کلامِ غالبؔ ۔ تعبیر و تجزیہ

دائم

محفلین
شوق ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا


یہ شعر غیر متداول دیوان کے اس شعر کی اصلاحی صورت ہے :
کارخانہ سے جنوں کے بھی میں عریاں نکلا
میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکلا
یعنی وہ کارخانہ جہاں مجنوں تیار کیے جاتے ہیں۔ مجھے بھی وہاں سے تیار کرکے بھیجا گیا اور ظاہر ہے کہ وہاں پھٹے گریبانوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ مگر ہائے رے میری قسمت! کہ ایک آدھ گریبان بھی مجھے نصیب نہ ہوا۔ میں کارخانے ہی سے عریاں نکلا ہوں۔ ایک آدھ پھٹا ہوا گریبان مل جاتا تو جنوں کی صحیح اور معتدل تصویر کھنچ جاتی۔ اس شعر میں "بھی" حشوِ قبیح ہے۔

اب اصل شعر کی طرف آتے ہیں۔ پہلے شعر کا مطلب سمجھ لیا جائے، بعد ازیں اس کے فنّی و تشکیلی پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہیں۔
مطلب : شوق (عِشق) ہر حال میں دنیوی حدود و قیود کا دشمن رہا ہے۔ ایک عاشقِ صادق بجز معشوق کے دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہوتا ہے۔ قَیس چونکہ سراپا عشق تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کی جب تصویر بنائی گئی تو وہ اس میں بھی عریاں رہا۔ اگرچہ تصویر سازی میں اس کا پردہ ظاہر کرنے کے لیے مختلف رنگ استعمال کیے گئے لیکن چونکہ وہ از سر تا پا عشق ہے، اس لیے اس کی تصویر رنگ و بُو کی احتیاج سے مستغنی ہی رہی اور وہ باوجود مختلف رنگوں کے استعمال کے، پردۂ تصویر پر عریاں ہی کھِنچا۔

ایک مصور بااختیار ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو انسان کے سر پر سینگ بنا دے، چاہے تو تصویر میں پرندے کی دو چونچیں کھینچ دے۔ تصویر ساکت ہوتی ہے اس میں کسی بھی منظر کی اصل یا نقل کو مصور اپنے ارادے سے بند کر سکتا ہے۔ لیکن عشق کی اثر آفرینی کا یہ عالم ہے کہ قَیس کی تصویر بناتے ہوئے مصوّر کا اختیار تک سلب کر دیا گیا۔ وہ اس تصویر کو باپردہ رکھنا چاہتا ہے مگر پھر بھی وہ باتنِ عریاں ہی کھِنچتی ہے۔ اسے عشق کی طلسمانہ اثر انگیزی کہیے کہ جب ایک ساکت شے پر اس کا اتنا تسلط ہے، تو متحرک اشیاء پر کتنی گرفت ہو سکتی ہے۔

منظور احسن عباسی نے شعر کا مرکزی خیال "بے سر و سامانئ اہلِ عشق" لکھا ہے۔ میرے خیال میں شعر کا بنیادی تصوّر "استغناءِ اہلِ عشق" ہے کیونکہ اس استغناء ہی میں عشق کا وقار ہے اور بے سروسامانی میں اس کی تحقیر و تذلیل۔ مہاراج کرشن کول نے اپنی فرہنگ میں "بے نیاز" ہی لکھا ہے۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے بھی شعر کا کلیدی نکتہ لکھا ہے کہ ”عشق انسان کو علائقِ دنیوی سے بیگانہ کر دیتا ہے“۔

شعر کا مطلب خود غالبؔ کی زبانی بھی دیکھتے چلیں۔ اپنے ایک خط میں عبد الرزاق شاکر کو لکھتے ہیں :
”رقیب بمعنیٰ دشمن۔ یعنی شوق سر و سامان کا دشمن ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ مجنوں کی تصویر باتنِ عریاں ہی کھِنچتی ہے جہاں کھِنچتی ہے“۔
(بحوالہ : عودِ ہندی از مرزا اسد اللہ خان غالبؔ، صفحہ 153، مطبع منشی نولکشور لکھنؤ)

"نکلا" میں ابہام ہے۔ ایک محاورۂ عام کے معنیٰ میں۔ یعنی نمودار ہوا، واقع ہوا، ثابت ہوا۔ دوسرا معنیٰ تحریکی ہے۔ یعنی پہلی حالت سے دوسری حالت میں منقلب ہوا۔ ثبات سے حرکت اور ٹھہراؤ سے روانی کی طرف منتقل ہوا۔
پہلے معنیٰ کی تائید میں تقریباً تمام شارحین جمع ہیں۔ دوسرے معنیٰ کی طرف درگا پرشاد نے اشارہ کیا ہے :
”مجنوں کو، جو تصویر کے رنگ میں لیلیٰ کے دیکھنے کا شوق ہوا تو جیسا کہ زندگی میں دیوانگی میں کپڑے پھاڑ کر ننگا رہتا تھا، تصویر میں بھی شوق (شدّتِ آرزوئے میلان یا وحشت) نے ننگا ہی رکھا“۔
(تلاشِ غالبؔ، نثار احمد فاروقی، صفحہ 242)

بین المصرعَین کچھ اہم مناسبتیں بھی دیکھنے کے لائق ہیں :
✳️مصرعِ اول دعویٰ جبکہ دوم دلیل ہے یا اس کا برعکس۔ غالبؔ نے خود اس کا مطلب بیان کرتے ہوئے دوسرے مصرعے کو دلیل اور پہلے کو دعویٰ قرار دیا ہے۔
✳️پہلا مصرع اول مماثِل (بالکسر) اور دوم مماثَل (بالفتح) وغیرہ۔
✳️یہاں "قیس" علامتی کردار ہے، عشق و جنون سے استعارہ، اور یہ استعارہ برائے استغراق ہے۔
✳️سر و سامان سے مراد ہے دنیوی علائق، نام و ننگ، رسوم و قیود، روشِ عام وغیرہ وغیرہ۔ عُشّاق اس چھوٹی دنیا کے اسباب و سامان کی احتیاج سے بہت اوپر ہوتے ہیں۔ بقولِ وحشیؔ بافقی :
بلند و پست و ہجر و وصل یکساں ساختہ بر خود
ورائے نور و ظلمت از زمین و آسماں فارغ
✳️ لفظی رعایتیں حسنِ صُوَری میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ شعر میں"پردہ" حشوِ مستحسن ہے اور اس کی رعایت عریانی کے ساتھ واضح ہے۔ "رنگ" کا محل نہ تھا بلکہ بقولِ طباطبائی جائے "حال" تھی۔ سو "تصویر" کی مناسبت سے لایا گیا۔ "پردہ" اور "عریانی" باہم لفظی متناسبات ہیں۔
✳️"قَیس" مضمونِ شعر کی روحِ رواں ہے۔ غالبؔ جب بھی پائیدار عشق کی مثال دیتے ہیں تو ہمیشہ قَیس کو سرِ فہرست رکھتے ہیں۔ تصویر تک میں عریانی اسی "قَیس" کے شوقِ فضول و عشقِ رندانہ کی مرہونِ منت ہے، ورنہ عام تصویر کا حال معلوم! محسن فانیؔ کاشمیری کا شعر ہے :
نیست عارف را نظر بر جلوۂ حسنِ بتاں
چشمِ بلبل مستِ دیدارِ گلِ تصویر نیست
✳️شعر غالبؔ کے مخصوص فلسفے کا بیانیہ ہے۔ یہ "سروسامان" جسے غالبؔ کبھی ”رسوم و قیود“ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے خمار کی سرگشتگی سے فرہاد کو متہّم ٹھہرا کر بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، کبھی ”لاشِ بے کفن“ کہہ کر اپنے ”خستہ جاں“ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ کبھی ”پا بستگئ رسم و رہِ عام“ پہ حرف زَن نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ غالبؔ کا اعتقاد ہے کہ ان رسوم و قیود اور سر و ساماں کے لحاظ کو اتنا اہم اور ما بہ النزاع نہ بنائیں تو صلحِ کل کا مشرب عام ہو جائے :
ہم موحّد ہیں، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں، اجزائے ایماں ہو گئیں

واجد دکنی شعر کی معنویت پر ایک اعتراض خود کرتے ہیں اور دوسرے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اعتراض اول : مرزا صاحب کا یہ بیان کہ مجنوں کی تصویر باتنِ عریاں ہی کھِنچتی ہے، محلّ تامّل ہے۔ کیوں کہ مصور جیسی تصویر بنائے گا ویسی ہی بنے گی۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ بدصورت بنائے تو خوب صورت بنے یا وہ عریاں بنائے تو بالباس بنے۔
جواب : شوق کو سر و ساماں سے کلی استغناء حاصل ہے۔ یہ استغناء اس کی فطرت میں اس درجہ راسخ ہو چکا ہے کہ صاحبِ شوق (قَیس) سالم و مشخّص صورت میں بھی تنِ عریاں کی کیفیت پیدا کر لیتا ہے، فطری شدّت کی اسی برانگیخت پہ تصویر تک لباسِ ظاہری سے بے نیاز ہو کر کھِنچتی ہے۔ ورنہ مصوّر کا مطمعِ نظر با لباس تصویر گری ہی کرنا ہے۔ مجنوں کے عشق کی انتہا بے سر و سامانی کی انتہا ہے، جو ایسی عریانی تک پہنچ گئی ہے کہ تصویر کا پردہ بھی اس کی پردہ پوشی نہیں کر سکتا۔

اعتراض دوم : یہ اعتراض واجد دکنی کا ہے کہ پردہ میں عریاں نکلنا ایک بے معنیٰ سی بات ہے۔ کیوں کہ جو چیز پردے میں ہوگی وہ عریاں کیوں کر ہوگی؟ ایسی ترکیبوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔اگر اجتناب و احتراز نہ کیا جائے تو کلام مہمل و بے معنیٰ ہو جاتا ہے۔
جواب : اول تو قیس کا استعارہ یہاں برائے تمثیل ہے۔ قیس سے فردِ معیَّن مراد نہیں بلکہ شوق کو مشخّص حالت میں پیش کرکے معنوی ترتیب کا ڈھانچہ کھڑا کیا ہے۔ دوم یہ کہ پردے میں بھی عریاں نکلنا مبالغہ کی قبیل سے ہے اور ظاہر ہے یہاں یہی مطلوب ہے۔ ایسی ترکیبیں کلام میں ندرت اور رنگینی پیدا کرتی ہیں۔ اگرچہ واقعیت کی فضا نہ بھی ہموار ہو، شاعرانہ کَیف، زورِ بیان، استعارے کا جلوہ، بندش کی چستی اور مبالغہ آرائی یوں بھی شعر میں ظاہری حسن کا سبب بنتے ہیں۔
۔۔۔
 

دائم

محفلین
میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا


عدم : نیست و نابود ہونے کو کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ عدمِ محض، جو کہ وجود کی ضد ہے اور عدمِ اضافی، یعنی بطونِ اشیاء۔ شعر میں پہلا معنیٰ مفیدِ مطلب ہے۔

شعر کا مطلب :
میں وجود و عدم کی کشمکش سے اوپر اٹھ کر مقامِ بقا یا مقامِ ہویّت میں پہنچ گیا ہوں۔ یہ وہ مرتبہ ہے جہاں عنقا کو بھی بال کشائی کا یارا نہیں۔ عنقا چونکہ معدوم ہے اس لیے تصور کر لیا کہ وہ عالمِ عدم کا باشندہ ہے۔ عنقا کا مقام عدم ہی ہے۔ وہ نہ بقائے سابق حاصل کر سکتا ہے نہ بقائے لاحق۔ شاعر بقائے لاحق تک رسائل حاصل کر چکا ہے۔
بقا : یہ ایک مقام ہے سالک کے لیے، جہاں پہنچ کر وہ حق کو موجود اور عالم کو معدوم دیکھتا ہے۔ اس کی نظر سے غیریت اٹھ جاتی ہے اور کوئی شے اس کو رویتِ حق تعالیٰ سے نہیں روک سکتی۔ وہ صفاتِ حق کے ساتھ باقی رہتا ہے۔
غافل سے اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو مقامِ بقا باللہ سے ناآشنا ہیں یا اس سے مراد عنقا ہے جو مجھ تک پہنچنے کے لیے بلا وجہ اپنے پروں کو جلاتا رہا مگر رسائی نہ پا سکا گویا اس کی غفلت یا وہم تھا کہ مجھے دامِ عدم میں قید کر لے گا۔
آہِ آتشیں سے سرگرمِ عمل رہنا مراد ہے۔ ایسی نفس کشی جس میں گرمئ عمل بھی ہو، آہِ آتشیں کہلاتی ہے۔

متعدد شارحین نے لکھا ہے کہ غالب نے اپنی نیستی میں مبالغہ کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ نیستی نہیں بلکہ بقائے دوام کی علامت ہے۔ یعنی وجود و عدم کی تعقلاتی سطح سے بلند تر ہو کر میں واصل بالحق ہو گیا ہوں اور اس تدریجی سفر میں بارہا عنقا میرے مقام تک آیا مگر سرحدِ عدم سے آگے آنے لگتا تو اس کے پر جل جاتے اور بقول سید غضنفر : اب تو میں عشقِ حقیقی میں سرحدِ عدم کو بھی عبور کر چکا ہوں۔
طباطبائی نے اشکال اٹھایا ہے کہ وجود و عدم دونوں کا نہ ہونا ارتفاعِ نقیضین کو مستلزم ہے جبکہ قاعدہ ہے کہ اجتماعِ نقیضین ہو یا ارتفاعِ نقیضین، دونوں جائز نہیں۔ لہٰذا غالب کا یہ کہنا کہ میں عدم سے بھی پرے ہوں، انھیں بے معنیٰ شعر کہنے والا ثابت کرتا ہے۔
جواب : اس کا پہلا جواب تو یہی ہے کہ یہ شاعرانہ تخیل کی کارپردازی ہے کسی تاریخی صداقت کا اشتہار نہیں۔ عموماً شعراء کے ہاں ایسے اغراق و غلو بالکثرت ملتے ہیں اور غالب تو تخیلاتی فضا میں ذہنی مشغلہ اندازی کا ہنر بخوب جانتے ہیں۔ اگر وہ ارتفاعِ نقیضین سے آلودہ بیانی سے کام لیں تو کیا حرج ہے! دوسرا اور منطقی جواب یہ ہے کہ یہاں ارتفاعِ نقیضین نہیں ہوا بلکہ ازروئے تصوف ایک تیسرے مقام تک رسائی کا حال ہے۔ اس شعر کو اگر خالص متصوفانہ نہ قرار دیں تو اس میں باقی رہ ہی کیا جاتا ہے!

علامہ اقبال کا فارسی شعر ہے :
بلند بال چنانم کہ بر سپہرِ بریں
ہزار بار مرا بوریاں کمیں کردند
ترجمہ : میری پرواز اتنی بلند ہے کہ آسماں کی وسعتوں میں فرشتوں نے ہزار بار مجھے پکڑنے کے لیے گھات لگائی (مگر میں ان کے دامِ شکار میں نہیں آیا)۔
دونوں اشعار میں اپنی بلند پروازی کا ذکر ہے۔ غالب نے عَنقا کو تسخیر کیا اور اقبال فرشتوں کی حدِ امکان سے باہر ہوئے۔ البتہ غالبؔ کا شعر بڑا ہے۔
 

دائم

محفلین
دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ، داغوں کی بہار
اِس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا


کارفرما : کام بتلانے والا، منتظم
چراغاں : بہت سے چراغ ایک ساتھ جلنے کا عمل، بہت سے چراغوں کی یکجا روشنی۔ چراغاں ایک قدیم تعذیب کا نام بھی ہے کہ مجرم کے سر میں چند گہرے زخم کرکے ان میں چراغ روشن کر دیتے تھے۔

مطلبِ شعر
دلِ مرحوم کے جل جانے کے بعد سینے کے داغوں میں وہ پہلی سی رونق نہیں رہی۔ بجھے بجھے سے ہیں۔ ان کا کارفرما، ان کی دیکھ بھال کرنے والا، ان کی نگہداشت کرنے والا، انھیں روشنی میسر کرنے والا دل ہی نہ رہا۔ اگر وہ ہوتا تو حسبِ دستور داغ ہائے افسردہ میں رونق لگی ہوتی اور ایک چراغاں کا منظر ہوتا اور کیا ہی دیدنی نظارہ ہوتا!

"دکھاتا" کا فاعل دل اور شاعر دونوں درست ہیں لیکن "دل" فصیح ہے۔ کیوں کہ داغ باقی رہ گئے ہیں دل نہیں رہا۔ اس چراغاں کو اب دیکھا نہیں جا سکتا کیوں کہ دل جل چکا ہے۔
"کروں کیا؟" کا مطلب ہے کہ کیسے دکھاؤں؟ کیسے ظاہر کروں؟ یا اگر دکھاؤں بھی تو ان داغوں میں وہ رونق نہیں۔ بقولِ فیاض حسین جامعی ”اب ان داغوں سے چراغاں نہیں ہو سکتا اس لیے کہ ان داغوں میں روشنی دل ہی سے آتی تھی“۔

"دل نہیں" بمعنیٰ "حوصلہ نہیں" بھی درست ہے مگر معنیٰ کمزور ہو جائے گا۔
یعنی تجھے داغوں کی بہار دکھاتا لیکن حوصلہ مر چکا ہے۔ یہاں روشن داغوں نے چراغاں کا منظر پیش کر رکھا ہے مگر عدمِ جگر داری کے باعث تجھے یا کسی کو دکھا بھی نہیں سکتا۔

قاضی بینا بجنوری "کارفرما" سے محبوب مراد لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
”محبوب کے لیے "جل گیا" کا استعمال قطعی نامناسب ہے۔ ردیف کی مجبوری نے شعر کو غیر فصیح بنا دیا ہے“۔
ظاہر ہے اس سطحی اعتراض سے صرفِ نظر کرنا ہی مناسب ہے۔

اس مضمون کو مولانا عبد الباری آسی نے بھی کہا ہے مگر محض طومار باندھا ہے :
ہوتا جو دل تو تم کو دکھاتا میں داغِ دل
اب کیا کروں کہ اب تو نہ دل ہے نہ داغ ہے
تعجب ہے کہ نندلال کول نے مولانا کے شعر میں ”خوش اسلوبی“ کہاں سے دریافت کر لی!!
 

دائم

محفلین
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا


آگ : آتشِ عشق یا رشکِ رقیب کی آگ یا آتشِ یاس/حرمان یا آتشِ دید۔ الغرض "آگ" کا کچھ بھی مفہوم ہو، یہ آگ داخلی تجربات و حوادث کا نتیجہ ہے۔ اس مضمون کے متعدد اشعار اساتذۂ قدیم کہہ چکے ہیں [حاشیہ]
طباطبائی کے مطابق آگ سے رشکِ رقیب جبکہ اکثر شارحین کے نزدیک آتشِ عشق مراد ہے۔

مطالبِ شعر
گھر مشار اور دل مشار الیہ ہے۔ شعر کا مفہوم پہلی قرأت میں ہی کھل جاتا ہے۔ بظاہر اس سادہ شعر میں معنیٰ آفرینی کی نہایت ہے۔ کلیدی لفظ "آگ" ہے اور اسی پر معنیٰ آفرینی کی عمارت قائم ہے۔ اسی لفظ کی بنیاد پر شعر کی متعدد صورتیں تفہیمِ شعر پر منطبق ہوتی ہیں۔
(الف) اگر آتشِ عشق مراد لیں تو اس صورت میں ایک اشکال بھی جنم لیتا ہے۔ یعنی جب عشق کا سرمایہ ہی یادِ یار اور ذوقِ وصل ہے تو آتشِ عشق اپنے سرمائے کو مزید فروغ تو دے سکتی ہے اس کا نشان یکسر مٹا نہیں سکتی۔ اس اشکال کو رفع کرتے ہوئے ہم ایک تاویل پیش کرتے ہیں کہ محبوب کی مسلسل بے اعتنائی اور جفا شعاری سے عاشق کی مایوسی و ناامیدی آخری حد تک پہنچ گئی ہے۔ جس کے بیان کے لیے عاشق کو زیادہ مؤثر صورت یہی نظر آئی کہ جو چیزیں عشق کی اصل متاع تھیں، انھیں بھی موہوم قرار دے دے۔ اس کا مدعا یہ ہے کہ مایوسی ایسی صورت اختیار کر چکی ہے، جس کے پیشِ نظر ذوقِ وصل اور یادِ یار کا وجود ہی محلّ نظر رہ گیا ہے۔ مولانا غلام رسول مہر نے بھی یونہی لکھا ہے۔

(ب) اگر "آگ" سے آتشِ رشکِ رقیب مراد لیں تو شعر کا مطلب یہ ہوگا : محبوب کا غیر سے ملنا اور معشوق کو دل سے بھلا دینا، یہ احوال دیکھ کر وصل کا اشتیاق ہی جاتا رہا۔ ایسا وصل اگر ہو بھی جائے تو محبوب خیال و التفات میں رقیب ہی کو رکھے ہوگا۔ اس لیے اس آگ میں محبوب کی یاد اور وصل کا ذوق ہی جل گیا۔

(ج) اگر یہ شعر اور مطلع قطعہ بند سمجھیں تو شعر کا مفہوم یہ ہوگا کہ دل تو پہلے ہی آتشِ یاس و حرمان سے پھُک گیا، ایسی صورت میں یادِ یار کہاں رہی اور ذوقِ وصل کیوں کر پایا جائے۔ صاحب زادہ احسن علی خان نے لکھا ہے کہ :
”دل خواہشات، تمناؤں اور یادوں کا گہوارا خیال کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ پیدا ہوتی ہیں، پروان چڑھتی ہیں اور مر جاتی ہیں۔ جب دل ہی باقی نہ رہے تو ان کا وجود معلوم! غزل کے مطلع میں مرزا اپنے دل کے مکمل طور پر جل جانے کا اظہار کر چکے ہیں۔اس کیفیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہتے ہیں کیا اب معشوق سے ملاقات کی خواہش اور یاد تک دل میں باقی نہیں رہی۔ جو کچھ دل میں تھا وہ سب دل کے ساتھ ہی ختم ہو گیا“
[مفہومِ غالبؔ ؛ صفحہ 34]

(د) "آگ" سے آتشِ دید مراد لیں تو ذوقِ وصل کے نہ رہنے اور یادِ یار کے ختم ہو جانے کو ان کی ضرورت نہ رہنے پر محمول کر سکتے ہیں۔ ان کا پایا جانا تحصیلِ حاصل ہوگا۔ یعنی جب محبوب کا دیدار میسر ہو گیا تو پھر کیسا ذوقِ وصل اور کیسی یادِ یار؟ دید کو آتش کہنا شوخئ بیان کی وجہ سے ہے۔ لیکن یہ تاویل کمزور ہے کیوں کہ شعر کا حُزنیہ سکوپ اس استغنائی کیفیت کو دامن میں نہیں سمیٹ سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[حاشیہ]
سوداؔ کے ایک معاصر جوان کا شعر ہے :
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

میرؔ کا شعر بھی اسی کیفیت میں ہے :
عشق کی سوزش نے دل میں کچھ نہ چھوڑا کیا کہیں
لگ اٹھی یہ آگ ناگاہی کہ گھر سب پھک گیا

خواجہ آتشؔ کا شعر دیکھیں :
جلا دل آتشِ دردِ جگر سے
لگی ہے آگ یہ اپنے ہی گھر سے

ان اشعار میں نوجوان کا شعر زور دار اور کیفیتِ سوز کی سچی تصویر ہے۔ میرؔ کا شعر اس اس قدر سوزندہ نہیں تاہم خواجہ آتشؔ کے شعر کو عدمِ جواز ضرور فراہم کر رہا ہے۔ آتشؔ کے شعر میں "دردِ جگر" کی ترکیب نے شعر کمزور کر دیا ہے۔ شعرِ غالبؔ میرؔ کے شعر کا ہم پلہ اور خواجہ کے شعر سے اقویٰ اور کیفیت سے لبریز ہے۔
 

دائم

محفلین
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کر ہو رشکِ فارسی
گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کر اسے سنا کہ یوں!


مصرعِ اول میں ایک دعویٰ پر کیا گیا اعتراض مذکور ہے، دوسرے مصرعے میں اس اعتراض کے رفع کرنے کا کلیہ بتلایا۔ دعویٰ یہ ہے کہ "میرا ریختہ تمام تر فارسی شاعری کے لیے باعثِ رشک ہے، یعنی بہتر ہے"۔ اب ایک فرضی قضیہ پیشِ نظر رکھا کہ اگر کوئی اس دعوے کا بطلان کر دے تو اسے غالبؔ کا ریختہ پڑھ کر سنایا جائے کہ یہ دیکھو! یہ ہے گفتۂ غالبؔ، جس کے تبرک یا عظمت سے ریختہ فارسی کے لیے رشک کا سبب قرار پاتا ہے۔

عام شارحین سطحی معنیٰ بیان کرکے گزر جاتے ہیں۔ بغور دیکھیں تو اس شعر میں بہت سی باریکیاں پوشیدہ ہیں۔ شاعر نے”ریختہ“ کو بغیر کسی اضافتی قید کے، مطلَق رکھا۔ تاکہ ریختۂ غالبؔ کی عظمت مزید بلند ہو۔ یعنی گفتۂ غالبؔ جو بصورتِ ریختہ ہے، اس کے آگے تمام تر فارسی شاعری (فارسی کو بھی مطلَق رکھا ہے) ہیچ ہے۔ اس شعر کے تفصیلی مطالعے کے دوران پروفیسر سید وزیر الحسن عابدی کا ایک مضمون نظر نواز ہوا۔ انھوں نے ایک عجیب بات لکھی :
”یہ مقطع کہتے وقت غالبؔ کے ذہن میں صرف یہی غزلیں [حاشیہ] تھیں جو اس زمین میں کہی گئی تھیں اور انھیں سے مقابلہ مقصود تھا۔ بلکہ نعمت خان عالیؔ کی غزل خاص طور پر ان کی نظر میں ہوگی“۔
میں سمجھتا ہوں کہ پروفیسر عابدی کا یہ بیان یکسر جھٹلایا تو نہیں جا سکتا البتہ غالبؔ کے دعوے کو محدود اور سطحی سمجھ لینا غَلطی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ زیرِ بحث شعر میں غالبؔ نے محض شاعرانہ تعلّی سے کام لیا ہے۔ لیکن جہاں تک فی نفسہٖ اُن کی اردو شاعری کی بات ہے، یہ دعویٰ معقول مگر تمام تر اردو و فارسی شاعری کو ہیچ سمجھنے پر ہم تردد کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ اگر غالبؔ کے فارسی دیوان میں دیکھیں تو غالبؔ نے اپنی فارسی شاعری کے مقابلے میں اپنی اردو شاعری کو "بے رنگ" اور ایک مقام پر "برگِ دُژم" کہا ہے اور یہی سچ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غالبؔ نے اس ایک شعر میں اپنی فوقیت کا ہلکا سا پہلو نکالنے کی ناکام کوشش کی ہے مگر مرزا خوب جانتے تھے کہ یہ محض فقرہ بازی اور شاعرانہ تعلّی ہے۔ چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک! کہاں فارسی کا تنوع و جلال اور کہاں ریختہ کی بے دست و پائی۔ ریختہ کا رشکِ فارسی ہونا ناممکن سے بھی زیادہ ناممکن اور بعید از قیاس۔ فارسی کی روح کو اردو کے قالب میں ڈھالنا ایک خام خیال۔ اس لیے مرزا کا یہ دعویٰ بالکل بے معنیٰ ہے۔

شارحین میں سے کسی نے بھی مرزا کی دونوں زبانوں کی شاعری کے مشترکات و امتیازات پر روشنی نہیں ڈالی۔ جبکہ اسی سبب "بے رنگِ منست" اور "نقش ہاے رنگ رنگ" کے عجیب و غریب اسرار کھلیں گے۔ راقم الحروف نے عمیق مطالعے کے بعد جو نتائج برآمد کیے ہیں، انھیں نہایت اجمال کے ساتھ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے :
امتیازات
¬ فارسی دیوان اردو دیوان کے مقابلے میں دو چند ہے
¬ فارسی میں تراکیب کی بھرمار نہیں
¬ فارسی میں مضامین زیادہ ہیں
¬ دیوانِ فارسی اصنافِ سخن کے تنوع کے لحاظ سے اردو دیوان پر فوقیت رکھتا ہے
¬ فارسی میں استفادہ یا سرقہ کی مثالیں کم ہیں
¬ فارسی میں بیدلانہ اسلوب سے یکسر پہلو تہی ہے۔ یہاں عرفی، نظیری، ظہوری اور حزیںؔ کا رنگ آ گیا ہے
¬ فارسی میں غالبؔ نے تفاخرانہ احساس کے شواہد و دعاوی پہ کثیر مواد پیش کیا ہے
¬ فارسی شاعری میں ذاتی تجربات، احساسات اور مشاہدات کی کثرت ہے۔
مشترکات
¬ معنیٰ آفرینی دونوں دواوَین میں تقریباً ایک سی ہے
¬ جمالیاتی شعور کی پختہ کارفرمائی دونوں دواوین میں اپنے منطقی وفور کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔
¬ ایجاز، ایہام، ابہام اور تقدیری بیانات دونوں دواوَین میں یکساں تناسب سے ہیں۔

ان امتیازی و مشترکہ خصوصیات کے نہایت اجمالی بیان کا مقصد پہلی سطح پر دونوں دواوَین کا تخلیقی و تخئیلی فرق ظاہر کرنا ہے ورنہ عمیق مطالعے اور تفصیلی مشاہدے کی بنیاد پر مشترکات و مختلفات کا جائزہ دیگر کتب میں موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[......حاشیہ......]
اس بیان میں دو غزلوں سے مراد نواب باقر اور نعمت علی عالیؔ ہیں۔ نواب اٹھارویں صدی ہجری کے ایک مشہور شاعر ہیں انھوں نے ایک نئی زمین نکالی۔
”ہر کہ زِ حسن پرسدت دل برُبا کہ ہم چنیں“
ردیف کی ندرت کے باعث یہ زمین نعمت علی عالیؔ کو بھائی اور انھوں نے بھی اس زمین میں ایک شاہکار غزل کہی۔
”ہر کہ زِ غنچہ دم زند لب بکشا کہ ہم چنیں“
علاوہ ازیں بارھویں صدی ہجری کے اواخر میں رتن سنگھ زخمی نے بھی اس زمین میں غزل کہی۔ جس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اس زمین کی دلکشی دو صدیوں پر شعری ادب پر اثر انداز رہی۔ خود غالبؔ کے خسر نواب الہیٰ بخش خان معروفؔ نے اس فارسی ردیف کا اردو ترجمہ "کہ یوں" کو برتا ہے۔
”کیونکہ بہم ہوں مہر و مہ پوچھیں تو مت بتا کہ یوں“
اس فارسی ردیف کو غالبؔ نے کامیابی سے اردو میں ڈھالا۔ اگرچہ مضامین معاملہ بندی کے اور معروف روایتی ہیں مگر اس قدر کامیابی سے ردیف کو نبھانا گویا خود غالبؔ کے لیے وجہِ افتخار بنا اور انھوں نے اپنی غزل کے مقطع میں یہ دعویٰ مع ثبوت دائر کر دیا کہ گفتۂ غالبؔ رشکِ فارسی ہے۔ رشکِ فارسی اس لیے کہا کہ غالبؔ کو اس بات کا واضح شعور تھا کہ ان کی غزل فنی مسلمات اور بندشِ الفاظ کے لحاظ سے زیادہ کامیاب تخلیق ہے۔
 

دائم

محفلین
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلےٰ مرے آگے


معشوق فریبی : معشوق سے متعدد مقاصد کے حصول کے لیے کوئی ایسا حیلہ کرنا جس سے معشوق بے خبر ہو، معشوق فریبی کہلاتا ہے۔ اس کام میں عاشق کے پیشِ نظر کوئی معقول تاویل ہوتی ہے جس کی روشنی میں مطلوبہ امر پر معشوق کا جلد یا بدیر یقین کر لینا ممکن ہوتا ہے۔

ہمارا روایتی معشوق فریب دہی (Deceiving) میں مشہور ہے۔ وہ عاشق کو کبھی وصل سے مکرتے ہوئے حیلہ سازی سے کام لیتا ہے، کبھی رقیب کی طرف داری میں کسی مکرِ معشوقانہ سے عہدہ برآ ہوتا ہے۔ لیکن غالبؔ کہتے ہیں کہ میں باوجود عاشق ہونے کے، معشوق فریب ہوں۔ میں عقلی دلائل کی روشنی میں خود کو دنیا کا سب سے بڑا عاشق ثابت کر دیتا ہوں۔ میری اسی فریب آرائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ لیلیٰ بھی میرے سامنے مجنوں کو برا کہتی ہے۔
لفظِ "فریبی" میں ایک نکتہ ہے کہ غالب شعوری طور پر مجنوں کو بڑا عاشق سمجھتے ہیں اور اپنے خام عشق سے بھی آگاہ ہیں۔ لیکن غالب کا خاص وطیرہ ہے کہ وہ اپنی کمزوری کو بھی حسنِ اظہار سے ثروت مند کر دیتے ہیں اور یوں "معشوق فریبی" کے ساتھ ساتھ "قاری فریبی" کا بھی خوب خوب اہتمام کرتے ہیں۔ معشوق فریبی کی جو شان مؤمنؔ کے ہاں موجود ہے اس کی جھلکیاں بھی دیکھنی چاہئیں۔ [حاشیہ]

"برا کہنے" سے کچا عاشق یا ناکام عاشق کہنا مراد ہے۔
"مرے آگے" کہنے میں متعدد وجوہ ہیں :
(الف) میری موجودگی میں، یعنی میرے ہوتے ہوئے
(ب) اگر مجنون میرے سامنے بھی ہو، تب بھی لیلیٰ اسے برا کہتی ہے۔
(ج) میرے مقابلے میں، یعنی مجھ سے تقابل کرتے ہوئے

✴️ حافظ شوکت میرٹھی لکھتے ہیں : مجنوں کو لیلیٰ یہ طعنہ دیتی ہے کہ غالبؔ میں جو معشوق فریبی کا جذبہ ہے وہ تجھ میں نہیں۔ اس نے معشوق کو فریفتہ کر لیا مگر تو مجھے فریفتہ نہ کر سکا۔
حافظ میرٹھی کا بیان کردہ یہ مفہوم دو وجہوں سے غلط ہے :
(الف) بیخود موہانی لکھتے ہیں کہ : جب لیلیٰ خود غالب کو معشوق فریب سمجھ گئی ہے تو شعر کا لطف جاتا رہا۔
(ب) معشوق فریبی کو "جذبہ" سے تعبیر کرنا بھی سخن فہمی کی شان نہیں۔

✴️ سید ضامن کنتوری نے یہاں دو اعتراض اٹھائے ہیں :
(الف) لیلیٰ مجنوں کو برا کیوں کہتی ہے؟
(ب) خود ان کا معشوق انھیں کیا کہتا ہے؟
اس ضمن میں خلاصۃً لکھتے ہیں کہ غالب کا فریبی ہونا ثابت ہے نہ لیلیٰ کا مجنوں کو برا کہنا۔ محض بے دلیل دعویٰ ہے۔
جواب : ان دونوں اعتراضات کے جواب سے قبل شعر کی ایک نزاکت سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ شعر میں یہ کہیں نہیں کہا گیا میں لیلیٰ کو فریب دیتا ہوں۔ شعر میں لفظِ "معشوق" اپنے عموم پر ہونے کے باوجود غالبؔ کا معشوق مراد ہے۔ دیگر معشوق غالبؔ کی اپنے معشوق سے اس دلداری، کمالِ محبت اور خلوص و وفا پر رشک کرتے ہوئے اپنے اپنے عاشقوں پہ طعنہ زن ہیں۔ یہاں لیلیٰ کا ذکر کمالِ عاشقی کا شعور دلانے کے لیے ہے۔ یعنی جب لیلیٰ غالب کے عشق و وفا پر رشک کرتے ہوئے مجنوں کو برا کہہ سکتی ہے تو دیگر معشوقوں کا حال کیا ہوگا!۔ اب ضامن کے دونوں اعتراضات رفع ہو گئے۔ لیلیٰ مجنوں کو برا اس لیے کہتی ہے کہ : تجھ میں وہ خوئے وفا اور جاں نثاری کا جذبہ نہیں جو غالب میں ہے۔ اور خود ان کا معشوق انھیں کیا کہتا ہے؟ اس کا جواب لیلیٰ کے ذکر ہی میں بیان ہو گیا۔

بعض شُرّاح [مثلاً یوسف سلیم چشتی] نے اس شعر کا مرکزی خیال "تفوق بر مجنوں" لکھا ہے۔ یا للعجب!! درست یہ ہے کہ معشوق فریبی کلیدی خیال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[حاشیہ]
ماہنامہ نگار، شمارہ نومبر 1963ء میں عندلیب میرٹھی نے ایک مضمون بہ عنوان "مؤمن کی معشوق فریبیاں" میں تفصیل سے لکھا۔ ان کے انتخاب کردہ چند اشعار دیکھیں :
عبث تم کو پڑی الفت، وہ کب دیتا تھا دم تم پر
پہ مجھ کو دیکھ کر دشمن کلیجہ تھام لیتا تھا
"وہ" سے رقیب مراد ہے۔

منظور ہو تو وصل سے بہتر ستم نہیں
اتنا رہا ہوں دور کہ ہجراں کا غم نہیں
کس عمدگی سے وصلت پہ برانگیختہ کیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ دراصل اس میں متکلم ہی کا فائدہ ہے۔

دربان کو آنے دینے پہ میرے نہ کیجے قتل
ورنہ کہیں گے سب کہ یہ کوچہ حرم نہ تھا

غیروں پپ کھُل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا

کس دن تھی اس کے دل میں محبت، جو اب نہیں
سچ ہے کہ تو عدو سے خفا بے سبب ہوا
دشمن کے خلاف محبوب کو بھڑکانے اور بدگمان کرنے کا کیا خوب طریقہ ہے۔

میں ایک سخت جان ہوں گردوں سے پوچھ لو
تم کو خیال ہے مرے آزار کا عبث
محبوب کو ستم پردازی سے باز رکھنے کا کیا عمدہ دعویٰ کیا۔

ہے دوستی تو جانبِ دشمن نہ دیکھنا
جادو بھرا ہوا ہے تمھاری نگاہ میں
چونکہ محبوب کے لیے رقیب ہی اس کا سچا عاشق ہے، اس لیے بظاہر رقیب کی سلامتیِ جان کی ترکیب سُجھائی جا رہی ہے لیکن پس پردہ اس سے التفات و تکلم سے دور کیا جا رہا ہے۔

گلا ہم کاٹ لیں گے آبِ تیغِ رشک سے اپنا
عدو کو قتل کیجے پھر ہمارا امتحاں کیجے

گر ذکرِ وفا سے یہی غصہ ہے تو اب سے
گو قتل کا وعدہ ہو، تقاضا نہ کریں گے
اس شعر کی خوبی، برجستگی اور کفایتِ لفظی بیان سے باہر ہے۔
 
Top