واجدحسین
معطل
پہلا باب
کفار سے جہاد کا حکم اور اس کی فرضیت اور ان لوگوں کیلئے سخت وعیدوں کا بیان جو جہاد چھوڑ دیں یا بغیر جہاد کئے مرجائیں
کفار سے جہاد کا حکم اور اس کی فرضیت اور ان لوگوں کیلئے سخت وعیدوں کا بیان جو جہاد چھوڑ دیں یا بغیر جہاد کئے مرجائیں
اس باب میں کئی فصلیں ہیں پہلی فصل میں مصنف رحمہ اللہ نے قرآن مجید کی سات آیات اور انتیس احادیث و آثار سے جہاد کی فرضیت کا مسئلہ بیان فرمایا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
(۱) [ARABIC]كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ۔ [/ARABIC](البقرہ۔۲۱۶)
قتال کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعاً) برا لگتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی بات کو برا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے تم ایک کام کو بھلاسمجھو اور وہ تمہارے حق میں برا ہو اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
(۲) [ARABIC]وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [/ARABIC](البقرہ۔۲۴۴)
اور لڑو اللہ کے راستے میں اور جان لو بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
(۳) [ARABIC]وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الأرْضُ وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ [/ARABIC](البقرہ۔۲۵۱)
اور اگر اللہ تعالیٰ کا بعض لوگوں کے ذریعے بعض کو دفع کرانا نہ ہوتا تو زمین فساد سے بھر جاتی لیکن اللہ تعالیٰ جہاں والوں پر بڑے مہربان (کہ انہوں نے جہاد کا حکم نازل فرما کر فساد کے خاتمے اور امن کے قیام کی صورت پیدا فرما دی)
اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا:
(۴) [ARABIC]فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [/ARABIC]۔(التوبہ۔۵)
ان مشرکوں کو جہاں پاؤ مارو اور پکڑو اور گھیرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو۔
اللہ ربّ العزت نے ارشاد فرمایا:
(۵)
[ARABIC]قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ [/ARABIC]۔(التوبہ۔ ۲۹)
لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور حرام نہیں سمجھتے ان چیزوں کو جن کو اللہ نے اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور سچے دین اسلام کو قبول نہیں کرتے اہل کتاب میں سے یہاں تک کہ وہ ذلیل (ماتحت) ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دینا منظور نہ کرلیں۔
اللہ جل شانہ کا ارشاد گرامی ہے:
(۶)
[ARABIC]وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ [/ARABIC]۔ (الحج۔۴۰ )
اور اگر اللہ تعالیٰ(ہمیشہ سے) لوگوں کا ایک دوسرے (کے ہاتھ) سے زور نہ گھٹاتا تو نصاریٰ کے خلوت خانے اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے سب ڈھا دئیے جاتے اور بے شک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اللہ کے دین کی مدد کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ قوت والا(اور) غلبے والا ہے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام عبداللہ الحلیمی اپنی کتاب شعب الایمان میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں یہ بات کھول کر سمجھاد ی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ [مجاہد ] مسلمانوں کے ذریعے سے مشرکوں کو نہ روکیں اور مسلمانوں کو اس بات کی قوت عطا نہ فرمائیں کہ وہ مشرکوں اور کافروں سے مرکز اسلام کا دفاع کرسکیں اور کافروں کی طاقت کو توڑ سکیں اور ان کی قوت کو پارہ پارہ کر سکیں تو شرک زمین پر چھا جائے گا اور دین تباہ و برباد ہوجائے گا۔
پس یہ بات ثابت ہوگئی کہ جہاد ہی دین کی بقا اور دینداروں کی اپنی عبادات میں آزادی کا واحد راستہ ہے جب جہاد کا یہ مقام ہے تو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ وہ ارکان ایمان میں سے ایک رکن ہو اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جس قدر ہو سکے وہ اپنے اندر جہاد کرنے کی حد درجہ حرص پیدا کریں۔‘‘ (کتاب المنہاج فی شعب الایمان ص ۴۶۶ ج۔۲)
اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
(۷) [ARABIC]فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ [/ARABIC]۔ (محمد۔۴)
پس جب تمہارا کافروں سے مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں مارو۔
آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم پر میدان جنگ میں کافروں کی گردنیں اڑانا لازم ہے۔ یہ چند آیات تو بطور نمونہ ہیں ورنہ وہ آیات جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو مشرکین اور اسلام دشمنوں کے ساتھ جہاد کا حکم دیا ہے بہت زیادہ ہیں۔
[ آئیے اب اس موضوع پر کچھ احادیث شریفہ اور آثار کو پڑھ کر اپنے ایمان کو جلا بخشتے ہیں۔]
٭ بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ بیان فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے [اللہ تعالیٰ کی طرف سے] حکم دیا گیا کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کرتا رہوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کرلیں پھر جب وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرلیں گے تو ان کے جان ومال سوائے شرعی حق کے ہم سے محفوظ ہوجائیں گے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہوگا۔ (بخاری)
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جہاد تم پر واجب ہے ہر امیر کے ساتھ [وہ امیر] نیک ہو یا فاسق۔ نماز تم پر لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے وہ نیک ہو یا فاسق اگرچہ کبائر کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔(ابوداؤد)
٭ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین چیزیں ایمان کی بنیاد ہیں۔
۱۔ جو شخص لا الہ الا اللہ کا اقرار کرے اس سے [ ہاتھ اور زبان کو ] روکنا کہ ہم نہ تو کسی گناہ کی وجہ سے اسے کافر قرار دیں اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اسے اسلام سے خارج سمجھیں۔
۲۔ جہاد جاری رہے گا جب سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے یہاں تک کہ میری امت کے آخری لوگ دجال سے لڑیں گے کسی ظالم کا ظلم یا کسی عادل کا عدل اس جہاد کو نہیں روک سکے گا۔
۳۔ تقدیر پر ایمان رکھنا۔ (ابوداؤد)
٭ حضرت ابن الخصاصیہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام پر بیعت کرنے کیلئے حاضر ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سامنے یہ تین شرطیں رکھیں کہ تم لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دو گے، پانچ وقت کی نمازیں پڑھو گے، زکوٰۃ ادا کرو گے، بیت اللہ شریف کے حج کرو گے، اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ان میں سے دو چیزوں [ یعنی زکوٰۃ اور جہاد ] کی میں طاقت نہیں رکھتا، زکوٰۃ کی طاقت اس لئے نہیں رکھتا کہ میرے پاس چند اونٹ ہیں جو میرے گھر والوں کے دودھ اور سواری کے کام آتے ہیں اور جہاد کی طاقت اس لئے نہیں رکھتا کہ لوگ کہتے ہیں جو شخص جہاد میں پیٹھ پھیر کر میدان سے بھاگ جائے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے گا میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میدان جنگ میں میں موت سے ڈر جاؤں اور میرا دل گھبرا جائے [ اور میں بھاگ کھڑا ہوں ] ابن الخصاصیہ فرماتے ہیں کہ [ یہ بات سن کر ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر اسے ہلایا اور فرمایا نہ صدقہ دو گے، نہ جہاد کرو گے تو جنت میں کیسے داخل ہوگے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا اے اللہ کے رسول میں آپ سے [ تمام شرطوں کے ساتھ ] بیعت کرتا ہوں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان تمام چیزوں پر بیعت فرمالیا۔ (المستدرک)
فائدہ۔ ۔ ۔ یہ روایت امام بیہقی نے سنن الکبریٰ میں بھی ذکر فرمائی ہے۔
٭ حضرت سلمہ بن نفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ گھوڑے چھوڑ دئیے گئے ہیں اور اسلحہ رکھ دیا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ اب لڑائی [جہاد ] ختم ہوچکی ہے [ یہ سن کر ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ [جو جہاد ختم ہونے کا گمان کررہے ہیں] جھوٹے ہیں جہاد تو ابھی شروع ہوا ہے اور میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتی رہے گی اور اس کی مخالفت کرنے والے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خاطر کچھ لوگوں کے دل ٹیڑھے کرے گا تاکہ ان کے ذریعے ان [ مجاہدین ] کو روزی دے۔ [ یعنی امت کے یہ مجاہد لوگ کافروں سے لڑیں گے تو ان کے مال ان کے ہاتھ آئیں گے ] یہ [مجاہدین ] قیامت تک جہاد کرتے رہیں گے اور گھوڑوں کی پیشانی میں ہمیشہ کیلئے خیر رکھ دی گئی ہے قیامت کے دن تک۔ [ اور ] جہاد بند نہیں ہوگا یہاں تک کہ یاجوج ماجوج نکل آئیں ۔(نسائی)
٭ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا جہاد کرو مشرکوں کے ساتھ اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے اور اپنی زبانوں سے۔
(ابوداؤد۔ نسائی، حاکم وقال صحیح علی شرط مسلم)
السنتکم [یعنی اپنی زبانوں سے جہاد کرو ] کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کی ایسی خدمت کرو اور انہیں ایسی سخت باتیں سناؤ جو انہیں بری لگیں اور انہیں ان باتوں کے سننے سے تکلیف ہو۔
٭ حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر امام کے پیچھے نماز پڑھو اور ہر [ مسلمان] میت کی نماز جنازہ ادا کرو اور ہرامیر کے ساتھ جہاد کرو۔ (ابن ماجہ۔ ابن عساکر)
٭ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسلام کے آٹھ حصے ہیں۔ اسلام قبول کرنا ایک حصہ ہے۔ نماز ایک حصہ ہے۔ زکوٰۃ ایک حصہ ہے۔ حج ایک حصہ ہے۔ جہاد ایک حصہ ہے۔ رمضان کے روزے ایک حصہ ہے۔ امر بالمعروف ایک حصہ ہے۔ نہی عن المنکر ایک حصہ ہے اورمحروم ہوگیا وہ شخص جس کے پاس [ ان حصوں میں سے ] کوئی حصہ بھی نہ ہو۔ (ابو یعلی)
فائدہ ۔ ۔ ۔ یہی روایت حضرت عمر ص سے بھی موقوفاً مروی ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
فائدہ ۔ ۔ ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی ہی روایت ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
٭ حضرت حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیا کہ ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کا حکم دیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع فرمایا [ لوگ جمع ہوگئے اور ان سے ] مسجد بھر گئی اور کچھ لوگ [باہر] اونچی جگہوں پر بیٹھ گئے تب حضرت یحییٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے پانچ باتوں کے بارے میں حکم دیا ہے کہ میں [خود] ان پر عمل کروں اور تمہیں بھی اس نے ان باتوں پر عمل کا حکم فرمایا ہے۔ ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ صر ف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ بے شک اس شخص کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اس شخص کی مانند ہے جس نے خالص اپنے مال یعنی سونے چاندی سے ایک غلام خریدا اور اسے کہا یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کاروبار ہے پس تم یہ کاروبار کرو اور اسکا نفع مجھے لا کر دو پس وہ غلام کام تو کرتا ہے مگر اس کا نفع اپنے مالک کے علاوہ کسی اور کو دے دیتا ہے۔ پس تم میں سے کون شخص یہ بات پسند کرے گا کہ اس کا غلام ایسا ہو [ جس طرح تم اپنے غلام کے بارے میں یہ پسند نہیں کرتے اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے بارے میں یہ پسند نہیں فرماتا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں ] اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں نماز کا حکم فرمایا ہے پس جب تم نماز پڑھو تو ادھر ادھر توجہ نہ کیا کرو کیونکہ جب تک بندہ نماز میں ادھر ادھر توجہ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں روزے کا حکم دیا ہے بے شک روزے دار کی مثال اس شخص جیسی ہے جو کسی جماعت میں مشک کی تھیلی لے کر بیٹھا ہو چنانچہ وہ خوشبو سب کو اچھی لگتی ہے اور بے شک روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ بے شک صدقہ کرنے والے کی مثال اس شخص کی مانند ہے جسے دشمن قید کرلیں اور اس کے ہاتھ اس کی گردن سے باندھ کر اسے قتل کرنے کیلئے لے جائیں تب وہ کہے کہ میں اپنا تمام تھوڑا زیادہ مال تمہیں بطور فدیہ دیتا ہوں پس وہ مال دے کر اپنی جان چھڑا لے [ اسی طرح صدقہ دینے والا شخص صدقہ دے کر عذاب الٰہی اور آفات سے خود کو بچا لیتا ہے ] اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو بے شک اس کی مثال اس شخص کی مانند ہے جس کے پیچھے دشمن دوڑ رہا ہو اور وہ کسی مضبوط قلعے میں پناہ لے کر اپنی جان دشمن سے بچالے اسی طرح بندہ صرف اللہ کے ذکر کی بدولت ہی شیطان سے محفوظ ہو سکتا ہے پھر فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں تمہیں [ یعنی اس امت کو] پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں ان باتوں کا حکم مجھے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ (۱) [ امیر کے حکم کو] سننا۔ (۲) [ امیر کی ] اطاعت کرنا۔(۳) جہاد کرنا۔ (۴)ہجرت کرنا۔ (۵) [ مسلمانوں کی] جماعت کو لازم پکڑنا۔ بے شک جو شخص ایک بالشت کے برابر جماعت سے الگ ہو اس نے اسلام کی رسی کو اپنے گلے سے نکال دیا مگر یہ کہ وہ دوبارہ جماعت میں لوٹ آئے۔ (ترمذی وقال حدیث حسن صحیح،نسائی (مختصراً)وابن خزیمہ۔ ابن حبان۔ حاکم)
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت جہاد باقی ہے اور جب تمہیں [ امیر کی طرف سے ] نکلنے کا حکم دیا جائے تو تم [جہاد میں ] نکل پڑو۔ (مسلم)
فائدہ۔ ۔ ۔ یہی حدیث بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
٭ عبدالمؤمن خالد کہتے ہیں مجھ سے نجدہ بن نفیع نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے قرآن مجید کی اس آیت الا تنفروا بعذبکم [ اگر تم جہاد میں نہیں نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دردناک عذاب دے گا۔التوبہ ۳۹ ] کا مطلب پوچھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلے کو جہاد میں نکلنے کا حکم دیا تو انہوں نے سستی کی پس اللہ تعالیٰ نے ان پربطور عذاب کے بارش بند کردی۔ ( ابوداؤد۔ حاکم)
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ اور اس سے پچھلی حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس مسلمان کو جہاد میں نکلنے کا حکم امیر کی طرف سے دے دیا جائے اس پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے اگرچہ عمومی حالات کے اعتبار سے اس وقت جہاد فرض کفایہ ہو۔
٭ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں جہاد کا ذکر فرمایا اور فرض نماز کے علاوہ کسی عمل کو جہاد سے افضل قرار نہیں دیا۔ (ابوداؤد، بیہقی)
امام بیہقی اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ جہاد [ عام حالات میں ] فرض کفایہ ہوتا ہے اسی وجہ سے اس پر فرض نماز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت دی کیونکہ نماز فرض عین ہے۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاد [ ہمیشہ فرص کفایہ نہیں رہتا بلکہ ] کبھی فرض عین بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ اس کاتذکرہ آئے گا۔
فائدہ۔ ۔ ۔ [ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے انفروا خفافا وثقالا (توبہ۔۴۱) اس کا عام طورپر ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ جہاد میں نکل پڑو ہلکے اور بوجھل۔ ہلکے اور بوجھل یا خفیف و ثقیل سے کیا مراد ہے؟ مصنف رحمہ اللہ نے اسی کی وضاحت کیلئے آگے کئی آثار پیش فرمائے ہیں اور اس آیت سے بھی جہاد کی فرضیت کو ثابت فرمایا ہے ]
٭ ابو راشد الحبرانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی زیارت کی وہ حمص [ نامی شہرمیں ] کسی صراف کے چھوٹے صندوق پر بیٹھے ہوئے تھے اور جہاد میں تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے تھے میں نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معذور قرار دے دیا ہے [ پھر آپ اس بڑھاپے میں جہاد کی مشقت میں خود کو کیوں ڈال رہے ہیں ] حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ منافقوں کے راز کھولنے والی سورۃ [ یعنی سورۃ توبہ ] مجھے نہیں بیٹھنے دیتی [ اس سورۃ میں] اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : انفروا اخفافا وثقالا [یعنی جس حال میں بھی ہو جہاد میں نکلو] (تفسیر ابن جریر طبری)
٭ حضرت ابو صالح رحمہ اللہ قرآن مجید کی آیت انفروا اخفافا وثقالا کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں کہ بوڑھے ہو یا جوان [ ہر حال میں جہاد میں نکلو] (مصنف ابن ابی شیبہ)
٭ حضرت حسن بصری بھی خفافا و ثقالا کی یہی تفسیر فرماتے ہیں [ یعنی خفافاً سے مراد جوانی ثقالاً سے مراد بڑھاپا ] ( مصنف ابن ابی شیبہ)
٭ حضرت قتادہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں چست ہو یا غیر چست [ یعنی طبیعت ہشاش بشاش اور دل جہاد میں نکلنے پر راضی ہو۔ تب بھی نکلو اور اگر طبیعت ہشاش بشاش نہ ہو اور دل نہ چاہے تب بھی جہاد میں نکلو] (مصنف ابن ابی شیبہ)
٭ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں ابو العوام بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے ایک سال جہاد کا ناغہ فرمایا پھر انہوں نے یہ آیت انفروا اخفافا وثقالا پڑھی تو فوراً جہاد میں نکل کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے کہ اس آیت میں مجھے تو کوئی چھوٹ نظر نہیں آتی۔
٭ حضرت حکم رحمہ اللہ اس آیت انفروا اخفافا وثقالا کا یہ مطلب بیان فرماتے ہیں کہ مشغول ہو یا فارغ [ یعنی اگر دینی و دنیوی، ذہنی و جسمانی طور پر مصروف ہو تب بھی جہاد میں نکلو اور اگر فارغ ہو تب بھی نکلو] (مصنف ابن ابی شیبہ)
مشغول اور فارغ کا ایک معنی یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جس شخص کے پاس ایسی چیزیں [ باغات تجارت وغیرہ ] ہوں جنہیں چھوڑ کر جانا اسے ناگوار گزرتا ہو ایسا شخص مشغول ہے اور جس کے پاس ایسی چیزیں نہ ہوں وہ غیر مشغول ہے۔
٭ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں خفیف [ ہلکے ] سے مراد بہادر اور ثقیل [ بھاری ] سے مراد بزدل ہے [ یعنی تم بزدل ہو یا بہادر ہر حال میں جہاد کیلئے نکل پڑو ] (تفسیر ابن جریر طبری)
تفسیر قرطبی میں حضرت امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت [ انفروا اخفافا وثقالا ] کا درست مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو جہاد میں نکلنے کا حکم دیا ہے خواہ جہاد میں نکلنا ان کیلئے آسان ہو یا مشکل۔
٭ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ ایک مرتبہ جہاد کے لئے ایسی حالت میں تشریف لے گئے کہ ان کی ایک آنکھ کام نہیں کررہی تھی ان سے کہا گیا کہ آپ تو بیمار ہیں[ پس اس مجبوری و معذوری کی وجہ سے گھر میں بیٹھ رہیں] یہ سن کر فرمانے لگے اللہ سے توبہ کرو اللہ تعالیٰ نے ہلکے اور بھاری سب کو نکلنے کا حکم دیا ہے۔ اگر میرے لئے میدان میں جا کر لڑنا ممکن نہ بھی ہوا تو میں مجاہدین کی تعداد بڑھاؤں گا اور ان کے سامان کی بھی حفاظت کروں گا۔
اسی طرح روایت ہے کہ شام کے غزوات میں ایک شخص نے ایک ایسے بزرگ کو میدان جنگ میں لڑتے دیکھا جن کی پلکیں بڑھاپے کی وجہ سے ان کی آنکھوں پر گری ہوئی تھیں اس شخص نے کہا چچا جان اللہ تعالیٰ نے آپ کو معذور قرا ر دیا ہے [ پھر آپ اس بڑھاپے میں کیوں اس قدر مشقت اٹھا رہے ہیں ] یہ سن کر وہ فرمانے لگے۔ اے بھتیجے ہم خفیف [ ہلکے ] ہوں یاثقیل [ بھاری] ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نکلنے کا حکم دیا گیاہے۔
٭ حضرت عمرو بن ام مکتوم نے غزوہ احد کے دن فرمایا میں نابیناآدمی ہوں آپ لوگ لشکر کا جھنڈا مجھے دے دیں کیونکہ اگر علمبردار [ جھنڈے والا ] پیچھے ہٹ جائے تو پورا لشکر شکست کھا جاتا ہے مجھے تو یہ پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کون مجھ پر وار کرنا چاہتا ہے چنانچہ میں اپنی جگہ پر ڈٹا رہوں گا [ اور کسی حملے کے خوف سے پیچھے نہیں ہٹوں گا ] [یہ تو ان کا جذبہ تھا مگر ]اس دن جھنڈا برداری کی سعادت حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کو نصیب ہوئی۔ ( الجامع لاحکام القرآن )
٭ حضرت عبداللہ بن مبارک عطیہ بن ابی عطیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کوفہ کی لڑائی کے دنوں میںحضرت ابن ام مکتوم کو دیکھا کہ وہ [شوق جہاد میں] اپنی لمبی زرہ کو لشکر کی صفوں کے درمیان گھسیٹتے پھر رہے تھے۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک)
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ آیت انفروا اخفافا وثقالا پڑھی تو فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جہاد کا حکم دیا ہے اور ہم بوڑھے ہوں یا جوان ہمیں نکلنے کا حکم دیا ہے[ان کے عزم اور تیاری کو دیکھ کر ] ان کے بیٹھے کہنے لگے کہ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں جہاد فرمایا ہے اب ہم آپ کی طرف سے جہاد کریں گے [ مگر وہ خود نکلے ] پھر انہوں نے سمندری لڑائی میں حصہ لیا اور دوران جہاد جہاز ہی پر انتقال فرمایا ان کے رفقاء نے کوئی جزیرہ ڈھونڈنا شروع کیا تاکہ انہیں دفن کر سکیں مگر انہیں سات دن بعد اس میں کامیابی ملی [ ان سات دنوں میں ] حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک میں کوئی تغیر نہ آیا۔ (کتاب الجہاد لا بن مبارک)
٭ حضرت امام ضحاک رحمہ اللہ آیت کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جب جہاد کی آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ گراں گزری پھر جب اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کا اجرو ثواب ان کی فضیلت اور شہادت کے بعد ان کی زندگی اور ان کیلئے [ خاص ] روزی کا بیان فرمایا تو پھر [ اللہ تعالیٰ کے وعدں پر ] یقین رکھنے والوں نے جہاد پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دی پس انہوں نے جہاد کو اپنا محبوب بنالیا اور اس میں انہیں خوب رغبت ہوگئی یہاں تک کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں جانے کیلئے سواری مانگتے تھے۔ مگر جب اللہ کے رسول ان کے لئے سواری نہ پاتے تو وہ روتے ہوئے واپس لوٹتے تھے اس غم میں کہ ان کے پاس جہاد کیلئے خرچہ نہیں ہے۔ (کتاب الجہاد لا بن مبارک)
٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگوں پر تین سفر لازم کر دئیے گئے ہیں حج، عمرہ اور جہاد۔
٭ حضرت مکحول رحمہ اللہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ قبلہ رخ ہو کر دس قسمیں کھاتے اور فرماتے کہ جہاد تم پر فرض ہے پھر فرماتے کہ اگر تم چاہو تو میں [ تمہارے اطمینان قلب کے لئے ] مزید قسمیں بھی کھا سکتا ہوں۔ (مصنف عبدالرزاق)