بہت شکریہ! شمشاد کی وجہ شہریت کیا تھی جو آپ شمشاد بن گئے
السلام علیکم
محترم کعنان بھائی
سدا خوش رہیں آمین
آپ کے اس جواب سے ایسا تاثر ابھرا ہے ۔
کہ جیسے آپ لفظ کعنان کی وجہ شہرت اور وجہ تسمیہ سے آگاہ نہیں ہیں ۔
اگر آپ
کعنان ہیں تو یہ اک شہر کے نام سے منسوب ہے ۔ اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوات والسلام کی سکونت کی وجہ سے مشہور ہے ۔
اور اگر آپ
کنعان ہیں تو یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت یوسف علیہ الصلوات و السلام کے اک بھائی کا نام تھا ۔
" " " جب بتوں کو توڑنے اور بت پرستوں کو دلائل سے لاجواب کر دینے کی پاداش میں حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں زندہ جلا دینے کا مطالبہ کیا۔ بادشاہ کو خدا ماننے اور اسے اپنی دلیل سے مبہوت کر دینے کا یہ نتیجہ نکلا کہ اس نے عوام کے مطالبہ کو منظور کرلیا۔
چنانچہ ابراہیمؑ کیلئے آگ کا ایک بڑا الائو تیار کیاگیا اورا نہیں اسکے اندر پھینک دیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیمؑ(کو جلانے کی بجائے، اس) کیلئے سلامتی کی جگہ بن جا۔
سب نے اپنی آنکھوں سے یہ معجزہ دیکھا‘ بادشاہ نے بھی اور اسکے پجاریوں نے بھی‘ مگر پھر بھی ابراہیمؑ کی بات ماننے کی توفیق نہ ہوئی۔ توفیق کیسے ہوتی، آنکھوں پر پردے پڑ چکے تھے‘ دل زنگ آلود ہو چکے تھے۔ابراہیمؑ نے سمجھ لیا اب یہ ایمان لانے کے نہیں۔ اپنے ساتھیوں کیساتھ وہ شہر چھوڑ دینے کا ارادہ کرلیا مگر جانے سے پہلے انہیں منہ پر برملا کہا۔
میرے تمہارے درمیان ہمیشہ کیلئے دشمنی عداوت ہے، جب تک تم ایک اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لائو۔ حضرت ابراہیمؑ اپنے شہر سے
ہجرت کرکے کعنان میں آباد ہوگئے، جو موجودہ فلسطین کا جنوب مشرقی حصہ بتایا جاتا ہے‘ یہاں کی معیشت صحرائی تھی‘ لوگ بھیڑ بکریاں پالتے اورانہی پر گزارہ کرتے تھے۔ ابراہیمؑ نے بھی یہی زندگی اپنا لی۔
82 برس کے لگ بھگ عمر کو پہنچے، تو اولاد کی بشارت ہوئی۔ بظاہر یہ بات ناممکن نظر آتی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں، کر لیتے ہیں۔ بڑھاپے میں بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام انہوںنے اسماعیل رکھا مگر ابھی عشق کے کچھ امتحان باقی تھے۔ حکم ہوا ننھے بیٹے اور اسکی ماں کو اس جگہ چھوڑ آئو جہاں اب مکہ مکرمہ واقع ہے۔ وہ عاشق صادق اپنے محبوب کے حکم پر عمل کرنے فوراً تیار ہوگیا۔ شیرخوار بچے اور اسکی ماں کو ساتھ لیا اور فوراً اس جگہ پہنچ گئے۔دیکھا تو نہ وہاں پانی تھا، نہ سبزہ، نہ کوئی آبادی۔ واپس آنے لگے تو سیدہ ہاجرہ نے پوچھا: ہمیں کس کے سپرد کرکے جا رہے ہو۔ فرمایا:
’’اسی کے جو سب کا محافظ ہے‘‘۔
ہاجرہ ننھے بچے کو سینے سے چمٹائے وہاں بیٹھی۔ خاوند کو آنکھوں سے اوجھل ہوتے دیکھتی رہیں۔ دھوپ چمکی تو پیاس سے جان لبوں پر آگئی۔ پانی کی تلاش میں ان دو پہاڑیوں کے درمیان جواب سفا و مروہ کہلاتی ہیں دیوانہ وار سات چکر کاٹے مگر پانی کہیں ہوتا تو ملتا۔ بچے کو اس جگہ لٹا آئی تھیں، جہاں اب زمزم کا چشمہ ہے۔ مایوس واپس لوٹیں تو دیکھا کہ بچے کی ایڑیوں کے درمیان سے پانی کی ایک ننھی سی دھار پھوٹ رہی ہے‘ حیران رہ گئیں‘ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں۔ چشمے کا پانی بڑھتا گیا۔ چار ہزار برس سے یہ چشمہ دن رات بیٹے اور اسکے ماں باپ کی عظمتوں کے گیت گا رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک گاتا رہے گا۔ " " "
" " نورِ بَصیِرتْ… میاں عبدالّرشید " "
اگر آپ مزید وضاحت کر سکیں تو میرے علم میں اضافہ ہو گا ۔
نایاب