کعبہ در پائے یار دیدم دوش

ملک حبیب

محفلین
جگر مُرادآبادی کا شمار غزل کے آئمہ میں سے ہوتا ہے، فقر و فاقہ و مستی میں زندگی بسر کی اور یہی کچھ شاعری میں بھی ہے۔ کسی زمانے میں ان کا ہندوستان میں طوطی بولتا تھا اور ہر طرف جگر کی غزل کی دھوم تھی۔ انکے کلیات میں انکا کچھ فارسی کلام بھی موجود ہے۔ انکے مجموعے "شعلۂ طور" سے ایک فارسی غزل کے کچھ اشعار ترجمے کے ساتھ پیش خدمت ہیں۔
کعبہ در پائے یار دیدم دوش
ایں چہ گفتی جگر، خموش خموش
میں نے کل رات کعبہ، یار کے پاؤں میں دیکھا،
اے جگر یہ تو نے کیا کہہ دیا (راز کی بات برسرِ عام کہہ دی)، خاموش ہو جا، خاموش۔
حسن پنہاں و جلوہ ہاست بجوش
اصل خاموش و فرع ہا بخروش
حُسنِ ازلی تو نظر سے پنہاں ہے مگر (کائنات میں) اسکے جلوے جوش مار رہے ہیں،
اصل تو خاموش ہے لیکن اسکی شاخوں (فروع) نے شور مچایا ہوا ہے۔
اے اسیرِ تعیّناتِ جہاں
تو چہ دانی کہ چیست مستی و ہوش
اے کائنات کی تعیّنات (مقرر اور مسلط کی ہوئی چیزوں) کے اسیر،
تُو کیا جانے کہ مستی کیا ہے اور ہوش کیا ہے۔
بادہ پیش آر تا کنم آغاز
داستاں ہائے عشقِ آفت کوش
جام سامنے لا کہ میں آغاز کروں
اس عشق کی داستانوں کا جو کہ ہمیشہ آفتوں کی تلاش میں رہتا ہے۔
بے خبر رو کہ ہوش در مستیست
ہوشیار آ کہ بے خودیست بہ ہوش
بے خبر چلا چل کہ ہوش تو مستی ہی میں ہے،
ہوشیار بن کر آ جا کہ ہوشیاری میں بھی بے خودی سی ہے۔
گفتہ بودم فسانہ از مستی
تو شنیدی چرا ز عالمِ ہوش
میں تو اپنا افسانۂ ذوق و شوق مستی میں کہہ رہا ہوں،
تو کیوں اسے عالمِ ہوش میں سن رہا ہے، اس کو سمجھنے کیلیے ضروری ہے کہ سننے والا بھی عالمِ مستی میں ہو۔
قاضیا یک نظر بسوئے جگر
آں کہ یک خادم است و حلقہ بگوش
جنابِ قاضی، ایک نظر جگر کی طرف بھی
کہ وہ آپ کا ایک خادم اور حلقہ بگوش ہے۔ (قاضی سے مراد جگر کے مرشد قاضی سید عبدالغنی شاہ صاحب ہیں جیسا کہ جگر نے اپنی کتاب میں خود لکھا ہے۔)
 

الف نظامی

لائبریرین
کعبہ در پائے یار دیدم دوش
ایں چہ گفتی جگر، خموش خموش

میں نے کل رات کعبہ، یار کے پاؤں میں دیکھا،
اے جگر یہ تو نے کیا کہہ دیا (راز کی بات برسرِ عام کہہ دی)، خاموش ہو جا، خاموش۔

حسن پنہاں و جلوہ ہاست بجوش
اصل خاموش و فرع ہا بخروش

حُسنِ ازلی تو نظر سے پنہاں ہے مگر (کائنات میں) اسکے جلوے جوش مار رہے ہیں
اصل تو خاموش ہے لیکن اسکی شاخوں (فروع) نے شور مچایا ہوا ہے۔

اے اسیرِ تعیّناتِ جہاں
تو چہ دانی کہ چیست مستی و ہوش

اے کائنات کی تعیّنات (مقرر اور مسلط کی ہوئی چیزوں) کے اسیر،
تُو کیا جانے کہ مستی کیا ہے اور ہوش کیا ہے۔

بادہ پیش آر تا کنم آغاز
داستاں ہائے عشقِ آفت کوش

جام سامنے لا کہ میں آغاز کروں
اس عشق کی داستانوں کا جو کہ ہمیشہ آفتوں کی تلاش میں رہتا ہے۔

بے خبر رو کہ ہوش در مستیست
ہوشیار آ کہ بے خودیست بہ ہوش

بے خبر چلا چل کہ ہوش تو مستی ہی میں ہے،
ہوشیار بن کر آ جا کہ ہوشیاری میں بھی بے خودی سی ہے۔

گفتہ بودم فسانہ از مستی
تو شنیدی چرا ز عالمِ ہوش

میں تو اپنا افسانۂ ذوق و شوق مستی میں کہہ رہا ہوں،
تو کیوں اسے عالمِ ہوش میں سن رہا ہے، اس کو سمجھنے کیلیے ضروری ہے کہ سننے والا بھی عالمِ مستی میں ہو۔

قاضیا یک نظر بسوئے جگر
آں کہ یک خادم است و حلقہ بگوش

جنابِ قاضی، ایک نظر جگر کی طرف بھی
کہ وہ آپ کا ایک خادم اور حلقہ بگوش ہے۔
(قاضی سے مراد جگر کے مرشد قاضی سید عبدالغنی شاہ صاحب ہیں جیسا کہ جگر نے اپنی کتاب میں خود لکھا ہے۔)​
 
Top