کفار سے جہاد کا حکم اور اس کی فرضیت اور ان لوگوں کیلئے سخت وعیدوں کا بیان جو جہاد چھو



پہلا باب

کفار سے جہاد کا حکم اور اس کی فرضیت اور ان لوگوں کیلئے سخت وعیدوں کا بیان جو جہاد چھوڑ دیں یا بغیر جہاد کئے مرجائیں



اس باب میں کئی فصلیں ہیں پہلی فصل میں مصنف رحمہ اللہ نے قرآن مجید کی سات آیات اور انتیس احادیث و آثار سے جہاد کی فرضیت کا مسئلہ بیان فرمایا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

(۱) [ARABIC]كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ۔ [/ARABIC](البقرہ۔۲۱۶)
قتال کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعاً) برا لگتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی بات کو برا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے تم ایک کام کو بھلاسمجھو اور وہ تمہارے حق میں برا ہو اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
(۲) [ARABIC]وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [/ARABIC](البقرہ۔۲۴۴)
اور لڑو اللہ کے راستے میں اور جان لو بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
(۳) [ARABIC]وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الأرْضُ وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ [/ARABIC](البقرہ۔۲۵۱)
اور اگر اللہ تعالیٰ کا بعض لوگوں کے ذریعے بعض کو دفع کرانا نہ ہوتا تو زمین فساد سے بھر جاتی لیکن اللہ تعالیٰ جہاں والوں پر بڑے مہربان (کہ انہوں نے جہاد کا حکم نازل فرما کر فساد کے خاتمے اور امن کے قیام کی صورت پیدا فرما دی)
اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا:
(۴) [ARABIC]فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [/ARABIC]۔(التوبہ۔۵)
ان مشرکوں کو جہاں پاؤ مارو اور پکڑو اور گھیرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو۔
اللہ ربّ العزت نے ارشاد فرمایا:
(۵)
[ARABIC]قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ [/ARABIC]۔(التوبہ۔ ۲۹)
لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور حرام نہیں سمجھتے ان چیزوں کو جن کو اللہ نے اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور سچے دین اسلام کو قبول نہیں کرتے اہل کتاب میں سے یہاں تک کہ وہ ذلیل (ماتحت) ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دینا منظور نہ کرلیں۔

اللہ جل شانہ کا ارشاد گرامی ہے:

(۶)
[ARABIC]وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ [/ARABIC]۔ (الحج۔۴۰ )
اور اگر اللہ تعالیٰ(ہمیشہ سے) لوگوں کا ایک دوسرے (کے ہاتھ) سے زور نہ گھٹاتا تو نصاریٰ کے خلوت خانے اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے سب ڈھا دئیے جاتے اور بے شک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اللہ کے دین کی مدد کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ قوت والا(اور) غلبے والا ہے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام عبداللہ الحلیمی اپنی کتاب شعب الایمان میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں یہ بات کھول کر سمجھاد ی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ [مجاہد ] مسلمانوں کے ذریعے سے مشرکوں کو نہ روکیں اور مسلمانوں کو اس بات کی قوت عطا نہ فرمائیں کہ وہ مشرکوں اور کافروں سے مرکز اسلام کا دفاع کرسکیں اور کافروں کی طاقت کو توڑ سکیں اور ان کی قوت کو پارہ پارہ کر سکیں تو شرک زمین پر چھا جائے گا اور دین تباہ و برباد ہوجائے گا۔
پس یہ بات ثابت ہوگئی کہ جہاد ہی دین کی بقا اور دینداروں کی اپنی عبادات میں آزادی کا واحد راستہ ہے جب جہاد کا یہ مقام ہے تو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ وہ ارکان ایمان میں سے ایک رکن ہو اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جس قدر ہو سکے وہ اپنے اندر جہاد کرنے کی حد درجہ حرص پیدا کریں۔‘‘ (کتاب المنہاج فی شعب الایمان ص ۴۶۶ ج۔۲)
اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
(۷) [ARABIC]فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ [/ARABIC]۔ (محمد۔۴)
پس جب تمہارا کافروں سے مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں مارو۔
آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم پر میدان جنگ میں کافروں کی گردنیں اڑانا لازم ہے۔ یہ چند آیات تو بطور نمونہ ہیں ورنہ وہ آیات جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو مشرکین اور اسلام دشمنوں کے ساتھ جہاد کا حکم دیا ہے بہت زیادہ ہیں۔
[ آئیے اب اس موضوع پر کچھ احادیث شریفہ اور آثار کو پڑھ کر اپنے ایمان کو جلا بخشتے ہیں۔]
٭ بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ بیان فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے [اللہ تعالیٰ کی طرف سے] حکم دیا گیا کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کرتا رہوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کرلیں پھر جب وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرلیں گے تو ان کے جان ومال سوائے شرعی حق کے ہم سے محفوظ ہوجائیں گے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہوگا۔ (بخاری)

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جہاد تم پر واجب ہے ہر امیر کے ساتھ [وہ امیر] نیک ہو یا فاسق۔ نماز تم پر لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے وہ نیک ہو یا فاسق اگرچہ کبائر کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔(ابوداؤد)

٭ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین چیزیں ایمان کی بنیاد ہیں۔
۱۔ جو شخص لا الہ الا اللہ کا اقرار کرے اس سے [ ہاتھ اور زبان کو ] روکنا کہ ہم نہ تو کسی گناہ کی وجہ سے اسے کافر قرار دیں اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اسے اسلام سے خارج سمجھیں۔
۲۔ جہاد جاری رہے گا جب سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے یہاں تک کہ میری امت کے آخری لوگ دجال سے لڑیں گے کسی ظالم کا ظلم یا کسی عادل کا عدل اس جہاد کو نہیں روک سکے گا۔
۳۔ تقدیر پر ایمان رکھنا۔ (ابوداؤد)

٭ حضرت ابن الخصاصیہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام پر بیعت کرنے کیلئے حاضر ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سامنے یہ تین شرطیں رکھیں کہ تم لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دو گے، پانچ وقت کی نمازیں پڑھو گے، زکوٰۃ ادا کرو گے، بیت اللہ شریف کے حج کرو گے، اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ان میں سے دو چیزوں [ یعنی زکوٰۃ اور جہاد ] کی میں طاقت نہیں رکھتا، زکوٰۃ کی طاقت اس لئے نہیں رکھتا کہ میرے پاس چند اونٹ ہیں جو میرے گھر والوں کے دودھ اور سواری کے کام آتے ہیں اور جہاد کی طاقت اس لئے نہیں رکھتا کہ لوگ کہتے ہیں جو شخص جہاد میں پیٹھ پھیر کر میدان سے بھاگ جائے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے گا میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میدان جنگ میں میں موت سے ڈر جاؤں اور میرا دل گھبرا جائے [ اور میں بھاگ کھڑا ہوں ] ابن الخصاصیہ فرماتے ہیں کہ [ یہ بات سن کر ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر اسے ہلایا اور فرمایا نہ صدقہ دو گے، نہ جہاد کرو گے تو جنت میں کیسے داخل ہوگے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا اے اللہ کے رسول میں آپ سے [ تمام شرطوں کے ساتھ ] بیعت کرتا ہوں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان تمام چیزوں پر بیعت فرمالیا۔ (المستدرک)
فائدہ۔ ۔ ۔ یہ روایت امام بیہقی نے سنن الکبریٰ میں بھی ذکر فرمائی ہے۔

٭ حضرت سلمہ بن نفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ گھوڑے چھوڑ دئیے گئے ہیں اور اسلحہ رکھ دیا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ اب لڑائی [جہاد ] ختم ہوچکی ہے [ یہ سن کر ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ [جو جہاد ختم ہونے کا گمان کررہے ہیں] جھوٹے ہیں جہاد تو ابھی شروع ہوا ہے اور میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتی رہے گی اور اس کی مخالفت کرنے والے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خاطر کچھ لوگوں کے دل ٹیڑھے کرے گا تاکہ ان کے ذریعے ان [ مجاہدین ] کو روزی دے۔ [ یعنی امت کے یہ مجاہد لوگ کافروں سے لڑیں گے تو ان کے مال ان کے ہاتھ آئیں گے ] یہ [مجاہدین ] قیامت تک جہاد کرتے رہیں گے اور گھوڑوں کی پیشانی میں ہمیشہ کیلئے خیر رکھ دی گئی ہے قیامت کے دن تک۔ [ اور ] جہاد بند نہیں ہوگا یہاں تک کہ یاجوج ماجوج نکل آئیں ۔(نسائی)

٭ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا جہاد کرو مشرکوں کے ساتھ اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے اور اپنی زبانوں سے۔
(ابوداؤد۔ نسائی، حاکم وقال صحیح علی شرط مسلم)
السنتکم [یعنی اپنی زبانوں سے جہاد کرو ] کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کی ایسی خدمت کرو اور انہیں ایسی سخت باتیں سناؤ جو انہیں بری لگیں اور انہیں ان باتوں کے سننے سے تکلیف ہو۔

٭ حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر امام کے پیچھے نماز پڑھو اور ہر [ مسلمان] میت کی نماز جنازہ ادا کرو اور ہرامیر کے ساتھ جہاد کرو۔ (ابن ماجہ۔ ابن عساکر)

٭ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسلام کے آٹھ حصے ہیں۔ اسلام قبول کرنا ایک حصہ ہے۔ نماز ایک حصہ ہے۔ زکوٰۃ ایک حصہ ہے۔ حج ایک حصہ ہے۔ جہاد ایک حصہ ہے۔ رمضان کے روزے ایک حصہ ہے۔ امر بالمعروف ایک حصہ ہے۔ نہی عن المنکر ایک حصہ ہے اورمحروم ہوگیا وہ شخص جس کے پاس [ ان حصوں میں سے ] کوئی حصہ بھی نہ ہو۔ (ابو یعلی)

فائدہ ۔ ۔ ۔ یہی روایت حضرت عمر ص سے بھی موقوفاً مروی ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
فائدہ ۔ ۔ ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی ہی روایت ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ)

٭ حضرت حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیا کہ ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کا حکم دیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع فرمایا [ لوگ جمع ہوگئے اور ان سے ] مسجد بھر گئی اور کچھ لوگ [باہر] اونچی جگہوں پر بیٹھ گئے تب حضرت یحییٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے پانچ باتوں کے بارے میں حکم دیا ہے کہ میں [خود] ان پر عمل کروں اور تمہیں بھی اس نے ان باتوں پر عمل کا حکم فرمایا ہے۔ ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ صر ف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ بے شک اس شخص کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اس شخص کی مانند ہے جس نے خالص اپنے مال یعنی سونے چاندی سے ایک غلام خریدا اور اسے کہا یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کاروبار ہے پس تم یہ کاروبار کرو اور اسکا نفع مجھے لا کر دو پس وہ غلام کام تو کرتا ہے مگر اس کا نفع اپنے مالک کے علاوہ کسی اور کو دے دیتا ہے۔ پس تم میں سے کون شخص یہ بات پسند کرے گا کہ اس کا غلام ایسا ہو [ جس طرح تم اپنے غلام کے بارے میں یہ پسند نہیں کرتے اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے بارے میں یہ پسند نہیں فرماتا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں ] اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں نماز کا حکم فرمایا ہے پس جب تم نماز پڑھو تو ادھر ادھر توجہ نہ کیا کرو کیونکہ جب تک بندہ نماز میں ادھر ادھر توجہ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں روزے کا حکم دیا ہے بے شک روزے دار کی مثال اس شخص جیسی ہے جو کسی جماعت میں مشک کی تھیلی لے کر بیٹھا ہو چنانچہ وہ خوشبو سب کو اچھی لگتی ہے اور بے شک روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ بے شک صدقہ کرنے والے کی مثال اس شخص کی مانند ہے جسے دشمن قید کرلیں اور اس کے ہاتھ اس کی گردن سے باندھ کر اسے قتل کرنے کیلئے لے جائیں تب وہ کہے کہ میں اپنا تمام تھوڑا زیادہ مال تمہیں بطور فدیہ دیتا ہوں پس وہ مال دے کر اپنی جان چھڑا لے [ اسی طرح صدقہ دینے والا شخص صدقہ دے کر عذاب الٰہی اور آفات سے خود کو بچا لیتا ہے ] اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو بے شک اس کی مثال اس شخص کی مانند ہے جس کے پیچھے دشمن دوڑ رہا ہو اور وہ کسی مضبوط قلعے میں پناہ لے کر اپنی جان دشمن سے بچالے اسی طرح بندہ صرف اللہ کے ذکر کی بدولت ہی شیطان سے محفوظ ہو سکتا ہے پھر فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں تمہیں [ یعنی اس امت کو] پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں ان باتوں کا حکم مجھے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ (۱) [ امیر کے حکم کو] سننا۔ (۲) [ امیر کی ] اطاعت کرنا۔(۳) جہاد کرنا۔ (۴)ہجرت کرنا۔ (۵) [ مسلمانوں کی] جماعت کو لازم پکڑنا۔ بے شک جو شخص ایک بالشت کے برابر جماعت سے الگ ہو اس نے اسلام کی رسی کو اپنے گلے سے نکال دیا مگر یہ کہ وہ دوبارہ جماعت میں لوٹ آئے۔ (ترمذی وقال حدیث حسن صحیح،نسائی (مختصراً)وابن خزیمہ۔ ابن حبان۔ حاکم)

٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت جہاد باقی ہے اور جب تمہیں [ امیر کی طرف سے ] نکلنے کا حکم دیا جائے تو تم [جہاد میں ] نکل پڑو۔ (مسلم)
فائدہ۔ ۔ ۔ یہی حدیث بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔

٭ عبدالمؤمن خالد کہتے ہیں مجھ سے نجدہ بن نفیع نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے قرآن مجید کی اس آیت الا تنفروا بعذبکم [ اگر تم جہاد میں نہیں نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دردناک عذاب دے گا۔التوبہ ۳۹ ] کا مطلب پوچھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلے کو جہاد میں نکلنے کا حکم دیا تو انہوں نے سستی کی پس اللہ تعالیٰ نے ان پربطور عذاب کے بارش بند کردی۔ ( ابوداؤد۔ حاکم)

مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ اور اس سے پچھلی حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس مسلمان کو جہاد میں نکلنے کا حکم امیر کی طرف سے دے دیا جائے اس پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے اگرچہ عمومی حالات کے اعتبار سے اس وقت جہاد فرض کفایہ ہو۔
٭ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں جہاد کا ذکر فرمایا اور فرض نماز کے علاوہ کسی عمل کو جہاد سے افضل قرار نہیں دیا۔ (ابوداؤد، بیہقی)

امام بیہقی اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ جہاد [ عام حالات میں ] فرض کفایہ ہوتا ہے اسی وجہ سے اس پر فرض نماز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت دی کیونکہ نماز فرض عین ہے۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاد [ ہمیشہ فرص کفایہ نہیں رہتا بلکہ ] کبھی فرض عین بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ اس کاتذکرہ آئے گا۔
فائدہ۔ ۔ ۔ [ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے انفروا خفافا وثقالا (توبہ۔۴۱) اس کا عام طورپر ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ جہاد میں نکل پڑو ہلکے اور بوجھل۔ ہلکے اور بوجھل یا خفیف و ثقیل سے کیا مراد ہے؟ مصنف رحمہ اللہ نے اسی کی وضاحت کیلئے آگے کئی آثار پیش فرمائے ہیں اور اس آیت سے بھی جہاد کی فرضیت کو ثابت فرمایا ہے ]

٭ ابو راشد الحبرانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی زیارت کی وہ حمص [ نامی شہرمیں ] کسی صراف کے چھوٹے صندوق پر بیٹھے ہوئے تھے اور جہاد میں تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے تھے میں نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معذور قرار دے دیا ہے [ پھر آپ اس بڑھاپے میں جہاد کی مشقت میں خود کو کیوں ڈال رہے ہیں ] حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ منافقوں کے راز کھولنے والی سورۃ [ یعنی سورۃ توبہ ] مجھے نہیں بیٹھنے دیتی [ اس سورۃ میں] اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : انفروا اخفافا وثقالا [یعنی جس حال میں بھی ہو جہاد میں نکلو] (تفسیر ابن جریر طبری)

٭ حضرت ابو صالح رحمہ اللہ قرآن مجید کی آیت انفروا اخفافا وثقالا کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں کہ بوڑھے ہو یا جوان [ ہر حال میں جہاد میں نکلو] (مصنف ابن ابی شیبہ)

٭ حضرت حسن بصری بھی خفافا و ثقالا کی یہی تفسیر فرماتے ہیں [ یعنی خفافاً سے مراد جوانی ثقالاً سے مراد بڑھاپا ] ( مصنف ابن ابی شیبہ)
٭ حضرت قتادہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں چست ہو یا غیر چست [ یعنی طبیعت ہشاش بشاش اور دل جہاد میں نکلنے پر راضی ہو۔ تب بھی نکلو اور اگر طبیعت ہشاش بشاش نہ ہو اور دل نہ چاہے تب بھی جہاد میں نکلو] (مصنف ابن ابی شیبہ)

٭ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں ابو العوام بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے ایک سال جہاد کا ناغہ فرمایا پھر انہوں نے یہ آیت انفروا اخفافا وثقالا پڑھی تو فوراً جہاد میں نکل کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے کہ اس آیت میں مجھے تو کوئی چھوٹ نظر نہیں آتی۔

٭ حضرت حکم رحمہ اللہ اس آیت انفروا اخفافا وثقالا کا یہ مطلب بیان فرماتے ہیں کہ مشغول ہو یا فارغ [ یعنی اگر دینی و دنیوی، ذہنی و جسمانی طور پر مصروف ہو تب بھی جہاد میں نکلو اور اگر فارغ ہو تب بھی نکلو] (مصنف ابن ابی شیبہ)
مشغول اور فارغ کا ایک معنی یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جس شخص کے پاس ایسی چیزیں [ باغات تجارت وغیرہ ] ہوں جنہیں چھوڑ کر جانا اسے ناگوار گزرتا ہو ایسا شخص مشغول ہے اور جس کے پاس ایسی چیزیں نہ ہوں وہ غیر مشغول ہے۔

٭ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں خفیف [ ہلکے ] سے مراد بہادر اور ثقیل [ بھاری ] سے مراد بزدل ہے [ یعنی تم بزدل ہو یا بہادر ہر حال میں جہاد کیلئے نکل پڑو ] (تفسیر ابن جریر طبری)
تفسیر قرطبی میں حضرت امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت [ انفروا اخفافا وثقالا ] کا درست مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو جہاد میں نکلنے کا حکم دیا ہے خواہ جہاد میں نکلنا ان کیلئے آسان ہو یا مشکل۔
٭ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ ایک مرتبہ جہاد کے لئے ایسی حالت میں تشریف لے گئے کہ ان کی ایک آنکھ کام نہیں کررہی تھی ان سے کہا گیا کہ آپ تو بیمار ہیں[ پس اس مجبوری و معذوری کی وجہ سے گھر میں بیٹھ رہیں] یہ سن کر فرمانے لگے اللہ سے توبہ کرو اللہ تعالیٰ نے ہلکے اور بھاری سب کو نکلنے کا حکم دیا ہے۔ اگر میرے لئے میدان میں جا کر لڑنا ممکن نہ بھی ہوا تو میں مجاہدین کی تعداد بڑھاؤں گا اور ان کے سامان کی بھی حفاظت کروں گا۔
اسی طرح روایت ہے کہ شام کے غزوات میں ایک شخص نے ایک ایسے بزرگ کو میدان جنگ میں لڑتے دیکھا جن کی پلکیں بڑھاپے کی وجہ سے ان کی آنکھوں پر گری ہوئی تھیں اس شخص نے کہا چچا جان اللہ تعالیٰ نے آپ کو معذور قرا ر دیا ہے [ پھر آپ اس بڑھاپے میں کیوں اس قدر مشقت اٹھا رہے ہیں ] یہ سن کر وہ فرمانے لگے۔ اے بھتیجے ہم خفیف [ ہلکے ] ہوں یاثقیل [ بھاری] ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نکلنے کا حکم دیا گیاہے۔

٭ حضرت عمرو بن ام مکتوم نے غزوہ احد کے دن فرمایا میں نابیناآدمی ہوں آپ لوگ لشکر کا جھنڈا مجھے دے دیں کیونکہ اگر علمبردار [ جھنڈے والا ] پیچھے ہٹ جائے تو پورا لشکر شکست کھا جاتا ہے مجھے تو یہ پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کون مجھ پر وار کرنا چاہتا ہے چنانچہ میں اپنی جگہ پر ڈٹا رہوں گا [ اور کسی حملے کے خوف سے پیچھے نہیں ہٹوں گا ] [یہ تو ان کا جذبہ تھا مگر ]اس دن جھنڈا برداری کی سعادت حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کو نصیب ہوئی۔ ( الجامع لاحکام القرآن )

٭ حضرت عبداللہ بن مبارک عطیہ بن ابی عطیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کوفہ کی لڑائی کے دنوں میںحضرت ابن ام مکتوم کو دیکھا کہ وہ [شوق جہاد میں] اپنی لمبی زرہ کو لشکر کی صفوں کے درمیان گھسیٹتے پھر رہے تھے۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک)

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ آیت انفروا اخفافا وثقالا پڑھی تو فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جہاد کا حکم دیا ہے اور ہم بوڑھے ہوں یا جوان ہمیں نکلنے کا حکم دیا ہے[ان کے عزم اور تیاری کو دیکھ کر ] ان کے بیٹھے کہنے لگے کہ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں جہاد فرمایا ہے اب ہم آپ کی طرف سے جہاد کریں گے [ مگر وہ خود نکلے ] پھر انہوں نے سمندری لڑائی میں حصہ لیا اور دوران جہاد جہاز ہی پر انتقال فرمایا ان کے رفقاء نے کوئی جزیرہ ڈھونڈنا شروع کیا تاکہ انہیں دفن کر سکیں مگر انہیں سات دن بعد اس میں کامیابی ملی [ ان سات دنوں میں ] حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک میں کوئی تغیر نہ آیا۔ (کتاب الجہاد لا بن مبارک)

٭ حضرت امام ضحاک رحمہ اللہ آیت کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جب جہاد کی آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ گراں گزری پھر جب اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کا اجرو ثواب ان کی فضیلت اور شہادت کے بعد ان کی زندگی اور ان کیلئے [ خاص ] روزی کا بیان فرمایا تو پھر [ اللہ تعالیٰ کے وعدں پر ] یقین رکھنے والوں نے جہاد پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دی پس انہوں نے جہاد کو اپنا محبوب بنالیا اور اس میں انہیں خوب رغبت ہوگئی یہاں تک کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں جانے کیلئے سواری مانگتے تھے۔ مگر جب اللہ کے رسول ان کے لئے سواری نہ پاتے تو وہ روتے ہوئے واپس لوٹتے تھے اس غم میں کہ ان کے پاس جہاد کیلئے خرچہ نہیں ہے۔ (کتاب الجہاد لا بن مبارک)

٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگوں پر تین سفر لازم کر دئیے گئے ہیں حج، عمرہ اور جہاد۔
٭ حضرت مکحول رحمہ اللہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ قبلہ رخ ہو کر دس قسمیں کھاتے اور فرماتے کہ جہاد تم پر فرض ہے پھر فرماتے کہ اگر تم چاہو تو میں [ تمہارے اطمینان قلب کے لئے ] مزید قسمیں بھی کھا سکتا ہوں۔ (مصنف عبدالرزاق)

 
فصل

فرض عین۔ فرض کفایہ
[ اس فصل میں مصنف رحمہ اللہ نے جہاد کا حکم بیان فرمایا ہے کہ جہاد کب تک فرض کفایہ رہتا ہے اور کب فرض عین ہو جاتا ہے اسی ضمن میں مصنف رحمہ اللہ نے فرض کفایہ اور فرض عین کا معنی بھی بیان فرمایا ہے اور جہاد کے حکم کے بارے میں مختلف فقہاء کرام کے اقوال کو بھی اس فصل میں جمع فرما دیا ہے آئیے اب ان اقوال اور مسائل کو ترتیب کے ساتھ پڑھتے ہیں اور یہ غور کرتے ہیں کہ ان اقوال و مسائل کی روشنی میںہمارے زمانے میں جہاد کا حکم کیا ہے ۔ ]

( ۱ ) تمام علماء کرام کا اتفاق ہے کہ جب تک کافر اپنے ملکوں میں ہوں تو ان سے جہاد کرنا اور ان کے ملکوں پر چڑھائی کرنا فرض کفایہ ہے۔

( ۲ ) حضرت سعید ابن المسیب اور علامہ ابن شبرمہ [جیسے حضرات تابعین ] کے نزدیک ہر حال میں جہاد فرض عین ہے [ کیونکہ جو شخص بغیر جہاد کئے مر جائے اور اس نے جہاد کی نیت بھی نہ کی ہو تو وہ منافقت کے ایک حصے پہ مرتا ہے چونکہ نفاق سے بچنا اور ایمان لانا فرض عین ہے اسی لئے جہاد بھی فرض عین ہے یہ دونوں حضرات اور ان کے ہم خیال اکابر اس طرح کے اور بھی دلائل جہاد کے ہرحال میںفرض عین ہونے پر پیش فرماتے ہیں ]

( ۳ ) فرض کفایہ کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اگر اتنے لوگ جہاد کیلئے نکل کھڑے ہوں جو اس کام کیلئے کافی ہو رہے ہوں تو باقی لوگوں سے جہاد کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور ان پر جہاد چھوڑنے کا گناہ بھی نہیں رہتا لیکن اگر سارے مسلمان جہاد چھوڑ کر بیٹھ جائیں تو صحیح قول کے مطابق جتنے بھی لوگ شرعی معذور نہیں ہیں وہ سب گنہگار ہوجائیں گے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس صورت میں سب لوگ گنہگار ہوں گے معذور بھی اور غیر معذور بھی۔

( ۴ ) فرض کفایہ کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ سال میں ایک مرتبہ ضرور کافروں کے کسی ملک یا علاقے پر حملہ کیا جائے اور اس سے زیادہ بار حملہ کرنا بغیر کسی اختلاف کے افضل ہے اور مسلمانوں کیلئے یہ ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ کوئی سال ایسا گزاریں جس میں انہوں نے کافروں پر حملہ نہ کیا ہو البتہ مندرجہ ذیل مجبوریوں کی وجہ سے ایسا کرنا جائز ہے، مسلمانوں کی کمزوری دشمن کی بہت زیادہ کثرت، مسلمانوں کی مکمل شکست اور مکمل خاتمے کا خطرہ، سامان کی کمی، جانوروں کے چارے کی کمی وغیرہ [ یعنی ان ضروریات اور اعذار کی وجہ سے فرض کفایہ جہاد کو موخر کیا جا سکتا ہے تاکہ مسلمان اچھی طرح تیاری کر سکیں لیکن اگر جہادفرض عین ہوچکا ہو تو پھر موخر کرنے کی گنجائش نہیں رہتی جیسا کہ آگے اس کا ذکر آئے گا ] لیکن اگر تاخیر کیلئے کوئی ضرورت یا عذر نہ ہو تو پھر ایک سال تک جہاد کا ناغہ کرنا ہرگز جائز نہیں ہے اس بات کو امام شافعی رحمہ اللہ نے مکمل وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔(کتاب الام ص ۱۶۸ج۔۴)

( ۵ ) امام الحرمین رحمہ اللہ (المتوفی ۴۷۸) ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس بارے میں زیادہ بہتر قول حضرات اصولیین کا ہے وہ فرماتے ہیں کہ جہاد ایک قہری دعوت ہے [ یعنی اسلام ایک ایسی دعوت ہے جس کے پیچھے طاقت کارفرما ہوتی ہے ] اس لئے جس قدر ممکن ہو اسے ادا کرنا چاہئے تاکہ دنیا میں یا تو مسلمان باقی رہیں یا ذمی [ یعنی وہ کافر کو مسلمانوں کو جزیہ دیتے ہوں ] چنانچہ [ فرض کفایہ کی ادائیگی کیلئے ] سال میں ایک مرتبہ جہاد کی تخصیص نہیں کرنی چاہئے بلکہ اگر ایک سے زیادہ مرتبہ حملہ کرنے کا امکان ہو تو اس سے دریغ نہ کیا جائے، حضرات فقہاء کرام نے سال میں ایک مرتبہ جہاد کی جو بات فرمائی ہے تو اس کا تعلق اس سے ہے کہ عام طور پر ہر سال میں ایک ہی بار یہ ممکن ہوتا ہے کہ اسلامی لشکر کی تیاری کے لئے افراد و اموال کو جمع کیا جا سکے۔ (روضۃ الطالبین ص۲۰۹ج۔ ۱ )؂
(۶ ) حنابلہ میں سے صاحب المغنی [ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ ] فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عذر نہ ہوتوسال میں کم از کم ایک بار جہاد کرنا [ یعنی خود کافروں کے ملک پر حملہ کرنا ] فرض ہے۔ اور اگر ایک مرتبہ سے زائد کی ضرورت پڑے تو وہ بھی فرض ہوگا کیونکہ جہاد فرض کفایہ ہے [ تو جب تک کفایت نہ ہو اس کی فرضیت باقی رہے گی] اس لئے جتنی مرتبہ کی ضرورت ہوگی اتنی مرتبہ فرض ہوگا۔ (المغنی ص۳۴۸ج۔۸)

(۷) امام قرطبی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے امام پر سال میں ایک مرتبہ دشمنان اسلام کی طرف لشکر بھیجنا فرض ہے امام یا خود اس لشکر کے ساتھ نکلے گا یا پھر اپنے کسی معتمد کو بھیجے گا۔ پھر یہ امام یا اس کا نائب دشمنان اسلام کے پاس پہنچ کر انہیں اسلام کی دعوت دیں گے اور [ دعوت قبول نہ کرنے کی صورت میں] ان کی طاقت کو توڑیں گے اور اللہ کے دین کو غالب کریں گے اور یہاں تک [ ان سے لڑیں گے] کہ یا تو وہ مسلمان ہوجائیں یا جزیہ دینا منظور کرلیں۔ (الجامع لاحکام القرآن ص ۱۵۲ج۔۸)

(۸) جہاد فرض نہیں ہے بچے، پاگل، عورت اور اس شخص پر جو کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے وہ جہاد نہ کر سکے۔ لیکن ایک آنکھ سے معذوری، سردرد، داڑھ کے درد اور ہلکے بخار کی وجہ سے جہاد کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی اسی طرح اس شخص پر بھی جہاد فرض ہے جو معمولی لنگڑا ہو یہ امام احمد رحمہ اللہ کا مسلک ہے اور میرے خیال میں کسی [ فقیہ ] کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
(المغنی لابن قدامہ۔ صف ۳۴۷،۳۴۸۔ج۔۸)

( ۹ ) علماء کرام کا اتفاق ہے کہ [ فرض کفایہ ] جہاد مسلمان والدین کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے ماں باپ کی غیر موجودگی میں دادا دادی کا بھی یہی حکم ہے بلکہ صحیح قول کے مطابق والدین کے ہوتے ہوئے بھی دادادادی سے اجازت ضروری ہے۔(المغنی لابن قدامہ۔ص۳۵۸ج۔۸)
مسئلہ: اگر کسی کو اس کے والدین نے جہاد کی اجازت دے دی مگر پھر انہوں نے اجازت واپس لے لی اب اگر اجازت کی واپسی ان کے لڑکے کے محاذ جنگ پر پہنچنے سے پہلے ہوئی ہے تو لڑکے پر لازم ہے کہ واپس آجائے مگر یہ کہ واپسی میں اسے جان ومال کا یا دوسرے مجاہدین کے دل ٹوٹنے کا خطرہ ہو [ اگر ایسا ہو تو وہ واپس نہ آئے ] اگر اسے راستے میں ماں باپ کی طرف سے اجازت واپس لینے کی اطلاع ملی مگر وہ اکیلا واپس آنے میں خطرہ محسوس کرتا ہے تو اگر اسے راستے میں کہیں قیام کی جگہ مل جائے تو وہاں رکا رہے اور جب لشکر واپس آئے تو ان کے ساتھ یہ بھی لوٹ آئے لیکن اگر والدین نے جنگ شروع ہونے کے بعد اپنی اجازت واپس لے لی تو ایسے وقت میں اس کیلئے واپس آنا حرام ہے۔ [کیونکہ جب دونوں لشکر آمنے سامنے آجائیں تو جہاد فرض عین ہوجاتا ہے اور فرض عین میں والدین کی اجازت ضروری نہیں ہوتی۔] (المغنی لابن قدامہ ص۳۵۹ ج۔۸)

( ۱۰ ) [ جہاد اگر فرض کفایہ ہو تو ] اس آدمی کے نکلنے کا کیا حکم ہے جس پر قرضہ ہو۔ اس بارے میں فقہاء کرام کے مختلف اقوال میں امام ابوبکر ابن المنذر نے کتاب الاشراف میں لکھا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے تو ایسے مقروض شخص کو جہاد میں جانے کی اجازت دی ہے جس کے پاس قرض کی ادائیگی کیلئے کچھ نہ ہو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے بھی مقروض شخص کو بغیر قرض خواہ کی اجازت کے نکلنے کی رخصت دی ہے امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مقروض آدمی کیلئے جہاد میںنکلنے کی اجازت تب ہے جب وہ اپنے قرض خواہوں سے پوچھ لے خواہ قرض خواہ مسلمان ہوں یا کافر۔ ( کتاب الام ص۱۶۳ج۔۴)
ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احد کی لڑائی میںحضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے والد جہاد میںنکلے تھے حالانکہ ان پر قرض تھا۔ (صحیح بخاری)

اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو بھی ان کے مقروض ہونے کا علم تھا مگر کسی نے انہیں جہاد میں نکلنے سے نہیں روکا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مقروض آدمی کیلئے جہاد منع نہیں ہے بشرطیکہ اس نے ایسا ترکہ چھوڑا ہو جس سے قرض کی ادائیگی ہو سکتی ہو۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے اور انہوں نے ابن المنذر کی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت عبداللہ بن حرام کے واقعے سے دلیل پکڑی ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ص ۲۶۰ج۔۸)واللہ اعلم۔
امام ابو زکریا نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے جہاد سے نہیں روکا جائے گا کیونکہ اس سے فوری ادائیگی کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا اور اگر مقروض تنگ دست نہ ہو تو اگر وہ قرضے کی ادائیگی کیلئے اپنا کوئی ایسا نائب بنا جائے جو اس کے موجودہ مال میں سے قرض ادا کر سکے تو ایسے مقروض کو جہاد میں نکلنے کی اجازت ہے لیکن اگر وہ اپنے نائب کو کسی غیر موجود مال میں سے قرض ادا کرنے کا کہے تو پھر اس کیلئے نکلنا جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر قرضے کی ادائیگی کیلئے کوئی وقت مقرر ہے تو پھر [ اس وقت سے پہلے ] مقروض کو جہاد میں نکلنے سے نہیں روکا جائے گا یہی قول زیادہ صحیح ہے۔ (روضۃ الطالبین ص ۲۱۰ج۔۱۰)
 
جہاد اگر فرض عین ہوجائے
( ۱۱ ) مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سارے مسائل اس وقت کے ہیں جب جہاد فرض کفایہ ہو۔ لیکن اگر کافر ہمارے کسی شہر [یا علاقے] میں داخل ہوجائیں یا اس پر چڑھائی کردیں یا شہر کے دروازے کے باہر آکر حملے کی نیت سے پڑاؤ ڈال دیں اور ان کی تعداد اس علاقے کے مسلمانوں سے دگنی یا اس سے کم ہو تو جہاد اس وقت فرض عین ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکلے گا اور عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر نکلے گی۔ بشرطیکہ اس میں دفاع کی طاقت ہو۔ یہی قول زیادہ صحیح ہے اور ہر شخص اپنے والدین کی اجازت کے بغیر اور مقروض قرض خواہ کی اجازت کے بغیر نکلے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے اور اگر کافر مسلمانوں پر اچانک حملہ کردیں اور مسلمانوں کو لڑائی کیلئے تیار ہونے اور اکٹھے ہونے کا موقع نہ ملے تو ہر اس شخص پر تنہا لڑنا اور اپنا دفاع کرنا فرض ہے۔جسے معلوم ہو کہ اگر اس نے ہتھیار ڈال دئیے تو وہ مارا جائے گا یہ مسئلہ ہر مسلمان کیلئے ہے خواہ وہ آزاد ہو یا غلام، عورت ہو یا اندھا، لنگڑا ہو یا بیمار، اور اگر امکان ہو کہ ہتھیار ڈالنے کے بعد قتل بھی ہو سکتے ہیں اور [بچ کر ] گرفتار بھی تو ایسے وقت میں لڑنا افضل ہے اور ہتھیار ڈالنا جائز۔اور اگر عورت کو علم ہو کہ اگر میں نے ہتھیار ڈال دئیے تو [غلیظ] ہاتھ میری طرف بڑھیں گے تو اس پر اپنے دفاع میں لڑنا فرض ہے اگرچہ اس میں اس کی جان بھی چلی جائے کیونکہ جان بچانے کیلئے عزت کو داؤ پر لگانا جائز نہیں ہے۔

علامہ اذرعی [ المتوفی ۷۸۳ ] اپنی کتاب غنیتہ المحتاج میں فرماتے ہیں کہ خوبصورت بے ریش لڑکے کو اگر علم ہو کہ اس کے ساتھ کافر ابھی یا آئندہ بے حیائی کا ارتکاب کرسکتے ہیں تو اس کا حکم بھی عورت کی طرح ہے بلکہ عورت سے بھی بڑھ کر [ اسے اپنے دفاع کی کوشش کرنی چاہئے اور عصمت کی حفاظت کیلئے جان کی قربانی دینی چاہئے ] اور اگر جس علاقے پر کافروں نے حملہ کیا ہے وہاں مسلمانوں کی کثرت ہو اور اتنے لوگ کافروں کے مقابلے پر نکل چکے ہوں جو مقابلے کیلئے کافی ہوں تب بھی باقی مسلمانوں پر زیادہ صحیح قول کے مطابق ان مجاہدین کی مدد کرنا فرض ہے۔ اور جو شخص ایسی جگہ پر ہو جہاں سے حملہ آور دشمن مسافت سفر [ یعنی اڑتالیس میل کی مسافت ] پر ہوں تو اس شخص پر اسی طرح جہاد فرض عین ہو جائے گا جیسا کہ اس علاقے والوں پر فرض ہے جہاں دشمن نے حملہ کیا ہے۔ علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ کافروں کے حملے کے بعد اب یہ جہاد دفاعی ہوچکا ہے۔ اقدامی نہیں رہا اس وجہ سے یہ ہر اس شخص پر فرض ہوگا جو اس کی طاقت رکھتا ہو [ تاکہ مسلمانوں کے علاقے اور ان کی جان و مال کا دفاع کیا جا سکے جوکہ فرض عین ہے۔ ] اور جو شخص اس شہر سے جس پر کافروں کا حملہ ہو اہے مسافت سفر [ اڑتالیس میل ] کی دوری پر ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ فوراً اس شہر کی طرف جہاد کیلئے روانہ ہو اگرچہ وہ خود اس شہر یا اس کے آس پاس کا رہنے والا نہ ہو اور اگر اتنے لوگ وہاں جاچکے ہوں جو دشمن کیلئے کافی ہوں تو پھر باقی لوگوں سے فرضیت تو ساقط ہو جائے گی لیکن وہ نہ جانے کی صورت میں اجر عظیم اور بے انتہا ثواب سے محروم ہوجائیں گے۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ مسافت سفر کے اندر والوں پر سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی اگرچہ کافی مقدار میں لوگ دشمن کے مقابلے پر جاچکے ہوں بلکہ ان پر مجاہدین کی مدد کرنا ور خود میدان جنگ کی طرف سبقت کرنا فرض ہوگا۔

( ۱۲ ) وہ مسلمان جو اس شہر سے جس پر کافروں نے حملہ کیا ہے مسافت سفر [ اڑتالیس میل ] سے زیادہ دور رہتے ہوں تو ان کا کیا حکم ہے؟ زیادہ صحیح قول تو یہ ہے کہ اگر مسافت سفر کے اندر کے لوگ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی ہورہے ہوں تو پھر ان لوگوں پر جہاد فرض عین نہیں ہوتا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ جہاد الاقرب فالاقرب کی ترتیب سے فرض ہوتا چلا جاتا ہے اس میں کسی مسافت وغیرہ کی قید نہیں ہے بلکہ قریب والوں پر پھر ان کے بعد والوں پر پھر ان کے بعد والوںپر جہاد فرض ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ یہ خبر آجائے کہ کافروں کو شکست ہوگئی اور وہ مسلمانوں کا علاقہ چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔

( ۱۳ ) جو شخص لڑائی والے شہر سے مسافت سفر کے اندر ہوگا اس پر جہاد کی فرضیت کیلئے سواری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ اگر مسافت سفر سے دور ہوتو بعض حضرات سواری کو شرط قرار دیتے ہیں جبکہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ایسے سخت حالات میں سواری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ توشے کا ہونا جہاد کی فرضیت کیلئے شرط ہے کوئی قریب ہو یا دور۔

( ۱۴ ) اگر کافر مسلمانوں کے ملک میں ان کے شہروں اور آبادیوں سے دور ویرانوں میں یا پہاڑوں میں داخل ہوجائیں تو ان کا کیا حکم ہے؟ امام الحرمین نقل فرماتے ہیں کہ دارالاسلام کے کسی بھی حصے میں داخل ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی شہر میں داخل ہونا [ اس لئے ان کو نکالنے کیلئے جہاد فرض عین ہوگا۔] لیکن خود امام الحرمین کا رجحان اس طرف ہے کہ جن علاقوں میں کوئی آباد ہی نہیں ہے ان کیلئے لڑائی کرنا اور خود کو تکلیف میں ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام الحرمین کا یہ رجحان قطعاً درست نہیں ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان دفاع کی قوت رکھتے ہوئے بھی کافروں کو دارالاسلام کے کسی حصے پر قبضہ کرنے کی اجازت دے دیں۔ (روضۃ الطالبین ص ۲۱۶ ج۔۱۰) واللہ اعلم۔

( ۱۵ ) علامہ قرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کافر دارالاسلام میں داخل نہ ہوئے ہوں مگر اس کے قریب آچکے ہوں تب بھی مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ کافروں کے مقابلے کیلئے باہر نکلیں اور [ اور لڑتے رہیں ] یہاں تک کہ اللہ کا دین غالب ہو اور مرکز اسلام محفوظ، سرحدیں بے خطر اور دشمن ذلیل وخوار ہوجائے۔ (الجامع لاحکام القرآن ص ۱۵۱ج۔۸)

اور یہی مطلب ہے علامہ بغوی کے اس قول کا کہ اگر کافر دارالاسلام میں داخل ہو جائیں تو قریبی لوگوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے اور دور والوں پر فرض کفایہ رہتا ہے [بشرطیکہ قریب والے مقابلہ کررہے ہوں اور کافی ہو رہے ہوں ] (شرح السنہ ص ۳۷۴ج۔ ۱۰ )یہ مسئلہ پہلے بھی گذر چکا ہے۔ واللہ اعلم۔

[ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں ] اس باب کی مناسبت سے یہ چند مسائل میں نے یہاں ذکر کردئیے ہیں ان مسائل کی تفصیلات کی اصل جگہ فقہ کی کتابیں ہیں۔ واللہ اعلم۔

[ آپ نے جہاد کے فرض عین اور فرض کفایہ ہونے کی بحث پڑھ لی ہے یہی وہ بحث ہے جسے آڑ بنا کر آج بہت سارے مسلمان خود بھی جہاد چھوڑ بیٹھے ہیں اور دوسروں کو بھی اس بحث میں الجھا کر جہاد سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ آپ نے خود پڑھ لیا کہ جہاد اس وقت فرض کفایہ ہوتا ہے جب مسلمان کافروں کی طرف سے امن میں ہوں۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا آج مسلمان امن میں ہیں؟ یقینا آپ کو ہر طرف مسلمانوں کی چیخ وپکار اور ان کی برہنہ لاشیں اور عقوبت خانوں میں سسکتی جوانیاں چیخ چیخ کر بتائیں گی کہ مسلمان ہر گز امن میں نہیں ہیں بلکہ ان پر تو وہ ظلم ڈھائے جارہے ہیں جو سفاک درندے بھی کمزور جانوروں پر نہیں ڈھاتے۔ جہاد تو اس وقت فرض کفایہ ہوتا ہے جب کافر اپنے ملکوں میں ہوں اور ان کی فوجیں ان کی سرحدوں کے اندر ہوں۔ مگر آج ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ امریکی فوجیں ہوں یا ہندوستانی، برطانوی لشکر ہوں یا فرانسیسی، سربیائی درندے ہوں یا اسرائیلی، ایتھوپیا کے کالے کافر ہوں یا اقوام متحدہ کی وردی پہنے گورے کافر، یہ سب کے سب ہماری سرحدوں کے اندر گھس کر ہمارے علاقوں پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ اور انہوں نے پوری دنیا میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے تو کیا اب بھی جہاد فرض کفایہ ہے۔ امریکی راکٹ اسلامی امارت پر گر رہے ہیں برطانوی جہازوں کی گھن گرج حدود حرم میں سنائی دے رہی ہے اور ترکی کی خلافت کا خون آلود چہرہ ہماری نظروں کے سامنے بار بار آتا ہے اور ہمیں برے انجام سے ڈراتا ہے۔ کیا ان حالات میں بھی جہاد فرض کفایہ ہی رہے گا اگر جہاد اب بھی فرض کفایہ ہے تو پھر فرض عین کب ہوگا؟ کیا اس وقت جب امت کے مردہ جسم تک کو بیچ دیا جائے گا کیا اس وقت جب اسرائیل کے یہودی خیبر کے بعد نعوذ باللہ مدینہ منورہ میں جشن منا رہے ہوں گے کیا اس وقت جب ہمارا گوشت ریسٹورنٹوں میں پکا کر کھایا جائے گا۔ شاید اب تک یہی کچھ نہیں ہوا ، ورنہ تو سب کچھ ہوچکا ہے ہماری زندہ مسلمان بہنوں کے ساتھ ساتھ شہید ہونے والیوں تک کو نہیں بخشا گیا۔ ہمارے بچوں کے سروں سے فٹ بال تک کھیلی جاچکی ہے۔ شعائر اسلام کو دنیا میں ذلیل و رسوا کیا جارہاہے۔ چلئے تھوڑی دیر کیلئے آنکھیں بند کرکے اور دل تھام کر یہ مان لیتے ہیں کہ جہاد فرض کفایہ ہے تو ذرا بتائیے کہ یہ کفایہ آج کون ادا کررہاہے فرض کفایہ جہاد کا مطلب تو یہ ہے کہ مسلمان خود جا کر کافروں کے ملک پر حملہ کریں یہ حملہ آج دنیا میں کہاں ہو رہا ہے فرض کفایہ میں تو مسلمانوں کے لشکر حملہ کرتے ہیں مگر آج خود ہم پر حملے کئے جارہے ہیں۔ فرض کفایہ جہاد میں تو مسلمانوں کے مسلح لشکر کافروں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں مگر آج تو ہمارے ملکوں میں ہماری نسلوں کو مرتد کیا جارہا ہے فرض کفایہ جہاد میں تو مسلمان کافروں سے جا کر کہتے ہیں کہ اگر اسلام قبول نہیں کرتے ہو تو پھر ہمارے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرو اور ہمیں جزیہ دے کر امن سے رہو۔ مگر آج تو ہم خود کافروں کو جزیہ دیتے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی شکل میں ان کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور پھر بھی ہمیں امن کی بھیک نہیں ملتی۔ معلوم ہوا کہ فرض کفایہ بھی ادا نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے آج پوری امت ذلت و پستی کا شکار ہے اور کافر قومیں اسے نوچ نوچ کر کھا رہی ہیں۔
اے مسلمانو! اب اس بحث کا وقت نہیں رہا کہ جہاد فرض عین ہے یا فرض کفایہ بلکہ اب تو جہاد ہر فرض سے بڑا فرض ہے اور ایسا فرض ہے جس پر ہماری زندگی، ہمارا ایمان اور ہماری نسلوں کا ایمان موقوف ہے۔ تم اسے فرض عین سمجھو یا فرض کفایہ تمہارے دشمنوں نے تمہیں مٹانا اپنے اوپر فرص کر رکھا ہے وہ اپنی فوجیں لے کر میدان میں اتر آئے ہیں کل تک مسلمانوں کے پاس مرکزیت کا فقدان تھا مگر الحمدللہ آج افغانستان میں اسلامی امارت قائم ہوچکی ہے۔ اے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپاہیو! آج اسلام کی عزت کا مسئلہ ہے تمہاری غیرت کس طرح سے یہ بات گوارا کرتی ہے کہ جن علاقوں کو تمہارے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاک خون اور پسینے بہا کر آزاد کرایا تھا اب وہ پھر یہودیوں کی دسترس میں ہیں فضول لفظی بحثیں چھوڑو زمین پر دیکھو کفر تمہیں چیلنج کررہاہے اور آسمان کی طرف دیکھو رب کے فرشتے تمہارے ساتھ اتر کر لڑنے کے منتظر ہیں۔]
 
فصل
ان لوگوں کیلئے بعض وعیدوں کا بیان جو جہاد کو چھوڑ دیں،
اس سے پہلو تہی کریں یا بغیر جہاد کئے مرجائیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
( ۱ ) [arabic]قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ۔[/arabic](التوبہ۔۲۴)
آپ فرما دیجئے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بند ہوجانے کا تم کو ڈر ہے اور وہ گھر جس کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اسکے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب وسزا) بھیج دیں اور اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتے۔

اس آیت شریفہ میں ان لوگوں کیلئے کافی تنبیہ، ملامت اور دعوت خوف ہے جو بے رغبتی یا اہل و مال میں مگن ہونے کی وجہ سے جہاد چھوڑ دیتے ہیں۔
فاعتبرو ایااولی الابصار

٭ حدیث میں آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہلاک ہوگئے وہ لوگ جنہیں اپنے ماں باپ کی وجہ سے دوزخ میں گھسیٹا جائے گا۔ (شفاء الصدور)
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
( ۲ ) [arabic]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلا قَلِيلٌ إِلا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔ [/arabic]( التوبہ۔ ۳۸،۳۹)
اے ایمان والوں ! تم لوگوں کو کیا ہوا ؟ جب تم سے کہا جاتا ہےکہ اللہ کے راستے میں [جہاد کے لئے ] کوچ کرو تو تم زمین پر گرے جاتے ہو کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر راضی ہوچکے ہو (حالانکہ) دنیا کی زندگی کا نفع اٹھانا تو آخرت کے مقابلے میں (کچھ بھی نہیں) بہت تھوڑا ہے اگر تم (جہاد میں) نہیں نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو سخت سزا دے گا اور تمہارے بدلے دوسری قوم کو پیدا کردے گا ( اور ان سے اپنا کام لے گا) اور تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جہاد چھوڑنے پر سخت وعید اور جہاد سے پیچھے رہ جانے پر سخت عتاب کا بیان ہے اثا قلتم الی الارض کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ زمین پر زندگی کی نعمتوں سے فائدہ حاصل کرنے میں مگن ہو کر جہاد چھوڑ دیتے ہو یا اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں زمین پر زندہ رہنے کا شوق جہاد سے دور رکھتا ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاد سے ناپسندیدگی کا اظہار کرکے اسے چھوڑ دینا ہر مسلمان پر حرام ہے۔ اسی طرح وہ فرماتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کا امیر کچھ خاص لوگوں کو جہاد میں نکلنے کا حکم دے دے تو اطاعت امیر کی بنا پر ان لوگوں کے ذمے جہاد فرض عین ہو جائے گا اگرچہ عمومی حالات کے اعتبار سے وہ فرض نہ ہوا ہو۔ چنانچہ [ اسی آیت کریمہ کے حکم کے مطابق ] ان لوگوں کے لئے تثاقل یعنی جہاد سے پیچھے رہ جانا جائز نہیں ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
[ اللہ تعالیٰ غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے منافقوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ]
( ۳ )
1 [arabic]فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ فَإِنْ رَجَعَكَ اللَّهُ إِلَى طَائِفَةٍ مِنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ۔ [/arabic](سورۃ التوبہ۸۱،۸۲،۸۳،۸۴)
یہ پیچھے رہ جانے والے (منافق) خوش ہوگئے رسول اللہ کے (تشریف لے جانے کے) بعد اور انہیں اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کرنا ناگوار ہوا اور (وہ دوسروں کو بھی) کہنے لگے کہ تم گرمی میں نہ نکلو آپ فرما دیجئے کہ جہنم کی آگ زیادہ گرم ہے اگر ان کو سمجھ ہوتی، پس وہ ہنس لیں تھوڑا (یعنی چند روز) اور روئیں بہت (یعنی آخرت میں) اپنے اعمال کے بدلے میں۔ تو اگر اللہ تعالیٰ آپ کو (اس سفر سے واپسی پر) ان کے کسی گروہ کی طرف واپس لائیں پھر یہ لوگ آپ سے جہاد میں نکلنے کی اجازت مانگیں تو آپ فرما دیجئے کہ تم ہرگز میرے ساتھ نہیں نکلو گے اور نہ میرے ساتھ ہو کر کسی دشمن سے لڑو گے تم نے پہلی بار بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا بس تم لوگ پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو اور ان میں سے کوئی مرجائے تو کبھی بھی آپ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیئے اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہوں۔ کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور حالت کفر پر ہی مرے ہیں۔

اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے اس آیت میں غور کرو کہ جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں اور اس میں جان و مال خرچ نہ کرنے والوں کیلئے کتنی سخت وعید، کتنی بڑی رسوائی اور کتنا دردناک وبال ہے یہ آیات اگرچہ کچھ خاص [ منافق] لوگون کے بارے میں نازل ہوئی ہیں لیکن ان میں ان تمام افراد کے لئے سخت تنبیہ اور وعید ہے جو ان منافقوں جیسے کام کریں گے اور منافقوں کی طرح فرض جہاد سے پیچھے رہ جائیں گے۔ بس اسی سے اندازہ لگا لو کہ جہاد کا چھوڑنا کتنا برا کام ہے [ کہ مسلمان کو منافقوں کی صف میں شامل کردیتا ہے ] اور اس پر کتنی سخت وعید ہے۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم خرید و فروخت میں مشغول ہو جاؤ گے اور گائے کی دم پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی سے دل لگا لو گے اور جہاد کو چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت کو مسلط فرما دے گا اور اس وقت تک تم سے اس ذلت کو نہیں ہٹائے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف نہیں لوٹ آؤ گے۔ (ابوداؤد)

مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ لوگ جب جہاد کو چھوڑ کر کھیتی باڑی اور اس طرح کے دوسرے کاموں میں مشغول ہوں گے تو ذلت اور پستی ان کا مقدر بن جائے گی اور وہ اس ذلت سے اسی وقت چھٹکارا پاسکیں گے جب کافروں سے جہاد کریں گے ان سے نفرت اور سختی کا برتاؤ کریں گے، دین کو نافذ کریں گے، اسلام اور مسلمانوں کی نصرت کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے اور کفر اور کافروں کو مغلوب کرنے کیلئے محنت کریں گے [ یاد رکھئے ] یہ سب کچھ ان کے ذمے [ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ] لازم ہے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ حتی ترجعوا الی دینکم [ یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ آؤ] اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دنیا داری میں پڑکر جہاد کو چھوڑ دینا دین اسلام کو چھوڑنا اور اس سے الگ ہونا ہے [ استغفراللہ ] اسی سے اندازہ لگائیے کہ ترک جہاد کتنا بڑااور کھلا گناہ ہے۔

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے ایک بار جہاد کیا اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حق ادا کردیا۔
فَمَنْ شَآئَ فَلْےُؤْ مِنْ وَمَنْ شَآئَ فَلْےَکْفُرْ اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِےْنَ نَارًا۔ [جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر ہو ہم نے تو کافروں کیلئے آگ تیار کررکھی ہے] حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ آپ سے یہ حدیث سننے کے بعد اب کون جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھے گا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص جہاد چھوڑے گا جس پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے دردناک عذاب تیار کررکھا ہوگا یہ آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے جو جہاد کو نہیں مانتے ہوں گے۔ میرے رب نے یہ عہد کر رکھا ہے اور اس عہد کو وہ نہیں توڑے گا کہ ان منکرین جہاد میں سے جو بھی اس سے ملے گا وہ اسے ایسا عذاب دے گا جو جہاں والوں میں سے کسی اور کو نہیں دے گا۔ یہ حدیث ابن عساکر نے روایت کی ہے۔ [ اور یہ حدیث بہت ضعیف ہے]
٭ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے ایک سال بعد لوگوں کو خطبہ دیا اس وقت آپ کا گلہ رونے کی وجہ سے رندھا ہوا تھا اور آپ فرما رہے تھے: اے لوگو! میں نے پچھلے سال اسی مہینے میں اسی منبر پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے جو قوم بھی اللہ کے راستے میں جہاد چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کردیتا ہے اور جو قوم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر عمومی عذاب مسلط فرما دیتا ہے (شفاء الصدور) [یہ حدیث بھی ضعیف ہے ]
اسی روایت کو طبرانی نے اچھی سند کے ساتھ مختصر روایت کیا ہے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر عمومی عذاب کو مسلط فرما دیتے ہیں۔
امام شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے خلافت کی بیعت کی تو آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان فرمائی جس میں یہ الفاظ بھی تھے جو لوگ جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر فقر [یعنی دوسروں کی محتاجگی ] کو مسلط فرما دیتے ہیں۔ اس پر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ہم نے تو بہت سارے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ جہاد نہیں کرتے مگر پھر بھی وہ اغنیاء ہیں [ یعنی کسی کے محتاج نہیں ہیں ] ۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے اصل غنی تو وہ ہے جس کا دل غنی ہو جیسا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے پرواہی (اور وسعت) زیادہ مال و اسباب کی بدولت نہیں ہے بلکہ اصل بے پرواہی تو دل کی بے پرواہی ہے۔ [ کہ دل میں محتاجگی اور لالچ نہ ہو] آج ہم لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ جہاد چھوڑ کر اور مال غنیمت سے محروم ہو کر وہ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں محتاجگی، حرص اور بخل کے امراض ڈال دئیے ہیں چنانچہ وہ اپنے مال کے واجب حقوق [ زکوٰۃ وغیرہ تک ] ادا نہیں کرتے بلکہ مختلف طریقوں سے حرام کھاتے ہیں جیسا کہ ناجائز ٹیکس [ رشوت ] وغیرہ اور دنیا کا ادنیٰ سے ادنیٰ مال بھی ان کی نظر میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اور حرص و لالچ نے انہیں ذلیل و رسوا کر رکھا ہے اگر تم ان کے حالات پر غور کرو تو ان میں سے اکثر کو دیکھو گے کہ وہ طرح طرح کی ذلتوں کا شکار ہیں اور وہ زیادہ پانے کی لالچ اور نقصان سے بچنے کیلئے معلوم نہیں کس کس کے سامنے جھکتے ہیں اور کس کس کی بندگی کرتے ہیں اور اگر یہ لوگ غنی ہوتے تو انہیں کسی کے آگے جھکنے کی ضرورت کیوں پیش آتی یہ لوگ ظاہری طور پر اگرچہ مالدار نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں یہ فقیر اور محتاج ہیں، ظاہری طور پر یہ لوگ معزز ہیں مگر ذلت ان کے دل ودماغ پر مسلط ہوچکی ہے جبکہ وہ شخص جو اپنی روزی تلوار [ مال غنیمت ] کے ذریعے حاصل کرتا ہے اسے اس طرح کی ذلت یا پریشانیوں کا بالکل سامنا نہیں ہوتا کیونکہ اسے جو کچھ ملتا ہے اس میں اللہ کے سوا کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا [ اسی لئے وہ ہر کسی سے آزاد رہتا ہے ] اور پھرچونکہ مال غنیمت بغیر شبہہ کے خالص حلال مال ہے اس لئے اسے استعمال کرنے سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے اور لالچ، حرص، بخل وغیرہ جیسے اندھیرے خود بخود مٹ جاتے ہیں۔ چنانچہ مجاہد اگرچہ ظاہری طور پر غریب وفقیر نظر آتا ہے مگر اس کا دل غنی ہوتا ہے اس کے اوپر اگرچہ مسکینی کی چھاپ نظر آتی ہے لیکن اس کا دل عزت و عظمت کا دھنی ہوتا ہے [ اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی اکافرین ]

٭یہ تو مجاہد کا حال ہوا لیکن اس کے برعکس وہ لوگ جو مشتبہ طریقوں سے مال کماتے ہیں اور اپنی لالچی طبیعت کی وجہ سے مخلوق کے محتاج ہوتے ہیں وہ ظاہری طور پر معزز نظر آتے ہیں مگر طرح طرح کی ذلتیں ان کے دلوں پر براجمان ہوتی ہیں۔
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ ارشاد فرماتے ہیں اللہ کے راستے میں جہاد کرنا جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اور جو شخص جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیگا اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کردے گا اور مصیبتیں اس پر چڑھ دوڑیں گی اور پستی اس پر چھا جائے گی اور وہ مشقت کی تکلیف میں ڈالا جائے گا اور اپنا حق لینے [ یعنی انصاف ] سے محروم کر دیا جائے گا۔(شفاء الصدور)

٭ حضرت اسلم رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جہاد ہمیشہ میٹھا [ پسندیدہ] اور تروتازہ رہے گا جب تک آسمان سے بارش برستی رہے گی اور لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آئے گا جب ان میں سے کچھ قرآن پڑھنے والے لوگ کہیں گے کہ یہ جہاد کا زمانہ نہیں ہے پس جو شخص اس زمانے کو پائے [ تو یاد رکھے کہ ] وہی زمانہ جہاد کا بہترین زمانہ ہوگا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اب جہاد کا زمانہ نہیں رہا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ لوگ یہ بات کہیں گے جن پر اللہ کی بھی لعنت ہوگی اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی بھی۔ (شفاء الصدور)

٭ حضرت ابن عمرو القرشی سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک گناہگار آدمی کے گناہ اسے جہاد سے اسی طرح روکے رکھتے ہیں جس طرح قرض خواہ اپنے مقروض کو۔(شفاء الصدور)

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اس حال میں مر گیا کہ نہ تو اس نے جہاد کیا اور نہ اس کے دل میں جہاد کا شوق ابھرا تو وہ نفاق کے ایک حصے پر مرا۔ (صحیح مسلم)

٭ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے (خود بھی) جہاد نہ کیا اور نہ کسی مجاہد کو سامان جہاد فراہم کیا اور نہ کسی مجاہد کے پیچھے اس کے گھر والوں کی بھلائی کے ساتھ دیکھ بھال کی تو اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے اسے کسی مصیبت میں مبتلا فرما دیں گے۔(ابوداؤد۔ ابن ماجہ)

مکحول (موقوفاً) روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس گھر [ یعنی خاندان ] میں سے کوئی بھی جہاد میں نہ نکلے اور نہ وہ کسی مجاہد کو سامان جہاد فراہم کریں اور نہ کسی مجاہد کے پیچھے اس کے گھر والوں کی دیکھ بھال کریں تو اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے ان کو کسی سخت مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔ (مصنف عبدالرزاق)
فائدہ ۔ ۔ ۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ اگر سارے لوگ جہاد سے عمومی طور پر غفلت کررہے ہوں تو اس وقت [ ان وعیدوں سے بچنے کیلئے اور جہاد کے فریضے کو اداء کرنے کیلئے] اکیلا آدمی کیا کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس اکیلے آدمی کو چاہئے کہ وہ کسی ایک مسلمان قیدی کا فدیہ دیکر اسے کافروں سے چھڑا لے۔ اس طرح اس نے اس سے زیادہ کام کیا جتنا وہ اور لوگوں کے ساتھ مل کر کر سکتا تھا کیونکہ اگر کئی لوگ مل کر اس قیدی کو چھڑاتے تو سب کے ذمے تھوڑا تھوڑا مال آتا مگر اب اس شخص نے اکیلے وہ سارا مال اداء کیا [ اور خوب اجر کمایا ] اسی طرح اسے چاہئے کہ اگر ممکن ہو تو اکیلا نکل کر لڑے یا پھر کسی مجاہد کو سامان جہاد اور خرچہ وغیرہ فراہم کرے۔(الجامع لاحکام القرآن)
 
فصل

اے مسلمان تجھے کس چیز نے جہاد سے روک رکھا ہے؟
اے جہاد کے فریضے کو چھوڑنے والے، اے توفیق اور حق کے راستوں سے ہٹنے والے تو کن محرومیوں میں جاگرا ہے اور کس قدر حق سے دور جا پڑا ہے کاش تو بھی بہادروں کے ساتھ معرکوں میں حصہ لیتا تو بھی اللہ کے راستے میں جان ومال لٹاتا مگر تجھے اس سعادت سے روک رکھا ہے یا تو لمبی امیدوں نے یا موت کے خوف نے یا تجھ پر اپنے محبوب مال اور خاندان کی جدائی شاق ہے یا تیرے لئے اپنے بیٹوں، خادموں اور اہل خاندان کے جھرمٹ سے نکلنا مشکل ہے۔ اے جہاد سے محروم رہنے والے یا تو تیری محرومی کا سبب تیرا کوئی پیارا بھائی یا محبوب دوست ہے یا پھر تو زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے میں ایسا لگ گیا ہے کہ جہاد تجھے یاد بھی نہیں رہا۔یا تو اپنی خوبصورت اور باوقار بیوی کی وجہ سے رکا ہوا ہے یا تیری عزت اور تیرا منصب تیرے پاؤں کی بیڑی بنا ہوا ہے۔ یا تو اپنی خوبصورت کوٹھی اور سائے دار باغات میں مست ہوچکا ہے یا پھر شاہانہ لباس اور لذیذ کھانے تجھے جہاد میں نہیں نکلنے دیتے۔ ان چیزوں کے علاوہ اور کچھ ایسا نہیں جو تجھے تیرے رب سے دور کردے اور اگر ان چیزوں نے تجھے تیرے رب سے دور کررکھا ہے تو یہ تیرے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ کیا تو نے اپنے رب کا یہ فرمان نہیں سنا :

(ترجمہ) اے ایمان والو! تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں [جہاد کیلئے ] نکلو تو تم زمین پر گرے جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر راضی ہوچکے ہو۔ سو دنیا کی زندگی کا نفع اٹھانا تو آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا ہے۔(التوبہ:۳۸)

تنبیہ : غور سے سنو! ان ناقابل تردید دلائل کو جو میں تمہیں بتا رہا ہوں اور غور کرو ان واضح دلیلوں پر جو میں تمہیں سنا رہا ہوں تب تمہیں یقین ہوجائے گا کہ تمہیں جہاد سے روکنے والی سوائے تمہاری محرومی اور بدنصیبی کے اور کوئی چیز نہیں ہے اور تمہارے پیچھے رہ جانے کا سبب نفس اور شیطان کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ اگر تو جہاد سے اس لئے دور ہے کہ تو نے لمبی لمبی امیدیں باندھ رکھی ہیں اور اچانک موت سے ڈرتا ہے تو تو ایسی چیز سے بچنے کی کوشش کررہا ہے جس سے تو کبھی نہیں بچ سکتا اور تو ایسے راستے [ یعنی موت] سے ڈررہا ہے جس پر تو نے ایک دن چلنا ہی ہے اللہ کی قسم میدانوں میں آگے بڑھ کر لڑنے سے عمر کم نہیں ہوتی اور نہ جہاد چھوڑنے سے عمر بڑھ جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
( ۱ ) [arabic]وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ [/arabic]۔( الاعراف:۳۴ )
اور ہر ایک فرقے کیلئے [موت کا ] ایک وقت مقر ر ہے جب وہ آجاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کر سکتے ہیں نہ جلدی۔
دوسری جگہ ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے:
( ۲ ) [arabic]وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ [/arabic]َ۔( المنافقون ۔ ۱۱ )
اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو خدا اس کو ہر گز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
( ۳ ) [arabic]كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ [/arabic]۔(العنکبوت:۵۷)
ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے پھر تم ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤ گے۔
اے دھوکے میں پڑے ہوئے انسان! یاد رکھ موت کی ایک خاص سختی ہوتی ہے اور روح نکلنے کا وقت بہت سخت ہے لیکن تم اسے ابھی نہیں سمجھتے اور قبر میں عذاب بھی ہوتا ہے اور اس عذاب سے صرف نیک لوگ محفوظ رہتے ہیں۔ قبر میں دو سخت فرشتے سوال بھی کریں گے [ تب کیا ہوگ اسے قرآن مجید ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے ۔]
( ۴ ) [arabic]يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [/arabic]
۔(ابراہیم:۲۷)
خدا مومنوں(کے دلوں) کو (صحیح اور) پکی بات سے دنیا کی زندگی میں بھی مضبوط رکھتا ہے اور آخرت میں بھی (محفوظ رکھے گا) اور اللہ تعالیٰ بے انصافوں کو گمراہ کردیتا ہے۔
پھر اس خوفناک منظر کے بعد خوش قسمت لوگ ہمیشہ کی نعمتوں اور بدنصیب لوگ سخت عذاب میں ڈال دئیے جائیں گے مگر شہید کے لئے امن ہی امن ہے اور اسے مذکورہ بالا خطرناک حالات میں سے کسی کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شہید کو قتل کے وقت صرف اتنا درد ہوتا ہے جتنا چیونٹی کے کاٹنے کا۔(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

اے مسلمان بھائی! اب کونسی چیز ہے جو تجھے اس سعادت کو حاصل کرنے سے روک رہی ہے جسے پانے کے بعد تو عذاب قبر سے بھی بچ جائے گا اور اللہ کے ہاں بھی کامیاب ہو کر بہترین ٹھکانا پائے گا اور قبر کے سوال سے بھی محفوظ رہے گا۔ اور اس کے بعد کی شدت اور ہولناکیوں سے بھی تیری حفاظت رہے گی کیونکہ شہداء تو زندہ ہوتے ہیں اپنے رب کی طرف سے ملنے والی روزی کھاتے پیتے ہیں نہ انہیں کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ غم وہ تو ان نعمتوں پر خوشیاں مناتے ہیں جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہیں ان کی روحیں سبز پرندوں میں ڈال دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں سے کھاتے پیتے ہیں۔ دیکھو کتنا بڑا فرق ہے شہادت کی عزت والی موت اور بستر کی دردناک موت کے درمیان ۔ ۔ ۔
اگر تم یہ کہتے ہو کہ میرا خاندان اور میرا مال میرے بچے اور میرے عیال مجھے جہاد سے روک رہے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ واضح فرمان سن لو:
(۵) [arabic]وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلا أَوْلادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى [/arabic](سبا:۳۷)
اور تمہارا مال اور اولاد ایسی چیز نہیں کہ تم کو ہمارا مقرب بنا دیں۔
اور یہ فرمان بھی تمہارے سامنے رہنا چاہئے:
( ۶ ) [arabic]زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالأنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ۔ [/arabic](آل عمران:۱۴)
لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں یعنی عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے بڑے بڑے ڈھیر اور نشان لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی بڑی زینت دار معلوم ہوتی ہے [ مگر ] یہ سب دنیا ہی کی زندگی کے سامان ہیں۔ اور اللہ کے پاس بہت اچھا ٹھکانا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے:
( ۷ ) [arabic]اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الأمْوَالِ وَالأوْلادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلا مَتَاعُ الْغُرُورِ [/arabic]۔(الحدید:۲۰)
جان لو! دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (و آرائش) اور تمہارے آپس میں فخر (وستائش) اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (وخواہش) ہے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اگتی اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے پھر وہ خوب زور پر آتی ہے پھر (اے دیکھنے والے) تو اس کو دیکھتا ہے کہ(پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں (کافروں کیلئے) عذاب شدید اور (مومنوں کیلئے) اللہ کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔

٭ حدیث شریف میں ہے کہ اگر دنیا کی قدروقیمت اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تووہ کافر کو ایک گھونٹ پانی نہ پلاتا۔ (ترمذی)

٭ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جنت کی تم میں سے کسی ایک کے کوڑے جتنی جگہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں ایک صبح و شام کا لگانا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سے بہتر ہے۔ (صحیح بخاری)
[ اے جہاد چھوڑنے والے] کیا تجھے اس عظیم الشان بادشاہت [ جو تجھے جنت میں ملے گی ] سے وہی رشتے دار روک رہے ہیں جو کچھ عرصہ بعد مرجائیں گے یا آپس کے اختلافات میںپڑ کر جدا جدا ہو جائیں گے یا انہیں زمانے کے مصائب بکھیر دیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھ کہ جب تو ان رشتے داروں کو کچھ نفع نہیں پہنچا سکتا تو وہ تیرے مخالف ہو جاتے ہیں اور جب تیرے پاس مال نہیں ہوتا تو وہ تجھے چھوڑ دیتے ہیں اور حالات کے تھپیڑے ان کے دل سے تیری محبت کو نکال دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوسروں کی طرح تیرے رشتے دار بھی قیامت کے دن تجھ سے بھاگتے پھر رہے ہوں گے اور ان میں سے ہر ایک کی یہی خواہش ہوگی کہ وہ اپنے سارے گناہ اور بوجھ تیرے سر ڈال کر خود نجات پا جائے [ تو کیا یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی تو نے ان رشتے داروں کی خاطر جہاد چھوڑ کر محرومی کو گلے لگا رکھاہے۔]

کہیں ایسا تو نہیں کہ اس مال کی محبت تجھے آڑے آرہی ہو جس کے ہوتے ہوئے سب تیرے ہوتے ہیں اور اگر وہ تیرے پاس نہ ہو تو بہت سارے اپنے بھی جدا ہوجاتے ہیں ہاں وہی مال جس کے بارے میں تجھ سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ یہ کہاں سے کمایا تھا اور کہاں خرچ کیا تھا وہی قیامت کا دن جس میں خوف کی وجہ سے بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور حاملہ عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی اس دن مجرموں کی شناخت ہوجائے گی اور انہیں چوٹی کے بالوں اور قدموں سے پکڑا جائے گا۔ ہاں وہی قیامت کا دن جس میں مالدار لوگوں سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا جبکہ فقراء مالداروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوکر مزے اڑائیں گے مگر اے مالدار! اس دن تو اپنے مال کی وجہ سے روک لیا جائے گا اور تیرے لئے خطرہ ہوگا کہ کہیں تو دوزخ کے داروغے مالک کے حوالے نہ کردیا جائے۔
اے مسلمان کیا تو اس مال کی جدائی گوارا نہیں کرتا جو اگر تیرے پاس تھوڑا ہو تو تیری فکریں اور تکلیفیں کم ہوجاتی ہیں اور اگر وہ زیادہ ہو تو وہ تجھے سرکش بنا دیتا ہے اور اگر تو مر جائے تو یہ مال تیرے پیچھے تیری رسوائی کا ذریعہ بنتا ہے۔ آج اگر تو دنیا کے دھوکے میں آکر اسی پر جھکا ہوا ہے تو یاد رکھ تو نے ایک نہ ایک دن اسے چھوڑنا ہے۔

٭ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں دنیا کی پوری حقیقت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے مدینے کی وادیوں میں سے ایک وادی میں ایک کوڑے کے ڈھیر پر لے آئے اس (کوڑے کے ڈھیر) میں مردہ انسانوں کی کھوپڑیاں، انسانی غلاظتیں، پرانے چیتھڑے اور مردہ جانوروں کی ہڈیاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ یہ سر(کسی زمانے میں) انہیں چیزوں کا حرص رکھتے تھے جن کا حرص تم رکھتے ہو اور ان سروں میں وہ ساری امیدیں [ اور امنگیں] روشن تھیں جو آج تم نے لگا رکھی ہیں مگر آج یہ سر بغیر کھال کے ہڈیاں ہیں پھر کچھ عرصے بعد یہ گل کر خاک ہوجائیں گی اور یہ غلاظتیں ان کے رنگا رنگ کھانے ہیں جنہیں انہوں نے جہاں سے ہو سکا کمایا پھر ان کھانوں کو اپنے پیٹ میں ڈال دیا اور وہ اس شکل میں ہوگئے کہ اب لوگ ان سے دور بھاگتے ہیں اور یہ بوسیدہ چیتھڑے ان کے زیب و زینت والے عمدہ لباس تھے مگر آج ہوائیں انہیں اڑاتی پھر رہی ہیں اور یہ ہڈیاں ان کے وہ جانور تھے جن پر وہ ملکوں اور شہروں میں گھومتے پھرتے تھے۔ پس جو دنیا پر رونا چاہے اسے چاہئے کہ روئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم برابر روتے رہے یہاں تک کہ ہمارا رونا شدت پکڑ گیا۔ (احیاء علوم الدین)

اور اگر تو اپنے پیارے بیٹے کی محبت میں گرفتار ہو کر [ جہاد سے دور ہے ] تو اللہ کے اس فرمان کو یاد رکھ:
( ۸ ) [arabic]إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ [/arabic]۔ (التغابن۔۱۵)
تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے اور اللہ کے ہاں بڑا اجر ہے۔
اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ ہر بیٹے پر اس کے ماں باپ ،بھائی اور چچا سے زیادہ شفیق ہے تم بتاؤ جب یہ بچہ باپ کی پیٹھ میں اور ماں کے پیٹ کے اندھیروں میں تھا تو وہاں اس کی پرورش تم کررہے تھے یا اللہ تعالیٰ؟ ذرا سوچو کیا تمہارا وہی بیٹا تمہیں آج جنت کی نعمتوں اور اللہ کے قرب سے دور کررہا ہے جو اگر چھوٹا ہو تو تم اس کے بارے میں پریشان رہتے ہو۔ جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو تم اس کے غم میں مبتلا ہوتے ہو اگر وہ صحت مند ہوتا ہے تو تمہیں اس کا خدشہ لگا رہتا ہے اگر وہ بیمار ہوجائے تو تمہارا دل صدمے میںمبتلا ہوجاتا ہے تم اگر اسے تنبیہ کرتے ہو تو وہ غصے ہوتا ہے اور بدکتا ہے اگر تم اسے نصیحت کرتے ہو تو پریشان اور غمگین ہو جاتا ہے اور تو اور تمہیں ہمیشہ یہ کھٹکا بھی لگا رہتا ہے کہ دوسروں کے لڑکوں کی طرح وہ بھی تمہارا مکمل نافرمان نہ ہوجائے۔ تم میدان جنگ میں آگے بڑھنا چاہو تو بیٹے کی یاد تمہیں بزدل بنا دیتی ہے اگر تم سخاوت کرنا چاہو تو اس کی فکر تمہیں بخیل بنا دیتی ہے اور اگر تم دنیا سے بے رغبت ہونا چاہو تو وہ تمہیں دنیاداری میں لگا دیتا ہے اس کی وجہ سے تمہارے اوپر بڑی آزمائشیں آتی ہیں جبکہ تم اسے ایک احسان شمار کرتے ہو اس کی وجہ سے تم پر مصیبتیں آتی ہیں جبکہ تم اسے بھی نعمت سمجھتے ہو۔ تم خود کو غم میں ڈال کر اسے خوش رکھتے ہو اور اپنا گھاٹا کر کے اسے نفع پہنچاتے ہو اور اپنی جیب ہلکی کرکے اس کی جیب بھرتے ہو اور اس کی خاطر طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتے ہو اور اس کی وجہ سے تنگی میں پڑے رہتے ہو۔ اے [ غافل ] مسلمان! اپنے بیٹے کی فکر اپنے دل سے نکال کر اسے اس کے سپرد کردے جس نے تجھے بھی پیدا کیا اور اسے بھی۔ اور اپنے پیچھے اس کی روزی کے بارے میں اس پر بھروسہ کر جو اس کا بھی رازق ہے اور تمہارا بھی۔ آج اگر تم نے اسے اللہ کے سپرد نہ کیا تو مرنے کے بعد تو تم اسے کچھ بھی نہیں دے سکتے تب بھی وہ اللہ ہی کے سپرد ہوگا۔
[arabic]وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ۔ [/arabic](المائدہ:۱۸)
اللہ کی قسم تم نہ تو اپنے نفع نقصان اور زندگی موت کے مالک ہو اور نہ اس کی۔ تم تو اس کی عمر اور روزی میں تھوڑا سا اضافہ بھی نہیں کر سکتے تمہیں جب اچانک موت اپنا لقمہ بنالے گی تو تم اپنی قبر میں جالیٹو گے اورا پنے اعمال میں گرفتار ہوجاؤ گے۔اور تمہارا پیارا بیٹا تمہارے بعد یتیم ہوجائے گا اور تمہارے وہ وارث جو زندگی میں تمہارے دوست رہے ہوں یا دشمن تمہارا سارا مال تقسیم کرلیں گے اور تمہارے اہل و عیال بکھر جائیں گے تب تم کہو گے ہائے کاش میں بھی شہداء کے ساتھ ہوتا اور بڑی کامیابی پاتا۔ تب تجھ سے کہا جائے گا کہ وہ کامیابی تو بہت دور ہوگئی اور تو ان سعادتوں سے محروم ہوکر بڑی حسرتوں میں جا پڑا اور اب تو اپنی نیکیوں اور گناہوں کے ساتھ تنہا ہوگیا۔
اے غافل مسلمان! ذرا غور سے سن اللہ تعالیٰ تجھے ان دھوکوں سے نکالنے کیلئے جن میں تو پڑا ہوا ہے کیا تنبیہ فرما رہے ہیں:
( ۹ ) [arabic]يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ۔[/arabic](لقمان:۳۳)
لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا باپ کے کچھ کام آسکے بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس دنیا کی زندگی تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب دینے والا (شیطان) تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے۔
یاد رکھ تیرا بیٹا اگر خوش بختوں میں سے ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے اور اسے جنت میں عنقریب اکٹھا فرما دیں گے اور اگر وہ بدبخت ہے تو ابھی سے یاد رکھ کہ جنت والے دوزخ والوں کے ساتھ اور خیر والے شروالوں کے ساتھ اکٹھے نہیں ہوتے۔
ممکن ہے اللہ تعالیٰ تجھے شہادت کا رتبہ عطا فرمائیں تو قیامت کے دن تو اس کی شفاعت کر سکے اور تیری آج کی اس سے جدائی اس کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔
اے مسلمان! اس چیز کی اپنے اندر حرص پیدا کر اور اس میں خوب محنت کر جو تجھے عذاب سے بچا سکے ورنہ کل تویہ حال ہوگا کہ :
( ۱۰ ) [arabic] يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ[/arabic]
۔(عبس ۳۴۔ ۳۷ )
اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے۔ ہر شخص اس روز ایک فکر میں ہوگا جو اسے (مصروفیت کیلئے) بس کرے گا۔
بے شک یہ بالکل واضح بیان ہے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے پر چلاتا ہے۔
[ اے جہاد سے غفلت کرنے والے ] اگر تجھے اپنے کسی بھائی یا قریبی دوست یا محبوب رشتے دار کی جدائی گوارہ نہیں ہے تو پھر تو خود کو قیامت کا یہ سچا منظر یاد دلا:
( ۱۱ ) [arabic]الأخِلاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلا الْمُتَّقِينَ [/arabic]۔ (الزخرف:۶۷)
(جو آپس میں) دوست (ہیں) اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ مگر پرہیزگار (کہ باہم دوست ہی رہیں گے)

اگر تیری دوستی اللہ کیلئے ہے تو پھر تم دونوں جنت کے اونچے مقامات پر اکٹھے ہوجاؤ گے ہاں ! ان نعمتوں میں جو ہمیشہ رہنے والی ہوں گی اور اگر یہ دوستی اللہ کیلئے نہیں ہے تو پھر اس دن سے پہلے اس دوستی کو توڑ دو جس دن ہر شخص کا حشر اس کے یاروں کے ساتھ ہوگا۔ قیامت کے دن تو ہر شخص اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا اگر وہ اللہ سے ڈرنے والا ہے تو تمہیں فائدہ پہنچائے گا اور اگر وہ خود بدبخت ہے تو پھر تمہیں بھی نقصان پہنچائے گا اور یہ بات بھی یاد رکھو کہ اس دنیا کے اکثر دوست ظالم اور بے وفا نکلتے ہیں اور مصیبت کے وقت ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ان میں سے اکثر اس وقت تک دوست ہیں جب تک تم خوش حال ہو، مالدار ہو۔ اور اگر تم تنگ دستی کا شکار ہوئے تو وہ تمہارے دشمن ہوجائیں گے اور امتحان کے وقت تجھ سے اپنی علیحدگی کا اعلان کردیں گے اگر تمہیں ان باتوں میں شک ہے تو کڑے امتحان کے بعد تمہیں ان پر ضرور یقین آجائے گا ہاں اگر اس برے ماحول میں بھی تمہیں اتفاقاً کوئی مخلص دوست مل گیا ہے جو وفا کا پکا اور دوستی کا سچا ہے تو پھر تمہیں آج کی جدائی پر غم نہیں ہونا چاہئے کیونکہ تم جیسوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
( ۱۲ ) [arabic]وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ [/arabic]۔(الحجر : ۴۷ )
اور ان کے دلوں میں جو کدورت ہوگی ان کو ہم نکال (کر صاف کر) دیں گے(گویا) بھائی بھائی تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔
پس ایسے قریبی دوست تمہارے لئے جہاد کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں کیونکہ ممکن ہے کہ تم دونوں جلد جدا ہو جاؤ۔ تب تم دوست سے بھی محروم ہو جاؤ گے اور جہاد کے اجر عظیم سے بھی۔ اور اونچے درجات تمہارے ہاتھ سے نکل جائیں گے تب تم پچھتاؤ گے مگر یہ پچھتانا کچھ کام نہ آئے گا۔

٭ ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں دنیا میں جتنا رہ لو تمہیں ایک دن مرنا ہے اور جس سے چاہو محبت کرو بے شک تم نے اس سے جدا ہونا ہے اور جو چاہو عمل کرو تم نے اس کا بدلہ پانا ہے۔ (بیہقی)
ان مختصر سے الفاظ پر غور کرو جن میں موت، دوستوں سے جدائی اور ہر عمل پر بدلے کا تذکرہ ہے کیا اس تنبیہ کے بعد بھی کسی تنبیہ کی ضرورت ہے۔
[ اے جہاد سے دور بھاگنے والے ] کیا تجھے تیرا عہدہ تیرا منصب اور تیری عزت جہاد میں نہیں نکلنے دیتی ہائے کاش تو غور کرتا کہ یہ منصب کسی ایسے شخص سے چھن کر تجھے ملا ہے جو اس کی محبت میں گرفتار تھا اور یہ عہدہ تیر ے لئے کسی ایسے شخص نے خالی کیا ہے جو کل تک اس پر بہت خوش تھا ۔ یاد رکھ ! اس عہدے اورمنصب نے جس طرح تجھ سے پہلے والوں کے ساتھ وفا نہیں کی تجھ سے بھی نہیں کرے گا اوربالا آخر تجھے پریشانی اورمحرومی کا تلخ احساس دیکر چھوڑ دے گا تیرے لئے آج کی اس معمو لی سی عزت اور مقام کو چھوڑنا مشکل ہے اوراس کی وجہ سے تو کتنے بڑے مقام سے محروم ہورہا ہے۔ یاد رکھ وہ آخری آدمی جو جنت میں داخل کیا جائے گا اسے دنیا کے بڑے بادشاہوں سے بڑھ کر بادشاہت اوراس دنیا سے دس گناہ بڑی جنت ملے گی ۔ یہ تو ادنیٰ جنتی کا حال ہے ذرا سوچو کہ انبیاء صدیقین شہداء اورصالحین کا کیا مقام ہوگا۔ مگر آج تو اس عہدے اورمقام کی خاطر مررہا ہے جو تجھے ہمیشہ تھکاوٹ اور پریشانی میں ڈالتا ہے اور جس کا انجام بہت برا ہے اور ا س کی وجہ سے تیرے دشمنوں اور حاسدوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ان کے دلوں میں تیری دشمنی پل رہی ہے اورجب یہ منصب تجھ سے چھن جائے گا تو تیرے دشمن تجھ پر قہقہے لگائیں گے اورتیرے نو کر خادم تجھ سے رخ موڑ جائیں گے اورتیرے پا ؤں چومنے والے تیری شکل دیکھنا گوارا نہیں کریں گے اورتو غم کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔

٭ ایک روایت میں آیا ہے کہ جنت میں ایک معزز فرشتہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان لے کر آئے گا جس میں لکھا ہوگا کہ یہ فرمان اس زندہ کی طرف سے ہے جس پر موت آنے والی نہیں اس زندہ کی طرف جس پر اب موت نہیں آئے گی۔اے میرے بندے میں جس چیز کو حکم دیتا ہوں کہ ہو جا وہ ہو جاتی ہے اب میں تمہیں بھی ایسا بنارہا ہوں کہ تم جس چیز سے کہو گے ہو جاوہ ہو جائے گی۔

٭ اور ایک روایت میں ہے کہ سب سے ادنیٰ جنتی وہ ہوگا جس کے سامنے پندرہ ہزار خادم [حکم بجا لانے کے لئے ]کھڑے رہیں گے اور ان میں ہر خادم کے تاج کا ادنیٰ موتی ایسا ہوگا جس کی روشنی سے مشرق منور ہوجائیں گے۔

٭ایک اور حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ ادنیٰ درجے کا جنتی وہ ہوگا جس کے پاس اسی ہزار خادم اور بہتر بیویاں ہوں گی اوراس کے لئے قیمتی موتیوں زمرد اوریاقوت کا اتنا بڑا محل بنایا جائے گا جو جابیہ [شام ] سے صنعاء [یمن ] تک ہوگا [یعنی ان دو علاقوں کے درمیان جتنی مسافت ہے اس کا ایک محل اتنا بڑا ہوگا۔ (ترمذی)

ذرا غور سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو بھی سنو۔
(۱۳) [arabic]وَالْمَلائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ۔ [/arabic]( الرعد ۲۳۔۲۴)
اور فرشتے (بہشت کے) ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے (اور کہیں گے ) تم پر رحمت ہو ( یہ تمہاری ) ثابت قدمی کا بدلہ ہے اور عاقبت کا گھر خوب (گھر )ہے۔

اللہ تعالیٰ کی قسم یہ وہ نعمتیں ہیں جو آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہیں اور عمل کرنے والوں کوا ن کے لئے بڑھ چڑھ کر عمل کرنا چاہیے۔
[ اے جہاد سے منہ موڑ نے والے ] کیا تجھے تیرا خوبصورت محل ، اس کے سائے دار باغیچے، اس کی عالیشان عمارت ، اس میں موجود نوکر خادم اوراس کی آرائشیں جہاد سے رو کے ہوئی ہیں۔ ہائے کاش تو غور کرتا کہ یہ تو مٹی، پتھر، گارے ، لوہے،لکڑی اوربانسوں کا بناہو ا ایسا گھر ہے جس کی اگر ہر روز صفائی نہ کی جائے تو اس میں کوڑا کرکٹ جمع ہوجاتا ہے اگر اس میں روشنی نہ جلائی جائے تو وہ سخت تاریک ہوجاتا ہے اگر اس کی دیکھ بھال نہ کی جائے تو وہ گر جاتا ہے اور اگر دیکھ بھال کی جائے تو ایک نہ ایک دن اس نے ویرانے میں تبدیل ہوجاناہے ۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ محل مٹی ہوجائے گا اس کے رہنے والے بکھر جائیں گے اور اس کے آثار تک مٹ جائیں گے اور اسکا نام تک بھلا دیا جائے گا۔

٭ ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا تو ارشاد فرمایا تم جو عمارتیں بناؤ گے وہ ایک دن ویران ہوجائیں گی اورجو بچے جنو گے وہ ایک دن مرجائیں گے۔ (بیہقی)
 
٭ ایک روایت میں ہے کہ ایک فرشتہ ہر دن یہ آواز لگاتا ہے تم بچے جنتے ہو مرنے کے لیے اور عمارتیں بناتے ہو ویران ہونے کے لئے ۔ ( بیہقی )
اے دھوکے میں پڑے ہوئے انسان ! آج تمہارے لئے موقع ہے کہ اپنے اس تباہ وویران ہوجائے والے محل کے بدلے [جنت میں ] ایسے اونچے محلات لے لو جن کی تابندگی ہمیشہ کے لئے ہوگی اور جن میں نہریں بہتی ہوں گی اورجن میں پھلوں کی شاخیں جھکی ہوئی ہوں گی اور جن کی خوشیاں ہمیشہ دوبالا ہوتی رہیں گی۔ یہ محلات سونے چاندی کی اینٹوں کے ہوں گے ان میں رہنے والوں کو نہ کبھی تھکاوٹ پہنچے گی نہ کوئی اورمصیبت اوران کی مٹی مشک کی ہوگی اوران کے کنکر موتی اورجواہرات کے ہوں گے ان میں جو نہریں بہتی ہیں وہ دودھ، شہد اورکوثر کی ہوں گی یہ محلات کہیں تو ستر میل لمبے موتیوں کو اندر سے تراش کر بنائے جائیں گے اور کہیں یہ سبز اورچمکدار زمرد کے ہوں گے اورکہیں سرخ یاقوت کے۔
ایمان والوں کے لئے ان محلات کے ہرحصے میں ایسی حوریں اورخادم ہوں گے جو دوسرے حصے کی حوروں اورخادموں کو دوری کی وجہ سے نہیں دیکھ سکیں گے۔ وہاں کے بستر ریشم کے بنے ہوئے ہوں گے اوردو بستروں کے درمیان ان کی بلندی چالیس سال کی مسافت کی ہوگی۔ وہاں نہ تو نیند آئے گی نہ اونگھ بلکہ اہل جنت ان بستروں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوں گے اورایک دوسرے سے گفتگو کررہے ہوں گے وہاں ہر وقت دستر خواں بچھے رہیں گے اورایسے تازہ پھلوں سے ان کی مہمان نوازی کی جائے گی جونہ ختم ہونے والے ہوں گے اورنہ ضائع ہونے والے وہ جو پھل چاہیں گے وہی کھائیں گے اورپسندیدہ پرنددوں کے گوشت سے ان کی خاطر تواضع کی جائے گی۔
جہاں تک ان کے مشروبات کا سوال ہے تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
( ۱۴ ) [arabic]مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍ خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ [/arabic]۔ (المطفین۔ ۲۵۔۲۶)
شراب خالص سر بمہر جس کی مہر مشک کی ہوگی ۔ تو (نعمتوں کے)شائقین کو چاہیے کہ اسی میں رغبت کریں۔
وہاں نہ کسی کو قضائے حاجت کی ضرورت ہوگی نہ پیشاب کی وہ نہ تھوکیں گے اورنہ ناک سے رینٹھ نکالیں گے۔ وہ جو کچھ کھائیں گے اس کا اثر ان کی کھال پر ظاہر ہوگا جی ہاں ایسا پسینہ جو موتیوں کی شکل میں مشک کی طرح خوشبودار ہوگا اورپھر ان کے پیٹ پہلے جیسے ہو جائیں گے۔ [یعنی پسینے کے آتے ہی کھانا ہضم ہوجائے گا]
وہاں کے خادم ایسے ہمیشہ رہنے والے لڑکے ہیں جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

( ۱۵ ) [arabic]إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَنْثُورًا وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا إِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُورًا [/arabic](الدھر ۱۹۔۲۰۔۲۱۔۲۲)
جب تم ان پر نگا ہ ڈالو تو خیال کر و کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں اوربہشت میں (جہاں )آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت اورعظیم (الشان )سلطنت دیکھو گے ان (کے بدنوں )پر دیبائے سبز اوراطلس کے کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اوران کاپروردگا ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا یہ تمہارا صلہ ہے اور تمہاری کوشش (خدا کے ہاں )مقبول ہوئی۔
یہ جنت کی وہ نعمتیں ہیں جن کا تذکرہ قرآن و حدیث میں آگیا ہے ورنہ وہاں تو ایسی نعمتیں ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزرا ہے۔ (بخاری)

اگر تم پوچھو کہ اہل جنت کتنے عرصے تک ان عظیم الشان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے تو اسکا جواب یہ ہے کہ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے کبھی نہیں مریں گے ایسے جوان رہیں گے جن پر بڑھاپا نہیں آئے گا نہ تو کبھی بیمار ہوں گے نہ غمگین ہمیشہ خوش رہیں گے اور ان نعمتوں کے چھن جانے یا ختم ہوجانے کے خوف سے محفوظ رہیں گے۔
( ۱۶ ) [arabic] دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلامٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔[/arabic]
(یونس۔۱۰)
(جب وہ ) ان میں ( ان کی نعمتوں کو دیکھیں گے تو بے ساختہ) کہیں گے سبحان اللہ ۔ اور آپس میں ان کی دعا سلام علیکم ہوگی اور ان کا آخری قول یہ (ہوگا) کہ خدائے رب العالمین کی حمد (اور اس کا شکر) ہے۔

اب تم خو د ہی انصاف کرو کہ تمہیں جنت کی یہ عظیم الشان بادشاہت چاہیے یا دنیا کا جلد فنا ہونے والا محل۔ اورغور کر و کہ اگر تم شہید ہوکر اس دنیاوی محل کو چھوڑ گئے تو تمہیں آگے کیا کچھ ملے گا۔
( ۱۷ ) [arabic] وَلا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ[/arabic](فاطر۔ ۱۴)
اور(خدائے) باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا۔
[اے جہاد سے محروم رہنے والے] اگر تم یہ کہتے ہو کہ میں ابھی اپنی اور اپنے اعمال کی اصلاح میں لگا ہوا ہوں [کہ جب میری اصلاح ہوجائے گی تو جہاد میں جاؤں گا] تو یہ بھی ایک خطرناک دھوکہ ہے اور خواہ مخواہ کی امید ہے اللہ تعالیٰ کی قسم اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ وقت نہیں ٹلتا۔
(۱۸) [arabic]یاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللہ حَقّ ٌفَلاَ تَغُرَّنَّکُمُ الحَیوٰۃُ الدُّنْےَا وَلاَ ےَغُرُّنُّکُمْ بِاللہ الْغَرُوْرُ اِنَّ الشَّےْطٰنَ لَکُمْ عَدُوَّا اِنَّمَا یَدْ عُوْا حِزْبَہٗ لِےَکُوْ نُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔ [/arabic](فاطر۔ ۶-۵)

لوگو!خدا کا وعدہ سچا ہے۔ تو تم کو دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ (شیطان ) فریب دینے والا تمہیں فریب دے ۔ شیطان تمہار ا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو۔
وہ اپنے (پیروؤں کے) گروہ کو بلاتا ہے تاکہ وہ ووزخ والوں میں ہوں۔
تمہارا یہ عذر [کہ میں اپنی اصلاح میں مصروف ہوں ]ہر گز اولیاء اللہ صالحین کا طریقہ نہیں ہے بلکہ محض ایک شیطانی جال ہے۔ کیا حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور بڑے بڑے تابعین تجھ سے زیادہ عبادت اورقرب الٰہی کے طالب نہیں تھے لیکن اگر وہ بھی تیری طرح جہاد کو ٹالتے رہتے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے لئے اتنے بڑے کارنامے سرانجام نہ دے سکتے اورنہ مشرکوں اورکافروں سے جہاد کر کے اتنے شہروں اورعلاقوں کو فتح کرتے ۔
اے فتنے میں پڑے ہوئے انسان کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا۔
( ۱۹ ) [arabic]انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ[/arabic]
۔ (توبہ۔۴۱)
نکل پڑو (جہاد میں ) ہلکے اوربوجھل (یعنی ہر حال میں ) اور اللہ تعالیٰ کے رستے میں مال اورجان سے لڑو۔یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ بشرطیکہ سمجھو۔

اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے عقل اور سمجھ دی ہے توپھر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کر۔
( ۲۰ ) [arabic] وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا [/arabic]۔ (النساء ۔ ۹۵)
اور اجر عظیم کے ۔لحاظ سے اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے۔

٭حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ایک شخص کا جہاد کی صف میں کھڑا ہونا اپنے گھر میں رہ کر ستر سال کی عبادت سے افضل ہے۔ (ترمذی)

اے دھوکہ میں پڑے ہوئے انسان یاد رکھ کہ مجاہد کی نیند قیام الیل سے اور ہمیشہ کے روزے رکھنے سے افضل ہے۔ ان فضائل کا بیان اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آگے آئے گا۔
آج تو جن اعمال میں لگا ہوا ہے کیا تجھے یقین ہے کہ یہ سب اعمال قبول ہورہے ہیں؟ کیا تیر ے سامنے قیامت کا ہولناک منظر نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی قسم تو نہیں جانتا کہ تیر ے یہ اعمال تیری بخشش کا ذریعہ بنیں گے یا ہلاکت کا۔
( ۲۱ ) [arabic]وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ [/arabic]۔ (النمعل۲۵)
اور وہ تمہارے پوشیدہ اورظاہر اعمال کو جانتا ہے۔


( ۲۲ ) [arabic] وَلَئِنْ مُتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لإلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ [/arabic]۔ (آل عمران۔ ۱۵۸)
اور اگر تم مر جاؤ یا مارے جاؤ اللہ تعالیٰ کے حضور میںضرور اکٹھے کئے جاؤ گے۔

اے جہاد سے غافل انسان! کیا تیری خوبصورت بیوی اور اس کے ساتھ تیری محبت اور اس کے ساتھ رہنے کی تیری چاہت نے تجھے جہاد سے محروم کر رکھا ہے ذرا بتا؟ کیا تیری بیوی دنیا کی عورتوں میں سب سے زیادہ حسین ہے؟ کیا وہ پہلے ایک گندی منی کا قطرہ نہیں تھی؟ کیا وہ آخر میں ایک مردہ لاش نہیں بن جائے گی؟ کیا وہ اپنے پیٹ میں غلاظت لئے نہیں پھرتی ؟ اس کا حیض تجھے کتنا عرصہ اس سے دور رکھتا ہے اور اسکی نافرمانی اس کی فرمانبرداری سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر وہ کچھ دن سرمہ نہ لگائے تو اس کی آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں اگر وہ زیب و زینت نہ کرے تو اس کے عیب ظاہر ہوجاتے ہیں اگر وہ کنگھا نہ کرے تو اس کے بال پرا گندہ ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ صفائی نہ کرے تو میلی کچیلی ہوجاتی ہے اگر وہ پاکی حاصل نہ کرے تو بدبو دار ہوجاتی ہے وہ زیادہ بیمار رہنے والی اوربہت تنگ کرنے والی ہے جب اس کی عمر بڑھ جاتی ہے تو وہ کسی کام کی نہیں رہتی اورجب بوڑھی ہوجاتی ہے تو بستر سے لگ جاتی ہے تو اگر ساری زندگی اس پر احسان کرے تو غصے کے وقت وہ ان سب کو بھلادیتی ہے جیساکہ۔

٭حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم ان عورتوں کے ساتھ پوری زندگی احسان کرتے رہوپھر اگر وہ تمہاری طرف سے تھوڑی سی تکلیف پاتی ہیں تو کہتی ہیں کہ میں نے تو کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں پائی۔ (بخاری)
تجھے ہمیشہ اس کی جدائی کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور تو اس کی سرکشی سے ہمیشہ ڈرتا رہتا ہے اس کی محبت تجھے طرح طرح کی مصیبتوں ، تھکاوٹوں اورپریشانیوں میں ڈالتی ہے وہ تجھے اپنی ادنی سے ادنی خواہش پوری کرنے کے لئے ہلاکت میں ڈالنے سے دریغ نہیں کرتی ۔ وہ تجھ سے اس وقت تک محبت کرتی ہے جب تک اس کا مقصد تجھ سے پورا ہوتا رہتا ہے۔ اورجب ایسانہ ہو تو وہ تجھ سے رخ پھیر لیتی ہے۔ اور تیرے علاوہ کوئی اورڈھونڈنے لگتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ تم اس سے تبھی فائدہ اٹھا سکتے ہو جب اسکے ٹیڑھے پن کو برداشت کرو۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایسی عورت کی محبت تجھے اس راستے سے ہٹا رہی ہے جس میں تجھے ایسی حوروں سے وصال نصیب ہوگا جو نور سے پیدا ہوئی ہیں اورجنت کے محلات میں پلی بڑھی ہیں اللہ تعالیٰ کی قسم ابھی شہید کا خون خشک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ان گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والی حور عینا کو پالیتا ہے جن کا حسن بے مثال ہے وہ پاک دامن کنوای ہیں ایسے موتی کی طرح جنہیں نہ کسی انسان نے چھوا ہے نہ کسی جن ان کی باتیں شیریں ہیں ان کا قد خوبصورت اور ان کے بال حسین ہیں وہ بڑی قدروقیمت والی ہیں ان کابرتن پاک ہے ان کی شکل و صورت بے حد حسین ہے۔ اور ان کے اخلاق بہت پیارے ہیں ان کے زیور چمکدار اورکپڑے بہت اعلیٰ ہیں وہ محبت کرنے والی ہیں اور ان میں تنگ کرنے کا مادہ ہی نہیں۔ وہ تیرے سواکسی پر نظر ڈالنے والی نہیں ہیں وہ تجھ سے محبت کرنے والی اورتیری ہر خواہش کوپورا کرنے والی ہیں اگر ان میں سے کسی کا ناخن دنیا میں ظاہر ہوجائے تو چودھویں رات کا چاند اپنی روشنی کھودے۔ وہ اگر رات کے وقت اپنا کنگن دنیا پر کھول دیں تو دنیا بھر سے اندھیرا بھاگ جائے اگر وہ اپنی کلائی دنیا پر ظاہر کردیں تو پوری مخلوق ان کے عشق میں مبتلا ہو جائے ۔ اگر وہ آسمان وزمین کے درمیان جھانک کر دیکھ لیں تو ان دونوں کے درمیان خوشبو ہی خوشبو پھیل جائے۔ اگر وہ کڑوے سمندر میں تھوک دیں تو وہ میٹھا ہوجائے تو جب بھی انہیں دیکھے گا تیری نظروں میں ان کا حسن جمال بڑھ جائے گا ۔ کیا کسی عقلمند سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایسی حسین مخلوق کے بارے میں سنے اور پھر گھر بیٹھا رہے۔
اے جہاد سے غافل انسان! یہ بھی تو اچھی طرح سے ذہن نشین کر لے کہ تیری اپنی دنیاوی بیوی سے جدائی یقینی ہے بلکہ یوں سمجھ کہ یہ جدائی ہو چکی ہے[کیونکہ موت کا وقت مقرر ہے] اگر وہ نیک عورت ہے تو جنت جیسی خوبصورت جگہ پر تم ضرور جمع ہوجاؤ گے وہاں تم اسے حورعین سے بھی زیادہ خوبصورت پاؤ گے اوراس میں سے وہ عادتیں اور چیزیں زائل ہوچکی ہوں گے جو تمہیں ناپسند ہیں وہاں اس کا حسن وجمال دیکھنے کے لائق ہو گا اور وہ پاکدامن کنواری اور حیض ونفاس سے پاک ،کالی آنکھوں والی اور سدا بہار حسن والی ہوگی۔ اس کا تمام ترتیڑھاپن ختم ہوجائے گا اور اس کا نور اورجمال بڑھ جائے گا اور وہ حسن وجمال اورنور میں حور عین سے بھی بڑھ کر ہوگی۔
اس لئے تم آج اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اسے چھوڑ کر جہاد میں نکل پڑو۔ اللہ تعالیٰ وہ تمہیں بہتریں شکل میں لوٹا دیگا۔ بشرطیکہ وہ جنت کی مستحق ہوئی۔
آخری بات یہ ہے کہ [اے مسلمان بھائیو!] تمہیں جہاد سے دنیا کی کوئی بھی چیز غافل نہ کرنے پائے یہ دنیا رہنے کی یا آپس میں ملنے اورکچھ جمع کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں جو آج ہنستا ہے اسے کل رونا پڑتا ہے یہاں کی خوشیوں کے پیچھے غم چھپے ہوئے ہیں یہ دنیا بے وفائی ،مصیبتوں اورتھکاوٹوں کا گھر ہے جو اسے پانے کا ارادہ کرتا ہے وہ اس کے دھوکے اورجال میں پھنس جاتا ہے اوراس دنیا کی مصیبتیں اس پر چھاجاتی ہیں اورپھر وہ پچھتاتا ہے اور آنسوؤں کی جگہ آنکھوں سے خون برساتاہے۔
[اے مسلمانو!] ا س غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور اس سے پہلے کہ دنیا کی گرفت تم پر مضبوط ہوجائے خود کو اس کی قید سے چھڑا لو اورتوفیق اورسعادت مندی کے راستے [جہاد فی سبیل اللہ] کو اختیار کرو۔ کیا پتہ اللہ تعالیٰ تمہیں شہادت کی عظیم نعمت عطاء فرمادے۔کوشش کرو کہ کوئی بھی چیز تمہارے لئے اس راستے میں رکاوٹ نہ بنے۔ یاد رکھو عقلمند اور سیدھے راستے پر چلنے والا اور مضبوط عزم والا شخص وہی ہے جسے جہاد میں سے کچھ نہ کچھ حصہ نصیب ہو ا ہو۔ لیکن جو سستی اوردنیا کے دھوکے میں غرق ہوجاتا ہے اس کے قدم جہاد سے ہٹ جاتے ہیں اور وہ پچھتاتا ہے مگر اس کا پچھتانا اسے کچھ کام نہیں آتا اورجب شہدا ء جنت کے اونچے بالا خانوں میں چلے جاتے ہیں تو وہ پیچھے حسرت اورافسوس کے ہاتھ ملتا رہتا ہے۔

[arabic]وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ۔ (الاحزاب۔ ۴) اور اللہ تعالیٰ تو سچی بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا رستہ دکھاتاہے۔
حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ۔[/arabic] (آل عمران۔ ۱۷۳)
[آپ نے آٹھویں صدی ہجری کے ایک ایسے عظیم شخص کی دعوت جہادسنی جو خود ایک بڑنے عالم اورمحدث ہونے کے ساتھ ساتھ مجاہد بھی تھے اورنویں ہجری کے شروع میں وہ مسلمانوں کے ایک لشکر کی کمان کرتے ہوئے شہید ہوئے علم وعمل کے اس پیکر کے دل سے نکلی ہوئی دعوت نے یقینا آپ کے دل و دماغ پر دستک دی ہو گی اور آپ کو غفلت کی نیند سے بیدا ر کرنے کے لئے جھنجوڑ ا ہوگا۔ مصنف رحمہ اللہ کا مقصد ہرگزیہ نہیں ہے کہ بیوی بچوں سے محبت نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی ان کا یہ مقصد ہے کہ رشتے دار اوردوست احاباب ہمیشہ بے وفا ہوتے ہیں البتہ مصنف رحمہ اللہ نے یہ بات سمجھانے کی پوری کوشش کی ہے کہ حقیقی مسلمان وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال وجان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا اور اس راستے میں کسی بھی چیز کو آڑ نہیں بننے دیتا چونکہ عام طور پر بیوی بچے اورمکان ودکان اوردنیا میں رہنے اور عہدے پانے کا شوق ہی جہاد کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے اس لئے انہوں نے ان تمام چیزوں کی دوحقیقت بھی بیان فرمادی ہے جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتی ہے اور انسان زندگی بھر اللہ تعالیٰ کی غلامی چھوڑ کر ان چیزوں کی غلامی کرتے کرتے مرجاتا ہے۔ اوردنیا میں بھی گھاٹا پاتا ہے اور آخرت کے لئے بھی کچھ نہیں کماتا۔ یہ بات یقینی ہے اور تاریخ کے اوراق اس کے گواہ ہیں کہ مصنف رحمہ اللہ کا زمانہ ہمارے زمانے سے بہت بہتر تھا اس زمانے میں بھی اگرچہ مختلف مسلمان حکمران ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان تھے مگر پھر بھی عمومی حالات اتنے دردناک نہ تھے جتنے آج ہیں اس زمانے میں مشرق سے مغرب تک مسلمانوں کا اقتدرتھا، مسلمان حکمران دنیا کے اکثر کفار سے جزیہ وصول کررہے تھے۔
کسی نہ کسی درجے میں بلکہ آج کے اعتبار سے تو بہت اچھے درجے میں اسلام بھی نافذ تھا اور دنیا میں کہیں پر بھی مسلمان مظلوم ومجبور نہیں تھے گویا کہ وہ ایسا دور تھا جب جہاد عام طور پر رفرض کفایہ کے درجے میں رہتا ہے۔ ایسے حالات میں عام طور پر لوگوں کے جہاد میں نکلنے کی دو ہی وجہیں ہوتی تھیں ۔ ایک تو اسلام کو دنیا کے آخری کونے تک نافذ کرنے کا عزم اوراللہ تعالیٰ کے ہاں اونچے مراتب حاصل کرنے کا شوق اورولولہ۔ اوردوسرا اپنے گناہوں کو بخشوانے اورجہاد کے ذریعے اپنی برائیوں کو معاف کرانے اورجنت پانے کاجذبہ مگر اب جبکہ پندرھویں صدی ہجری کے بھی اٹھا رہ سال گزر چکے ہیں حالات بہت زیادہ بدلے ہوئے ہیں۔ آج ہر طرف اسلام بے کس، بے سہارا اورمسلمان ہر طرف مظلوم ومجبور نظر آرہے ہیں دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں کی حکومتیں ہیں وہاں بھی اسلام پر دردناک مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور نام کے مسلمان حکمران منافقین سے بدتر کردار اپنا کر سیکولر ازم کا راگ الاپ رہے ہیں۔ مکہ، مدینہ اورحجاز کے زمینی خزانوں کی دولت یہود ونصاریٰ کی چاپلوسی میں قربان کی جارہی ہے اور اب مقدس مقامات کو کافروں کے ہاتھوںمیں یرغمال بنادیا گیا ہے۔ ترکوں جیسی اسلام کی خادم قوم کے حکمرانوں نے مسلمانوں کی بیٹی کے سرسے دوپٹہ تک چھین لیا ہے اوروہ ترکی کو یورپ جیسا بیت الخلاء بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ اپنی غلامی اورمظلومیت کے پچاس سالوں کا مسلسل حساب مانگ رہی ہے مگر اسے کہیں سے کوئی جواب سنائی نہیں دے رہا۔ افغانستان، وسطی ایشیاء، بوسنیا، کو سوواور فلسطین کی زمین ان لاشوں پر سے پردہ اٹھارہی ہے جو امت مسلمہ کی غفلت کی وجہ سے کفن اورنماز جنازہ کوترستی ترستی اب ہڈیوں کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ وہ پکار پکار کر اپنے لہو کا حساب مانگ رہی ہیں۔ سلمان رشدی اورتسلیمہ نسرین جیسے درندہ ذہن قلمکار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کی ازواج مطہرات اور اسلام پر اپنے گندے ذہن کے چھینٹے پھینک کر بھی آزاد پھر رہے ہیں جبکہ ناموس رسالت کے محافظ اپنے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی کابدلہ لینے سے بھی قاصر ہیں حالانکہ ان کی تعدادا ب ڈیڑ ھ ارب کے قریب ہے اور تو اور مسلمان اپنے ملکوں میں بھی کافروں کی غلامی کرنے اور ان کے بوٹ صاف کرنے پر مجبور ہیں اللہ تعالیٰ کی قسم امت مسلمہ آج ان درد ناک حالات سے گزررہی ہے جسے سوچ کر ذہن پھٹنے لگتاہے ۔ اورکلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ آج چاروں طرف سے اسلام کو نشانے لے لے کر مارا جارہا ہے۔ جبکہ اسلام کے محافظ مسلمان اندرونی اوربیرونی طور پر غلامی در غلامی کے رسوں میں جکڑے ہوئے بے بسی کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔
آج اگر اعمال کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارا زمانہ مصنف رحمہ اللہ کے زمانے کی بنسبت بہت زیادہ انحطاط کا شکا ر ہے اور ہر طرف گناہ ہی گناہ پھیلے ہوئے ہیں آج جو انسان بچنا بھی چاہتا ہے وہ بھی نہیں بچ سکتا الامن رحم اللہ۔ سود جیسی لعنت آج ہمارے معاشرے میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے اگر سارے گناہوں کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو ہماری تباہی کے لئے صرف یہی سود کا گناہ ہی کافی ہے فحاشی اورعریانی کا سیلاب آج عزتوں۔ حرمتوں اورانسانی قدروں کو بہا کر لے جارہا ہے۔ اوریورپ کے ننگے شکاری اس سیلاب کا رخ ہماری طرف پوری طرح موڑ چکے ہیں یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ آج ہم اپنے اصل راستے سے ہٹ چکے ہیں۔ اورہم اپنی طاقت اورقوت کھو چکے ہیں۔ اورآج ہم خود اپنے فیصلے نہیں کرتے بلکہ ہمارے فیصلے ہمارے دشمن کرتے ہیں اور ہم ان کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونے کی طرح بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے وقت میں جہاد فی سبیل اللہ کی طرف لوٹنا ہمارے لئے کتنا ضروری ہے یہ بات ہمیں آسانی سے سمجھ آسکتی ہے بشرطیکہ ہم دل کی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کریں اوراخلاص کے ساتھ قرآن مجید میں اپنی پریشانیوں کا حل تلاش کریں۔
آج عرب وعجم کے مسلمانوں کی آزادی کا واحد راستہ جہاد ہے آج مسجد اقصیٰ کی خلاصی کا واحد راستہ جہاد ہے آج اسلام کو نافذ کرنے کا واحد راستہ جہادہے۔
کل تک ہمارے لئے جہاد کے دروازے بھی بند کردئیے گئے تھے تاکہ ہم اپنی چھینی ہوئی عزت وعظمت کو واپس نہ لیں سکیں مگر آج الحمد للہ لاکھوں شہداء نے اپنا قیمتی خون پیش کرکے مسلمانوں کے لئے جہاد کے بندراستے کھول دئیے ہیں اور پہلی مرتبہ ایک مجاہد حکمران ’’ملا محمد عمرصاحب‘‘ نے دنیا کے پورے نظام کو مسترد کر کے اسلام کا ڈنکا بجادیا ہے۔( نوٹ اس کتاب کا اردو ترجمہ1998 میں کیا گیا ہے )
آج کے ان حالات میں جہاد ہمارے تمام مسائل کا حل ہے اورہماری بخشش کا بھی ذریعہ ہے۔ مگر اس کے لئے تھوڑی سی ہمت اورمردانہ عزم کی ضرورت ہے۔ شکر کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جہاد کا راستہ دکھا دیا ہے اب دیر مت کیجئے۔ کیونکہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عطا ء فرمودہ موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتے وہ تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں مگر ان پر نہ زمین روتی ہے اورنہ آسمان ۔
 

میاں شاہد

محفلین

ماشا اللہ، سبحان اللہ
88365730ak2.gif

آپ نے بہت عمدہ اور بہترین باتیں پیش کی ہیں
اللہ پاک ہمیں دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین
آپ کا بہت بہت شکریہ
 
جزاک اللہ خیرا ۔ برادرم مجھے آپ کا یہ مضمون بے حد پسند آیا ۔ جہاد کی فرضیت سے کون انکار کر سکتا ہے ۔ ہاں البتہ ان لوگوں سے اختلاف بہرحال رہے گا جو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو خودکشی اور معصوموں نے قتل پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس پر جہاد کا نام استعمال کرتے ہوئے پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حالانکہ میرے علم میں کوئی ایسی حدیث یا کوئی ایسا عمل صحابہ یا تابعین تبع تابعین نہیں ہے جس سے خودکشی یا ایسے ملک میں جہاں اکثریتی تعداد مسلمانوں کی ہو فساد ڈالنے کو جہاد کا نام دینے کی کوئی بھی کوشش کی گئی ہو ۔ ویسے جہاد کی فضیلت کے اس باب میں جہاد بالقلم ۔ جہاد باللسان ۔ جہاد بالنفس اور جہاد کی دوسری اقسام پر بھی اگر روشنی ڈالیں تو عنایت ہوگی ۔


شکرگزار
فیصل
 

mujeeb mansoor

محفلین
اللہ عز وجل آپ کو بھترین مقام عطافرمائے اور روز قیامت اپنا سایہ نصیب فرمائے جس دن سوائے اس کے سائے کے کسی اور کا سایہ نہ ہوگا
 
جزاک اللہ خیرا ۔ برادرم مجھے آپ کا یہ مضمون بے حد پسند آیا ۔ جہاد کی فرضیت سے کون انکار کر سکتا ہے ۔ ہاں البتہ ان لوگوں سے اختلاف بہرحال رہے گا جو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو خودکشی اور معصوموں نے قتل پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس پر جہاد کا نام استعمال کرتے ہوئے پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حالانکہ میرے علم میں کوئی ایسی حدیث یا کوئی ایسا عمل صحابہ یا تابعین تبع تابعین نہیں ہے جس سے خودکشی یا ایسے ملک میں جہاں اکثریتی تعداد مسلمانوں کی ہو فساد ڈالنے کو جہاد کا نام دینے کی کوئی بھی کوشش کی گئی ہو ۔ ویسے جہاد کی فضیلت کے اس باب میں جہاد بالقلم ۔ جہاد باللسان ۔ جہاد بالنفس اور جہاد کی دوسری اقسام پر بھی اگر روشنی ڈالیں تو عنایت ہوگی ۔


شکرگزار
فیصل

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، محترم بھائی فیصل صاحب ،آپ کی مطلوبہ معلومات میں سے کچھ یہاں میسر ہیں ، ملاحظہ فرمایے ، مزید گفتگو وہیں کی جا سکتی ہے ، ان شا اللہ تعالی ، و السلام علیکم۔
 
Top