کشکول!

حسینی

محفلین

کشکول کے نام سے یہ لڑی شروع کی جارہی ہے۔ امید ہے سب کو پسند آئے گی۔ مجھے نہیں معلوم اس نوعیت کوئی لڑی پہلے سے موجود ہے یا نہیں اگرچہ متفرقات میں تلاش سے مجھے تو نہیں ملی۔
کشکول میں آپ نے مختلف موضوعات پر مختصر اور خوبصورت تحریریں جمع کرنی ہے۔ چاہے وہ کوئی واقعہ ہو یا آب بیتی، خوبصورت شاعری یا اچھی نثر! سائنس کی کوئی بات یا فلسفہ کا کوئی نکتہ۔
جس طرح سے پرانے زمانے میں فقیر کے کشکول میں کوئی چاول کے کچھ دانے ڈال دیتا تھا، کوئی گندم کے کچھ دانے اور کوئی تھوڑا سا آٹا۔ اور یہ ساری چیزیں مکس ہوتی تھیں۔ ہم بھی ایسا ادبی کشکول بنانے چاہتے ہیں۔
کشکول کے نام سے اب تک متعدد کتب بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔
بعض دفعہ کوئی بات ایسی ہوتی ہے جو آپ اپنی ڈائری میں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ سو آپ اپنی ڈائری کا کوئی صفحہ بھی شیئیر کر سکتے ہیں۔
لیکن ایک گزارش تمام محفلین سے
کہ کسی قسم کا تبصرہ کسی بھی پوسٹ پر نہ ہو اس طرح سے لڑی بحث و مباحثے اور بعض دفعہ مزاحیہ باتوں میں بھر جاتی ہیں اور پڑھنے کا مزا نہیں آتا۔ صرف ریٹنگ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کریں
شکریہ۔
لو جی آغاز کیے دیتے ہیں!
 

حسینی

محفلین
میں نے انگور کی بیل پر پتھر پھینکا۔ ۔ ۔
خوشہ زمین پر گر پڑا۔۔
کھایا تو ۔ ۔ ۔ بہت میٹھا تھا
ٹہنی سے پوچھا ۔ ۔
انگور میں مٹھاس کیونکر پیدا ہوئی؟؟؟
اس نے جواب دیا:
دھوپ کی سختی صبر سے جھیلی
سردیوں کی طویل راتیں گزاریں
اور
اپنا سر ہمیشہ جھکائے رکھا!!​
 

حسینی

محفلین
حقیقت یہ ہے
کہ ہم سانپ سے ڈرتے ہیں۔ ۔ ۔ کہ ڈس نہ لے
آگ سے گھبراتے ہیں۔ ۔ ۔ کہ جھلسا دے گی
پانی سے گھبراتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ کہ اس کی لہریں نگل لیں گی
بیماریوں سے بھاگتے ہیں۔ ۔۔ ہلاک کر دیں گی
لیکن!
اس رب العزت سے نہیں ڈرتے ۔ ۔ ۔ جو ہر چیز پر قادر ہے۔
 

حسینی

محفلین
ایک بزرگ نے فرمایا :
موت کے بعد انسان پانچ حصوں میں تقسیم ہو جائے گا
مال وارث لے جائیں گے
روح ملک الموت لے جائے گا
گوشت کیڑے مکوڑے کھا جائیں گے
ہڈیا ں مٹی کھا جائیں گی
نیکیاں قرض خواہوں کے کام آئیں گی
بس کوشش کرنا:
کہ ایمان شیطان نہ لے جائے!!
 

حسینی

محفلین
حسن اور ذہانت
برنارڈ شاہ سے کسی ایکٹرس نے کہا:
کیوں نہ ہم دونوں شادی کرلیں۔ ہمارے بچے آپ کی ذہانت اور میرا حسن لیکر پیدا ہوں گے تو شاہکار وجود میںآئیں گے!
برنارڈ شاہ نے بر جستہ جواب دیا:
خاتون! یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ میری صورت اور آپکی ذہانت لیکر پیدا ہوں۔
 

نیلم

محفلین
شام اور سونے سے پہلے کے احکام

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اندھیرا چھانے لگے، یا فرمایا: جب شام ڈھل جائے تو اپنے بچوں کو (گھروں سے باہر نکلنے سے)روک لو کیونکہ اس وقت شیاطین پھیل جاتے ہیں اور جب کچھ وقت گزر جائے تو انہیں چھوڑ دو اور اللہ کا نام لے کر دروازے بند کردو، کیونکہ شیطان بند دروازے نہیں کھولتا، اللہ کا نام لے کر اپنے مشکیزے کا منہ بند کردو اور اپنے برتن کو کسی بھی چیز کے ساتھ اللہ کا نام لے کر ڈھانپ دو اور اپنے چراغ بجھادو۔

(بخاری مع الفتح:10/ 88)
 

حسینی

محفلین
اگر کوئی ِ ٰ ِ چیز آپ کو چھوٹی نظر آرہی ہے
تو آپ۔ ۔
یا تو اسے دور سے دیکھ رہے ہوں گے
یا۔ ۔ ۔
۔ ۔۔
۔۔۔ یا غرور سے!
 

حسینی

محفلین
ایک شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ہونے والے جھگڑو ں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے
کہ۔ ۔
یہ جھگڑے ہمیں خوشی کا سامان فراہم کرتے ہیں
کیونکہ
اس دوران میری بیوی مجھ پر برتن مارتی ہیں
اگر لگ جائے تو وہ خوش
اور نہ لگے تو میں خوش!
 

حسینی

محفلین
بازار میں بہت سے لوگ جمع تھے
کہ رہے تھے اسے گاڑی لگی ہے اور ادھر ہی موت واقع ہو گئی
ایک شخص کا گزر وہاں سے ہوا
کافی کوشش کے باوجود وہ اس مردے کو نہیں دیکھ سکا
چونکہ بھیڑ کافی زیادہ تھی
آخر اس نے آواز دی:
مجھے دیکھنے دو ۔ ۔ ۔ میں اس کا ُ باپ ہوں
قریب جا کے دیکھاتو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک گدھا مرا ُ پڑا تھا۔
 

حسینی

محفلین
دنیا کی مثال آدمی کے سایے کی سی ہے
اگر کوئی اپنے سایے کی طرف دوڑے تو وہ آگے ہی آگے بھا گتا نظر آئے گا
اور اگر سایے کو پس پشت ڈالے تو وہ خود اس کا پیچھا نہ چھوڑے۔
جو کوئی دنیا کو ترک کرتا ہے دنیا اس کا پیچھا کرتی ہے۔ ۔ ۔ اور ترک کرنے والے کو تلاش کرتی ہے
اور جو کوئی طلب دنیا میں کوشش کرتا ہے۔ ۔ ۔ دنیا اس للچا کر کوسوں دور بھاگتی ہے۔
شہاب نامہ۔ قدرت اللہ شہاب۔ ص 603
 

حسینی

محفلین
امام غزالی ایک امیر کےہاں گئے ٰ۔ وہ ُ اپنے غلاموں پر برس رہا تھا۔ بیٹوں سے جھگڑ رہا تھا۔
فلاں چیز کہاں ہے؟ تلوار پر زنگ کیوں ہے؟ عطر کیوں نہیں منگوایا۔ وغیرہ
امام غزالی نے پوچھا۔ یہ ہنگامہ کیسا؟
اس نے جواب دیا۔ مجھے خلیفہ سے ملنے جانا ہے اور مناسب نہیں کہ مناسب ساز وسامان کے بغیر چلا جاوں۔
یہ سن کر امام غزالی نے کہا:
تمہیں بہت جلد اللہ سے بھی ملنے جانا ہے۔ ان کے دربار میں جانے کے لیے کتنا ساز سامان تیار کر رکھا ہے؟؟
 

حسینی

محفلین
اگر اندھیرے میں سایہ ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ ۔
تو
زیادہ روشنی میں بھی سایہ ساتھ نہیں دیتا!
فرق تھوڑا سا ہے
غریبی میں لوگ ہمیں چھوڑ دیتے ہیں
اور
امیری میں ہم لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔
 

حسینی

محفلین
حق کا رستہ بڑا کٹھن ہے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
میں جانتی ہوں کہ
حق کا رستہ بڑا کٹھن ہے
مگر میں ان خار زار راہوں کو طے کروں گی
یہ وہ سفر ہے
جو ان گلوں سے سجا نہیں ہے
جو اپنی مہکار ندیوں میں بکھیرتے ہیں
مگر مرا تو یہ فیصلہ ہے
چلوں گی کانٹوں پہ خوں بہے گا
رہ ِصداقت پہ اک نیا نقش پا بنے گا۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
میں ان شگوفوں کو جانتی ہوں
پیامِ فصل بہار بن کر
مجاہدوں کا وقار بن کر
ہجومِ گل میں رہیں جو تنہا
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
میں جانتی ہوں کہ
حق کی نصرت وفا کے خوگر سپاہیوں کے لیے رہی ہے
اگرچہ تھوڑے ہوں وہ سپاہی، وفا کے راہی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
میں جانتی ہوں کہ
حق ہمیشہ رہا ہے باقی
ہے جو بھی اس کے خلاف،
بے شک اسے تباہی کا سامنا ہے
اسی لیے تو ہے میرا پیماں
کہ میں تو اسلام پر جیوں گی
رہ حقیقت پہ جان دوں گی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
مری رگوں میں لہو ہے جب تک
ہر ایک باطل کا، ہر دغاکا
شدید انکار ہی کروں گی
میں جانتی ہوں کہ حق کا رستہ بڑا کٹھن ہے۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
(شہیدہ سیدہ بنت الہدی کی عربی نظم کا منظوم ترجمہ ثاقب اکبر صاحب نے کیا ہے)
سیدہ بنت الہدی عراق کے مشہور عالم شہید باقر الصدر (صاحب کتاب اقتصادنا اور فلسفتنا) کی بہن ہیں۔ آپ ١٩٣٧ء میں پیدا ہوئیں۔ عربی زبان کی بہت بڑی ادیبہ تھیں۔ آپ کے ناولز کا مجموعہ چھپ چکا ہے جو ذیل میں دئے گئے لنک میں پڑھا جا سکتا ہے۔ آپ کو اور آپ کے بھائی کو عراق کے اس وقت کے حکمران صدام حسین نے ١٩٨٠ء میں بہت زیادہ مظالم کے بعد شہید کروایا۔

http://www.alsadr.20m.com/bintalhuda.htm
 

حسینی

محفلین
ستارے بانٹتا ہے وہ ضیاء تقسیم کرتا ہے
سنا ہے حبس موسم میں ہوا تقسیم کرتا ہے
اسی کی اپنی بیٹی کی ہتھیلی خشک رہتی ہے
جو بوڑھا دھوپ میں دن بھر حنا تقسیم کرتا ہے
کوئی روکے اسے جا کر، سراسر ہے یہ پاغل پن
جو بہروں کے محلے میں صدا تقسیم کرتا ہے
اسی سے مانگ تو ساقی، باقی چھوڑ دے سب کو
جو پتھر میں بھی کیڑے کو غذا تقسیم کرتا ہے
 

مقدس

لائبریرین
"سائیکل آف رپلیسمینٹ" میں صرف محبت کی "رپلیسمینٹ" نہیں ہوتی۔ خود کو فریب دینے کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں خون کی گردش کی طرح بسنے والا نام کس کا ہے۔ ہم کبھی بھی اسے دل سے نکال کر باہر نہیں پھینک نہیں سکتے۔ تہہ در تہہ اسکے اوپر دوسری محبتوں کا ڈھیر لگائے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اب اس سے محبت کرتے ہیں۔ اب ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن جو زیادہ دور ہوتا جاتا ہے۔ وہی زیادہ قریب آجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اقتباس "امربیل" از عمیرہ احمد
 

شیزان

لائبریرین
غزل
زندگی پاؤں نہ دَھر جانبِ انجام ابھی
مرے ذمے ہیں ادُھورے سے کئی کام ابھی
ابھی تازہ ہے بہت گھاؤ بچھڑ جانے کا
گھیر لیتی ہے تری یاد سرِشام ابھی
اِک نظر اور اِدھر دیکھ مسیحا میرے
ترے بیمار کو آیا نہیں آرام ابھی
رات آئی ہے تو کیا ، تم تو نہیں آئے ہو
مری قسمت میں کہاں لِکھا ہے آرام ابھی
جان دینے میں کروں دیر، یہ مُمکن ہے کہاں
مجھ تک آیا ہے مری جاں ترا پیغام ابھی
طائرِ دل کے ذرا پَر تو نِکل لینے دو
اِس پرندے کو بھی آنا ہے تہِ دام ابھی
توڑ سکتا ہے مرا دل یہ زمانہ کیسے
میرے سینے میں دھڑکتا ہے ترا نام ابھی
میرے ہاتھوں میں ہے موجُود ترے ہاتھ کا لمس
دِل میں برپا ہے اُسی شام کا کہرام ابھی
میں ترا حسن سخن میں ابھی ڈھالوں کیسے
میرے اشعار بنے ہیں کہاں اِلہام ابھی
مری نظریں کریں کیسے ترے چہرے کا طواف
مری آنکھوں نے تو باندھے نہیں احرام ابھی
یاد کے ابَر سے آنکھیں مری بھیگی ہیں عدیم
اِک دھندلکا سا ہے ،بھیگی تو نہیں شام ابھی
نذرِ اقبال
عدیم ہاشمی
 

حسینی

محفلین
حضرت شبلی نے ایک حکیم سے کہا:
مجھے گناہوں کا مرض ہے اگر اس کی دوا آپ کے پاس ہو؟؟
یہاں یہ باتیں ہو رہی تھیں اور سامنے میدان میں ایک شخص تنکے چننے ٰ میں مصروف تھا۔ اس نےسر اٹھا کر کہا:
جو تجھ سے لو لگاتا ہے وہ تنکے چن رہا ہے، شبلی یہاں آو! اس کی دوا میں بتاتا ہوں۔

حیا کے پھول، صبر وشکر کے پھل، غم ونیاز کی جڑ، عجز کی کونپلیں، سچائی کے درخت کے پتے، ادب کی چھال، حسن واخلاق کے بیج
یہ سب لے کے ہاون کے دستہ ٰ میں کوٹنا شروع کرو،
اک اشک پشیمانی کا عرق روز ان میں ملاتے جاو،
ان سب کو دل کی دیگچی میں بھر کر شوق کے چولہے پر پکاو،
جب پک جائے تو شفاف قلب کی صفائی میں چھان کر میٹھی زبان ملا کر محبت کی آنچ دینا،
جس وقت تیار ہو جائے اتار کر خوف خدا کی ہوا سے ٹھنڈا کر کے استعمال کر لینا!
 

حسینی

محفلین
فتح مکہ کے وقت لشکر اسلام کا مکہ میں دخول
علامہ علی نقن کی خوبصورت منظر کشی
حضرت (صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم) نے سواری طلب فرمائی۔ ایک ناقہ کوہ تن قصوی نامی حضرت کے سامنے آیا اور حضرت نے نور طور کی طرح جس پر جلوہ فرمایا۔
جلوہ میں بے شمار پیاد سوار تگ ودو میں تھے، ادھر جوانوں کا شور وغوغا، ادھر گھوڑوں کے ہنہنانے سے کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی۔
قلب لشکر میں سید مختار تھے، گرد وپیش ہالے کی طرح مہاجر وانصار تھے، راہ خدا میں سرفروشی پر سب تیار تھے اور روبرو حضرت کے حیدر کرار تھے۔ یہاں پر کوئی مثال کھپتی ہے، ہاں چاند کے سامنے تارے کی تشبیہ البتہ کچھ پھبتی ہے، وسعت خدا میں نشاں زرفشاں تھا، ڈاب ٰ میں ذوالفقار پر کہکشاں کا گماں تھا۔
اس کروفر سے لشکر خدا چلا۔۔۔۔۔۔۔۔
(تاریخ اسلام، علامہ علی نقی نقن، مجلد 4، ص 436)​
 
Top