حسان خان
لائبریرین
عام طور پر جب عربی کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اُس سے ایک ہی زبان مراد ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ عربی کئی گوناگوں لہجوں اور اسلوبوں کا مجموعہ ہے۔ یہاں اُن مختلف انواع کا مختصر تعارف دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کلاسیکی عربی:
کلاسیکی عربی یا قرآنی عربی اُس زبان کو کہا جاتا ہے جو ساتویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی عیسوی تک کتابت کے لیے استعمال ہوا کرتی تھی۔ اسلام سے قبل کے دور میں شمالی عربستان میں کئی ملتی جلتی بولیاں بولی جاتی تھیں، لیکن قرآن کی زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بدوی قبائل اور قریشِ مکہ کے لہجے پر مبنی ہے۔ پس از قرآنی دور میں قرآن کا لہجہ عربی کا معیاری لہجہ بن گیا اور اور عربی کے باقی لہجے فراموشی کی نذر ہو گئے۔ بعد میں جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں وہ قرآنی عربی کی پیروی ہی میں لکھی گئیں۔ عربی چونکہ ایک بڑے گروہ کی دینی زبان تھی، اور اُس گروہ کو اپنی احتیاجوں کے لیے عربی متون پڑھنے کی ضرورت رہتی تھی، اس لیے قرونِ وسطیٰ میں عربی کے قواعد نویسی اور لغت نویسی پر بہت سارا کام ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی کے ابتدائی ماہرینِ صرف و نحو میں نومسلمان ایرانی پیش پیش تھے اور ایرانی مصنفوں نے عربی زبان پر بہت ساری منظم کتابیں لکھی تھیں۔ دینِ اسلام کا سارا دینی ادب اسی کلاسیکی عربی میں ہے اور کلاسیکی عربی میں شاعری کا بھی بڑا گنجینہ موجود ہے۔ کلاسیکی عربی کو اپنے ذخیرۂ الفاظ کے پہلو سے بے حد غنی مانا جاتا ہے۔
جدید معیاری عربی:
انیسویں صدی عیسوی میں جب عرب نشاۃِ ثانیہ یا النھضۃ کا آغاز ہوا تو عربی زبان اپنے جدید دور میں وارد ہوئی اور ایک نئی معیاری عربی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس ثقافتی نشاۃِ ثانیہ کے مراکز شام، لبنان اور مصر تھے۔ جدید معیاری عربی کی دستوری بنیاد قرآنی عربی ہی پر ہے اور جہاں تک قواعدِ صرف و نحو کی بات ہے تو قرآنی عربی اور جدید معیاری عربی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق صرف لفظیات اور اسلوب کا ہے، یعنی کلاسیکی عربی کے بہت سے الفاظ اب استعمال نہیں ہوتے یا اگر ہوتے ہیں تو اُن کے معنی تبدیل ہو گئے ہیں۔ اور جدید عربی میں دورِ جدید کے مفاہیم بیان کرنے کے لیے ہزاروں الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ زبان تمام عرب ممالک کی سرکاری اور درسی زبان ہے اور تمام کتابیں اسی معیاری عربی میں لکھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اخباری چینلوں اور رسمی گفتگوؤں میں بھی معیاری عربی ہی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عوامی لہجوں کے برخلاف، معیاری عربی پوری عرب دنیا میں یکساں ہے۔ کلاسیکی عربی اور معیاری عربی کو عرب دنیا میں فُصحیٰ یا فصیح زبان کہا جاتا ہے۔
عوامی عربی لہجے:
عرب دنیا میں دوگانگیِ لسان کی وضعیت موجود ہے، یعنی عرب ممالک کی عوام روزمرہ امور میں معیاری عربی کا استعمال نہیں کرتے، بلکہ اپنے اپنے خطوں کے لہجے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب لہجے ایک دوسرے سے بہت مختلف اور عموماً باہم ناقابلِ فہم ہیں، اس لیے اُن سب کو جدا زبانیں مانا جا سکتا ہے۔ چونکہ تمام عرب ممالک میں ایک مشترکہ ثقافت، مشترکہ تاریخ اور مشترکہ شناخت کا احساس موجود ہے، اس لیے ان لہجوں کو الگ خودمختار زبانوں کے بجائے عربی کے لہجے ہی کہا جاتا ہے۔ یہ لہجے ڈراموں، فلموں اور گانوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ان کا معاشرتی قد چھوٹا ہے اور انہیں سنجیدہ ادبی کتابوں میں نہیں برتا جاتا۔ تحریر کے دائرے میں معیاری عربی ہی کی حکمرانی ہے، اور اُس کے سامنے ان لہجوں کو غیر معیاری تصور کیا جاتا ہے۔ مختلف خطوں کے عرب اپنی باہمی گفتگو کے لیے معیاری عربی کی مدد لیتے ہیں کیونکہ اکثر اُن کے اپنے لہجے سامنے والے کے سر سے گذر جاتی ہیں۔ ان لہجوں میں انگریزی، فرانسیسی، ترکی اور فارسی وغیرہ کے بھی کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں، جبکہ معیاری عربی میں اُن کی جگہ پر خالص عربی کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لہجوں کے قواعد بھی معیاری عربی کے مقابلے میں سادہ ہیں۔
مصری عربی:
مصر عرب دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس وجہ سے اسے عرب دنیا کے ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں بنے گئے ڈرامے اور فلمیں پوری عرب دنیا میں دیکھی جاتی ہیں اور مصر کے چینل بھی عرب دنیا میں مقبول ہیں۔ اس لیے مصری عربی کی پہنچ باقی بولیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور ٹی وی دیکھنے والی عرب دنیا کی عوام عموماَ مصری عربی کو آسانی سے سمجھ لیتی ہے۔ اگر کوئی شخص روزمرہ امور کے لیے عربی سیکھنا چاہتا ہو تو مصری عربی کا سیکھنا سب سے زیادہ مفید ہے۔
شامی عربی:
شامی عربی بلادالشام کے ممالک یعنی شام، لبنان، اردن اور مقبوضہ فلسطین میں بولی جاتی ہے۔ اس کی قابلِ فہمیت بھی دوسری بولیوں کی نسبت زیادہ ہے کیونکہ اس خطے سے کئی مشہور عوامی موسیقار ابھرے ہیں جنہوں نے اپنی خطے کی بولی کو وسیع عرب دنیا میں مقبول کر دیا ہے۔ شامی عربی کو بھی اکثر لوگ سیکھنا پسند کرتے ہیں۔
البتہ اس منطقے کے گلوکار بھی زیادہ تر مصری عربی میں گانے گاتے ہیں۔
مغربی عربی:
مغربی عربی لہجے لیبیا، تونس، الجزائر اور مراکش میں بولے جاتے ہیں۔ فرانسیسی دورِ اقتدار میں تونس اور الجزائر میں مکاتب میں عربی بولنے اور عربی مطبوعات پر مکمل پابندی تھی، اس لیے یہاں کی عوام بولتے وقت اپنے لہجوں میں فرانسیسی کے الفاظ کا بہت استعمال کرتی ہے۔ البتہ فرانسیسی الفاظ کی کثرت صرف گفتاری لہجوں تک محدود ہے، اور یہاں بھی معیاری عربی میں اُن کا داخلہ بند ہے۔ مراکش کی عربی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ معیاری عربی سے سب سے زیادہ مختلف ہے اور مراکش سے باہر کے لوگ اسے بالکل بھی نہیں سمجھ پاتے۔
اس کے علاوہ بھی عربی لہجوں کی کئی دیگر چھوٹی بڑی انواع موجود ہیں جن میں حجازی عربی، خلیجی عربی، عراقی عربی، یمنی عربی اور موریتانیا اور متنازعہ مغربی صحرا میں بولی جانے والی حسانیہ عربی شامل ہیں۔
مالطی زبان:
۸۷۰ء سے ۱۰۹۰ء تک صقلیہ اور مالطا میں عربوں کی حکمرانی رہی ہے۔ عربوں کے دور میں ان علاقوں کی غالب زبان عربی تھی۔ مالطا کی تو غالب آبادی ہی مسلمان عربوں پر مشتمل تھی جبکہ صقلیہ میں شمالی افریقہ کے کئی عرب اور بربر لوگ آ کر آباد ہو گئے تھے جو عربی زبان کا استعمال کیا کرتے تھے، اور مقامی آبادی بھی عربی بولنے لگی تھی۔ صقلیہ میں عربوں کے اقتدار کے خاتمے کے ایک صدی بعد ہی عربی زبان بھی ختم ہو گئی البتہ صقلیہ کی مقامی زبان پر اپنا نقش چھوڑ گئی۔ مالطا میں معاملہ مختلف تھا۔ یہاں مسیحی نارمن فتح کے ۱۵۰ سال بعد تک بھی انتظامی امور کے لیے عربی زبان ہی استعمال ہوتی تھی اور جزیرے پر مسلمان عربوں کا ثقافتی اور معاشی غلبہ برقرار تھا۔ ۱۲۴۹ء میں ایک فرمان جاری کیا گیا جس کے تحت مسلمان عربوں کو جزیرہ چھوڑنے یا پھر مسیحیت قبول کرنے کا اختیار دیا گیا اور نتیجتہً چند لوگوں نے مسیحیت قبول کر لی اور چند لوگ جزیرہ چھوڑ کر شمالی افریقہ میں بس گئے۔ مسلمان عربوں کے جزیرہ چھوڑ دینے کے بعد بھی جزیرے کی گفتاری زبان عربی ہی رہی۔ لیکن اُس کا رابطہ کلاسیکی عربی سے اور اسلامی عرب دنیا کی ثقافت سے مکمل طور پر کٹ گیا اور وہ آزادانہ ارتقاء کرنے لگی۔ مالطا کی آبادی اب سو فیصد کیتھولک مسیحی تھی، اس لیے وہ روم کی جانب دیکھا کرتے تھے۔ اُن کی انتظامی و دینی زبان اب لاطینی تھی۔ قرآنی عربی سے اُنہیں کوئی سروکار تھا نہ قرآن میں استعمال ہونے والے عربی خط سے۔ مالطا کے اہلِ قلم لاطینی اور اطالوی کو ذریعۂ اظہار بناتے تھے، جبکہ اُن کی مقامی عربی بولی صرف بول چال تک محدود تھی۔ مالطی زبان میں پہلا سنجیدہ تحریری کام اُس وقت ہوا جب انیسویں صدی عیسوی میں مسیحی کتابِ مقدس کا اس میں ترجمہ کر کے نئی مالطی ادبی روایت کی بنیاد رکھی گئی۔ مالطی زبان اپنی ابتداء سے اطالوی سے نشو و نما پاتی رہی ہے اس لیے مرورِ زمانہ کے ساتھ ہزاروں اطالوی الفاظ مالطی کا جز بن گئے ہیں جو تحریر و تقریر دونوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ اور چونکہ انگریزی دورِ اقتدار میں مالطا کے لوگوں نے انگریزی زبان اپنا لی تھی اور اب مالطا کے تقریباً تمام لوگ دوزبانی ہیں اس لیے اب انگریزی کے الفاظ کا بھی مالطی میں آزادانہ استعمال ہوتا ہے۔ آٹھ سو سالوں کی تنہائی میں ان تمام چیزوں نے مالطی کو معیاری عربی اور دوسرے علاقوں کے عربی لہجوں سے اتنا مختلف کر دیا ہے کہ اب اس میں عربی پن بھی کم نظر آتا ہے۔ اسماء تو ایک طرف، بعض بار تو افعال بھی اطالوی یا انگریزی سے مستعار لیے ہوئے استعمال ہوتے ہیں۔ تلفظ میں تو یہ اب کہیں سے بھی عربی نہیں لگتی، البتہ تحریری زبان کو بنظرِ غائر دیکھنے سے عربی اساس نظر آ جاتی ہے۔ دستوری قواعد سارے عربی الاساس ہیں اور بنیادی اسماء و افعال بھی سارے عربی الاصل ہیں، البتہ بگڑی ہوئی شکل میں استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن علمی اور جدید مفاہیم کے لیے عربی مفرد سے الفاظ بنانے کے بجائے اطالوی یا انگریزی کا کوئی لفظ من و عن لے لیا جاتا ہے۔ کلاسیکی عربی سے مشتق ہونے والی تمام عربی بولیوں میں یہ واحد بولی ہے جسے معیاری اور سرکاری زبان کا درجہ ہونے کا حاصل ہے اور جس کی اپنی آزادانہ ادبی روایت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مالطی زبان تونسی عربی بولی سے نسبتاً زیادہ قریب ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔ مالطی کی کلیسائی زبان میں البتہ عربیت زیادہ ہے۔ کتابِ مقدس کے تراجم، عبادات اور پادریوں کے خطبوں میں جو زبان استعمال ہوتی ہے اُس میں کئی ایسے عربی الاصل الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں جو موجود زمانے میں مالطا کے لوگ استعمال نہیں کرتے۔ کتابِ مقدس کے ابتدائی مترجموں نے یہ شعوری کوشش کی تھی کہ اطالوی زبانوں کے الفاظ کے مقابلے میں عربی الاصل الفاظ ہی استعمال کیے جائیں۔ اس کے علاوہ شاعری میں بھی عربی پن زیادہ نظر آتا ہے۔ اخباری زبان میں دوسری طرف یورپی الفاظ چھائے رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق معاصر مالطی زبان کے کُل ذخیرۂ الفاظ میں چالیس فیصد الفاظ عربی کے، جبکہ ساٹھ فیصد الفاظ یورپی زبانوں کے ہیں۔
عرب دنیا میں بھی، بالخصوص لبنان میں، مسیحی اقلیت موجود ہے، لیکن چونکہ وہ مسلمان اکثریت کے درمیان رہتے آئے ہیں اور اُنہوں نے جب لکھنا شروع کیا تو معیاری عربی ہی کو ذریعۂ اظہار بنایا، اس لیے مالطا کی طرح عرب دنیا میں مسیحی پس منظر کی کسی مخصوص ادبی عربی کی بنیاد نہیں پڑی۔
مالطا اور صقلیہ کا نقشہ
عرب دنیا میں اقامت رکھنے والے اور عربی زبان میں مہارت رکھنے والے احباب بھی اگر اپنے تجربوں اور عربی بولیوں سے متعلق معلومات سے آگاہ کریں تو مجھے خوشی ہو گی۔
کلاسیکی عربی:
کلاسیکی عربی یا قرآنی عربی اُس زبان کو کہا جاتا ہے جو ساتویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی عیسوی تک کتابت کے لیے استعمال ہوا کرتی تھی۔ اسلام سے قبل کے دور میں شمالی عربستان میں کئی ملتی جلتی بولیاں بولی جاتی تھیں، لیکن قرآن کی زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بدوی قبائل اور قریشِ مکہ کے لہجے پر مبنی ہے۔ پس از قرآنی دور میں قرآن کا لہجہ عربی کا معیاری لہجہ بن گیا اور اور عربی کے باقی لہجے فراموشی کی نذر ہو گئے۔ بعد میں جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں وہ قرآنی عربی کی پیروی ہی میں لکھی گئیں۔ عربی چونکہ ایک بڑے گروہ کی دینی زبان تھی، اور اُس گروہ کو اپنی احتیاجوں کے لیے عربی متون پڑھنے کی ضرورت رہتی تھی، اس لیے قرونِ وسطیٰ میں عربی کے قواعد نویسی اور لغت نویسی پر بہت سارا کام ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی کے ابتدائی ماہرینِ صرف و نحو میں نومسلمان ایرانی پیش پیش تھے اور ایرانی مصنفوں نے عربی زبان پر بہت ساری منظم کتابیں لکھی تھیں۔ دینِ اسلام کا سارا دینی ادب اسی کلاسیکی عربی میں ہے اور کلاسیکی عربی میں شاعری کا بھی بڑا گنجینہ موجود ہے۔ کلاسیکی عربی کو اپنے ذخیرۂ الفاظ کے پہلو سے بے حد غنی مانا جاتا ہے۔
جدید معیاری عربی:
انیسویں صدی عیسوی میں جب عرب نشاۃِ ثانیہ یا النھضۃ کا آغاز ہوا تو عربی زبان اپنے جدید دور میں وارد ہوئی اور ایک نئی معیاری عربی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس ثقافتی نشاۃِ ثانیہ کے مراکز شام، لبنان اور مصر تھے۔ جدید معیاری عربی کی دستوری بنیاد قرآنی عربی ہی پر ہے اور جہاں تک قواعدِ صرف و نحو کی بات ہے تو قرآنی عربی اور جدید معیاری عربی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق صرف لفظیات اور اسلوب کا ہے، یعنی کلاسیکی عربی کے بہت سے الفاظ اب استعمال نہیں ہوتے یا اگر ہوتے ہیں تو اُن کے معنی تبدیل ہو گئے ہیں۔ اور جدید عربی میں دورِ جدید کے مفاہیم بیان کرنے کے لیے ہزاروں الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ زبان تمام عرب ممالک کی سرکاری اور درسی زبان ہے اور تمام کتابیں اسی معیاری عربی میں لکھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اخباری چینلوں اور رسمی گفتگوؤں میں بھی معیاری عربی ہی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عوامی لہجوں کے برخلاف، معیاری عربی پوری عرب دنیا میں یکساں ہے۔ کلاسیکی عربی اور معیاری عربی کو عرب دنیا میں فُصحیٰ یا فصیح زبان کہا جاتا ہے۔
عوامی عربی لہجے:
عرب دنیا میں دوگانگیِ لسان کی وضعیت موجود ہے، یعنی عرب ممالک کی عوام روزمرہ امور میں معیاری عربی کا استعمال نہیں کرتے، بلکہ اپنے اپنے خطوں کے لہجے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب لہجے ایک دوسرے سے بہت مختلف اور عموماً باہم ناقابلِ فہم ہیں، اس لیے اُن سب کو جدا زبانیں مانا جا سکتا ہے۔ چونکہ تمام عرب ممالک میں ایک مشترکہ ثقافت، مشترکہ تاریخ اور مشترکہ شناخت کا احساس موجود ہے، اس لیے ان لہجوں کو الگ خودمختار زبانوں کے بجائے عربی کے لہجے ہی کہا جاتا ہے۔ یہ لہجے ڈراموں، فلموں اور گانوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ان کا معاشرتی قد چھوٹا ہے اور انہیں سنجیدہ ادبی کتابوں میں نہیں برتا جاتا۔ تحریر کے دائرے میں معیاری عربی ہی کی حکمرانی ہے، اور اُس کے سامنے ان لہجوں کو غیر معیاری تصور کیا جاتا ہے۔ مختلف خطوں کے عرب اپنی باہمی گفتگو کے لیے معیاری عربی کی مدد لیتے ہیں کیونکہ اکثر اُن کے اپنے لہجے سامنے والے کے سر سے گذر جاتی ہیں۔ ان لہجوں میں انگریزی، فرانسیسی، ترکی اور فارسی وغیرہ کے بھی کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں، جبکہ معیاری عربی میں اُن کی جگہ پر خالص عربی کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لہجوں کے قواعد بھی معیاری عربی کے مقابلے میں سادہ ہیں۔
مصری عربی:
مصر عرب دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس وجہ سے اسے عرب دنیا کے ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں بنے گئے ڈرامے اور فلمیں پوری عرب دنیا میں دیکھی جاتی ہیں اور مصر کے چینل بھی عرب دنیا میں مقبول ہیں۔ اس لیے مصری عربی کی پہنچ باقی بولیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور ٹی وی دیکھنے والی عرب دنیا کی عوام عموماَ مصری عربی کو آسانی سے سمجھ لیتی ہے۔ اگر کوئی شخص روزمرہ امور کے لیے عربی سیکھنا چاہتا ہو تو مصری عربی کا سیکھنا سب سے زیادہ مفید ہے۔
شامی عربی:
شامی عربی بلادالشام کے ممالک یعنی شام، لبنان، اردن اور مقبوضہ فلسطین میں بولی جاتی ہے۔ اس کی قابلِ فہمیت بھی دوسری بولیوں کی نسبت زیادہ ہے کیونکہ اس خطے سے کئی مشہور عوامی موسیقار ابھرے ہیں جنہوں نے اپنی خطے کی بولی کو وسیع عرب دنیا میں مقبول کر دیا ہے۔ شامی عربی کو بھی اکثر لوگ سیکھنا پسند کرتے ہیں۔
البتہ اس منطقے کے گلوکار بھی زیادہ تر مصری عربی میں گانے گاتے ہیں۔
مغربی عربی:
مغربی عربی لہجے لیبیا، تونس، الجزائر اور مراکش میں بولے جاتے ہیں۔ فرانسیسی دورِ اقتدار میں تونس اور الجزائر میں مکاتب میں عربی بولنے اور عربی مطبوعات پر مکمل پابندی تھی، اس لیے یہاں کی عوام بولتے وقت اپنے لہجوں میں فرانسیسی کے الفاظ کا بہت استعمال کرتی ہے۔ البتہ فرانسیسی الفاظ کی کثرت صرف گفتاری لہجوں تک محدود ہے، اور یہاں بھی معیاری عربی میں اُن کا داخلہ بند ہے۔ مراکش کی عربی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ معیاری عربی سے سب سے زیادہ مختلف ہے اور مراکش سے باہر کے لوگ اسے بالکل بھی نہیں سمجھ پاتے۔
اس کے علاوہ بھی عربی لہجوں کی کئی دیگر چھوٹی بڑی انواع موجود ہیں جن میں حجازی عربی، خلیجی عربی، عراقی عربی، یمنی عربی اور موریتانیا اور متنازعہ مغربی صحرا میں بولی جانے والی حسانیہ عربی شامل ہیں۔
مالطی زبان:
۸۷۰ء سے ۱۰۹۰ء تک صقلیہ اور مالطا میں عربوں کی حکمرانی رہی ہے۔ عربوں کے دور میں ان علاقوں کی غالب زبان عربی تھی۔ مالطا کی تو غالب آبادی ہی مسلمان عربوں پر مشتمل تھی جبکہ صقلیہ میں شمالی افریقہ کے کئی عرب اور بربر لوگ آ کر آباد ہو گئے تھے جو عربی زبان کا استعمال کیا کرتے تھے، اور مقامی آبادی بھی عربی بولنے لگی تھی۔ صقلیہ میں عربوں کے اقتدار کے خاتمے کے ایک صدی بعد ہی عربی زبان بھی ختم ہو گئی البتہ صقلیہ کی مقامی زبان پر اپنا نقش چھوڑ گئی۔ مالطا میں معاملہ مختلف تھا۔ یہاں مسیحی نارمن فتح کے ۱۵۰ سال بعد تک بھی انتظامی امور کے لیے عربی زبان ہی استعمال ہوتی تھی اور جزیرے پر مسلمان عربوں کا ثقافتی اور معاشی غلبہ برقرار تھا۔ ۱۲۴۹ء میں ایک فرمان جاری کیا گیا جس کے تحت مسلمان عربوں کو جزیرہ چھوڑنے یا پھر مسیحیت قبول کرنے کا اختیار دیا گیا اور نتیجتہً چند لوگوں نے مسیحیت قبول کر لی اور چند لوگ جزیرہ چھوڑ کر شمالی افریقہ میں بس گئے۔ مسلمان عربوں کے جزیرہ چھوڑ دینے کے بعد بھی جزیرے کی گفتاری زبان عربی ہی رہی۔ لیکن اُس کا رابطہ کلاسیکی عربی سے اور اسلامی عرب دنیا کی ثقافت سے مکمل طور پر کٹ گیا اور وہ آزادانہ ارتقاء کرنے لگی۔ مالطا کی آبادی اب سو فیصد کیتھولک مسیحی تھی، اس لیے وہ روم کی جانب دیکھا کرتے تھے۔ اُن کی انتظامی و دینی زبان اب لاطینی تھی۔ قرآنی عربی سے اُنہیں کوئی سروکار تھا نہ قرآن میں استعمال ہونے والے عربی خط سے۔ مالطا کے اہلِ قلم لاطینی اور اطالوی کو ذریعۂ اظہار بناتے تھے، جبکہ اُن کی مقامی عربی بولی صرف بول چال تک محدود تھی۔ مالطی زبان میں پہلا سنجیدہ تحریری کام اُس وقت ہوا جب انیسویں صدی عیسوی میں مسیحی کتابِ مقدس کا اس میں ترجمہ کر کے نئی مالطی ادبی روایت کی بنیاد رکھی گئی۔ مالطی زبان اپنی ابتداء سے اطالوی سے نشو و نما پاتی رہی ہے اس لیے مرورِ زمانہ کے ساتھ ہزاروں اطالوی الفاظ مالطی کا جز بن گئے ہیں جو تحریر و تقریر دونوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ اور چونکہ انگریزی دورِ اقتدار میں مالطا کے لوگوں نے انگریزی زبان اپنا لی تھی اور اب مالطا کے تقریباً تمام لوگ دوزبانی ہیں اس لیے اب انگریزی کے الفاظ کا بھی مالطی میں آزادانہ استعمال ہوتا ہے۔ آٹھ سو سالوں کی تنہائی میں ان تمام چیزوں نے مالطی کو معیاری عربی اور دوسرے علاقوں کے عربی لہجوں سے اتنا مختلف کر دیا ہے کہ اب اس میں عربی پن بھی کم نظر آتا ہے۔ اسماء تو ایک طرف، بعض بار تو افعال بھی اطالوی یا انگریزی سے مستعار لیے ہوئے استعمال ہوتے ہیں۔ تلفظ میں تو یہ اب کہیں سے بھی عربی نہیں لگتی، البتہ تحریری زبان کو بنظرِ غائر دیکھنے سے عربی اساس نظر آ جاتی ہے۔ دستوری قواعد سارے عربی الاساس ہیں اور بنیادی اسماء و افعال بھی سارے عربی الاصل ہیں، البتہ بگڑی ہوئی شکل میں استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن علمی اور جدید مفاہیم کے لیے عربی مفرد سے الفاظ بنانے کے بجائے اطالوی یا انگریزی کا کوئی لفظ من و عن لے لیا جاتا ہے۔ کلاسیکی عربی سے مشتق ہونے والی تمام عربی بولیوں میں یہ واحد بولی ہے جسے معیاری اور سرکاری زبان کا درجہ ہونے کا حاصل ہے اور جس کی اپنی آزادانہ ادبی روایت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مالطی زبان تونسی عربی بولی سے نسبتاً زیادہ قریب ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔ مالطی کی کلیسائی زبان میں البتہ عربیت زیادہ ہے۔ کتابِ مقدس کے تراجم، عبادات اور پادریوں کے خطبوں میں جو زبان استعمال ہوتی ہے اُس میں کئی ایسے عربی الاصل الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں جو موجود زمانے میں مالطا کے لوگ استعمال نہیں کرتے۔ کتابِ مقدس کے ابتدائی مترجموں نے یہ شعوری کوشش کی تھی کہ اطالوی زبانوں کے الفاظ کے مقابلے میں عربی الاصل الفاظ ہی استعمال کیے جائیں۔ اس کے علاوہ شاعری میں بھی عربی پن زیادہ نظر آتا ہے۔ اخباری زبان میں دوسری طرف یورپی الفاظ چھائے رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق معاصر مالطی زبان کے کُل ذخیرۂ الفاظ میں چالیس فیصد الفاظ عربی کے، جبکہ ساٹھ فیصد الفاظ یورپی زبانوں کے ہیں۔
عرب دنیا میں بھی، بالخصوص لبنان میں، مسیحی اقلیت موجود ہے، لیکن چونکہ وہ مسلمان اکثریت کے درمیان رہتے آئے ہیں اور اُنہوں نے جب لکھنا شروع کیا تو معیاری عربی ہی کو ذریعۂ اظہار بنایا، اس لیے مالطا کی طرح عرب دنیا میں مسیحی پس منظر کی کسی مخصوص ادبی عربی کی بنیاد نہیں پڑی۔
مالطا اور صقلیہ کا نقشہ
عرب دنیا میں اقامت رکھنے والے اور عربی زبان میں مہارت رکھنے والے احباب بھی اگر اپنے تجربوں اور عربی بولیوں سے متعلق معلومات سے آگاہ کریں تو مجھے خوشی ہو گی۔
آخری تدوین: