کشمیری نوجوان ڈاکٹر شاہ فیصل // انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس ٹاپر

حیدرآبادی

محفلین
IAStopper2010_ShahFaisal.jpg


یونین پبلک سروس کمیشن (UPSC) کی جانب سے منعقد کئے جانے والے انڈین سول سروس (IAS) کا امتحان دراصل وہ باوقار امتحان ہے جس میں کامیابی کی تمنا ہر سنجیدہ ہندوستانی طالب علم کے سینے میں دھڑکتی ہے اور جو اس امتحان میں پورے ہندوستان میں ٹاپ کرتا ہے اس کی خوشیوں کے بارے میں تو شائد الفاظ ہی کم پڑ جائیں۔
2009ء تک منعقد ہونے والے انڈین سول سروس کے 48 امتحانات میں سے اب تک صرف دو ہی مسلم نوجوانوں نے پورے ہندوستان بھر میں پہلا مقام حاصل کیا تھا۔

1977ء میں اترپردیش کے جاوید عثمانی اور
1987ء میں بہار کے عامر سبحانی-
علاوہ ازیں ۔۔۔۔ ریاست بہار ہی کے (سابق) ہندوستانی رکن پارلیمنٹ سید شہاب الدین نے 1958ء کے آئی-اے-ایس امتحان میں پورے ہندوستان میں دوسرا مقام حاصل کیا تھا۔

2009ء کے آئی-اے-ایس امتحان کا نتیجہ ابھی حال میں منظر عام پر آیا ہے۔ اور اس کی خاصیت یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
ریاست جموں و کشمیر کے 27 سالہ نوجوان ڈاکٹر شاہ فیصل نے سرِ فہرست مقام حاصل کرتے ہوئے تمام ہندوستانی طلباء کو عمومی اور انڈین مسلم نوجوانوں کو خصوصی طور پر چونکا دیا ہے۔
ڈاکٹر شاہ فیصل ، ہندوستان کی اُس ریاست سے تعلق رکھتے ہیں جو عسکریت پسندی کے شکنجے میں ایک طویل عرصہ سے گرفتار ہے۔ علمی اور حوصلہ افزائی والے سازگار ماحول کی عدم دستیابی کے باوجود ڈاکٹر شاہ فیصل نے ریاست جموں و کشمیر کے اولین نوجوان آئی اے ایس ٹاپر کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے ، ہندوستان بھر کے مسلمانوں کے اذہان میں نئی سوچ نئی امنگ اور نئی روشنی پیدا کی ہے کہ اس مسابقتی میدان میں لسانی ، مذہبی یا علاقائی تعصب کا خوف بےبنیاد ہے اور یو-پی-ایس-سی کے امتحانات / انٹرویو میں ایسی شفافیت ہوتی ہے کہ لائق و فائق فرد کی صلاحیتیں ہی امتیازی کامیابی کی راہ ہموار کرتی ہیں۔

ڈاکٹر شاہ فیصل کی کامیابی کے پس منظر میں درج ذیل نکات قابل غور ہیں ۔۔۔۔
** ڈاکٹر شاہ فیصل ، سوگام ، ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھتے ہیں جو دہشت گردی سے شدید متاثر علاقہ مانا جاتا ہے۔
** آج سے دس سال قبل فیصل کے والد غلام رسول شاہ کو ، خودساختہ "جہاد" کا نعرہ لگانے والے "جہادیوں" کو پناہ دینے سے انکار کرنے پر انہی "جہادیوں" نے انہیں شہید کر دیا تھا۔
** فیصل کے والد اور والدہ دونوں درس و تدریس کے پیشہ سے وابستہ رہے ہیں۔
** کپواڑہ کے سرکاری اسکول سے دسویں جماعت پاس کرنے والے فیصل نے شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائینسز (سری نگر) سے 2008ء میں ایم-بی-بی-ایس کامیاب کرتے ہوئے میڈیکل کالج میں پہلا مقام بھی حاصل کیا تھا۔
** آئی اے ایس کے اصل امتحان میں شاہ فیصل کے اختیاری مضامین میں پبلک ایڈمنسٹریشن اور اردو ادب شامل تھے۔
** زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا نے اپنے سلیکشن امتحان میں فیصل کا انتخاب کرتے ہوئے انہیں اپنے ادارہ کی فیلوشپ کا حقدار قرار دیا تھا۔ فاؤنڈیشن نے آئی-اے-ایس انٹرویو کی دو دنوں پر محیط تیاری کیلئے سابق سفیروں اور اعلیٰ سول سروس عہدیداروں کی زیرسرپرستی فیصل کو کوچ کیا تھا۔ مزید تفصیل کیلئے یہاں دیکھیں۔

ڈاکٹر شاہ فیصل کو مسلمانانِ ہند کی جانب سے ڈھیر ساری مبارکباد قبول ہو !!
 
لالی پاپ یا پھر مجبوری کہیں۔ شفافیت تو ناممکن ہے اس لئیے کہ مسابقتی امتحانات اس سسٹم کا حصّہ ہیں جسکی گندگی کو اس سسٹم کے اعلٰی ترین عہدے وزیر اعظم (واجپائی صاحب)کی جانب سے یہ سرٹیفکیٹ دیا گیا تھا۔ کہ موجودہ سسٹم سے اگر رشوت کو ختم کرنے کی پر قوت کوشش کی گئی تو سسٹم ہی معطل یا ناکارہ ہوجائے گا یہ عمل بتدریج اور ہر ایک کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔اور مشاہدہ یہ ہے کہ ایسی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہاں اسکے برعکس اضافہ ضرور دیکھائی دیتا ہے۔ ایجوکشنل کونسل کے چیرمین صاحب حال ہی میں دو کروڑ کی ادنٰی رشوت لیتے ہوئے گرفتار ہوئے۔ علاوہ ازیں کئی سو کروڑ اثاثے اور منوں سونا بھی برامد ہوا۔
 

حیدرآبادی

محفلین
دنیا میں کوئی ملک ایسا موجود نہیں ہے جو اپنے ہاں کے مسابقتی امتحانات میں سو فیصد شفافیت کا دعویٰ کرے۔ اور جو کوئی اس کلیہ کی بنیاد پر "شفافیت" کو ہی سرے سے نہ مانے تو وہ محض نہ ماننے والے کی کم علمی یا کم فہمی ہی سمجھی جائے گی۔
کم سے کم زکوٰۃ فاؤنڈیشن کی تحریک یا ڈاکٹر فیصل کے اس انٹرویو سے ہی سبق حاصل کیا جانا چاہئے۔
آج کے دور میں تنقید تو اسکول کا کوئی بچہ بھی اپنی ٹیچروں پر بآسانی کر ڈالتا ہے۔
 

طالوت

محفلین
خوشی کی خبر ہے ، ایسے حالات میں ایک کشمیری نوجوان کا یہ اعزاز قابل تعریف ہے ۔
وسلام
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ حیدر آبادی۔ فیصل کے بارے میں عرصے سے یہاں اخبارات میں آ رہا تھا اور میں بھی اس کی اطلاع دینے کی سوچ رہا تھا، لیکن وہی شک تھا کہ محفل کے پاکستانی اس پر یقین نہیں کریں گے، ان کی نظر میں ہر کشمیری آزادی کا مجاہد ہے نا!! اب میں یہاں نہیں آتا کہ ممکن ہے اس بات پر بھی بحث چھڑ جائے!
 

طالوت

محفلین
میں تو اسے بھی مجاہد سمجھتا ہوں ، جہاد صرف مسلح نہیں اور بھی طریقوں سے ہوتا ہے ۔ اور ہر مسلمان کو ہر طریقے سے جہاد کرتے رہنا چاہیے ۔ کشمیر کے معاملے میں پاکستانیوں کے جذبات اور کشمیر کی پاکستان کو ضرورت سے سب واقف ہیں ۔ اس لئے اس پر بحث ہو یا نہ ہو ، کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
وسلام
 

حیدرآبادی

محفلین
درست کہا کہ جہاد صرف مسلح نہیں بلکہ علم سے بھی ہوتا ہے۔
کشمیری شاعر مہجور نے کہا تھا :
یہ کشمیر مغرب اور مشرق کو جگائے گا
مجھے کشمیریوں کو بس یہی پیغام دینا ہے

سیاسی بحث سے قطع نظر ۔۔۔ پڑوسی ملک کے برادران کو ایسا زبردستی کا حق اب نہیں جتانا چاہئے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ آج ہندوستانی مسلمانوں کو بھی کشمیر کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی شائد ماضی میں نہ رہی ہو۔
آج اگر پاکستان کا چپہ چپہ شورش زدہ ہے یا غیر قوتوں کی جانب سے بنا دیا گیا ہے، تو مزید ایک علاقے پر ستم کی نظرِ کرم کیوں؟
 

طالوت

محفلین
جب سیاسی بحث کا موڈ نہیں تھا تو ایسی بات بھی نہ کرتے ۔ چپے چپے کا طعنہ نہ دیں ، اچھا وقت نہیں رہا تو برا بھی نہ رہے گا ۔ مگر ہمارے لئے کشمیر زندگی موت کا مسئلہ ہے ۔ اور یہ حق کس قدر زبردستی کا ہے ، اس کے لئے عالمی میڈیا ایک قابل اعتبار گواہ ہو سکتا ہے ۔
وسلام
 
Top