mujeeb mansoor
محفلین
ایک بار پھر ھندو انتھا پسندوں کی جنونیت
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں جموں میں ہندو تنظیموں کے احتجاج کے بعد ریاستی انتظامیہ نے امرناتھ یاترا بورڈ کو الاٹ کی گئی آٹھ سو کنال زمین کی منسوخی کا فیصلہ واپس لے لیا ہے اور الاٹمنٹ بحال کردی گئی ہے۔ اس سے پہلے وادی اور سرینگر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں شدید احتجاج کے بعد حکومت نے یہ الاٹمنٹ منسوخ کردی تھی۔
زمین کا تنازعہ دو ماہ سے زیادہ عرصہ قبل اس وقت شروع ہوا تھا جب کشمیر کے جنوب میں پہاڑی سلسلے پر واقع ہندوؤں کے بھگوان شِو سے منسوب ایک غار’امرناتھ گپھا‘ کی سالانہ یاترا سے قبل ریاستی گورنر کی سربراہی میں کام کرنے والے امرناتھ شرائن بورڑ کی درخواست پر ریاستی کابینہ نے بال ٹل کے قریب آٹھ سو کنال اراضی بورڑ کو منتقل کردی۔
اس فیصلے کے خلاف وادی کشمیر کے مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور کہا گیا کہ انیس سو نوے کے اوائل کے بعد پہلی بار کشمیری پہلی بار اتنے متحرک نظر آئے۔ زمین کی منتقلی کے فیصلہ کو بعد ازاں واپس لے لیا گیا تھا جس پر جموں میں ہندو نے احتجاج کیا تھا۔
زمین کی شرائن بورڈ کو واپسی کے فیصلے کا اعلان اتوار کی صبح حکومتی پینل اور امرناتھ یاترا سنگھرش سمیتی کے درمیان معاہدے کے بعد کیا گیا۔ سنگھرش سمیتی زمین کی واپسی کے لیے جموں میں احتجاج کر رہی تھی۔
سرکاری پینل کے سربراہ ڈاکٹر ایس ایس بلوریا نے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی حکومت نے آٹھ سو کنال زمین امرناتھ شرائن بورڈ کے استعمال کے لیے مختص کر دی ہے جو ماضی میں امرناتھ یاترا کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ زمین کی ملکیت پر کوئی فرقی نہیں پڑے گا۔
امرناتھ یاترا سنگھرش سمتی کے ترجمان ڈاکٹر سریندر سنگھ نے اس فیصلے کے اعلان کے بعد کہا کہ ان کے زمین کے بارے میں مطالبے کو حل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ سو کنال زمین ان کے سپرد کر دی گئی ہے جو کہ امرناتھ شرائن کے مقاصد کے لیے مخصوص ہو گی۔
سنگھرش سمیتی کے کنوینر لیلا کرن شرما نے کہا کہ انہیں اب اس سے زیادہ مِل گیا جو پہلی بار زمین کی شرائن بورڈ کو منتقلی کے وقت دیا گیا تھا۔
بشکریہ بی بی سی اردو
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/story/2008/08/080831_shrine_kashmir.shtml
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں جموں میں ہندو تنظیموں کے احتجاج کے بعد ریاستی انتظامیہ نے امرناتھ یاترا بورڈ کو الاٹ کی گئی آٹھ سو کنال زمین کی منسوخی کا فیصلہ واپس لے لیا ہے اور الاٹمنٹ بحال کردی گئی ہے۔ اس سے پہلے وادی اور سرینگر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں شدید احتجاج کے بعد حکومت نے یہ الاٹمنٹ منسوخ کردی تھی۔
زمین کا تنازعہ دو ماہ سے زیادہ عرصہ قبل اس وقت شروع ہوا تھا جب کشمیر کے جنوب میں پہاڑی سلسلے پر واقع ہندوؤں کے بھگوان شِو سے منسوب ایک غار’امرناتھ گپھا‘ کی سالانہ یاترا سے قبل ریاستی گورنر کی سربراہی میں کام کرنے والے امرناتھ شرائن بورڑ کی درخواست پر ریاستی کابینہ نے بال ٹل کے قریب آٹھ سو کنال اراضی بورڑ کو منتقل کردی۔
اس فیصلے کے خلاف وادی کشمیر کے مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور کہا گیا کہ انیس سو نوے کے اوائل کے بعد پہلی بار کشمیری پہلی بار اتنے متحرک نظر آئے۔ زمین کی منتقلی کے فیصلہ کو بعد ازاں واپس لے لیا گیا تھا جس پر جموں میں ہندو نے احتجاج کیا تھا۔
زمین کی شرائن بورڈ کو واپسی کے فیصلے کا اعلان اتوار کی صبح حکومتی پینل اور امرناتھ یاترا سنگھرش سمیتی کے درمیان معاہدے کے بعد کیا گیا۔ سنگھرش سمیتی زمین کی واپسی کے لیے جموں میں احتجاج کر رہی تھی۔
سرکاری پینل کے سربراہ ڈاکٹر ایس ایس بلوریا نے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی حکومت نے آٹھ سو کنال زمین امرناتھ شرائن بورڈ کے استعمال کے لیے مختص کر دی ہے جو ماضی میں امرناتھ یاترا کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ زمین کی ملکیت پر کوئی فرقی نہیں پڑے گا۔
امرناتھ یاترا سنگھرش سمتی کے ترجمان ڈاکٹر سریندر سنگھ نے اس فیصلے کے اعلان کے بعد کہا کہ ان کے زمین کے بارے میں مطالبے کو حل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ سو کنال زمین ان کے سپرد کر دی گئی ہے جو کہ امرناتھ شرائن کے مقاصد کے لیے مخصوص ہو گی۔
سنگھرش سمیتی کے کنوینر لیلا کرن شرما نے کہا کہ انہیں اب اس سے زیادہ مِل گیا جو پہلی بار زمین کی شرائن بورڈ کو منتقلی کے وقت دیا گیا تھا۔
بشکریہ بی بی سی اردو
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/story/2008/08/080831_shrine_kashmir.shtml