فرخ منظور
لائبریرین
کعبے سے بْت کدے سے کبھی بزمِ جام سے
آواز دے رہا ہوں تجھے ہر مقام سے
اُف رے شبِ فِراق کے ماروں کی بے دلی
خْود ہی بجھا دیا ہے چراغوں کو شام سے
اب عشق ہے تمام سہاروں سے بے نیاز
بے گانہ ہو چکا ہوں پیام و سلام سے
کچھ ایسی بھی نظر سے بہاریں گذر گئیں
دل کانپتا ہے آج بہاروں کے نام سے
پینے میں لطف ہے کہ مزا تشنگی میں ہے
ساقی یہ راز پوچھ کسی تشنہ کام سے
نا آشنا ہیں آج مرے نام سے وہی
دنیا پکارتی تھی جنہیں میرے نام سے
وہ بھی تو دوست ہی تھے کہ جو عمر بھر مجھے
دیتے رہے فریب محبت کے نام سے
دل میں فریب ، لب پہ تبسّم ، نظر میں پیار
لْوٹے گئے شمیمؔ بڑے اہتمام سے
(شمیمؔ جے پوری)
آواز دے رہا ہوں تجھے ہر مقام سے
اُف رے شبِ فِراق کے ماروں کی بے دلی
خْود ہی بجھا دیا ہے چراغوں کو شام سے
اب عشق ہے تمام سہاروں سے بے نیاز
بے گانہ ہو چکا ہوں پیام و سلام سے
کچھ ایسی بھی نظر سے بہاریں گذر گئیں
دل کانپتا ہے آج بہاروں کے نام سے
پینے میں لطف ہے کہ مزا تشنگی میں ہے
ساقی یہ راز پوچھ کسی تشنہ کام سے
نا آشنا ہیں آج مرے نام سے وہی
دنیا پکارتی تھی جنہیں میرے نام سے
وہ بھی تو دوست ہی تھے کہ جو عمر بھر مجھے
دیتے رہے فریب محبت کے نام سے
دل میں فریب ، لب پہ تبسّم ، نظر میں پیار
لْوٹے گئے شمیمؔ بڑے اہتمام سے
(شمیمؔ جے پوری)
آخری تدوین: