کشمکش ۔ (نظم) شاعرہ :نکہت نسیم بدایونی

جیہ

لائبریرین
کشمکش
(نظم)
نکہت نسیم بدایونی

میں تجھے بھول گئی، یہ بھی نہیں ہے لیکن
میں تجھے یاد بھی ہر وقت نہیں کر سکتی
زندگی کتنی ہمہ گیر ہے، کتنی پُر شور
صرف اشکوں سے ہی دامن تو بھر نہیں سکتی

کیسے فطرت کے تقاضوں سے کنارا کر لوں؟
کس طرح تلخئ زہراب گوارا کرلوں
زندگی کتنی ہمہ گیر ہے، کتنی پُر شور

میں محبت کے تقاضے بھی سمجھتی ہوں مگر
میں حقیقت کے اشارے بھی تو پہچانتی ہوں
میں تری یاد میں خود اپنے سے غافل ہو جاؤں
ما سوا اپنے، کسی اور کو بھی جانتی ہوں

زندگی صرف ترانہ ہی ترانہ تو نہیں
کچھ حقیقت بھی ہے یہ محض فسانہ تو نہیں
میں حقیقت کے اشارے بھی تو پہچانتی ہوں

شعر و نغمہ میں گزرتی ہوئی رنگیں راتیں
کون ہوگا جسے نغمات کا احساس نہیں
تلخئی غم بھی تو اک ٹھوس حقیقت ہے مگر
کون ہے جس کو حقیقت کا ذرا پاس نہیں؟

یہ دھڑکتے ہوئے دل اور یہ کھنکتے ہوئے ساز
یہ مہکتے ہوئے نغمات، یہ بجتی آواز
کون ہوگا جسے نغمات کا احساس نہیں


زندگی کتنی ہمہ گیر ہے، کتنی پُر شور
اور اس شور میں نغموں کی حقیقت کتنی
میں تجھے یاد کئے جاؤں یہ ممکن ہے مگر
اس ہمہ گیری میں اک یاد کی فرصت کتنی؟

کتنے دلچسپ ہیں الفت کے ترانے لیکن
کتنے رنگیں ہیں یہ سادہ سے فسانے لیکن
اس ہمہ گیری میں ان سب کی حقیقت کتنی؟





:
 

محمد وارث

لائبریرین
کوئی غزل کا استاد ہوتا تو اس 'کشمکش' کو ایک شعر میں ختم کر دیتا :)

خیر اچھی نظم ہے، شکریہ جیہ شیئر کرنے کیلیے!
 
Top