، دیدۂ حیراں کا رنگ
حلقۂ زنجیر تنگ، کیسے شعاعِ نظر اپنی رِہا کیجیے
آشیاں کتنے بچے، کتنے گھروندے گرے، کون یہ گنتا پھرے
رات کی آندھی کے بعد سر پہ ہے دستار تو! ۔۔۔ شکر ادا کیجیے
زور ہوا کا عجب، شور ہوا کا غضب، ٹوٹتے گرتے ہیں سب
اپنی ہی آواز تک کانوں میں آتی نہیں، کس کی سنا کیجیے
کیسے لٹی سلطنت، کیسے مٹی تمکنت، ہم بھی کبھی شاہ تھے
جو یہ بتائے ہمیں، اب وہ رعایا کہاں، ذکر بھی کیا کیجیے
آبلہ پا تھے تو ہم، اور بھی کچھ چاہ تھی؟ اپنی یہ کیا راہ تھی!
دشت وفا چھوڑ کر آج ہم آئے کہاں، کس سے پتا کیجیے
شب کے مسافر عبیدؔ، ایک ہیں شاعر عبیدؔ، قانع و صابر عبیدؔ
ان کو نہ کچھ دیجیے، ان سے نہ کچھ لیجیے، شعر پڑھا کیجیے
الف عین
1976
(اعجاز عبید)
کس سے ملا چاہیے، کس سے جفا پائیے، کس سے وفا کیجیے
یہ تو عجب شہر ہے، دل بھی لگائیں کہاں، کس سے لڑا کیجیے
رات میں کرنوں کی جنگ، دشت میں اک جل ترنگ، دیدۂ حیراں کا رنگ
حلقۂ زنجیر تنگ، کیسے شعاعِ نظر اپنی رِہا کیجیے
آشیاں کتنے بچے، کتنے گھروندے گرے، کون یہ گنتا پھرے
رات کی آندھی کے بعد سر پہ ہے دستار تو! ۔۔۔ شکر ادا کیجیے
زور ہوا کا عجب، شور ہوا کا غضب، ٹوٹتے گرتے ہیں سب
اپنی ہی آواز تک کانوں میں آتی نہیں، کس کی سنا کیجیے
کیسے لٹی سلطنت، کیسے مٹی تمکنت، ہم بھی کبھی شاہ تھے
جو یہ بتائے ہمیں، اب وہ رعایا کہاں، ذکر بھی کیا کیجیے
آبلہ پا تھے تو ہم، اور بھی کچھ چاہ تھی؟ اپنی یہ کیا راہ تھی!
دشت وفا چھوڑ کر آج ہم آئے کہاں، کس سے پتا کیجیے
شب کے مسافر عبیدؔ، ایک ہیں شاعر عبیدؔ، قانع و صابر عبیدؔ
ان کو نہ کچھ دیجیے، ان سے نہ کچھ لیجیے، شعر پڑھا کیجیے
الف عین
1976
مدیر کی آخری تدوین: