کشمیر لے لو، سندھ دے دو

قیام پاکستان کے بعد صوبہ سندھ سے ہزاروں سندھی ہندو خاندانوں کی طرح نقل مکانی کرکے پناہ گزیں بن کر ہندوستان پہنچے والے رام جیٹھ ملانی سے دلی میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی۔ انٹرویو میں تقسیمِ ہند، اپنی مشکلات، محنت اور شہرت کا احوال انہوں نے کچھ یوں سنایا:
’میں رام جیٹھ ملانی ہوں۔ اسی نام سے مشہور ہوں۔ سندھ کی پیدائش ہوں، شکارپور شہر کی۔انیس سو تیئس میں میرا جنم ہوا تھا۔ سندھ کو چھوڑے زمانہ ہوگیا لیکن اس کی یاد نہیں بھولی۔ یہی وجہ ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ کشمیر لے لو سندھ ہندوستان کو دے دو۔ صدر مسکرائے اور خاموش رہے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا تھا کہ کشمیر میں استصواب رائے کی آپ بات کرتے ہیں لیکن سندھ میں اگر رائے عامہ پوچھیں تو سندھی مسلمان بھی اب بیزار بیٹھے ہیں اور اکثریت ہندوستان کے حق میں ووٹ دے گی۔
رام جیٹھ ملانی

خیر ۔۔ سکھر ماڈل ہائی سکول میں پڑھا اور اکتالیس میں وکالت کا امتحان پاس کرکے کراچی میں وکالت شروع کی۔ چھ آٹھ مہینے کے بعد ہمارے دوست اللہ بخش بروہی نے کہا کہ تم یہ بند کرو اور آؤ وکالت کرو ہمارے ساتھ۔ یہ وہی اے کے بروہی ہیں جو انیس سو چھپن میں پاکستان کے وزیر قانون بھی بنے تھے۔
آخر ہم نے کراچی میں بروہی اینڈ کمپنی شروع کی جو اڑتالیس تک چلاتے رہے اور اگست انیس سو سینتالیس میں پارٹیشن یعنی تقسیم ہوئی۔ پارٹیشن کے بعد بھی ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم پاکستان کو چھوڑیں گے نہیں اور میں اپنے فیملی کو اگست سن سینتالیس میں ہی ہندوستان چھوڑ کے آیا تھا مگر میں اکیلا رہتا تھا کراچی میں۔ ہمارا یہ اس وقت اعتقاد تھا کہ یہ عارضی پاگل پن ہے، پاگل ہو گئے ہیں، یہ لڑائی ختم ہوگی اور آخر صلح اور امن امان ہو جائے گا اور ہم پاکستان میں خوش رہیں گے ۔
t.gif

سندھ میں اتنی ہنسا نہیں ہوئی
800_right_quote.gif
جھگڑا سندھی مسلمانوں نے نہیں کیا تھا۔ باہر سے جو آئے تھے وہ چاہتے تھے کہ مال ملکیت جائیداد ہم کو ملے اور وہ بھی بیچارے مارتے نہیں تھے کسی کو، جو اپنی ملکیت دے دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں چلا جاؤں گا، اس کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے
800_left_quote.gif



مگر فروری اڑتالیس میں کراچی میں جھگڑا ہوا۔ جھگڑا سندھی مسلمانوں نے نہیں کیا تھا۔ باہر سے جو آئے تھے وہ چاہتے تھے کہ مال ملکیت جائیداد ہم کو ملے اور وہ بھی بیچارے مارتے نہیں تھے کسی کو، جو اپنی ملکیت دے دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں چلا جاؤں گا، اس کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے۔ سندھ میں ِاتنی ہنسا یعنی تشدد نہیں ہوا جتنا پنجاب میں ہوا۔
سندھی زیادہ تر امن و سلامتی کے ساتھ رہے مگر مال سب لے لیا، بالکل۔ بیچاری ہندو عورتیں جب پہنچتی تھیں کراچی پورٹ پر، ان سے اضافی ساڑھیاں بھی لیتے تھے۔
میں فروری اڑتالیس میں ہندوستان آیا تھا اور اپنی زندگی ایک پناہ گزیں کیمپ میں شروع کی بمبئی میں۔ میرا پاکستان چھوڑنے کا سبب کراچی میں فسادات کا پھوٹ پڑنا تھا اور میرے دوست بروہی صاحب نے جب کہا کہ رام میں تمہاری سلامتی کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا ہوں، تمہیں کچھ ہوگیا تو میں اپنے آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کر سکوں گا، لہٰذا تمہیں چلے جانا چاہیے، اس روز میں نے جانے کا فیصلہ کیا۔
میں بڑی سلامتی سے نکلا کیونکہ میں کریمنل لائر تھا، پولیس آفیسرز مجھے جانتے تھے اور وہ مجھے حفاظت سے چھوڑنے آئے تھے۔ میں تو ہوائی جہاز میں نکل آیا تھا مگر دوسروں کو بہت کچھ تکلیف ہوئی۔ صرف ایک بات تھی کہ ہمارا شہر تو شکارپور تھا، مال، گھر، زمین اور جائیداد سب ادھر رہ گئی، وہ سب چھوڑنا پڑا، دیکھا ہی نہیں ہم نے۔
بمبئی کے ساتھ جہاں آج کل الہاس نگر ہے، یہ پہلے کلیان کیمپ کے نام سے مشہور تھا۔ یہاں دوسری جنگ عظیم کے فوجیوں کی بیرکس تھیں وہاں ٹھہرایا گیا۔ سرکار کی طرف سے کوئی خاص تعاون نہیں ملا۔ جو بھی ریلیف آپریشنز تھے وہ پرائیویٹ ذرائع سے ہوئے۔ پناہ گزیں کیمپ میں زمین پر سونا پڑتا تھا، بسترا نہیں تھا، ٹائلٹس نہیں تھے، بڑی گندگی کی حالت تھی، پچاس آدمی سوئے ہیں ایک قطار میں مگر پھر بھی ہم زندہ رہے۔
مجھے یاد ہے کہ پونا پپڑی کی طرف چھوٹا سا مکان لیا تھا۔ سب جو میرے رشتے دار تھے میں ان کو اٹھا کر ادھر چھوڑ کر پھر میں پاکستان آیا تھا کچھ ٹائم اسی امید کے ساتھ کہ شاید یہ (ہنگامہ) ختم ہو جائے مگر نہیں ہوا۔
اس کے بعد میں نے وکالت شروع کی بمبئی میں۔ ایک بیرسٹر صاحب تھے، جو زیادہ کامیاب وکیل نہیں تھے۔ انہوں نے ایک میز رکھنے کی جگہ مجھے دی ساٹھ روپے ماہانہ کرائے پر اور میں نے تیس روپے کمائے تھے پہلے مہینے میں۔
کہنا پڑے گا کہ جب سے میں نے کام شروع کیا تو کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا کیونکہ بے شمار سندھی جو بمبئی آنا چاہتے تھے، ان کو بھی وکیلوں کی ضرورت تھی۔ یہ قدرتی بات ہے کہ ہمیں خاص تکلیف نہیں ہوئی اور میری وکالت بڑھتی گئی اور آخر میں اپنے پریوار کو بھی بمبئی لے آیا۔گیا۔
میرے کیریئر کو شہرت ملی نانا وتی کیس سے۔ اس کیس میں ایک سندھی پریم آہوجا ملوث تھا۔ پریم آہوجا بڑا رنگین مزاج شاہوکار اور خوبصورت سندھی نوجوان تھا۔ اس کی ہندوستان کی آرمی، نیوی اور ایئرفورس کے کئی سینیئر افسران کی بیگمات سے دوستی تھی۔ بھارتی سمندری فوج کے ایک پارسی افسر نانا وتی کی بیگم سے بھی ان کی دوستی تھی اور آخرکار ناناوتی صاحب نے گھر میں جا کر باتھ روم میں پریم کوگولی سے مار دیا۔ یہ مقدمہ انیس سو باسٹھ تک چلتا رہا، آخر اس کو سزا یاب کرایا۔
نانا وتی چند برس جیل میں رہے، بعد میں انہیں رہائی بھی میں نے دلوائی۔ ہوا یہ کہ ہمارے ایک سندھی لیڈر بھائی پرتاب کو قید کی سزا ملی۔ انہوں نے قتل نہیں کیا تھا ان پر الزام تھا کہ گجرات میں سندھی ہومز بنانے کے لیے درآمد کردہ سامان مارکیٹ میں فروخت کیا تھا۔
میں ان کی رہائی کی کوشش کر رہا تھا تو ان دنوں نانا وتی کی بیگم میرے پاس آئیں اور کہا کہ اگر سندھی کمیونٹی معاف کردے تو میرا شوہر چھوٹ سکتا ہے اور ہم ہندوستان چھوڑ دیں گے۔ ان دنوں بمبئی کے گورنر کے عہدے پر جواہر لال نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت تھیں، انہوں نے ایک ہی روز بھائی پرتاب اور نانا وتی کی سزا معاف کرنے کا حکم دیا۔ بعد میں نانا وتی اپنی بیگم کے ساتھ کنیڈا چلے گئے۔
انیس سو اکہتر میں بنگلہ دیش وار ہوئی تھی اور ہندوستان میں الیکشن ہوئے تھے۔ کرشنا مینن جواہر لعل کا بڑا دوست تھا، اس کی آچار کرپلانی سے لڑائی ہوئی تھی بمبئی کے حلقہ سے۔ میں نے آچار کرپلانی کے خلاف کرشنا مینن کے لیے کام کیا اور وہ جیت گیا۔ ان کے لیے جلسوں میں بھاشن کرنے پڑے اور تب میرے کو یہ سمجھ میں آیا کہ میں صرف کورٹ میں وکالت کرنے کے قابل نہیں ہوں بلکہ پبلک کے سامنے بھی بول سکتا ہوں۔ تو مجھے اپنی ایک نئی طاقت کی پہچان ہوئی تو میں نے کہا ابھی سیاست بھی کریں گے۔
میں جب ہندوستان کے اس وقت چھ لاکھ وکلا کی تنظیم ’بار کونسل آف انڈیا، کا چیئرمن بنا تو سیاست میں اور بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس وقت اندرا گاندہی نے ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ کی اور میں نے اس کی سخت مخالفت کی اور کہا تھا کہ یہ ایمرجنسی فراڈ ہے۔ یہ صرف اپنے راج نیتک طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے لگائی گئی ہے جو ہندوستان کے آئین کے ساتھ ’ریپ‘ ہے۔
مجھے بعد میں ہندوستان چھوڑنا پڑا اور میں امریکہ پہنچا اور سیاسی پناہ لی۔ میں وہاں اندرا سرکار اور ایمرجنسی کے خلاف پرچار کرتا رہا۔ امریکی صدر کارٹر اس زمانے میں تھے، انہوں نے کہا تھا کہ ہم ہندوستان کو ایک ڈالر کی مدد نہیں کریں گے جب تک ایمرجنسی ختم نہیں ہوگی اور مسز گاندھی ان دنوں میں شاپنگ کر رہی تھیں امریکہ میں۔ ہتھیار چاہیے تھے، سو پیسہ نہیں تھا تو یہ بڑا پریشر بنا اور ایمرجنسی ختم ہوئی۔ اس کے بعد میں نے نیویارک میں اعلان کیا تھا کہ میں شریمتی اندرا گاندھی جی کے وزیر قانون مسٹر گوکلے کے خلاف، جس نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا مشورہ دیا تھا، چناؤ لڑوں گا۔
انیس سو ستتر میں میں نے جنتا پارٹی کی طرف سے پہلا انتخاب لڑا اور جیت گیا۔ جنتا پارٹی کی بہت بڑی فتح ہوئی اور سرکار بنی۔ پھر میں نے اندرا گاندھی کو جیل میں بھیجنے کی کوشش شروع کی۔ ہمارے سب لیڈر اپنی سیاسی مخالف شریمتی اندرا گاندھی سے ہمدردی کرنے لگے۔ لیکن میں نے کوشش جاری رکھی اور پارلیمان کی استحقاق کمیٹی کے ذریعے آخرکار اندرا گاندھی کو کچھ عرصہ جیل بھجوایا۔
پھر ’بی جے پی‘ بنی تو میں ان کے ساتھ چلا گیا۔میں سیکولر ضرور تھا لیکن میں نے سمجھا بی جے پی میں جو لوگ ہیں، وہ کانگریس سے بہتر ہیں۔ جب میں نے اندرا گاندھی کے قاتلوں کی وکالت کی تو بی جے پی والوں نے کہا کہ تم ان کی وکالت کیوں کر رہے ہو۔ میں نے بولا وکالت میرا پیشہ ہے اور میں وکیل پہلے ہوں، سیاستدان بعد میں۔ میں نے بی جے پی سے استعفیٰ دیا اور اس کے بعد آج تک آزاد رکن کے طور پر پارلیمان میں رہا۔ آج بھی میں راجیہ سبھا کا منتخب رکن ہوں۔ لگ بھگ میں ستتر سے دو ہزار سات تک ممبر رہا ہوں، ایک دو برس بیچ میں نکل گئے ہوں گے اور میں کسی سیاسی جماعت کا رکن بھی نہیں ہوں۔
t.gif

وکیل پہلے، سیاستدان بعد میں
800_right_quote.gif
جب میں نے اندرا گاندھی کے قاتلوں کی وکالت کی تو بی جے پی والوں نے کہا کہ تم ان کی وکالت کیوں کر رہے ہو۔ میں نے بولا وکالت میرا پیشہ ہے اور میں وکیل پہلے ہوں، سیاستدان بعد میں۔
800_left_quote.gif



میرے اندر جادو ہے سندھیت کا اور سندھی کمیونٹی کی مدد حاصل رہی ہے۔ شروعات میں تو سندھیوں کے مقدمات سے بڑی مدد ملی لیکن آج کل صرف سندھیوں پر وکالت نہیں چلتی، بہت سیاستدان اور کاروباری لوگ میرے ’کلائنٹ، ہیں۔
تقسیم کے وقت بمبئی سرکار نے ’بمبئی رفیوجیز ایکٹ، بنایا تھا جس وجہ سے پناہ گزینوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہوتا تھا۔ میں نے اسے چیلینج کیا اور بمبئی ہائی کورٹ نے اس قانون کو منسوخ کیا۔ اس کے علاوہ ہمیں ہندوستان سرکار نے کہا کہ سندھی زبان عربی رسم الخط یعنی سکرپٹ میں نہیں بلکہ دیونا گری میں لکھیں اس کے خلاف بھی عدالت میں گیا اور عدالت نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا۔‘
جب سندھی ہندؤں کی ملکیتیں وغیرہ پاکستان میں رہ گئیں وہ خالی ہاتھ آئے اور سخت مشکلات اٹھائیں تو ان میں نفرت پیدا ہوئی۔ لیکن کئی اس کے برعکس بھی سوچتے ہیں۔
سندھ میں پیدا ہونے کے ناطے عاشق مزاج تو شروع سے ہی تھا۔ دو شادیاں کیں لیکن اب دونوں فوت ہوگئی ہیں۔ ایک شادی گھر والوں کی پسند سے سن بیالیس میں اور دوسری پاکستان چھوڑتے وقت اپنی پسند سے کی۔ اب چوراسی برس کا ہوں، دوست عورتیں بہت ہیں لیکن اس عمر میں عورت کے بطور بیوی ضرورت نہیں۔‘
ربط
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/blog/story/2007/08/printable/070810_ps_ejaz_two_sq.shtml
 
انکل جی اس بندے کا دماغ نہیں ٹھیک یہ مجھے متعصب لگا :cautious: سندھ کیا سرکریک کا ایک انچ یا سمندر پرایک بوندھ پانی بھی نا دیں گے ۔ ایسے لوگ کیسی کیسی بکواس کر جاتے ہیں :idontknow:
یہ میں نے ایک معلوماتی دستاویز کے طور پر شریک کیا ہے تا کہ لوگوں کو ان کی اصلیت کا پتہ چلے
 
Top