کس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ہیں (غالبؔ کے خطوط)

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
غالبؔ کے نو دریافت شدہ خطوط بنام چھوٹا غالبؔ کے سلسلے کی پہلی فخریہ پیشکش آپ کی بصارتوں کی نذر۔اس سلسلے میں پیش آمدہ ہمہ قسم ابہامات کے ازالے کیلئے ایک تمہیدی تحریر "منکہ مسمی چھوٹا غالب" موجود ہے۔اگر اعتزاز احسن یوسف رضا گیلانی اور زرداری کا کیس لڑ سکتا ہے اور ان کا بے جا، اور غیر منطقی دفاع کر سکتا ہے تو چھوٹے غالبؔ پر بھی کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ کوشش کی گئی ہے کہ ان کی کہانی انہی کے الفاظ میں بیان کی جائے۔امید ہے اس خط کو جو کہ حقیقتاً مرزا صاحب ہی کا ہے، دل اور دماغ کے دروازے کھول کر پڑھیں گے۔ براہِ کرم کسی قسم کی ادبی قبض کی صورت میں حکیم وارث مرزا سے رجوع کیجئے
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ارے او میاں سید زادہ، غالبؔ کے عاشق دلدادہ
میرا حال مجھ سے کیا پوچھتے ہو، کچھ دن بعد میرے ہمسایوں سے پوچھنا، "کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔ"والا معاملہ ہے، ناتواں دست ہوں ، حواس کھو بیٹھا ، حافظہ کو رو بیٹھا، اگر اٹھتا ہوں تو اتنی دیر میں اٹھتا ہوں جتنی دیر قدِ آدم دیوار اٹھے۔ بڑھاپا ، ضعفِ قویٰ، اب مجھ کو دیکھو تو جانو میرا کیا رنگ ہے، شاید کوئی دوچار گھڑی بیٹھتا ہوں ورنہ پڑا رہتا ہوں ، گویا صاحبِ فراش ہوں ، نہ کہیں جانے کا ٹھکانا، نہ کوئی میرے پاس آنے والا، وہ عرق جو بقدر طاقت بنائے رکھتا تھا، اب میسر نہیں۔ برس دن میں اوجاع سہتے سہتے روح تحلیل ہو گئی۔ نشست و برخواست کی طاقت نہ رہی، اور پھوڑے تو خیر، مگر دونوں پنڈلیوں میں ہڈیوں کے قریب دو پھوڑے ہیں ۔ کھڑا ہوا اور ہڈیاں چرچرانے لگیں اور رگیں پھٹنے لگیں ۔ بائیں پانو پر کفِ پا سے جہاں پھوڑا ہے ، پنڈلی تک ورم ہے۔ رات دن پڑا رہتا ہوں
چھوٹے میاں تمہارے انتقالاتِ ذہن نے مارا!! تم لوگوں کی باتیں دل پر مت لیا کرو ، مجھے کوئی کافر کہتا ہے تو کہنے دو، میرا حال سوائے میرے اور خدا کے کوئی نہیں جانتا ۔ میں موحدِ خالص اور مومنِ کامل ہوں ۔ زبان سے لا الہ الااللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ ، لا موثر فی الوجود الااللہ سمجھے ہوئے ہوں ، انبیا سب واجب التعظیم اور اپنے وقت میں مغترض الطاعت تھے۔ حضرت محمد ﷺ پر نبوت ختم ہوئی ۔ یہ خاتم المرسلین اور رحمتہ للعالمین ہیں مقطع نبوت کا مطلع امامت اورامامت نہ اجماعی، بلکہ من اللہ ہے۔ اب خود بتاؤ کہ میری کس بات سے لوگ مجھ پر شیعہ ہونے کا الزام دھرتے ہیں ، کہاں سے میں شیعہ لگتا ہوں؟ کیا کبھی میں کہیں ماتم کرتے ہوئے دیکھا گیا؟ عنقریب شاید وہ زمانہ بھی آجائے جب ایسے سمجھ دار لوگ پیدا ہوں گے جو میرے نام کے ساتھ مرزا دیکھ کر مجھ پر مرزائی ہونے کی تہمت لگائیں گے۔ اگر مجھے محمد حسین آزاد اور علاؤ الدین احمد خان علائی شیعہ سمجھتے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور ،یہ کل کے لونڈے میرا مذہب اور میرا مقام کیا جانیں ،
جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری ٭٭کہتے ہیں مجھے رافضی اور دہری
دہری کیونکر ہو جو کہ ہووے صوفی٭٭ شیعی کیونکر ہو ماوراالنہری

آدمی کثرتِ غم سے سودائی ہو جاتے ہیں ، عقل جاتی رہتی ہے۔ اگر اس ہجومِ غم میں میری قوتِ متفکرہ میں فرق آگیا ہوتو کیا عجب ، بلکہ اس کا باور نہ کرنا غضب ہے۔آدمی ہوں ، دیو نہیں ، بھوت نہیں، ان رنجوں کا تحمل کیونکر کروں ؟پوچھو کہ غم کیا ہے؟ غم ِ مرگ، غم ِ فراق، غمِ عزت۔ نظام الدین ممنون کہاں ، ذوق کہاں ؟ مومن خاں کہاں ، ایک آزردہ سو خموش ، دوسرا غالبؔ وہ بے خود و مدہوش ، نہ سخن وری رہی نہ سخن دانی۔ کس برتے پر برتتا پانی۔ ہائے دلی، وائے دلی، بھاڑ میں جائے دلی
تم مشقِ سخن کر رہے ہو ، اور میں مشقِ غنا میں مستغرق ہوں ۔ زیست بسر کرنے کو کچھ تھوڑی سی راحت درکار ہےاور باقی حکمت و سلطنت اور شاعری ، ساحری سب خرافات ہے۔دنیا میں نامور ہوئے تو کیا اور گمنام ہوئے تو کیا ! ۔ کچھ وجہ معاش ہو، کچھ صحت ِ جسمانی ، باقی سب وہم ہے اے یار جانی۔
ہر چند وہ بھی وہم ہےمگر میں ابھی اسی پایے پر ہوں ، شاید آگے بڑھ کر یہ پردہ بھی اٹھ جائےاور وجہ معیشت اور صحت و راحت سے بھی گزر جاؤں ، عالمِ بے رنگی میں گزر پاؤں ۔ جس سناٹے میں میں ہوں وہاں تمام عالم بلکہ دونوں عالم کا پتہ نہیں ۔ ہر کسی کا جواب مطابق سوال کے دیے جاتا ہوں اور جس سے جو معاملہ ہے ، اس کو ویسا ہی برت رہا ہوں ۔ لیکن سب کو وہم جانتا ہوں ۔ یہ دریا نہیں سراب ہے، ہستی نہیں پندار ہے۔

تم بھی سوچتے ہوگے کہ میں کونسی باتیں لے کر بیٹھ گیا، چلو اب تم اب گھر جاؤ میں بھی لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں ، ہاں وارث مرزا اور محمود مغل سے سلام کہنا اگلے خط میں شمشاد میاں کا بھی احوال ضرور لکھ بھیجنا ، اب تو بڑا ہو گیا ہوگا،اعجاز عبید صاحب ایک دن ذکر کر رہے تھے کہ مجھے چچا چچا کہتا ہے

اللہ بس۔ ماسوا ہوس

نجات کا طالب، غالبؔ
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
یہاں مجھے جناب یوسف ثانی صاحب کی مدد درکار ہے، یوسف بھائی وہ حدیث مبارکہ حوالے کے ساتھ تو بیان فرمائیں جس میں رسوال اللہ ﷺ نے فرمایا :۔ "مسلمان کو کانٹا چبھنے کے برابر تکلیف کے بدلے اس کے کچھ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں"

اوپر بیان کی ہوئی غالبؔ کی حالت کوئی افسانہ یا انشا پردازی کا شعبدہ نہیں، بلکہ جنابِ غالبؔ کی زندگی کے آخری تین سالوں کی حقیقی تصویر ہے انہی کے الفاظ میں۔ اگر غالبؔ کی زندگی کے تمام مصائب اور آلام کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو
کم از کم دل پر ہاتھ رکھ کر غالبؔ خستہ کی اس تکلیف کو ایک منٹ محسوس تو کر کے دیکھیں، جو اس نابغہ روزگار نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں دیکھی

غالبؔ کے اعلیٰ اخلاق، ان کی انسان دوستی، اور ان کی مزید بے شمار نیکیوں سے اگر کوئی غالبؔ کی شراب نوشی کو بڑا مانتا بھی ہے تو کیا اس کے خیال میں یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے احاطے سے بھی باہر ہے؟
بنی اسرائیل میں سے ایک سو انسانوں کے قاتل کی مغفرت کے قصے سنانے والوں کو رحمتہ للعالمین ، شفیع المذنبین ﷺ کے امتی، ایک نعت گو شاعر اور محبِ آلِ رسول ﷺ کی مغفرت کے ذکر پر سکتہ کیوں ہونے لگتا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب لکھا جناب سیّد اویس قرنی صاحب، لکھتے رہیے، جیتے رہیے۔

فقط ایک گزارش کہ جہاں مرز١ مرحوم کی اپنی عبارت ہے اس کو واوین میں گھسیڑ دیں تا کہ فرق رہے کہ مرزا مرحوم کی تحریر کونسی ہے اور مرزا محروم کی کون سی :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
زبان سے لا الہ الااللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ ، لا موثر فی الوجود الااللہ سمجھے ہوئے ہوں

یہ لائن اوپر سے ہی گزر گئی، کچھ سمجھ نہیں آئی، کوئی تھوڑا سا بتا ہی دے۔
جو سمجھ آیا وہ بہت زبردست لگا اور جو سمجھ نہیں آیا وہ پوچھ لیا۔
 

سید ذیشان

محفلین
یہ شیعہ والی بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے۔ اگر غالب شیعہ تھے جو کہ وہ غالباً تھے۔ تو کیا آپ کے خیال میں وہ اس پر شرمندہ ہوں گے اور لوگوں کو وضاحتیں کرتے پھریں گے؟ غالب کی عظمت کا اندازہ تو اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سنیوں میں بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے شیعوں میں۔ اور اس کی وجہ ان کی شاعری ہے نا کہ مذہب۔
جہاں تک بادہ خواری کا تعلق ہے تو اس کا ان کی شاعری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اور اگر کوئی ان باتوں کی وجہ سے غالب پر اعتراض کرتا ہے، تو ایسے لوگ یا تو تعصب کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں یا حسد کی وجہ سے۔ ایسے لوگوں کو کوئی عقلمند انسان سنجیدگی سے نہیں لے گا۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
یہ شیعہ والی بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے۔ اگر غالب شیعہ تھے جو کہ وہ غالباً تھے۔ تو کیا آپ کے خیال میں وہ اس پر شرمندہ ہوں گے اور لوگوں کو وضاحتیں کرتے پھریں گے؟ غالب کی عظمت کا اندازہ تو اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سنیوں میں بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے شیعوں میں۔ اور اس کی وجہ ان کی شاعری ہے نا کہ مذہب۔
جہاں تک بادہ خواری کا تعلق ہے تو اس کا ان کی شاعری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اور اگر کوئی ان باتوں کی وجہ سے غالب پر اعتراض کرتا ہے، تو ایسے لوگ یا تو تعصب کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں یا حسد کی وجہ سے۔ ایسے لوگوں کو کوئی عقلمند انسان سنجیدگی سے نہیں لے گا۔
جنابِ عالی اسی غلط فہمی کے ازالے کیلئے تو میں نے انہی کی تحریر پیش کی۔ اور آپ کی وہی غلط فہمی باقی ہے
غالبؔ کے آبا واجداد ماورالنہر سے ہیں اور ماورالنہر کے لوگوں کا سنی ہونا ضرب المثل ہے
غالبؔ کے ددھیال ، غالبؔ کے سسرال اور غالبؔ کے ننھیال میں کوئی شیعہ نہیں
اور غالبؔ کے شیخ فخر الدین چشتی صاحب کے مرید تھے
غالبؔ کا جنازہ اور تدفین اہل سنت والجماعت کے طریقے کے مطابق ہوئی
اب بھی آپ کہیں کہ وہ " اگر غالب شیعہ تھے جو کہ وہ غالباً تھے۔" تو یہ زیادتی ہے
اور یہ جو رباعی پیش کی گئی ہے یہ غالبؔ ہی کی تصنیف ہے، اب بھی کوئی نہ سمجھے تو مرضی ہے جناب

اور میرے خیال میں غالبؔ کو اپنا سنی کہلانا بھی پسند نہیں تھا۔ کجا کہ ان کو شیعہ کہنا
غالبؔ اپنا مذہب بنی نوع انسان سے دوستی بتاتے تھے، وہ ہر انسان کو اپنا بھائی مانتے تھے
غالبؔ نے ایک مثنوی وہابیوں کے جواب میں بھی لکھی تھی
لیکن اس کے باوجود اس بات پر سب متفق ہے کہ وہ اردو کی سب سے زیادہ غیر متعصب شخصیت ہیں

اس بات کی وضاحت ضروری تھی ، ورنہ غالبؔ کی طرح مجھے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا
 

سید ذیشان

محفلین
" یہ خاتم المرسلین اور رحمتہ للعالمین ہیں مقطع نبوت کا مطلع امامت اورامامت نہ اجماعی، بلکہ من اللہ ہے۔"
یہ نظریہ سنیوں کا کب سے ہو گیا؟
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
زبان سے لا الہ الااللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ ، لا موثر فی الوجود الااللہ سمجھے ہوئے ہوں

یہ لائن اوپر سے ہی گزر گئی، کچھ سمجھ نہیں آئی، کوئی تھوڑا سا بتا ہی دے۔
جو سمجھ آیا وہ بہت زبردست لگا اور جو سمجھ نہیں آیا وہ پوچھ لیا۔

مسلمان ہونے کیلئے زبان سے کلمہ طیبہ پڑھنا ضروری ہے
اس لیے کہا کہ زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہوں

غالبؔ تصوف میں وحدت الوجود کے قائل تھے، اور ان کی شاعری بھی اسی فلسفے سے بھری ہے
اس لیے کہا کہ لا موجود الا اللہ اور لا مؤثر فی الوجو الا اللہ دل میں سمجھے ہوئے ہوں
لا موجود الا اللہ کا مطلب ہے کہ اللہ کے سوا اس کائنات میں کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، (جونظر آتا ہے وہ محض ایک سراب یا وہم ہے)
لا موثر فی الوجود الااللہ کا مطلب ہے کہ وجود میں یعنی اس کائنات میں اللہ کے سوا کسی اور کا حکم نہیں چلتا
(مزید گہرائی میں جائیں تو جیسے آپ لا حول ولا قوۃ پڑھتے ہیں، اس کا بھی یہی مطلب ہوتا ہے کہ نیکی کرنے کی توفیق یا برائی کی طاقت صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے) یہ بہت پیچیدہ بات ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے آپ دونوں بلکہ سب سے التماس ہے کہ غالب کے شیعہ ہونے یا نہ ہونے کو یہیں چھوڑ دیں، محفل ادب اسکی متحمل نہیں ہو سکتی کیوں غالب کے مذہب پر بات کرتے ہوئے یقیناً بات کہیں سے کہیں چلی جائے گی۔

اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ غالب کا مسلک کیا تھا۔
 

سید ذیشان

محفلین
اورامامت نہ اجماعی، بلکہ من اللہ ہے۔"

اہل تشیع کا ماننا ہے کہ امامت اور خلافت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا حق تھا، (یہ اجماعی ہے)
جبکہ غالبؔ نے وضح طور پر اس بات کو اللہ کی طرف سے کہا ۔ یعنی اس طرح تو رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بنے۔ پس مطلب ہوا کہ یہ سب اللہ کی طرف سے تھا، نہ کہ (نعوذ باللہ )انہوں نے خلافت چھینی

شیعہ امامت کو منصوص من اللہ سمجھتے ہیں۔ یعنی حضرت علی اور دیگر آئمہ امامت کے درجے پر اللہ کے حکم سے فائز ہوئے ہیں۔ سنی عقیدہ یہ ہے کہ خلافت کے لئے امت کا اجماع (majority) ضروری ہوتا ہے۔
یہ کافی واضح تحریر ہے۔ کیونکہ کوئی بھی شیعہ امام امت کے اجماع سے امام نہیں بنا۔ سوائے امام علی کے۔ جن کے دور میں کافی شورشیں ہوئیں۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
آپ کا حکم سر آنکھوں پر اور حسب حکم بات یہیں ختم
نہ فرق بڑے غالبؔ کو پڑتا تھا، نہ چھوٹے غالبؔ کو
اللہ سب سے بہتر جانتا ہے
 

سید ذیشان

محفلین
میرے آپ دونوں بلکہ سب سے التماس ہے کہ غالب کے شیعہ ہونے یا نہ ہونے کو یہیں چھوڑ دیں، محفل ادب اسکی متحمل نہیں ہو سکتی کیوں غالب کے مذہب پر بات کرتے ہوئے یقیناً بات کہیں سے کہیں چلی جائے گی۔

اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ غالب کا مسلک کیا تھا۔
آپ کی بات درست ہے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کا ملکہ ان کی شاعری ہے۔ اور اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کہ کوئی سنی ہو شیعہ، آخرکار سب ہی مسلمان ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کا حکم سر آنکھوں پر اور حسب حکم بات یہیں ختم
نہ فرق بڑے غالبؔ کو پڑتا تھا، نہ چھوٹے غالبؔ کو
اللہ سب سے بہتر جانتا ہے

آپ کی بات درست ہے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کا ملکہ ان کی شاعری ہے۔ اور اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کہ کوئی سنی ہو شیعہ، آخرکار سب ہی مسلمان ہیں۔

شکریہ آپ دونوں کا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مسلمان ہونے کیلئے زبان سے کلمہ طیبہ پڑھنا ضروری ہے
اس لیے کہا کہ زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہوں

غالبؔ تصوف میں وحدت الوجود کے قائل تھے، اور ان کی شاعری بھی اسی فلسفے سے بھری ہے
اس لیے کہا کہ لا موجود الا اللہ اور لا مؤثر فی الوجو الا اللہ دل میں سمجھے ہوئے ہوں
لا موجود الا اللہ کا مطلب ہے کہ اللہ کے سوا اس کائنات میں کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، (جونظر آتا ہے وہ محض ایک سراب یا وہم ہے)
لا موثر فی الوجود الااللہ کا مطلب ہے کہ وجود میں یعنی اس کائنات میں اللہ کے سوا کسی اور کا حکم نہیں چلتا
(مزید گہرائی میں جائیں تو جیسے آپ لا حول ولا قوۃ پڑھتے ہیں، اس کا بھی یہی مطلب ہوتا ہے کہ نیکی کرنے کی توفیق یا برائی کی طاقت صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے) یہ بہت پیچیدہ بات ہے

اگر میں غلط نہیں ہوں تو پھر یہ وہی فلسفہ نہیں ہے کیا جو غالب اپنے اس شعر میں بیان کرتے ہیں
نہ تھا کچھ تو خدا ہوتا، کچھ نا ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں، تو کیا ہوتا
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
یوسف ثانی بھائی صاحب اگر آپ کے غیر متفق ہونے سے حقائق یا تاریخ میں کوئی تبدیلی ممکن ہے تو پھر "صلائے عام ہے"
ایک بار نہیں دس ہزار بار غیر متفق ہوں

استاد مرحوم مجھے پہلے ہی فرما گئے تھے

اگلے وقتوں کے یہ لوگ ہیں انہیں کچھ نہ کہو
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت ہی عمدہ جناب مختصر غ الب۔ :p یہ کمال ہی نقطہ نکالا ہے غالب کے مشتملات کو الگ سے بیان کر کے تحریر میں پر اثرطریق سے استعمال کرنے کا۔ اور باقی تحریر کا سحر تو اپنی جگہ قائم ودائم ہے۔ اختلافی نکات کے متعلق آپ پہلے تمہیدی مکالے میں ہی اشاراتی طور آگاہی دے چکے تھے۔ الغرض مکمل طور پر اک بہترین تحریر ہے۔ خوش رہیئے اور لکھتے رہئیے۔:zabardast1: آپ کی تحریروں کو پڑھنے سے اردو ہی بہتر ہو جائے گی۔:p
 
Top