کعبے سے بْت کدے سے کبھی بزمِ جام سے - شمیم جے پوری

فرخ منظور

لائبریرین
کعبے سے بْت کدے سے کبھی بزمِ جام سے
آواز دے رہا ہوں تجھے ہر مقام سے

اُف رے شبِ فِراق کے ماروں کی بے دلی
خْود ہی بجھا دیا ہے چراغوں کو شام سے

اب عشق ہے تمام سہاروں سے بے نیاز
بے گانہ ہو چکا ہوں پیام و سلام سے

کچھ ایسی بھی نظر سے بہاریں گذر گئیں
دل کانپتا ہے آج بہاروں کے نام سے

پینے میں لطف ہے کہ مزا تشنگی میں ہے
ساقی یہ راز پوچھ کسی تشنہ کام سے

نا آشنا ہیں آج مرے نام سے وہی
دنیا پکارتی تھی جنہیں میرے نام سے

وہ بھی تو دوست ہی تھے کہ جو عمر بھر مجھے
دیتے رہے فریب محبت کے نام سے

دل میں فریب ، لب پہ تبسّم ، نظر میں پیار
لْوٹے گئے شمیمؔ بڑے اہتمام سے

(شمیمؔ جے پوری)​
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب انتخاب !! شمیم جے پوری کو سننے مین مزا آتا ہے !
فرخ منظور صاحب نجانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ مطلع میں بزمِ یار کے بجائے بزمِ جام ہونا چاہئے ۔ شاید ٹائپو ہے؟!
غزل میں شریک کرنے کا بہت بہت شکریہ!
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب انتخاب !! شمیم جے پوری کو سننے مین مزا آتا ہے !
فرخ منظور صاحب نجانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ مطلع میں بزمِ یار کے بجائے بزمِ جام ہونا چاہئے ۔ شاید ٹائپو ہے؟!
غزل میں شریک کرنے کا بہت بہت شکریہ!

شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ اب یاد نہیں یہ غزل کہیں سے کاپی کی تھی یا ٹائپ کی تھی۔ شمیم جے پوری کی ایک کتاب ریختہ پر پڑی ہے۔ اگر یہ غزل وہاں مل گئی تو فرصت میں دیکھ کر درست کر دوں گا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب انتخاب !! شمیم جے پوری کو سننے مین مزا آتا ہے !
فرخ منظور صاحب نجانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ مطلع میں بزمِ یار کے بجائے بزمِ جام ہونا چاہئے ۔ شاید ٹائپو ہے؟!
غزل میں شریک کرنے کا بہت بہت شکریہ!

غزل مکمل اور درست کر دی گئی ہے۔ شکریہ نشاندہی کے لیے۔
 
Top