رضوان
محفلین
کفن
جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا دردِ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی ۔ اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دل خراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے _ جاڑوں کی رات تھی ، فضا سنّاٹے میں غرق۔ سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا ۔
گھیسو نے کہا ، " معلوم ہوتا ہے بچیگی نہیں ۔ سارا دن تڑپتے ہو گیا ۔ جا ، دیکھ تو آ۔"
مادھو دردناک لہجے میں بولا ، " مرنا ہی ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی ۔ دیکھ کر کیا کروں "
" تو بڑا بیدرد ہے بے ۔ سال بھر جس کے ساتھ جندگانی کا سکھ بھوگا اسی کے ساتھ اتنی بیوپھائی ۔"
" تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا نہیں دیکھا جاتا ۔"
چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام ۔ گھیسو اک دن کام کرتا تو تین دن آرام ۔ مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹہ بھر کام کرتا تو گھنٹے بھر چلم پیتا ۔ اسلئے انہیں کوئی رکھتا ہی نہ تھا ۔ گھر میں مٹّھی بھر اناج بھی موجود ہو تو ان کے لیے کام کرنے کی قسم تھی ۔ جب دو ایک فاقے ہو جاتے تو گھیسو درختوں پر چڑھ کر لکڑیاں توڑ لاتا اور مادھو بازار سے بیچ لاتا ۔ اور جب تک وہ پیسے رہتے دونوں ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ۔ جب فاقے کی نوبت آ جاتی تو پھر لکڑیاں توڑتے ، یا کوئی مزدوری تلاش کرتے ۔ گاؤں میں کام کی کمی نہ تھی _ کاشتکاروں کا گاؤں تھا ۔ محنتی آدمی کے لئے پچاس کام تھے _ مگر ان دونوں کو لوگ اسی وقت بلاتے جب دو آدمیوں سے ایک کا کام پا کر بھی قناعت کر لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا ۔
کاش دونوں سادھو ہوتے تو انہیں قناعت اور توکّل کے لئے ضبطِ نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی ۔ یہ ان کی خلقی صفت تھی ۔ عجیب زندگی تھی ان کی ۔ گھر میں مٹّی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں ۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنی عریانی ڈھانکے ہوئے ، دنیا کی فکروں سے آزاد ۔ قرض سے لدے ہوئے ۔ گالیاں بھی کھاتے ، مار بھی کھاتے ، مگر کوئی غم نہیں ۔ مسکین اتنے کہ وصولی کی مطلق امّید نہ ہونے پر بھی لوگ انہیں کچھ نہ کچھ قرض دے دیتے تھے ۔ مٹر یا آلو کی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو اکھاڑ لاتے اور بھون بھون کر کھا لیتے ۔ یا دس پانچ اوکھ توڑ لاتے اور رات کو چوستے ۔ گھیسو نے اسی زاہدانہ انداز سے ساٹھ سال کی عمر کاٹ دی ۔ اور مادھو بھی سعادتمند بیٹے کی طرح باپ کے نقشِ قدم پر چل رہا تھا ۔ بلکہ اس کا نام اور بھی روشن کر رہا تھا۔ اس وقت بھی دونوں الاؤ کے سامنے بیٹھے آلو بھون رہے تھے جو کسی کے کھیت سے کھود لائے تھے ۔ گھیسو کی بیوی کا تو مدّت ہوئی انتقال ہو گیا تھا ۔ مادھو کی شادی پچھلے سال ہوئی تھی ۔ جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے اس خاندان میں تمدّن کی بنیاد ڈالی تھی ۔ پسائی کر کے ، گھاس چھیل کر ، وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کر لیتی تھی ۔ اور ان دونوں بے غیرتوں کا دوزخ بھرتی رہتی تھی ۔ جب سے وہ آئی یہ دونوں اور بھی آرام طلب اور آلسی ہو گئے تھے۔ بلکہ کچھ اکڑنے بھی لگے تھے ۔ کوئی کام کرنے کو بلاتا تو بے نیازی کی شان سے دوگنی مزدوری مانگتے ۔ وہی عورت آج صبح سے دردِ زہ سے مر رہی تھی ۔ اور یہ دونوں شاید اسی انتظار میں تھے کہ وہ مر جائے تو آرام سے سوئیں ۔
گھیسو نے آلو نکال کر چھیلتے ہوئے کہا ، " جا کر دیکھ تو کیا حالت ہے اس کی ۔ چڑیل کا پھساد ہوگا اور کیا ۔ یہاں تو اوجھا بھی ایک روپیہ مانگتا ہے ۔کس کے گھر سے آئے ۔"
مادھو کو اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھری میں گیا تو گھیسو آلوؤں کا بڑا حصّہ صاف کر دیگا ۔ بولا ، " مجھے وہاں ڈر لگتا ہے ۔،،
" ڈر کس بات کا ہے ۔ میں تو یہاں ہوں ہی ۔،،
" تو تمہیں جا کر دیکھو نہ ۔"
" میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں _ اور پھر مجھ سے لجائیگی کہ نہیں ۔ کبھی اس کا منہ نہیں دیکھا ، آج اس کا اگھڑا ہوا بدن دیکھوں ! اسے تن کی سدھ بھی تو نہ ہوگی _ مجھے دیکھ لیگی تو کھل کر ہاتھ پاؤں بھی نہ پٹک سکےگی _"
" میں سوچتا ہوں کوئی بال بچّہ ہو گیا تو کیا ہوگا _ سونٹھ ، گڑ ، تیل ، کچھ بھی تو نہیں ہے گھر میں ۔،،
" سب کچھ آ جائیگا ۔ بھگوان بچّہ دیں تو ۔ جو لوگ ابھی ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں وہی تب بلا کر دینگے ۔ میرے نو لڑکے ہوئے ۔ گھر میں کبھی کچھ نہ تھا۔ مگر اسی طرح ہر بار کام چل گیا۔"
جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچّھی نہ تھی ، اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے ، کہیں زیادہ فارغ البال تھے ، وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی تعجّب کی بات نہ تھی _ ہم تو کہینگے گھیسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا _ اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا _ ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا _ اسلئے جہاں اس کی جماعت کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے ہوئے تھے ، اس پر سارا گاؤں انگشت نمائی کرتا تھا _ پھر بھی اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم سے کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑتی _ اور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بے جا فائدہ تو نہیں اٹھاتے _
دونوں آلو نکال نکال کر جلتے جلتے کھانے لگے ۔ کل سے کچھ نہیں کھایا تھا ۔ اتنا صبر نہ تھا کہ انہیں ٹھنڈا ہو جانے دیں ۔ کئی بار دونوں کی زبانیں جل گئیں ۔ چھل جانے پر آلو کا بیرونی حصّہ تو بہت زیادہ گرم نہ معلوم ہوتا ۔ لیکن دانتوں کے تلے پڑتے ہی اندر کا حصّہ زبان اور حلق اور تالو کو جلا دیتا تھا ۔ اور اس انگارے کو منہ میں رکھنے سے زیادہ خیریت اسی میں تھی کہ وہ اندر پہنچ جائے _ وہاں اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی سامان تھے ۔ اسلئے دونوں جلد جلد نگل جاتے ۔ حالانکہ اس کوشش میں ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔
گھیسو کو اس وقت ٹھاکر کی برات یاد آئی جس میں بیس سال پہلے وہ گیا تھا ۔ اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی ۔ اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی ۔ بولا ، " وہ بھوج نہیں بھولتا ۔ تب سے پھر اس طرح کا کھانا اور بھر پیٹ نہیں ملا ۔ لڑکی والوں نے سب کو پوڑیاں کھلائی تھیں سب کو ۔ چھوٹے بڑے ، سب نے پوڑیاں کھائیں ، اور اصلی گھی کی ۔ چٹنی ، رائتہ ، تین طرح کے سوکھے ساگ ۔ ایک رسیدار ترکاری ، دہی ، چٹنی ، مٹھائی ۔ اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا ۔ کوئی روک نہیں تھی ۔ جو چیز چاہو مانگو ۔ اور جتنا چاہو کھاؤ ۔ لوگوں نے ایسا کھایا ، ایسا کھایا ، کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا ۔ مگر پروسنے ولے ہیں کہ سامنے گرم گرم ، گول گول ، مہکتی ہوئی کچوریاں ڈالے دیتے ہیں ۔ منع کرتے ہیں کہ نہیں چاہئے _ پتّل کو ہاتھ سے روکے ہوئے ہیں ۔ مگر وہ ہیں کہ دئے جاتے ہیں ۔ اور جب سب نے منہ دھو لیا تو ایک ایک بیڑا پان بھی ملا۔ مگر مجھے پان لینے کی کہاں سدھ تھی ۔ کھڑا نہ ہوا جاتا تھا۔ چٹ پٹ جا کر اپنے کمبل پر لیٹ گیا ۔ ایسا دریا دل تھا وہ ٹھاکر ۔"
مادھو نے ان تکلّفات کا مزہ لیتے ہوئے کہا ، "اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا ۔"
" اب کوئی کیا کھلائیگا ، وہ جمانا دوسرا تھا _ اب تو سب کو کپھایت سوجھتی ہے ۔ سادی میں مت کھرچ کرو _ کریا کرم میں مت کھرچ کرو ۔ پوچھو گریبوں کا مال بٹور بٹور کر کہاں رکھوگے ! بٹورنے میں تو کمی نہیں ہے ۔ ہاں کھرچ میں کپھایت سوجھتی ہے ۔"
" تم نے ایک بیس پوڑیاں کھائی ہونگی ! "
" بیس سے جیادہ کھائی تھیں ۔،،
" میں پچاس کھا جاتا۔"
" پچاس سے کم میں نے بھی نہ کھائی ہونگی _ اچّا پٹّھا تھا _ تو اس کا آدھا بھی نہیں ہے ۔"
آلو کھا کر دونوں نے پانی پیا اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر ، پاؤں پیٹ میں ڈالے سو رہے ، جیسے دو بڑے بڑے اژدر گینڈلیاں مارے پڑے ہوں ۔
اور بدھیا ابھی تک کراہ رہی تھی
صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جا کر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہو گئی تھی ۔ اس کے منہ پر مکّھیاں بھنک رہی تھیں ۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں۔ سارا جسم خاک میں لت پت تھا۔ اس کے پیٹ میں بچّہ مر گیا تھا۔
مادھو بھاگا ہوا گھیسو کے پاس آیا _ پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتی پیٹنے لگے _ پڑوس والوں نے یہ آہ و زاری سنی تو دوڑے ہوئے آئے اور رسمِ قدیم کے مطابق غم زدوں کی تشفّی کرنے لگے ۔
مگر زیادہ رونے دھونے کا موقعہ نہ تھا _ کفن کی اور لکڑی کی فکر کرنی تھی ۔ گھر میں تو پیسہ اسی طرح غائب تھا جیسے چیل کے گھونسلے میں ماس۔
باپ بیٹے روتے ہوئے گاؤں کے زمیندار کے پاس گئے _ وہ ان دونوں کی صورت سے نفرت کرتے تھے ۔ کئی بار انہیں اپنے ہاتھوں پیٹ چکے تھے ، چوری کی علّت میں ، وعدہ پر کام پر نہ آنے کی علّت میں _ پوچھا ، " کیا ہے بے گھسوا ۔ روتا کیوں ہے ۔ اب تو تیری صورت ہی نہیں نظر آتی۔ اب معلوم ہوتا ہے تم اس گاؤں میں رہنا نہیں چاہتے ۔"
گھسو نے زمین پر سر رکھ کر آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے کہا ، " سرکار بڑی بپت میں ہوں _ مادھو کی گھر والی رت گجر گئی ۔ دن بھر تڑپتی رہی سرکار ۔ آدھی رات تک ہم دونوں اس کے سرہانے بیٹھے رہے ۔ دوا دارو جو کچھ ہو سکا سب کیا ۔ مگر وہ ہمیں دگا دے گئی ۔ اب کوئی ایک روٹی دینے والا نہیں رہا ۔ مالک ، تباہ ہو گئے ۔ گھر اجڑ گیا۔ آپ کا گلام ہوں ۔ اب آپ کے سوا اس کی مٹّی کون پار لگائیگا۔ ہمارے ہاتھ میں تو جو کچھ تھا وہ سب دوا دارو میں اٹھ گیا ۔ سرکار ہی کی دیا ہوگی تو اس کی مٹّی اٹھیگی۔ آپ کے سوا اور کس کے دوار پر جائیں ۔ "
زمیندار صاحب رحم دل آدمی تھے ۔ مگر گھیسو پر رحم کرنا کالے کمبل پر رنگ چڑھانا تھا۔ جی میں تو آیا کہہ دیں ، " چل ، دور ہو یہاں سے۔ لاش گھر میں رکھ کر سڑا۔ یوں تو بلانے سے بھی نہیں آتا ۔ آج جب غرض پڑی تو آ کر خوشامد کر رہا ہے ۔ حرام خور کہیں کا ۔ بدمعاش۔ " مگر یہ غصّہ یا انتقام کا موقعہ نہ تھا۔ طوعاً و کرہاً دو روپئے نکال کر پھینک دئے ۔ مگر تشفّی کا ایک کلمہ بھی منہ سے نہ نکالا ۔ اس کی طرف تاکا تک نہیں۔ گویا سر کا بوجھ اتارا ہو۔
جب زمیندار صاحب نے دو روپیہ دیے تو گاؤں کے بنئے مہاجنوں کو انکار کی جرائت کیونکر ہوتی۔ گھیسو زمیندار کے نام کا ڈھنڈھورا پیٹنا جانتا تھا۔ کسی نے دو آنے دئے ، کسی نے چار آنے ۔ ایک گھنٹہ میں گھیسو کے پاس پانچ روپئے کی معقول رقم جمع ہو گئی ۔ کسی نے غلّہ دے دیا ، کسی نے لکڑی ۔ اور دوپہر کو گھیسو اور مادھو بازار سے کفن لانے چلے۔ ادھر لوگ بانس وانس کاٹنے لگے ۔
گاؤں کی رقیق القلب عورتیں آ آ کر لاش کو دیکھتی تھیں ، اور اس کی بے بسی پر دو بوند آنسو گرا کر چلی جاتی تھیں۔
بازار میں پہنچ کر گھیسو بولا ، " لکڑی تو اسے جلانے بھر کو مل گئی ہے ، کیوں مادھو۔ "
مادھو بولا ، " ہاں لکڑی تو بہت ہے ۔ اب کپھن چاہئے۔"
" تو کوئی ہلکا سا کپھن لے لیں۔"
" ہاں اور کیا ۔ لاش اٹھتے اٹھتے رات ہو جائیگی ۔ رات کو کپھن کون دیکھتا ہے۔"
" کیسا برا رواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے اسے مرنے پر نیا کپھن چاہئے۔ "
" کپھن لاس کے ساتھ جل ہی تو جاتا ہے۔"
" اور کیا رکھا رہتا ہے۔ یہی پانچ روپیہ ملتے تو کچھ دوا دارو کرتے۔"
دونوں ایک دوسرے کے دل کا ماجرا معنوی طور پر سمجھ رہے تھے۔ بازار میں ادھر ادھر گھومتے رہے۔ کبھی اس بجاج کی دوکان پر گئے کبھی اس کی دوکان پر _ طرح طرح کے کپڑے ، ریشمی اور سوتی ، دیکھے ، مگر کچھ جچتا نہیں ۔ یہاں تک کہ شام ہو گئی ۔ دونوں اتّفاق سے یا عمداً ایک شراب خانے کے سامنے آ پہنچے ۔ اور گویا کسی طے شدہ فیصلے کے مطابق اندر گئے ۔ وہاں ذرا دیر تک دونوں تذبذب کی حالت میں کھڑے رہے ۔ پھر گھیسو نے گَدّی کے سامنے جا کر کہا ، " ساہو جی ایک بوتل ہمیں بھی دینا۔ " پھر گھیسو نے ایک بوتل شراب لی ، کچھ گزک۔ اس کے بعد کچھ چکھونہ آیا، تلی ہوئی مچھلی آئی۔ اور دونوں برآمدے میں بیٹھ کر شراب پینے لگے ۔
کئی کجّیاں پیہم پینے کے بعد دونوں سرور میں آ گئے ۔
گھیسو بولا ، " کپھن لگانے سے کیا ملتا۔ آکھر جل ہی تو جاتا۔ کچھ بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔"
مادھو آسمان ک طرف دیکھ کر بولا ، گویا فرشتوں کو اپنی معصومیت کا یقین دلا رہا ہو ، " دنیا کا دستور ہے ۔ یہی لوگ بامہنوں کو ہجاروں رپئے کیوں دے دیتے ہیں۔ کون دیکھتا ہے پرلوک میں ملتا ہے یا نہیں ۔"
" بڑے آدمیوں کے پاس دھن ہے، پھونکیں۔ ہمارے پاس پھونکنے کو کیا ہے ۔ "
" لیکن لوگوں کو جواب کیا دوگے ! لوگ پوچھینگے نہیں ، کپھن کہاں ہے ! "
گھیسو ہنسا ۔ " کہہ دینگے روپئے کمر سے کھسک گئے ۔ بہت ڈھونڈا ، ملے نہیں ۔ لوگوں کو وشواس نہ آئیگا ، لیکن پھر وہی روپیہ دینگے۔"
مادھو بھی ہنسا ، اس غیر متوقّع خوش نصیبی پر ، قدرت کو اس طرح شکست دینے پر ۔ بولا ، " بڑی اچّھی تھی ، بچاری ۔ مری بھی تو خوب کھلا پلا کر۔"
آدھی بوتل سے زیادہ ختم ہو گئی _ گھیسو نے دو سیر پوڑیاں منگوائیں ، گوشت اور سالن ۔ اور چٹپٹی کلیجیاں اور تلی ہوئی مچھلیاں ۔ شراب خانے کے سامنے ہی دوکان تھی ۔ مادھو لپک کر دو پتّلوں میں ساری چیزیں لے آیا ۔ پورے ڈیڑھ روپئے خرچ ہو گئے۔ صرف تھوڑے سے پیسے بچ رہے۔
دونوں اس وقت اس شان سے بیٹھے ہوئے پوڑیاں کھا رہے تھے جیسے جنگل میں کوئی شیر اپنا شکار اڑا رہا ہو ۔ نہ جواب دہی کا خوف تھا ، نہ بدنامی کی فکر۔ ضعف کے ان مراحل کو انہوننے بہت پہلے طے کر لیا تھا ۔ گھیسو فلسفیانہ انداز سے بولا ، " ہماری آتما پرسنّ ہو رہی ہے تو کیا اسے پنّ نہ ہوگا ؟ "
مادھو نے فرقِ عقیدت جھکا کر تصدیق کی _ " جرور اسے جرور ہوگا ۔ بھگوان ، تم انترجامی ( علیم ) ہو ۔ اسے بیکنٹھ لے جانا۔ ہم دونوں ہردے سے اسے دعا دے رہے ہیں۔ آج جو بھوجن ملا وہ کبھی عمر بھر نہ ملا تھا۔"
ایک لمحہ کے بعد مادھو کے دل میں ایک تشویش پیدا ہوئی ۔ بولا ، " کیوں دادا ، ہم لوگ بھی تو وہاں ایک نہ ایک دن جائینگے ہی۔"
گھیسو نے اس طفلانہ سوال کا جواب نہ دیا ۔مادھو کی طرف پر ملامت انداز سے دیکھا۔ وہ پرلوک کی باتیں سوچ کر اس آنند میں بادھا نہ ڈالنا چاہتا تھا۔
" جو وہاں ہم لوگوں سے وہ پوچے کہ تم نے ہمیں کپھن کیوں نہیں دیا تو کیا کہوگے ؟ "
" کہینگے تمہارا سر۔"
" پوچھیگی تو جرور۔"
" تو کیسے جانتا ہے اسے کپھن نہ ملیگا ؟ تو مجھے ایسا گدھا سمجھتا ہے ! میں ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھودتا رہا ہوں ۔ اس کو کپھن ملیگا اور بہت اچّھا ملیگا ۔اس سے بہت اچّھا ملیگا جو ہم دیتے"
مادھو کو یقین نہ آیا ۔ بولا ، " کون دیگا ؟ روپئے تو تم نے چٹ کر دئے۔"
گھیسو تیز ہو گیا۔ " میں کہتا ہوں اسے کپھن ملیگا۔ تو مانتا کیوں نہیں ؟"
" کون دیگا ، بتاتے کیوں نہیں ؟ وہ تو مجھ سے پوچھیگی۔ اس کی مانگ میں تو سندور میں نے ڈالا تھا۔"
" وہی لوگ دینگے جنہوں نے اب کی دیا۔ ہاں وہ روپئے ہمارے ہاتھ نہ آئینگے ۔اور اگر کسی طرح آ جائیں تو پھر ہم اسی طرح یہاں بیٹھے پیّنگے ۔ اور کپھن تیسری بار ملیگا ۔ "
جیوں جیوں اندھیرا بڑھتا تھا اور ستاروں کی چمک تیز ہوتی تھی ، مے خانہ کی رونق بھی بڑھتی جاتی تھی _ کوئی گاتا تھا ، کوئی بہکتا تھا _ کوئی اپنے رفیق کے گلے لپٹا جاتا تھا ، کوئی اپنے دوست کے منہ میں ساغر لگائے دیتا تھا۔ وہاں کی فضا میں سرور تھا۔ ہوا میں نشہ ۔ کتنے تو چلّو میں الّو ہو جاتے ہیں ۔ یہاں آتے تھے صرف خود فراموشی کا مزہ لینے کے لئے ۔ شراب سے زیادہ یہاں کی ہوا سے مسرور ہوتے تھے ۔ زیست کی بلا یہاں کھینچ لاتی تھی ۔ اور کچھ دیر کے لئے وہ بھول جاتے تھے کہ وہ زندہ ہیں ، یا مردہ ہیں ، یا زندہ در گور ہیں۔
اور یہ دونوں باپ بیٹے اب بھی مزے لے لے کر چسکیاں لے رہے تھے ۔ سب کی نگاہیں ان کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں دونوں۔ پوری بوتل بیچ میں ہے ۔
کھانے سے فارغ ہو کر مادھو نے بچی ہوئی پوڑیوں کا پتّل اٹھا کر ایک بھکاری کو دے دیا جو کھڑا ان کی طرف گرسنہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اور دینے کے غرور اور مسرّت اور ولولہ کا اپنی زندگی میں پہلی بار احساس کیا۔
گھیسو نے کہا ، " لے جا ۔ کھوب کھا اور اسیرباد دے ۔ جس کی کمائی ہے وہ تو مر گئی ، مگر تیرا اسیرباد اسے جرور پہنچ جائیگا ۔ روئیں روئیں سے اسیرباد دے ۔ بڑی گاڑھی کمائی کے پیسے ہیں۔"
مادھو نے پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ، " بیکنٹھ میں جائیگی دادا ۔ بیکنٹھ کی رانی بنیگی"
گھیسو کھڑا ہو گیا اور جیسے مسرّت کی لہروں میں تیرتا ہوا بولا ، " ہاں بیٹا ، بیکنٹھ میں جائیگی ۔ کسی کو ستایا نہیں۔ کسی کو دبایا نہیں۔ مرتے مرتے ہماری جندگی کی سب سے بڑی لالسا پوری کر گئی۔ وہ نہ بیکنٹھ میں جائیگی تو کیا یہ موٹے موٹے لوگ جائینگے جو گریبوں کو دونوں ہاتھ سے لوٹتے ہیں ، اور اپنے پاپ کو دھونے کے لئے گنگا میں نہاتے ہیں اور مندر میں جل چڑھاتے ہیں۔"
یہ خوش اعتقادی کا رنگ بھی بدلا۔ تلوّن نشے کی خاصیت ہے ۔ یاس اور غم کا دورہ ہوا۔
مادھو بولا ، " مگر دادا بچاری نے جندگی میں بڑا دکھ بھوگا۔ مری بھی کتنا دکھ جھیل کر۔ " وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رونے لگا ۔چیخیں مار مار کر۔
گھیسو نے سمجھایا ، " کیوں روتا ہے بیٹا۔ کھس ہو کہ وہ مایا جال سے مکت ہو گئی۔ جنجال سے چھوٹ گئی ۔ بڑی بھاگوان تھی جو اتنی جلد مایا موہ کے بندھن توڑ دئے ۔"
اور دونوں وہیں کھڑے ہو کر گانے لگی۔
ٹھگنی کیوں نیناں جھمکاوے ۔ ٹھگنی۔
سارا مے خانہ محوِ تماشا تھا اور یہ دونوں مے کش محویت کے عالم میں گائے جاتے تھے ۔ پھر دونوں ناچنے لگے۔ اچھلے بھی ، کودے بھی ، گرے بھی ، مٹکے بھی ۔ بھاؤ بھی بتائے ،ابھینے بھی کئیے ، اور آخر نشے سے بدمست ہو کر وہیں گر پڑے ۔