باذوق
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کفار سے مقابلے کی تیاری ۔۔۔ کیسے ؟!
کافروں سے مقابلے میں نصرت و فتح کے لئے '' ایمان '' کی شرط کا قرآن میں بار بار ذکر آیا ہے۔
جب کہ '' ٹیکنالوجی '' ( یعنی : دنیاوی عصری تعلیم ) کے حصول کے لئے پورے قرآن مجید میں صرف ایک جگہ ہی حکم دیا گیا ہے۔
ملاحظہ کیجئے :
وَاَعِدُّوا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ ..... (الانفال : ٦٠)
اِس آیت میں '' قوۃ '' کی تفسیر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہے۔
'' قوۃ '' یعنی تیر اندازی ۔۔۔
( صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ ، باب: فضل الرمی و الحث ۔۔۔)
(آن لائن عربی متن یہاں ہے)۔
کیونکہ اُس دور میں تیر اندازی بہت بڑا جنگی ہتھیار اور نہایت اہم فن تھا۔
مگر تیر اندازی کی اہمیت اب باقی نہیں رہی ہے۔ اس لیے ۔۔۔
وَاَعِدُّوا لَھُمْ (کافروں سے مقابلے کی تیاری کرو) کے تحت آج کل کے جنگی ہتھیاروں ( مثلاً مزائل ، ٹینک ، نیوکلیر بم ) اور بحری جنگ کے لئے آبدوزیں وغیرہ کی تیاری نہایت ضروری ہے۔ اور ان سب کی تیاری کے لیے دنیاوی عصری تعلیم بھی بہت ضروری ہے۔
اور ایک اہم بات یہ بھی یاد رہے کہ ۔۔۔
اس تیاری کے ساتھ ہی اللہ نے ۔۔۔ اسْتَطَعْتُمْ ( یعنی : جتنی تم میں استطاعت ہو ) کا اضافہ کر کے یہ بھی فرما دیا ہے کہ تیاری کرنے کا مطلب ۔۔۔ کفار کے برابر تیاری کرنا نہیں بلکہ اپنی استطاعت اور وسائل کے مطابق جتنی تیاری ممکن ہو ، وہ کر لو اور اس کے بعد اللہ پر توکل کرتے ہوئے کفار کے مقابلے پر آجاؤ۔
کم ٹیکنالوجی ، افرادی قوت میں کمی ، اسلحہ ساز و سامان کی کسر ۔۔۔ اللہ تعالیٰ اپنی نصرت کے ذریعے پوری فرما دیں گے۔
جیسے اللہ تعالیٰ نے بدر ، احزاب اور حنین کے معرکوں میں نصرت دلائی ۔
مضمون کے مآخذ :
(تفسیر احسن البیان : حافظ صلاح الدین یوسف )
(علاماتِ قیامت کا بیان : اقبال کیلانی )