کشور ناہید : دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے

سید زبیر

محفلین
دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے​
دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے​
اس کو بھی بھولنا اچھا لگا پہلے پہلے​
دل تھا شب زاد اسے کس کی رفاقت ملتی​
خواب تعبیر سے چھپتا رہا پہلے پہلے​
پہلے پہلےوہی انداز تھا دریا جیسا​
پاس آکے پلٹتا رہا پہلے پہلے​
آنکھ آئینوں کی حیرت نہیں جاتی اب تک​
ہجر کا گھاؤ بھی اس نے دیاا پہلے پہلے​
کھیل کرنے کو بہت تھے دل خواہش دیدہ​
کیوں ہوا دیکھ جلایا دیا پہلے پہلے​
عمر آئندہ کے خوابوں کو پیاسا رکھا​
فاصلہ پاؤں پکڑتا رہا پہلے پہلے​
ناخن بے خبری زخم بناتا ہی رہا​
کوئے وحشت میں تو رستہ نہیں تھا پہلے پہلے​
اب تو اس شخص کا پیکر بھی گل خواب میں نہیں​
جو کبھی مجھ میں تھا مجھ جیسا تھا پہلے پہلے​
اب وہ پیاسا ہے تو ہر بوند بھی پوچھے نسبت​
وہ جو دریاؤں پہ ہنستا رہا پہلے پہلے​
وہ ملاقات کا موسم نہیں آیا اب کے​
جو سر خواب سنورتا رہا پہلے پہلے​
غم کا دریا مری آنکھوں میں سمٹ کر پوچھے​
کون رو رو کے بچھڑتا رہا پہلے پہلے​
اب جو آنکھیں ہوئیں صحرا تو کھلا ہر منظر​
دل بھی وحشت کو ترستا رہا پہلے پہلے​
میں تھی دیوار تو اب کس کا ہے سایہ تجھ پر​
ایسا صحرا زدہ چہرا نہ تھا پہلے پہلے​
کشور ناہید​
 
Top