کلامِ غالب میں کربِ وجودِ۔۔۔فلسفہ وجودیت کے آئینے میں ۔ محمد خرم یاسین۔

"Existential Anguish in Ghalib's Poetry: An Existentialist Perspective" (A Study of the First Fifty Ghazals)

یہ مضمون کلامِ غالب کی نئی آفاقیت کی تلاش کی کاوش ہے۔ اکثر شارحین نے کلامِ غالب کے بنیادی معانی تک رسائی حاصل کی ، استعاراتی جہان کی گہرائیوں کو نظر انداز کیا۔ اس کا اندازہ دیوانِ غالب کی پہلی غزل کے پہلے شعر کی تشریح سے ہوجاتا ہے۔ کلامِ غالب کو بارہا پڑھا، ہر بار، اس کی نئی معنویت آشکار ہوئی۔ مجھے لگا کہ کلامِ غالب میں اپنے وجود کا کرب انفرادیت سے نکال کر آفاقیت بخشتا ہے۔ اس ضمن میں کسی معیاری مضمون کی تلاش کی بہت کوشش کی، غالب نمبر کھنگالے لیکن مجھے اس موضوع پر مواد نہ ہونے کے برابر ملا (محض ایک مضمون، وہ بھی کربِ وجود کے حوالے سے نہیں ہے)۔ اس پر مضمون لکھنا چاہا لیکن پچاس غزلوں تک پہنچ کر رک گیا کہ اس پر ایک مکمل کتاب لکھی جاسکتی تھی۔ آپ مضمون کو اس لنک سے ڈاؤنلوڈ کرکے پڑھ سکتے ہیں۔ قیمتی رائے سے بھی آگاہ کیجیے گا۔



 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
"Existential Anguish in Ghalib's Poetry: An Existentialist Perspective" (A Study of the First Fifty Ghazals)

یہ مضمون کلامِ غالب کی نئی آفاقیت کی تلاش کی کاوش ہے۔ اکثر شارحین نے کلامِ غالب کے بنیادی معانی تک رسائی حاصل کی ، استعاراتی جہان کی گہرائیوں کو نظر انداز کیا۔ اس کا اندازہ دیوانِ غالب کی پہلی غزل کے پہلے شعر کی تشریح سے ہوجاتا ہے۔ کلامِ غالب کو بارہا پڑھا، ہر بار، اس کی نئی معنویت آشکار ہوئی۔ مجھے لگا کہ کلامِ غالب میں اپنے وجود کا کرب انفرادیت سے نکال کر آفاقیت بخشتا ہے۔ اس ضمن میں کسی معیاری مضمون کی تلاش کی بہت کوشش کی، غالب نمبر کھنگالے لیکن مجھے اس موضوع پر مواد نہ ہونے کے برابر ملا (محض ایک مضمون، وہ بھی کربِ وجود کے حوالے سے نہیں ہے)۔ اس پر مضمون لکھنا چاہا لیکن پچاس غزلوں تک پہنچ کر رک گیا کہ اس پر ایک مکمل کتاب لکھی جاسکتی تھی۔ آپ مضمون کو اس لنک سے ڈاؤنلوڈ کرکے پڑھ سکتے ہیں۔ قیمتی رائے سے بھی آگاہ کیجیے گا۔



عمدہ۔

ویسے خطوطِ غالب کے حوالے سے ایک مضمون نظر سے گزرا ہے، مگر آپ کا موضوع تو کلامِ غالب میں کربِ وجود ہے۔
 
محمد خرم یاسین صاحب ، آپ بہت اچھا کام کررہے ہیں ۔غالؔب کے کلام کی بہت سی شرحیں نظر سے گزری ہیں ، جنھیں پڑھ کر کچھ ایسا لطف اور حظ محسوس نہیں ہوتا جو کلام ِغالب کو پڑھ کرخودسے غورکرنے میں میسر آتا ہے ۔مجھے تو غالب کے مکتوبات میں اُن کے بعض اشعار کا مطلب جو خود اُنہوں نے سمجھایا ہے وہی باعتبارِ شرح ، سیاق وسباق وَ شانِ نزول ، سب سے بہتر ، قریب الفہم اور لائقِ تسلیم معلوم ہوا ۔ آپ کا مقالہ گو شرح کلامِ غالب نہیں ایک خاص جہت سے اُن کے کلام کا مطالعہ ہے ، مگر پھر بھی اِس کے ڈانڈے اپنے موضوع ذات کے کرب سے گزرکر اِس کرب کی نشاندہی اوروضاحت کرتے ہوئے شرحِ کلام غالب ہی سے جاملتے ہیں۔
غالب جیسے مشکل پسند شاعر پر کسی بھی جہت سے تحقیق اور اور اُس تحقیق کے نتائج پر مبنی یہ مقالہ غالب پر کام کرنیوالوں کے لیے تومتاعِ بیش بہا ہے مگر اِس میں عام قاری کی دلچسپی کا سامان یہاں موجود قارئین کی آرا،تبصروں ، تجزیوں اور محاسن و معائب پر قدرے تفصیلی مراسلوں سے پیدا ہوگا اور آپ کی حوصلہ افزائی کا باعث بن جائے گا، ان شاء اللہ ۔​
 

علی وقار

محفلین
ایک مضمون یہ بھی ہے جو شاید کام کا ہو۔

جدیدیت، وجودیت اور غالب​



جدیدیت اور وجودیت دونوں نے مطالعہ ء انسان کے لیے اس کی مجموعی / نوعی حیثیت کی بجائے اس کی انفرادی حیثیت کو منتخب کیا ہے۔ دونوں کے لیے انسان کوئی مطلق حقیقت نہیں جس کے مطالعہ کے لیے پہلے سے قائم کوئی نظام کام دے سکے بلکہ وہ تو ایک تکمیل پذیر وجود ہے جس کے بارے حتمی رائے وہ خود بھی قائم نہیں کر سکتا۔ وجود کی تکمیل کا یہ عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ نتیجتاً وجود کی کوئی تعریف ممکن نہیں۔ انسان وہی کچھ ہے جو وہ ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے اظہار کے لیے کسی رسم، رواج، روایت یا نظام کا پابند نہیں، وہ آزاد ہے یہی آزاد انسان بہ صورت فرد جدیدیت اور وجودیت کے تصورات کا مرکز ہے۔ جو جدیدیت کے وجودیت سے استفاد کی بنیاد بنتا ہے۔ یہاں وجودیت کے تصورات کا اجمالی جائزہ پیش کیا جاتا ہے جنہیں جدیدیت کی تحریک میں بھی باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔


بحیثیت فکری تحریک وجودیت نے مظہریت کی کوکھ سے جنم لیا ہے دونوں تحریکوں کے اس قریبی تعلق کے باوجود ان کا افتراق اساسی نوعیت رکھتا ہے۔ مظہریات جو ہر کو وجود پر مقدم گردانتے ہوئے تمام تر اہمیت جوہر کو تفویض کرتی ہے جب کہ وجودیت وجود کو جوہر پر تقدم دیتی ہے اور وجود کو اپنے جوہر کا خالق سمجھتی ہے۔


۱؎ ’’وجودیت معمولات زندگی اور انسانی روز مرہ سے ابھر کر سامنے آنے والا وہ ’’جذبہ و احساس‘‘ ہے جس نے بالآخر ایک فکری تحریک کی صورت اختیار کر لی ہے۔ یہ فرد موجود کے آزادانہ انتخاب و اختیار کا معاملہ ہے جس کے تحت ایک انسانی وجود ایک وجود محض سے معاشرتی زندگی کی مختلف سطحوں سے گزرتا ہوا، نبرد آزما ہوتا ہوا، کندن بن کر، بنتا سنورتا ہوا، آپ اپنے جوہر یا وصف کو دریافت کر کے اس جوہر سے متصف ہو کر ’’ وہ کچھ بنتا ہے ‘‘ جو ’’ وہ بننا چاہتا ہے ‘‘ ۔ گویا ایک انسانی فرد جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے اس ’’ہونے‘‘ میں اس کی مرضی و اختیار کا بڑا دخل ہوتا ہے جب کہ وجودیت کے برعکس مظہریات کا نقطہ نظریہ ہے کہ انسانی وجود کے اندر اس کا وصف یا جوہر پہلے سے موجود ہوا کرتا ہے جو اس میں خوابیدہ ہوتا ہے، بس اسے اکسانے کی، اس میں تحریک پیدا کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ گویا مظہریات جوہر یا وصف کی دریافت پر یقین نہیں رکھتی ہے بلکہ اسے پہلے سے موجود مانتی ہے۔ ‘‘


مشہور قول ’’ میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں ‘‘ وجود پر جوہر کے تقدم ہی کا اظہار ہے جب وجودیت اس قول کے برعکس ’’ میں ہوں اس لیے سوچتا ہوں ‘‘ کے نظریے کی حامل ہے۔ وجودیت نے سب سے پہلے وجود کے جوہر پر مقدم ہونے کا تصور پیش کیا۔ اس تصور کے نتیجے میں تمام انسانوں کو منسلک و مربوط کرنے والے تقدم جوہر کے تصور کا خاتمہ ہو گیا۔ نتیجتاً فرد جسے ہمیشہ اجتماع کا جز و سمجھ کر مطالعہ کیا جاتا رہا اب ایک واحد اور آزاد اکائی کے روپ میں جلوہ گر ہوا۔ وجودیت کا وجود کو آزاد اور واحد اکائی کے روپ میں پیش کرنا اور اسے جوہر پر تقدم دینا گزشتہ فکری رجحانات کے اعتبار سے قطعی نیا وژن تھا۔


وجودیت سے قبل وجود کو اجتماع کے جز و کے طور پر موضوع بنایا جاتا تھا اور انسان کے ظاہری وجود نیز مجموعی تشخص کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ وجودیت نے وجود کو اس مفہوم کے برعکس نیا مفہوم دیا مگر وجود کے لفظ کو وسیع تر تناظر کی بجائے ’’ فرد کے وجود ‘‘ کے معنی میں استعمال کرتے ہوئے پہلی بار یہ احساس اجاگر کیاکہ انسان کا حقیقی وجود اس کے ظاہر سے نہیں بلکہ اس کے باطن سے تعلق رکھتا ہے۔ وجودیت نے خیالات اور احساسات کو محض اس وجہ سے بامعنی قرار دیا کہ ہر خیال اور احساس براہ راست وجود سے متعلق ہوتا ہے اسی وجہ سے بامعنی بھی ہوتا ہے۔ انسان پہلے ’’ موجود ‘‘ ہوتا ہے، پہلے وجود پذیر ہوتا ہے، بعد میں اپنے جوہر کی تشکیل کرتا ہے۔ انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنا کوئی ایسا تصور پیش کرے جو کہیں بعد کے زمانے میں ظہور پذیر ہو۔ وجود کی کوئی تعریف ممکن نہیں کیوں کہ انسان ہر لمحہ اپنے وجود کی تکمیل کرتا رہتا ہے۔ اس لیے کوئی ایسی تعریف پیش نہیں کی جا سکتی جو وجود کو اس کے آخری تکمیلی لمحے تک بیان کر سکے۔ نوع انسانی بہ حیثیت مجموعی وجودیت کے لیے اس وجہ سے قابل غور نہیں کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔ تمام انسانوں کو جوہر کے ذریعے منسلک کرنا تو ممکن ہے لیکن وجود کی تعریف کے ذریعے ا یسا کرنا ممکن نہیں کیوں کہ وجود کی تعریف کرنے کا مطلب ’’جوہر ‘‘ کا بیان ہو گا۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ کل کیا ہو گا، صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ آدمی کا وجود وہی ہے جو وہ خود کو بتاتا ہے۔ زندگی جاری ہے، وجود تکمیل پذیر ہے، اس لیے پہلے سے قائم کیے گئے کسی نظریے کی مدد سے وجود کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔


۲؎ ’’لفظ وجودیت کا مفہوم کیا ہے ؟ یہ ہر قسم کے محض تجریدی، منطقی و سائنسی فلسفہ کی نفی ہے۔ یہ عقل کی مطلقیت سے انکار ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ فلسفہ کو فرد کی زندگی، تجربے اور اس تاریخی صورت حال سے گہرے طور پر مربوط ہونا چاہئے جس میں فرد خود کو پاتا ہے۔ فلسفہ ظن و تخمین کا کھیل نہیں، بلکہ ایک طرز حیات ہے۔ یہ سب کچھ لفظ و جود میں مضمر ہے۔ وجود ی اعلان کرتا ہے کہ میں معروضی دنیا کی بجائے صرف اپنے حقیقی تجربے ہی کو جانتا ہوں۔ اس کے نزدیک ذاتی ہی حقیقی ہے۔ اس لیے فلسفے کا آغاز اس کی زندگی، تجربے اور ذاتی علم سے ہونا چاہئے۔ وجودیت فرد کی بے مثل انفرادیت پر اصرار کرتے ہوئے فطرت اور طبعی دنیا کی مجموعی خصوصیات کے مقابلے میں انسانی وجود کو بنیادی حیثیت دیتی ہے۔ وہ انسان کے چند اساسی موڈز جیسے بوریت، ناسیا، خوف اور تشویش وغیرہ پر خصوصی توجہ دیتی ہے جو انسان کی مطلق فطرت اور کائنات سے اس کے تعلق کے بارے میں سوالات پیدا کرتے ہیں۔ ‘‘


اس میں کوئی شک نہیں کہ وجودیت کا مرکز مطالعہ انسان ہے۔ تاہم یہ انسان نوعی نہیں، انفرادی حیثیت کا حامل ہے۔ مطلق فطرت اور کائنات سے تعلق کے حوالے سے وجودیت کے تمام مباحث انسان کی انفرادی حیثیت کے گرد گھومتے ہیں۔ انفرادی حیثیت میں انسان کا یہ مطالعہ اس کے ذہن اور عقل کی بجائے اس کے جذبات و احساسات سے بحث کرتا ہے۔ وجودیت جذبات و احساسات کی مختلف صورتوں کو نفسیاتی سے زیادہ وجودی گردانتی ہے۔ اس لیے ذہن اور عقل کے مطالعے کے برعکس جو کاملیت تک رسائی کی تمنا میں حقیقت کے قریب پہنچنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ وجودیت ان جذبی کیفیات کے مطالعے کو اہمیت دیتی ہے۔ جن کا تعلق براہ راست انسان کی اصل حقیقت سے ہوتا ہے۔ وجودیت کے لیے انسان کی اصل حقیقت اس کا ظاہر نہیں اس کا باطن ہے۔ جب کہ باطن کی صورت پذیری میں کلیدی کردار کے حامل ذہن و عقل نہیں بلکہ جذبات و احساسات ہیں۔ اس لیے وجودیت کی حد تک انسان اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے ظاہر سے زیادہ باطن سے متعلق ہے۔ نیز باطن اپنی صورت پذیری میں عقل سے زیادہ جذبے کے زیر اثر ہے۔ وجودیت کے نزدیک انسان کا یہ انفرادی تصور اس کے نوعی تصور کے مقابلے میں زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔


۳؎ ’’انسان بہ حیثیت ایک نوعی انسان کے تمام اشیاء کا پیمانہ نہیں بلکہ ایک انفرادی فرد ہی تمام اشیاء کا پیمانہ ہوتا ہے۔ گویا ایک وجودی کے نزدیک ’’ نوعی انسان ‘‘ کو تمام اشیاء کا پیمانہ قرار دینا محض ایک دکھاوے اور بڑھ چڑھ کے بات کرنے کے مترادف کوئی بات ہے۔ یہ محض ایک خوش فہمی اور فوسودہ خیالی ہے جس سے سوائے ’’ خالی خولی خوش ہو جانے ‘‘ کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں۔ چنانچہ جب ایک وجودی یہ کہتا ہے کہ انسان خود بھی ایک پیمانہ ہے تو اس کے اس قول سے مراد کل بنی نوع انسان نہیں ہے بلکہ وجودی نظریے کے تحت ایک ’’ فرد واحد ‘‘ ہی صرف تمام اشیاء کا پیمانہ ٹھہرتا ہے اور خاص طور پر تمام تر اقدار کا پیمانہ انسانی فرد ہے، نوع انسانی نہیں۔ وجودی کہتے ہیں کہ زندگی اصل میں پسند و ناپسند، انتخاب و اختیار، رد و قبول کا ایک مسلسل و متواتر عمل ہے کیونکہ تمام تر انسانی فیصلے یا رد و قبول کی تمام صورتیں اپنے آخری تجزیئے میں بہرحال ماہیت کے اعتبار سے شخصی اور انفرادی ہوا کرتے ہیں، نوعی نہیں ہوتے۔ وجودی کہتے ہیں کہ یہ ہمارا روز مرہ کا تجربہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص آپ اپنی زندگی کو… ’’ فیصلوں کی پل صراط سے گزارتا رہتا ہے۔ ہمارے فیصلے خالص نجی اور شخصی فیصلے ہوتے ہیں جنہیں ہم صبح و شام، ساعت … ساعت اور لمحہ بہ لمحہ زندگی کرتے ہوے وقت کی صلیب پر رکھ کر، اندیشوں و خطرات سے قطع نظر کر کے، امیدو بیم کی کیفیت میں رہتے ہوئے، سرا سیمگی و احتیاط کی داخلی فضا میں کیا کرتے ہیں۔ وجودی کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں وہ ہی فیصلہ یا انتخاب کرتا ہے کہ جس کی جانب وہ طبعاً خود کو مائل وراغب پاتا ہے۔ اپنے اس انفرادی انتخاب کو بار آور اور کارآمد بنانے کے لیے ایک وجودی اپنا ’’ تن من دھن ‘‘ سب ہی کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ وجودیوں کے نزدیک انسانی زندگی کا منصوبہ ہے۔ گویا ہم میں سے ہر شخص آپ اپنی زندگی کا معمار ہے۔ غرضیکہ وجودیوں کے نزدیک پوری انسانی صورت حال کے دوران ایک انفرادی انسانی وجود کے یہاں ’’فیصلے کی گھڑی‘‘ جہاں ایک طرف اس کے لیے زندگی کے سب سے بڑے کرب سے گزر جانے کی یا صبر و استقلال کی گھڑی ہوتی ہے۔ وہیں دوسری طرف فیصلے کی یہی گھڑی، ذرا سی بھول چوک کے ہاتھوں نہ صرف یہ کہ اس ایک فرد واحد کو بلکہ اس فرد سے وابستہ قوموں کو بھی، تاریخ کے اعلیٰ ترین کمال و عروج یا پھر انسانی زوال پذیری کے بد ترین نقطہ منتہا تک پہونچا سکتی ہے۔ وجودی کہتے ہیں کہ زوال آدم/ ہبوط آدم کی پوری داستان ہمارے سامنے ہے۔ ایک لغزش اول، ایک لغزش دایم کی صورت میں، آج تک ’’موت کی دہشت ‘‘ بن کر ہمارے ساتھ سائے کی طرح لپٹی ہوئی ہے اور انفرادی انسانی صورت حال ہمہ وقت موت سے تو خیر و ابستہ ہے ہی، دہشت موت کے ایک کبھی نہ ختم ہونے والے احساس کی ’’ غیر تصینیت‘‘ کی زد میں بھی رہا کرتی ہے۔ غرضیکہ وجود یوں کے یہاں آزادی، ذمہ داری خود عہدی یا کومٹ منٹ نیز ہستی و لاشئیت کا تصور یہ سب ہی کچھ ان کے اسی انفرادی انسانی وجود کی بے پناہ اہمیت کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے۔ چنانچہ اسی انفرادی انسانی وجود کو ’’ مصدقہ‘‘ اور ’’ غیر مصدقہ ‘‘ انسانی صورت حال میں رکھ کر دیکھنے کا نام ’’ وجودیت ‘‘ ہے۔ ‘‘


وجودیت، معروضیت کے برعکس تمام تر اہمیت موضوعیت کو دیتی ہے۔ اس اہمیت کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ فرد اپنی زندگی کا خود مالک ہے۔ وہ کسی بیرونی، خارجی یا آسمانی قوت کے سامنے مجبور نہیں، وہ اپنے ارادے اور فیصلے میں آزاد اور خود مختار ہے ، یعنی آزادی اور مختاریت وجود کو وہ بلندی عطا کرتی ہے جو وجودیت سے پہلے فرد کو حاصل نہیں تھی۔ تاہم ارادے اور فیصلے کی آزادی فرد کے عمل کو اہم بنا دیتی ہے۔ وجودیت اسی لیے نظریات کی بجائے فرد کے اعمال کو زیادہ اہم گردانتی ہے۔ یعنی اعمال وجود کی قابلیت ظاہر کرتے ہیں۔ فرد عمل کے لیے آزاد ہے یہ آزادی فرد کو نتائج کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار بنا دیتی ہے۔ یہاں یہ ذمہ داری صرف فرد تک محدود نہیں کیوں کہ جب فرد کوئی انتخاب کرتا ہے تو وہ انتخاب صرف اس کے لیے نہیں بلکہ نوع انسانی کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں موضوعیت میں انسانی موضوعیت کی شمولیت ذمہ داری کے احساس کو دوہرا کر دیتی ہے۔ یعنی فرد کی آزادی بے لگام نہیں بلکہ زیادہ ذمہ دارا نہ ہے۔


وجودیت، آزادی، خود مختاریت اور ذمہ داری کا نام ہے۔ جب ہم ایک ایسی ہستی کا تصور رد کر دیتے ہیں جو انسان کی تخلیق کے لیے ذمہ دار ٹھہرتی ہے تو تمام تر ذمہ داری انسانی وجود پر آ پڑتی ہے اور اپنے عمل کے لیے وجود اپنی ذات سے باہر کوئی جواز مہیا نہیں کر سکتا۔ وہ ا پنے عمل کے لیے خود ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے عمل کے لیے کسی اضطراری جذبے کو بھی مورد الزام نہیں سمجھ سکتا کیوں کہ وہ اپنے جذبے کے لیے بھی خود ذمہ دار ہے اور جذباتی رد عمل میں بھی ایک طرح کے انتخاب کا اظہار شامل ہوتا ہے۔


آزادی، خود مختاریت اور ذمہ داری کے احساسات ایک طرف وجود کو وقار اور بلندی عطا کرتے ہیں تو دوسری طرف اسے کرب، بے کسی، مایوسی اور تنہائی جیسے احساسات سے بھی دو چار کر نے کا باعث بن جاتے ہیں۔


فرد جب اپنے اعمال کے لیے خود کو ذمہ دار تصور کرتا ہے تو نوع انسانی کی ذمہ داری بھی اس احساس میں شامل ہو جاتی ہے۔ ذمہ داری کا یہی دوہرا احساس اس کے لیے کرب کا باعث بن جاتا ہے جو فیصلہ کرنے کے عمل کو اس کے لیے مشکل بنا دیتا ہے فرد جب اپنے لیے کوئی انتخاب کرتا ہے تو اس انتخاب میں یہ بات شامل ہو تی ہے کہ جو چیز وہ اپنے لیے پسند کرے وہ دوسروں کے لیے باعث خیر ہو۔ اس طرح اس کا انتخاب صرف اس کے لیے نہیں رہتا بلکہ تمام نوع انسانی کے لیے انتخاب کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ یہی احساس ا س کرب کا باعث بنتا ہے جس کا ذکر وجودی بہ کثرت کرتے ہیں۔


وجودی مفکرین بے کسی کا لفظ بھی کثرت سے استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم فرد پر اپنے اعمال اور اس کے نتائج کی مکمل ذمہ داری عائد کرتے ہیں اور جب آزادی اور انسان کو مترادفات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس طرح خدا کے وجود کی نفی ہوتی ہے۔ خدا کے وجود کی نفی کے ساتھ ان مذہبی معیارات کا تصور بھی ختم ہو جاتا ہے۔ جن پر فرد اپنے اعمال کو پرکھ سکتا ہے۔ نتیجتاً سہارے کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ آدمی کے اندر یہ شعور پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کسی کے آگے نہیں بلکہ اپنے آگے جواب دہ ہے۔ یہی آگاہی اسے بے کس ہونے کا احساس دلاتی ہے۔


مایوسی، خدا کے وجود کے انکار کا لازمی نتیجہ ہے یقینی موت، مایوسی کے اس احساس میں شدت پیدا کرتی ہے کیوں کہ فرد سے یہ یقین چھن جاتا ہے کہ اس کے مقاصد اس کی زندگی میں پورے ہو سکیں گے یا نہیں۔ یہ احساس بے عملی کی بجائے عمل پر اکساتا ہے۔ فرد زیادہ فعال روپ میں سامنے آتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اسے جو کچھ کرنا ہے اپنی زندگی میں کرنا ہے۔ اس کے وجود کی تکمیل عمل سے مشروط ہے۔ اس لیے وہ اپنے شروع کیے ہوئے کاموں کو اپنی زندگی میں مکمل کرنے کی سچی جستجو کرتا ہے۔ تاہم موت کا خوف فرد کے لیے سب سے بڑے خوف کی حیثیت رکھتا ہے۔ وجودیت اس خوف سے نجات پانے کے لیے اسے وجود کا لازمی جزو بنانے پر زور دیتی ہے۔ کیوں کہ جب موت کو وجود کا حصہ تسلیم کر لیا جائے گا تو پھر خوف ہر لمحے سے وابستہ ہو کر احساس بے چارگی اور مایوسی کی جگہ خواہش کا روپ دھار لے گا۔ فرد یہ سوچنا شروع کر دے گا کہ اسے جو کچھ کرنا ہے اس مختصر زندگی میں کرنا ہے۔ اس کی خواہشوں اور مقاصد کو کوئی دوسرا فرد پورا نہیں کرے گا۔ کیوں کہ اس کے سامنے اپنے وجود کے تقاضے ہوں گے لہٰذا اس سے اپنی خواہشات کے احترام کی توقع نہیں جا سکتی۔ یہی آگہی وجودیت کے تناظر میں مایوسی کا موجب بنتی ہے۔


وجودیت کے حوالے سے اساسی اہمیت کے حامل احساسات میں سے ایک تنہائی بھی ہے۔ وجودیت انسان کے مجموعی /نوعی تشخص کے برعکس اس کی انفرادی حیثیت کو اہم گردانتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت فرد کی پروا نہیں کرتی اور فرد جب جماعت سے بے نیاز ہو کر اوپر اٹھنے کی جستجو کرتا ہے تو تنہائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ تاہم تنہائی کا یہ احساس موضوعیت کے لیے ضروری ہے۔ جماعت سے الگ ہو کر ہی وجود کی تکمیل ممکن ہے۔ تنہائی وجود کا جزو لازم ہے، یہی وجود کے لیے اپنے اثبات کا ذریعہ بنتی ہے۔ تنہائی فرد کو اپنے فیصلے کے لیے خود مختار بنا کر اسے وہ وقار عطا کرتی ہے جو وجودیت سے پہلے اسے حاصل نہیں تھا۔ تنہائی ہی فرد کی شناخت بھی ہے اور اس کی تکمیل بھی۔ مختصراً یہ کہ وجودیت کے نزدیک


۴؎ ’’انسان آپ اپنا خدا ہے… اس لیے کہ وہ اپنا جوہر اور اپنی فطرت خود مقرر کرتا ہے اور اپنے اور دوسروں کے لیے اقدار کا تعین خود کرتا ہے۔ اب چونکہ اس اہم ترین فریضے کو اسے اکیلے ہی انجام دینا ہے اور کسی مافوق البشر ذات یا کسی مطلق قدر کی رہنمائی میں اسے یہ کام نہیں کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ اپنے افعال کا خود ذمہ دار ہے اس لیے اس مقام پر اسے اس کیفیت کا تجربہ ہوتا ہے۔ جسے ’’کرب‘‘ کہتے ہیں۔ وہ خدا تو ہے مگر پا بہ زنجیر! وہ یہ کام کرنے پر مجبور ہے۔ خدائی کا یہ فریضہ انجام دینا اس کے اپنے آزادانہ انتخاب کا نتیجہ نہیں ہے پھر بھی اسے یہ کام کرنا ہے، بہرصورت کرنا ہے۔ چنانچہ انہی کربناک حالات کے نتیجے میں وہ اس کس مپرسی، بیچارگی اور یاس کا شکار ہوتا ہے جو اسے یہ کہنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ


’’ میں اپنے آپ کو اس بھری دنیا میں بغیر کسی مدد کے پاتا ہوں۔ اس دنیا کی پوری پوری ذمہ داری مجھ پر ہے۔ میں کسی طرح بھی اس ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا۔ کیونکہ ذمہ داری سے بچنے کی خواہش کی ذمہ داری مجھ ہی پر عائد ہوتی ہے۔ ‘‘


چنانچہ وجودی مفکرین کے ہاں ڈر، خوف، دہشت، یاس اور بیچارگی کے جو احساسات ملتے ہیں ان کا ماخذ انسان کی آزادی اور ذمہ داری ہے۔ ‘‘


جدیدیت کی طرح وجودیت کی تحریک بھی زمانہ غالب کی تحریک نہ تھی مگر کلام غالب میں وجودی طرز کے جذبات و احساسات وافر مقدار میں موجود ہیں یہاں وجودیت کے حوالے سے افکار کا لفظ شعوری طور پر استعمال نہیں کیا گیا کیوں کہ وجودی خود وجودیت کو نظام افکار تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے جذبات و احساسات کی ایک صورت سمجھتے ہیں۔ بہ ہر حال یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر وہ کیا تناظر تھا جس نے غالب کو ایک ایسے وقت میں وجودیت کے قریب کر دیا تھا جب ابھی اس تصور کو تحریک کی شکل حاصل نہیں ہوئی تھی۔


۵؎ ’’اگر ہم غالب اور وجودیت کے سماجی اور تاریخی حالات پر غور کریں تو دونوں میں گہری مماثلت پائیں گے۔ وجودیت کی تحریک دو بڑی جنگوں کے بعد ابھر ی جب انسانی خون کی کوئی قدرو قیمت نہ رہی اور جنگ کے شعلوں نے شہروں کے شہر راکھ کر ڈھیر بنا ڈالے تو مطلقیت پسندانہ فلسفیوں کے خلاف رد عمل پیدا ہوا اور فرد کی انفرادیت کو بچانے کا قوی رجحان ابھرا۔ وہ بڑے بڑے آدرش جن کے پیچھے، قومی وابستگیاں اور سیاسی مفادات پوشیدہ تھے اور جن کی بھینٹ ہزاروں لاکھوں انسانی جانیں چڑھ چکی تھیں، حساس مفکرین کی نظروں سے گر گئے۔ انہوں نے گروہی اور قومی مفاد اور اجتماعی نظام کو بچانے کی بجائے فرد اور اس کی انفرادیت کو بچانے کی مہم شروع کر دی۔ غالب نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو اپنے ارد گرد سیاسی و سماجی زبوں حالی کے مناظر دیکھے۔ ایک عظیم الشان سلطنت کے انہدام کے آخری مراحل اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ انگریزوں کا غلبہ، مغل فرمانروا کی بے بسی اور بدبختی، اپنوں کی غداری اور ۱۸۵۷ء کی قتل و غارت کے واقعات نے اسے بھی انسانی صورت حال کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جس سے وجود ی مفکرین نے جنگ کے بعد یوروپی اقوام کو دیکھا تھا۔ چنانچہ پس منظر کی مشابہت نے غالب کی داخلی واردات کو وجودیت کے گہرے رنگ میں رنگ دیا۔ اسی لیے ہمیں غالب میں مطلقیت سے بیزاری اور فرد کی انفرادیت کو بچانے کا قوی رجحان نظر آتا ہے۔ ‘‘


خارجی پس منظر کی اس مماثلت کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر غالب کے زاویہ نگاہ میں ایک وجودی کا طرز مشاہدہ ان کی ذات میں کچھ اس طرح تحلیل دکھائی دیتا ہے کہ اگر خارجی پس منظر کا یہ اشتراک نہ بھی ہوتا تو بھی شاید غالب کی شاعری وجودی طرز کے جذبات و احساسات سے بالکل اسی طرح ثروت مند نظر آتی :


۶؎ کوئی آگاہ نہیں باطن ہم دیگر سے


ہے ہر اک فرد جہاں میں ورق ناخواندہ


مشاہدے کی یہ باریکی، خارج کی سطح پر موجود انتشار، شکست و ریخت نیز بدامنی اور بدحالی کا نتیجہ نہیں، اگر غالب کے زمانے کے حالات اچھے بھی ہوتے تو وہ اس وجودی حقیقت تک ضرور پہنچتے، غالب اس شعر میں فرد کو ایک واحد اکائی کے روپ میں پیش کرتے ہوئے اس کے حقیقی وجود کو اس کے ظاہر کے برعکس اس کے باطن میں تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ انسان کے اجتماعی و نوعی تصور کے منافی نکلتا ہے۔ انسان کے مجموعی /نوعی تصور کی اساس ’’ جوہر ‘‘ ہے۔ لہٰذا اس تصور کا حقیقی استرداد اس وقت تک امکان نہیں رکھتا۔ جب تک جوہر کے وجود پر تقدم کی نفی نہ کی جائے۔ وجودیت نے ’’وجود‘‘ کو ’’ جوہر‘‘ پر مقدم سمجھتے ہوئے اس لفظ کو وہ نیا تناظر دیا جو فکری تحریکوں میں اس کی الگ شناخت بنا۔ اس لیے کسی بھی شاعر کو اس وقت تک وجودی نقطہ نظر کا حامل قرار دینا ممکن نہیں ہو گا جب تک اس کے ہاں وجود کے جوہر پر تقدم کا اظہار موجود نہ ہو۔ کیا غالب وجود کو جوہر پر مقدم تصور کرتے تھے؟


۷؎ نہ تھا کچھ خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا


ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا


اس شعر کے مصرع اولیٰ میں مظہریت کی گونج صاف سنائی دیتی ہے تاہم مصرع ثانی شعر کو وجودیت کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے۔ پہلے مصرع میں جوہر (خدا) کے وجود پر تقدم کا اظہار کیا گیا ہے جب کہ دوسرے مصرعے میں غالب خود کو مصرع اولیٰ میں پیش کیے گئے تصور سے الگ کرتے ہوئے وجود کی اہمیت ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں ’’ نہ ہوتا میں ‘‘ پر جو زور دیا گیا ہے وہ مصرع کے آخر میں موجود استفہامیے ( تو کیا ہوتا ؟) کو مصرع اول سے جوڑ دیتا ہے یعنی (اگر وجود نہ ہوتا تو کیا جوہر ہوتا؟) یہ استفہامیہ وجود کے جوہر پر تقدم کا روشن اظہار ہے۔ الفاظ کا دروبست یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ غالب وجود کو جوہر پر اولیت دے رہے ہیں۔ وجود کے حوالے سے یہی وہ خاص نقطہ نظر ہے جو وجودیت سے پہلے کے فلسفیانہ مباحث میں نظر نہیں آتا اور غالب سے پہلے کی اردو شاعری میں۔


وجود کو جوہر پر مقدم تصور کرتے ہی انسان تمام پابندیوں سے نجات پا لیتا ہے اسے انتخاب اور عمل پر اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ اسے وہ آزادی میسر آ جاتی ہے جو اس کے وجود کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔ تاہم فرد کی یہ آزادی ہر وقت دوسروں کی نگاہ میں رہتی ہے۔ فرد اپنے وجود کو دوسروں کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ دوسروں کی نظر سے خود کو دیکھتے ہوئے مصدقہ زندگی گزارنے کا تصور محال ہے۔ مصدقہ زندگی گزارنے کے لیے وجود کو دوسرے وجودوں جنہیں سارتر ’’ جہنم ‘‘ کہتا ہے سے نجات دلانا لازم ہے کیوں کہ حقیقی آزادی صرف اور صرف فرد کا اپنا وجود ہے کوئی خارجی ضابطہ انفرادی عمل کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتا۔ غالب بھی سارتر کی طرح دوسرے وجودوں کو مصدقہ زندگی گزارنے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں ؎


۸؎ رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو


ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو


بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے


کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو


پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار


اور گر مر جایئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو


ان اشعار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غالب کے لیے آزادی صرف اپنے وجود کا نام ہے۔ دوسرے چونکہ اس آزادی کو محدود کرتے ہیں اس لیے غالب ان سے نجات حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ جماعت سے علاحدگی کا یہ تصور غالب کے دور میں ناپید تھا۔ ایک ایسے دور میں جب ابھی انسان کے سماجی روابط مضبوط اور توانا تھے۔ انسان، انسان کا ہم درد اور غم گسار تھا۔ غالب ان وجودی کیفیات کا کرب جھیل رہے تھے:


۹؎؎ خود پرستی سے رہے باہم دگر ناآشنا


بے کسی میری شریک، آئینہ تیرا آشنا


ربط یک شیرازہ وحشت ہیں اجزائے بہار


سبزہ بے گانہ، صبا آوارہ، گل ناآشنا





۱۰؎ پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ


ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں


اپنے عہد سے نا موافقت رکھنے والا یہ احساس مغائرت اور مردم گزیدگی کا خوف غالب کو ایک سچا وجودی ثابت کرتے ہیں۔ انسان کا تصور آزادی بھی غالب کو وجودیوں کا ہم خیال ثابت کرتا ہے۔ سارتر کی طرح غالب بھی انسان کو آزاد بلکہ آزاد رہنے کی سزا کا موجب سمجھتے ہیں۔ یہ آزادی قیمتی ہونے کے باوجود کوئی خوش گوار احساس نہیں ہے کیوں کہ احساس آزادی پا بہ زنجیر ہونے کی ایک صورت ہے۔ پابندی کا یہ احساس خارج کی عطا نہیں بلکہ آزادی کے وجود کا جزو لاینفک ہے:


۱۱؎ کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعی آزادی


ہوئی زنجیر موج آب کو فرصت روانی کی


’’ پابند آزادی ‘‘ کا یہ منفرد احساس زیست کرنے کے عمل میں آسانی پیدا کرنے کی بجائے اسے مزید دشوار بنا دیتا ہے۔ انسان کی یہ کامل ’’پابند آزادی ‘‘ غم و آلام میں کمی کا باعث نہیں بنتی البتہ فرد کو انتخاب کی آزادی دے کر نتائج کے لیے اسے مکمل طور پر ذمہ دار ضرور بنا دیتی ہے۔ غالب کے کلام میں موجود ’’ احساس غم‘‘ کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے غموں کو اپنے فیصلوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں اس لیے کسی دوسرے کو مورد الزام قرار دینے کی بجائے تمام تر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خود کو رنج کا خوگر بنا لیتے ہیں :


۱۲؎ رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج


مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں


غالب ’’ احساس غم ‘‘ کو زیست کرنے کے عمل میں توانائی کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ یہ احساس ان کی زندگی میں عدم فعالیت پیدا نہیں کرتا بلکہ اسے مزید فعال بنا دیتا ہے۔ وجودیت زندگی کے فعال تصور میں اعتقاد رکھتی ہے۔ زندگی کی طرح وجود بھی کوئی جامد حقیقت نہیں۔ انسان ایک مستقل بدلتا ہوا وجود ہے۔ اس لیے اسے مستقل تصور کرتے ہوئے اس پر کوئی ضابطہ عائد کرنا بعید از امکان ہے۔ انسان ہر لمحہ کسی صورت حال سے دوچار رہتا ہے۔ اس لیے جب تک وجود کی تکمیل نہیں ہوتی اس کی تفہیم نیز اسے پابند ضابطہ بنانے کی کوئی بھی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتی:


۱۳؎ آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز


پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں


وجودیت وجود کی تکمیل کو عمل سے مشروط جانتی ہے۔ عمل اس فیصلے کا نتیجہ ہے جو صورت حال کے پیدا کردہ کرب کے ناقابل برداشت ہونے پر وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کلام غالب میں وجود کو درپیش صورت حال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا کرب صاف محسوس کیا جا سکتا ہے:


۱۴؎ ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر


کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے


تاہم یہ کرب ہمیشہ فیصلے سے بامعنی عمل کی طرف نہیں بڑھتا۔ غالب اس ناقابل برداشت کرب سے فرار بھی اختیار کرتے نظر آتے ہیں جو بہ ہر حال وجود یوں کے لیے معیوب ہے:


۱۵؎ رات دن گردش میں ہیں سات آسماں


ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا


لیکن فرار کا یہ عمل دائمی نہیں لمحاتی ہے اس لمحاتی فرار کا سبب انتخاب کی آزادی نیز ذمہ داری کا شعور ہے۔ غالب جانتے ہیں کہ ان کا انتخاب صرف ان کے لیے نہیں بلکہ نوع انسانی کے لیے ہے۔ یعنی ان کی موضوعیت میں ا نسانی موضوعیت بھی شامل ہے۔ لہٰذا ان پکر لازم ہے کہ وہ احساس کرب کی سختی جھیلتے ہوئے ذمہ داری کی دونوں جہتوں کو پیش نظر رکھیں اور خیر کا انتخاب کریں :


۱۶؎ وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر


نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے


وجودیت انسان کو با اختیار سمجھتی ہے۔ اس اختیار میں کمی صرف موت کے خوف سے واقع ہوتی ہے۔ ا س لیے وجودیت موت کے خوف پر قابو پانے کے لیے یہ ضروری سمجھتی ہے کہ اسے ایک خارجی حقیقت کی بجائے وجود کی داخلی حقیقت سمجھا جائے اس طرح موت ہر لمحہ وجود کے ساتھ رہے گی۔ نتیجتاً خوف، خواہش میں منقلب ہو جائے گا۔ انسان، زندگی کے اختصار کو سمجھ کر زیادہ فعال روپ میں سامنے آئے گا۔ وہ اپنی تکمیل اور عظمت کو اپنی زندگی میں پانے کے لیے جدوجہد کرے گا کیوں کہ یہ حقیقت اس پر عیاں ہو گی کہ اس کی خواہشیں صرف اس کے لیے قابل قدر ہیں، اپنے مقاصد کا حصول صرف ا س کے لیے ضروری ہے، ا سکی موت کے بعد کسی دوسرے سے ان مقاصد اور خواہشات کی تکمیل کی توقع بے سود ہے کیوں کہ ہر وجود اپنے مقاصد اور خواہشات رکھتا ہے اور اسے پورا حق ہے کہ وہ انہی کی تکمیل کے لیے کوشاں رہے۔ تاہم یہ حقیقت امید کی مکمل تردید کا باعث بن جاتی ہے:


۱۷؎ کوئی امید بر نہیں آتی


کوئی صورت نظر نہیں آتی


موت کا ایک دن معین ہے


نیند کیوں رات بھر نہیں آتی


دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں موجود استفہامیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نیند نہ آنے کا سبب اپنے مقاصد کو اپنی زندگی میں پورا نہ ہوتے دیکھنے کا خوف ہے۔


وجودیوں کے نزدیک موت خارجی واقع بھی ہے اور داخلی جذبہ بھی، یہ موت انفرادیت کی تکمیل بھی ہے کہ اپنی موت صرف اپنے لیے یعنی صرف اپنی ہوتی ہے۔ کسی دوسرے کی نہیں اور انفرادیت سے لاتعلق بھی کیوں کہ ہم اپنے لیے نہیں دوسرے کے لیے مرتے ہیں، موت ہمیں دوسروں کا محتاج بنا دیتی ہے۔ موت زندگی کا ترکیبی جزو بھی ہے اور اس کی دشمن بھی، موت کا شعور اور خوف پیدا ہوتے ہی انسان کو گھیر لیتے ہیں لیکن ان کا کوئی وقت مقرر نہیں یہ انسان کی مرضی سے نہیں آتی۔ موت انسانی داخلیت کا جز و بھی ہے اور ایک سراسر لغو خارجی صورت حال بھی۔ ہم ہر وقت اس کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور اس کے خوف کا بہ صورت ایک موضوعی حقیقت کے کوئی جواز بھی نہیں۔


موت کے حوالے سے وجودیوں کی ان متضاد آرا کا عکس غالب کی شاعری میں صاف جھلکتا ہے۔ ان متضاد آراء کو غالب کے وجودی ہونے کے منافی نہیں سمجھنا چاہئے کیوں کہ غالب نے بہ ہر حال موت کے موضوع کو وجودیت کی طرح اہم سمجھا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے:


۱۸؎ جس طرف سے آئے ہیں، آخر ادھر ہی جائیں گے


مرگ سے وحشت نہ کر، راہ عدم پیمودہ ہے





۱۹؎ تیغ در کف، کف بہ لب آتا ہے قاتل اس طرف


مژدہ باد، اے آرزوئے مرگ غالبؔ، مژدہ باد





۲۰؎ کبھی آ جائے گی کیوں کرتے ہو جلدی غالبؔ


شہرہ تیزی شمشیر قضا ہے تو سہی





۲۱؎ خیال مرگ کب تسکیں دل آزردہ کو بخشے


مرے دام تمنا میں ہے اک صید زبوں وہ بھی





۲۲؎ مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی


موت آتی ہے پر نہیں آتی





۲۳؎ منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید


نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے





۲۴؎ ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام


ایک مرگ ناگہانی اور ہے





۲۵؎ تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا


اڑنے سے پیش تر بھی مرا رنگ زرد تھا


موت، مندرجہ تمام رنگوں کے علاوہ تمام فیصلوں کی موجب بھی ہے اور ان پر عمل کی محرک بھی، موت کا شعور ہمیں اس پر غالب آنے کے لیے ہر وقت محو عمل رکھتا ہے۔ یہ شعور در حقیقت دعوت عمل ہے۔ جس پر داخلیت کی ترقی کا انحصار ہے۔ زندگی کی تمام سرگرمیاں اور نیرنگیاں دراصل موت ہی کی بدولت ہیں :


۲۶؎ ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا


نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا





۲۷؎ کوئی دن گر زندگانی اور ہے


ہم نے اپنے جی میں ٹھانی اور ہے


موت زندگی میں فعالیت پیدا کرتی ہے۔ فعالیت ہی غالب کی تخلیقی شخصیت کا اختصاص ہے :


۲۸؎ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے


بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے


وجودیت کے حوالے سے انفعالی زندگی کا مقبول تصور درست نہیں کیوں کہ وجودیت زندگی کی فعالیت میں یقین رکھتی ہے۔ اس لیے وہ فرد کے تصورات اور خیالات کے برعکس اس کے عمل کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ زندگی کے کام وجودیت کے لیے بھی اہم ہیں اور غالب کے لیے بھی، غالب زندگی کا کوئی کام ادھورا چھوڑنے پر آمادہ نہیں کیوں کہ زندگی کے کاموں کی تکمیل ان کے وجود کی تکمیل ہے اور یہ حقیقت ان پر پوری طرح آشکار ا ہے:


۲۹؎ خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ


رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے


عینیت پسندوں نے دنیا کو غیر حقیقی اور سراب قرار دے کر ا س کی اہمیت کو کم کر دیا تھا۔ دنیا سے عدم دلچسپی کا نتیجہ معاملات حیات سے بے اعتنائی کی صورت ظاہر ہوا۔ اس لیے عمل کی جگہ بے عملی نے لے لی۔ غالب تک کی اردو شاعری دنیا سے اسی عدم دلچسپی کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ جب کہ غالب نے ’’ رہنے دے مجھے یاں ‘‘ کہہ کر دنیا سے لگاؤ کے ساتھ اسے حقیقی سمجھنے کے وجودی تصور کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ جو تقلید روایت کے برعکس ان کی جدیدیت پسند فکر کی ترجمانی کرتا ہے۔ غالب کے انہی منفرد تصورات نے انہیں انانیت میں مبتلا کر دیا تھا جو ان کے اکیلے پن اور تنہائی ہی ایک صورت تھی۔ اکیلے پن اور تنہائی کے احساسات کے شدت اور وسعت غالب اور وجودیت کے اہم اشتراکات میں سے ہے۔ تاہم یہ تنہائی وہ تنہائی نہیں ہے جو رومانی فن کاروں کو اپنے آئیڈیل سے دوری کے باعث محسوس ہوتی ہے بلکہ یہ تنہائی وجود کو موضوعیت کی جانب متوجہ کرنے کا سبب بھی ہے اور اس کی تکمیل کا ذریعہ بھی۔


غالب کی شاعر ی سے تنہائی کا جو احساس قاری تک منتقل ہوتا ہے۔ اس کی نوعیت وجودیت کے تصور تنہائی سے مختلف نہیں کیوں کہ غالب کے ہاں احساس تنہائی کسی عمل کے رد عمل کے طور پر نہیں ابھرتا بلکہ وجود کے ساتھ جنم لیتا، پرورش پاتا، زیست کرتا نیز تکمیل وجود کے سفر میں شریک رہتا ہے:


۳۰؎ کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ


صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا


غالب کا احساس تنہائی ان کے تخلیقی اور غیر تخلیقی وجود دونوں کو محیط ہے۔ تخلیقی وجود کی سطح پر یہ احساس معنویت کے بلند تر مقامات کومس کرنے کے باعث بھی پیدا ہوا ہے اور بے معنویت کو چھونے کے باعث بھی:


۳۱؎ ہو گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ


ہوں میں کلام نغز ولے نا شنیدہ ہوں





۳۲؎ نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا


گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی


غیر تخلیقی وجود کی سطح پر یہ احساس سائے تک کو خود سے مفائی اور بیگانہ محسوس کرتا ہے:


۳۳؎ وحشت آتش دل سے شب تنہائی میں


صورت دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے


کلام غالب میں تنہائی کبھی وحشت آتش دل بنتی ہے تو کبھی سوز غم کا روپ دھار لیتی ہے :


۳۴؎ آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں


سوز غم ہائے نہانی اور ہے


غالب کی تنہائی اپنی ارفع ترین صورت میں یکتائی کو مس کرتی دکھائی دیتی ہے اس مقام پر غالب کی تنہائی، تمنا میں تحلیل و منقلب ہو جاتی ہے۔ اس عمل تقلیب کے بعد اپنے ’’ کیا پن ‘‘ کی جستجو میں منہمک تمنا، زمانی اور مکانی حدود کو عبور کرتے ہوئے لامحدود جوہروں والی لا زمانی اور لامکانی دنیا کو تلاش کرتی نظر آتی ہے:


۳۵؎ ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب


ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا


لامحدود جوہروں کو معدوم یا نیست سے وجود کے پیکر میں ڈھال کر وجود کی تنہائی یکتائی میں تبدیل ہوتی یعنی اپنے جوہر کی تکمیل کرتی ہے۔ غالب کے ہاں موجود وسعتوں کی تمنا اور کشادگی ظرف کے مضامین، شعوری موجودگی کے احساس اور لامحدود جوہروں والی لا زمانی و لامکانی دنیا تک رسائی کی کاوش اور خواہش ہی کی ایک صورت ہے۔


لامحدود جوہروں والی ذات (خدا) کے حوالے سے وجودیت دو گروہوں میں منقسم ہے ایک گروہ ان مفکرین کا ہے جو خدا کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں جب کہ دوسرے گروہ کے مفکرین خدا کے وجود کو نہیں مانتے۔ تاہم وجودیت کے اساسی تصورات پر خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ وجودیوں کے نزدیک خدا انسان کے دکھوں کو کم نہیں کر سکتا۔ خدا کے ہونے یا نہ ہونے سے انسانی وجود کو درپیش بحران، اس کی تنہائی، موت کے سامنے اس کی بے بسی، تکمیل وجود نیز انتخاب کرنے کی مشکل جیسے مسائل پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ غالب کا تعلق وجودیوں کے الہیاتی گروہ سے ہے یا الہادی سے۔ اس کا تعین آسان نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ غالب وجودیوں کی طر ح خدا کی موجودگی یا غیر موجودگی کو وجود کے دکھوں سے علاحدہ سمجھتے ہیں :


۳۶؎ زندگی اپنی جب اس شکل پہ گزری غالبؔ


ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے


اس شعر میں غالب خدا کو انسانی وجود کو درپیش مسائل یعنی صورت حا ل، کرب، انتخاب اور انتخاب کے نتائج کی ذمہ داری جیسے معاملات سے الگ کر دیتے ہیں۔ اس لیے غالب کا تعلق وجودیوں کے الہیاتی یا الحادی کسی بھی گروہ سے ہو وہ انسانی وجود کو درپیش مسائل کے تناظر میں وجودیوں کے تصور خدا کے ہم خیال ضرور ہیں۔


ان اشتراکات کے علاوہ غالب کے بے شمار اشعار فرد کے ان جذبات و احساسات نیز تصورات کا حاطہ کرتے نظر آتے ہیں جن سے وجودیت بحث کرتی ہے۔


۳۷؎ ’’غالب کے شعر میں انسان کے نازک سے نازک، لطیف سے لطیف اور پیچیدہ سے پیچیدہ جذبے اور احساس کو اظہار کی زبان عطا کرنے، اسے تصویر اور مجسمے کی صورت دینے اور تصویر اور مجسمے میں روح پھونک دینے کی جو غیر معمولی قوت ہے۔ اس نے ہمارے لیے ہر تجربے کا ادراک ممکن بنا دیا ہے اور اس لیے غالب کا قاری جب اپنے کسی جذبے اور احساس کے معنی سمجھنے میں دقت محسوس کرتا ہے یا اس کی تہ تک نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے ایک کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے تو غالب کا کوئی نہ کوئی شعر سامنے آ کر اس سے کہتا ہے کہ دیکھو میں تمہاری الجھن اور تمہاری کشمکش کی تفسیر ہوں۔ اس صورت حال میں انسان کو حوصلہ دینے اور اس کا حوصلہ برقرار رکھنے کے جو امکانات ہیں انہوں نے غالب کے شعر کو ہر دل کی آواز بنا دیا ہے۔ آدمی کو اگر یہ یقین ہو جائے کہ دنیا میں کوئی ایسا ہے جو اس کے دکھ کے معنی سمجھتا ہے اور اسے اظہار کی زبان دے سکتا ہے تو اس کے لیے زندگی بسر کرنا اور زندگی کو بسر کرنے کی چیز سمجھنا آسان ہو جاتا ہے غالب کے کلام نے اردو کے ہر شاعر سے زیادہ یہ خدمت انجام دی ہے۔ ‘‘


انسانی تجربے کی پیچیدگی اور جذبات و احساسات کی لطافت کے حامل یہ اشعار دیکھئے جن سے وجودی طرز کے جذبات و تصورات کی گونج صاف سنائی دیتی ہے:


۳۸؎ پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا


آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے





۳۹؎ ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال


ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو





۴۰؎ سایہ میرا، مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسدؔ


پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے





۴۱؎ باغ پا کر خفقانی، یہ ڈراتا ہے مجھے


سایہ شاخ گل، افعی نظر آتا ہے مجھے





۴۲؎ بہ صورت تکلف، بہ معنی تاسف


اسد! میں تبسم ہوں پژ مردگاں کا





۴۳؎ کل اسدؔ کو ہم نے دیکھا گوشہ غم خانہ میں


دست برسر، سر بہ زانوئے دل مایوس تھا





۴۴؎ بے دماغ خجلت ہوں رشک امتحاں تا کے


ایک بے کسی! تجھ کو عالم آشنا پایا


انسانی تجربے میں مشارکت اور فرد کے جذبہ و احساس کی لطافت و پیچیدگی کو گرفت میں لینے کی جو غیر معمولی صلاحیت غالب کے حصے میں آئی اس نے غالب کی شاعری کو وجودیت کے وہ تمام رنگ عطا کر دیئے جن سے جدید شاعری مزین و آراستہ ہے تاہم غالب کی شاعری طویل سفر طے کرنے کے بعد بھی تازہ دم ہے جب کہ جدید شاعری کی سانس ابھی سے اکھڑتی محسوس ہوتی ہے جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ جدید شاعری تحریکوں کے زیر اثر پروان چڑھی ہے جب کہ غالب کی شاعری سے نئی نئی تحریکوں نے جنم لیا ہے۔





حوالہ جات​





۱۔ قاضی قیصر الاسلام، ۲۰۰۵، ’’تاریخ فلسفہ مغرب‘‘ ( حصہ دوم )، کراچی، نیشنل بک فاؤنڈیشن، ص۱۸۲


۲۔ قاضی جاوید، ۲۰۰۵ء، ’’ وجودیت ‘‘ ، لاہور، فکشن ہاؤس، ص۱۴، ۱۵


۳۔ قاضی قیصر الاسلام، ایضاً، ص۱۹۴، ۱۹۵، ۱۹۶


۴۔ ممتاز حسین، ’’ وجودیت۔ منظر و پس منظر‘‘ ، مشمولہ، ادب، فلسفہ اور وجودیت، ( مرتبہ، شیما مجید، نعیم احسن )، لاہور، نگارشات، ۱۹۹۲، ص ۶۹۷


۵۔ نعیم احمد، ڈاکٹر، ’’ غالب اور فلسفہ وجودیت‘‘ ، مشمولہ، ماہ نو (غالب نمبر)، مارچ ۱۹۹۸ء، ص۴۷


۶۔ حمید احمد خان، طبع دوم۱۹۹۲، ’’دیوان غالب (نسخہ حمیدیہ)، لاہور، مجلس ترقی ادب، ص۱۷۲


۷۔ غلام رسول مہر، مولانا، اشاعت اول۱۹۶۷ء، ’’دیوان غالب(مکمل)‘‘ ، لاہور، شیخ غلام علی اینڈسنز، ص۵۷


۸۔ ایضاً، ص۱۷۸


۹۔ حمید احمد خان، ایضاً، ص۶۶، ۶۷


۱۰۔ کالی داس گپتا رضا، ۹۶۔ ۱۹۹۷ء، ’’دیوان غالب کامل‘‘ ، کراچی، انجمن ترقی اردو، ص۳۶۴


۱۱۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۲۱۷


۱۲۔ ایضاً، ص۱۵۲


۱۳۔ ایضاً، ص۱۳۵


۱۴۔ ایضاً، ص۲۶۴


۱۵۔ ایضاً، ص۷۲


۱۶۔ ایضاً، ص۲۹۰


۱۷۔ ایضاً، ص۲۱۲


۱۸۔ حمید احمد خان، ایضاً، ص۲۳۹


۱۹۔ ایضاً، ص۹۸


۲۰۔ کالی داس گپتا رضا، ایضاً، ص۳۴۷


۲۱۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۱۸۳


۲۲۔ ایضاً، ص۲۱۲


۲۳۔ ایضاً، ص۲۴۳


۲۴۔ ایضاً، ص۲۱۱


۲۵۔ ایضاً، ص۲۶


۲۶۔ ایضاً، ص۴۶


۲۷۔ ایضاً، ص۲۱۱


۲۸۔ ایضاً، ص۲۷۶


۲۹۔ ایضاً، ص۲۸۸


۳۰۔ ایضاً، ص۲۰


۳۱۔ کالی داس گپتا رضا، ایضاً، ص۳۶۴


۳۲۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۲۳۱


۳۳۔ ایضاً، ص۲۴۴


۳۴۔ ایضاً، ص۲۱۱


۳۵۔ حمید احمد خان، ایضاً، ص۳۳


۳۶۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۱۹۹


۳۷۔ وقار عظیم، ’’ غالب کی صد سالہ برس کیوں (سوال یہ ہے )‘‘ ، مشمولہ، اوراق ( غالب نمبر)، اپریل ۱۹۶۹ء، ص۷۔ ۱۔


۳۸۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۲۶۸


۳۹۔ ایضاً، ص۱۶۵


۴۰۔ ایضاً، ص۲۰۴


۴۱۔ ایضاً، ص۲۷۴


۴۲۔ حمید احمد خان، ایضاً، ص۶۲


۴۳۔ ایضاً، ص۸۲


۴۴۔ ایضاً، ص۳۳


٭٭٭
 
کرب وجود کیا ہوتا ہے ،کیا اس کی دو جملوں میں تعریف مل سکتی ہے؟
یہ فسلسفہ وجودیت کا حصہ ہے۔ ابتداً یہ فلسفہ مذہبی تھا یعنی انسان کا وجود، اللہ تعالیٰ کے وجود پر منحصر ہے۔ کیگارڈ نے یہ نظریہ پیش کیا تھا ۔ پھر یہ فلسفہ الحاد کی جانب بڑھا۔ انسان مادر پدر آزادی کی جانب گیا اور اپنے وجود کو ہر شے پر مقدم رکھا۔ کربِ وجود ایسا کرب ہے جو انسان اپنے وجود کے حوالے سے محسوس کرتا ہے اورنہ تو الحادی ہوجاتا ہے اور نہ ہی ٹھوس مذہبی۔ وہ اپنے وجود کے حوالے سے سوال اٹھاتا ہے، کائنات میں اس کے مقام کا تعین چاہتا ہے اور کبھی کبھار علامہ اقبال کی طرح شکوہ کناں بھی ہوتا ہے۔
 
ایک مضمون یہ بھی ہے جو شاید کام کا ہو۔

جدیدیت، وجودیت اور غالب​



جدیدیت اور وجودیت دونوں نے مطالعہ ء انسان کے لیے اس کی مجموعی / نوعی حیثیت کی بجائے اس کی انفرادی حیثیت کو منتخب کیا ہے۔ دونوں کے لیے انسان کوئی مطلق حقیقت نہیں جس کے مطالعہ کے لیے پہلے سے قائم کوئی نظام کام دے سکے بلکہ وہ تو ایک تکمیل پذیر وجود ہے جس کے بارے حتمی رائے وہ خود بھی قائم نہیں کر سکتا۔ وجود کی تکمیل کا یہ عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ نتیجتاً وجود کی کوئی تعریف ممکن نہیں۔ انسان وہی کچھ ہے جو وہ ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے اظہار کے لیے کسی رسم، رواج، روایت یا نظام کا پابند نہیں، وہ آزاد ہے یہی آزاد انسان بہ صورت فرد جدیدیت اور وجودیت کے تصورات کا مرکز ہے۔ جو جدیدیت کے وجودیت سے استفاد کی بنیاد بنتا ہے۔ یہاں وجودیت کے تصورات کا اجمالی جائزہ پیش کیا جاتا ہے جنہیں جدیدیت کی تحریک میں بھی باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔


بحیثیت فکری تحریک وجودیت نے مظہریت کی کوکھ سے جنم لیا ہے دونوں تحریکوں کے اس قریبی تعلق کے باوجود ان کا افتراق اساسی نوعیت رکھتا ہے۔ مظہریات جو ہر کو وجود پر مقدم گردانتے ہوئے تمام تر اہمیت جوہر کو تفویض کرتی ہے جب کہ وجودیت وجود کو جوہر پر تقدم دیتی ہے اور وجود کو اپنے جوہر کا خالق سمجھتی ہے۔


۱؎ ’’وجودیت معمولات زندگی اور انسانی روز مرہ سے ابھر کر سامنے آنے والا وہ ’’جذبہ و احساس‘‘ ہے جس نے بالآخر ایک فکری تحریک کی صورت اختیار کر لی ہے۔ یہ فرد موجود کے آزادانہ انتخاب و اختیار کا معاملہ ہے جس کے تحت ایک انسانی وجود ایک وجود محض سے معاشرتی زندگی کی مختلف سطحوں سے گزرتا ہوا، نبرد آزما ہوتا ہوا، کندن بن کر، بنتا سنورتا ہوا، آپ اپنے جوہر یا وصف کو دریافت کر کے اس جوہر سے متصف ہو کر ’’ وہ کچھ بنتا ہے ‘‘ جو ’’ وہ بننا چاہتا ہے ‘‘ ۔ گویا ایک انسانی فرد جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے اس ’’ہونے‘‘ میں اس کی مرضی و اختیار کا بڑا دخل ہوتا ہے جب کہ وجودیت کے برعکس مظہریات کا نقطہ نظریہ ہے کہ انسانی وجود کے اندر اس کا وصف یا جوہر پہلے سے موجود ہوا کرتا ہے جو اس میں خوابیدہ ہوتا ہے، بس اسے اکسانے کی، اس میں تحریک پیدا کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ گویا مظہریات جوہر یا وصف کی دریافت پر یقین نہیں رکھتی ہے بلکہ اسے پہلے سے موجود مانتی ہے۔ ‘‘


مشہور قول ’’ میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں ‘‘ وجود پر جوہر کے تقدم ہی کا اظہار ہے جب وجودیت اس قول کے برعکس ’’ میں ہوں اس لیے سوچتا ہوں ‘‘ کے نظریے کی حامل ہے۔ وجودیت نے سب سے پہلے وجود کے جوہر پر مقدم ہونے کا تصور پیش کیا۔ اس تصور کے نتیجے میں تمام انسانوں کو منسلک و مربوط کرنے والے تقدم جوہر کے تصور کا خاتمہ ہو گیا۔ نتیجتاً فرد جسے ہمیشہ اجتماع کا جز و سمجھ کر مطالعہ کیا جاتا رہا اب ایک واحد اور آزاد اکائی کے روپ میں جلوہ گر ہوا۔ وجودیت کا وجود کو آزاد اور واحد اکائی کے روپ میں پیش کرنا اور اسے جوہر پر تقدم دینا گزشتہ فکری رجحانات کے اعتبار سے قطعی نیا وژن تھا۔


وجودیت سے قبل وجود کو اجتماع کے جز و کے طور پر موضوع بنایا جاتا تھا اور انسان کے ظاہری وجود نیز مجموعی تشخص کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ وجودیت نے وجود کو اس مفہوم کے برعکس نیا مفہوم دیا مگر وجود کے لفظ کو وسیع تر تناظر کی بجائے ’’ فرد کے وجود ‘‘ کے معنی میں استعمال کرتے ہوئے پہلی بار یہ احساس اجاگر کیاکہ انسان کا حقیقی وجود اس کے ظاہر سے نہیں بلکہ اس کے باطن سے تعلق رکھتا ہے۔ وجودیت نے خیالات اور احساسات کو محض اس وجہ سے بامعنی قرار دیا کہ ہر خیال اور احساس براہ راست وجود سے متعلق ہوتا ہے اسی وجہ سے بامعنی بھی ہوتا ہے۔ انسان پہلے ’’ موجود ‘‘ ہوتا ہے، پہلے وجود پذیر ہوتا ہے، بعد میں اپنے جوہر کی تشکیل کرتا ہے۔ انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنا کوئی ایسا تصور پیش کرے جو کہیں بعد کے زمانے میں ظہور پذیر ہو۔ وجود کی کوئی تعریف ممکن نہیں کیوں کہ انسان ہر لمحہ اپنے وجود کی تکمیل کرتا رہتا ہے۔ اس لیے کوئی ایسی تعریف پیش نہیں کی جا سکتی جو وجود کو اس کے آخری تکمیلی لمحے تک بیان کر سکے۔ نوع انسانی بہ حیثیت مجموعی وجودیت کے لیے اس وجہ سے قابل غور نہیں کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔ تمام انسانوں کو جوہر کے ذریعے منسلک کرنا تو ممکن ہے لیکن وجود کی تعریف کے ذریعے ا یسا کرنا ممکن نہیں کیوں کہ وجود کی تعریف کرنے کا مطلب ’’جوہر ‘‘ کا بیان ہو گا۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ کل کیا ہو گا، صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ آدمی کا وجود وہی ہے جو وہ خود کو بتاتا ہے۔ زندگی جاری ہے، وجود تکمیل پذیر ہے، اس لیے پہلے سے قائم کیے گئے کسی نظریے کی مدد سے وجود کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔


۲؎ ’’لفظ وجودیت کا مفہوم کیا ہے ؟ یہ ہر قسم کے محض تجریدی، منطقی و سائنسی فلسفہ کی نفی ہے۔ یہ عقل کی مطلقیت سے انکار ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ فلسفہ کو فرد کی زندگی، تجربے اور اس تاریخی صورت حال سے گہرے طور پر مربوط ہونا چاہئے جس میں فرد خود کو پاتا ہے۔ فلسفہ ظن و تخمین کا کھیل نہیں، بلکہ ایک طرز حیات ہے۔ یہ سب کچھ لفظ و جود میں مضمر ہے۔ وجود ی اعلان کرتا ہے کہ میں معروضی دنیا کی بجائے صرف اپنے حقیقی تجربے ہی کو جانتا ہوں۔ اس کے نزدیک ذاتی ہی حقیقی ہے۔ اس لیے فلسفے کا آغاز اس کی زندگی، تجربے اور ذاتی علم سے ہونا چاہئے۔ وجودیت فرد کی بے مثل انفرادیت پر اصرار کرتے ہوئے فطرت اور طبعی دنیا کی مجموعی خصوصیات کے مقابلے میں انسانی وجود کو بنیادی حیثیت دیتی ہے۔ وہ انسان کے چند اساسی موڈز جیسے بوریت، ناسیا، خوف اور تشویش وغیرہ پر خصوصی توجہ دیتی ہے جو انسان کی مطلق فطرت اور کائنات سے اس کے تعلق کے بارے میں سوالات پیدا کرتے ہیں۔ ‘‘


اس میں کوئی شک نہیں کہ وجودیت کا مرکز مطالعہ انسان ہے۔ تاہم یہ انسان نوعی نہیں، انفرادی حیثیت کا حامل ہے۔ مطلق فطرت اور کائنات سے تعلق کے حوالے سے وجودیت کے تمام مباحث انسان کی انفرادی حیثیت کے گرد گھومتے ہیں۔ انفرادی حیثیت میں انسان کا یہ مطالعہ اس کے ذہن اور عقل کی بجائے اس کے جذبات و احساسات سے بحث کرتا ہے۔ وجودیت جذبات و احساسات کی مختلف صورتوں کو نفسیاتی سے زیادہ وجودی گردانتی ہے۔ اس لیے ذہن اور عقل کے مطالعے کے برعکس جو کاملیت تک رسائی کی تمنا میں حقیقت کے قریب پہنچنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ وجودیت ان جذبی کیفیات کے مطالعے کو اہمیت دیتی ہے۔ جن کا تعلق براہ راست انسان کی اصل حقیقت سے ہوتا ہے۔ وجودیت کے لیے انسان کی اصل حقیقت اس کا ظاہر نہیں اس کا باطن ہے۔ جب کہ باطن کی صورت پذیری میں کلیدی کردار کے حامل ذہن و عقل نہیں بلکہ جذبات و احساسات ہیں۔ اس لیے وجودیت کی حد تک انسان اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے ظاہر سے زیادہ باطن سے متعلق ہے۔ نیز باطن اپنی صورت پذیری میں عقل سے زیادہ جذبے کے زیر اثر ہے۔ وجودیت کے نزدیک انسان کا یہ انفرادی تصور اس کے نوعی تصور کے مقابلے میں زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔


۳؎ ’’انسان بہ حیثیت ایک نوعی انسان کے تمام اشیاء کا پیمانہ نہیں بلکہ ایک انفرادی فرد ہی تمام اشیاء کا پیمانہ ہوتا ہے۔ گویا ایک وجودی کے نزدیک ’’ نوعی انسان ‘‘ کو تمام اشیاء کا پیمانہ قرار دینا محض ایک دکھاوے اور بڑھ چڑھ کے بات کرنے کے مترادف کوئی بات ہے۔ یہ محض ایک خوش فہمی اور فوسودہ خیالی ہے جس سے سوائے ’’ خالی خولی خوش ہو جانے ‘‘ کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں۔ چنانچہ جب ایک وجودی یہ کہتا ہے کہ انسان خود بھی ایک پیمانہ ہے تو اس کے اس قول سے مراد کل بنی نوع انسان نہیں ہے بلکہ وجودی نظریے کے تحت ایک ’’ فرد واحد ‘‘ ہی صرف تمام اشیاء کا پیمانہ ٹھہرتا ہے اور خاص طور پر تمام تر اقدار کا پیمانہ انسانی فرد ہے، نوع انسانی نہیں۔ وجودی کہتے ہیں کہ زندگی اصل میں پسند و ناپسند، انتخاب و اختیار، رد و قبول کا ایک مسلسل و متواتر عمل ہے کیونکہ تمام تر انسانی فیصلے یا رد و قبول کی تمام صورتیں اپنے آخری تجزیئے میں بہرحال ماہیت کے اعتبار سے شخصی اور انفرادی ہوا کرتے ہیں، نوعی نہیں ہوتے۔ وجودی کہتے ہیں کہ یہ ہمارا روز مرہ کا تجربہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص آپ اپنی زندگی کو… ’’ فیصلوں کی پل صراط سے گزارتا رہتا ہے۔ ہمارے فیصلے خالص نجی اور شخصی فیصلے ہوتے ہیں جنہیں ہم صبح و شام، ساعت … ساعت اور لمحہ بہ لمحہ زندگی کرتے ہوے وقت کی صلیب پر رکھ کر، اندیشوں و خطرات سے قطع نظر کر کے، امیدو بیم کی کیفیت میں رہتے ہوئے، سرا سیمگی و احتیاط کی داخلی فضا میں کیا کرتے ہیں۔ وجودی کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں وہ ہی فیصلہ یا انتخاب کرتا ہے کہ جس کی جانب وہ طبعاً خود کو مائل وراغب پاتا ہے۔ اپنے اس انفرادی انتخاب کو بار آور اور کارآمد بنانے کے لیے ایک وجودی اپنا ’’ تن من دھن ‘‘ سب ہی کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ وجودیوں کے نزدیک انسانی زندگی کا منصوبہ ہے۔ گویا ہم میں سے ہر شخص آپ اپنی زندگی کا معمار ہے۔ غرضیکہ وجودیوں کے نزدیک پوری انسانی صورت حال کے دوران ایک انفرادی انسانی وجود کے یہاں ’’فیصلے کی گھڑی‘‘ جہاں ایک طرف اس کے لیے زندگی کے سب سے بڑے کرب سے گزر جانے کی یا صبر و استقلال کی گھڑی ہوتی ہے۔ وہیں دوسری طرف فیصلے کی یہی گھڑی، ذرا سی بھول چوک کے ہاتھوں نہ صرف یہ کہ اس ایک فرد واحد کو بلکہ اس فرد سے وابستہ قوموں کو بھی، تاریخ کے اعلیٰ ترین کمال و عروج یا پھر انسانی زوال پذیری کے بد ترین نقطہ منتہا تک پہونچا سکتی ہے۔ وجودی کہتے ہیں کہ زوال آدم/ ہبوط آدم کی پوری داستان ہمارے سامنے ہے۔ ایک لغزش اول، ایک لغزش دایم کی صورت میں، آج تک ’’موت کی دہشت ‘‘ بن کر ہمارے ساتھ سائے کی طرح لپٹی ہوئی ہے اور انفرادی انسانی صورت حال ہمہ وقت موت سے تو خیر و ابستہ ہے ہی، دہشت موت کے ایک کبھی نہ ختم ہونے والے احساس کی ’’ غیر تصینیت‘‘ کی زد میں بھی رہا کرتی ہے۔ غرضیکہ وجود یوں کے یہاں آزادی، ذمہ داری خود عہدی یا کومٹ منٹ نیز ہستی و لاشئیت کا تصور یہ سب ہی کچھ ان کے اسی انفرادی انسانی وجود کی بے پناہ اہمیت کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے۔ چنانچہ اسی انفرادی انسانی وجود کو ’’ مصدقہ‘‘ اور ’’ غیر مصدقہ ‘‘ انسانی صورت حال میں رکھ کر دیکھنے کا نام ’’ وجودیت ‘‘ ہے۔ ‘‘


وجودیت، معروضیت کے برعکس تمام تر اہمیت موضوعیت کو دیتی ہے۔ اس اہمیت کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ فرد اپنی زندگی کا خود مالک ہے۔ وہ کسی بیرونی، خارجی یا آسمانی قوت کے سامنے مجبور نہیں، وہ اپنے ارادے اور فیصلے میں آزاد اور خود مختار ہے ، یعنی آزادی اور مختاریت وجود کو وہ بلندی عطا کرتی ہے جو وجودیت سے پہلے فرد کو حاصل نہیں تھی۔ تاہم ارادے اور فیصلے کی آزادی فرد کے عمل کو اہم بنا دیتی ہے۔ وجودیت اسی لیے نظریات کی بجائے فرد کے اعمال کو زیادہ اہم گردانتی ہے۔ یعنی اعمال وجود کی قابلیت ظاہر کرتے ہیں۔ فرد عمل کے لیے آزاد ہے یہ آزادی فرد کو نتائج کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار بنا دیتی ہے۔ یہاں یہ ذمہ داری صرف فرد تک محدود نہیں کیوں کہ جب فرد کوئی انتخاب کرتا ہے تو وہ انتخاب صرف اس کے لیے نہیں بلکہ نوع انسانی کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں موضوعیت میں انسانی موضوعیت کی شمولیت ذمہ داری کے احساس کو دوہرا کر دیتی ہے۔ یعنی فرد کی آزادی بے لگام نہیں بلکہ زیادہ ذمہ دارا نہ ہے۔


وجودیت، آزادی، خود مختاریت اور ذمہ داری کا نام ہے۔ جب ہم ایک ایسی ہستی کا تصور رد کر دیتے ہیں جو انسان کی تخلیق کے لیے ذمہ دار ٹھہرتی ہے تو تمام تر ذمہ داری انسانی وجود پر آ پڑتی ہے اور اپنے عمل کے لیے وجود اپنی ذات سے باہر کوئی جواز مہیا نہیں کر سکتا۔ وہ ا پنے عمل کے لیے خود ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے عمل کے لیے کسی اضطراری جذبے کو بھی مورد الزام نہیں سمجھ سکتا کیوں کہ وہ اپنے جذبے کے لیے بھی خود ذمہ دار ہے اور جذباتی رد عمل میں بھی ایک طرح کے انتخاب کا اظہار شامل ہوتا ہے۔


آزادی، خود مختاریت اور ذمہ داری کے احساسات ایک طرف وجود کو وقار اور بلندی عطا کرتے ہیں تو دوسری طرف اسے کرب، بے کسی، مایوسی اور تنہائی جیسے احساسات سے بھی دو چار کر نے کا باعث بن جاتے ہیں۔


فرد جب اپنے اعمال کے لیے خود کو ذمہ دار تصور کرتا ہے تو نوع انسانی کی ذمہ داری بھی اس احساس میں شامل ہو جاتی ہے۔ ذمہ داری کا یہی دوہرا احساس اس کے لیے کرب کا باعث بن جاتا ہے جو فیصلہ کرنے کے عمل کو اس کے لیے مشکل بنا دیتا ہے فرد جب اپنے لیے کوئی انتخاب کرتا ہے تو اس انتخاب میں یہ بات شامل ہو تی ہے کہ جو چیز وہ اپنے لیے پسند کرے وہ دوسروں کے لیے باعث خیر ہو۔ اس طرح اس کا انتخاب صرف اس کے لیے نہیں رہتا بلکہ تمام نوع انسانی کے لیے انتخاب کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ یہی احساس ا س کرب کا باعث بنتا ہے جس کا ذکر وجودی بہ کثرت کرتے ہیں۔


وجودی مفکرین بے کسی کا لفظ بھی کثرت سے استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم فرد پر اپنے اعمال اور اس کے نتائج کی مکمل ذمہ داری عائد کرتے ہیں اور جب آزادی اور انسان کو مترادفات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس طرح خدا کے وجود کی نفی ہوتی ہے۔ خدا کے وجود کی نفی کے ساتھ ان مذہبی معیارات کا تصور بھی ختم ہو جاتا ہے۔ جن پر فرد اپنے اعمال کو پرکھ سکتا ہے۔ نتیجتاً سہارے کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ آدمی کے اندر یہ شعور پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کسی کے آگے نہیں بلکہ اپنے آگے جواب دہ ہے۔ یہی آگاہی اسے بے کس ہونے کا احساس دلاتی ہے۔


مایوسی، خدا کے وجود کے انکار کا لازمی نتیجہ ہے یقینی موت، مایوسی کے اس احساس میں شدت پیدا کرتی ہے کیوں کہ فرد سے یہ یقین چھن جاتا ہے کہ اس کے مقاصد اس کی زندگی میں پورے ہو سکیں گے یا نہیں۔ یہ احساس بے عملی کی بجائے عمل پر اکساتا ہے۔ فرد زیادہ فعال روپ میں سامنے آتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اسے جو کچھ کرنا ہے اپنی زندگی میں کرنا ہے۔ اس کے وجود کی تکمیل عمل سے مشروط ہے۔ اس لیے وہ اپنے شروع کیے ہوئے کاموں کو اپنی زندگی میں مکمل کرنے کی سچی جستجو کرتا ہے۔ تاہم موت کا خوف فرد کے لیے سب سے بڑے خوف کی حیثیت رکھتا ہے۔ وجودیت اس خوف سے نجات پانے کے لیے اسے وجود کا لازمی جزو بنانے پر زور دیتی ہے۔ کیوں کہ جب موت کو وجود کا حصہ تسلیم کر لیا جائے گا تو پھر خوف ہر لمحے سے وابستہ ہو کر احساس بے چارگی اور مایوسی کی جگہ خواہش کا روپ دھار لے گا۔ فرد یہ سوچنا شروع کر دے گا کہ اسے جو کچھ کرنا ہے اس مختصر زندگی میں کرنا ہے۔ اس کی خواہشوں اور مقاصد کو کوئی دوسرا فرد پورا نہیں کرے گا۔ کیوں کہ اس کے سامنے اپنے وجود کے تقاضے ہوں گے لہٰذا اس سے اپنی خواہشات کے احترام کی توقع نہیں جا سکتی۔ یہی آگہی وجودیت کے تناظر میں مایوسی کا موجب بنتی ہے۔


وجودیت کے حوالے سے اساسی اہمیت کے حامل احساسات میں سے ایک تنہائی بھی ہے۔ وجودیت انسان کے مجموعی /نوعی تشخص کے برعکس اس کی انفرادی حیثیت کو اہم گردانتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت فرد کی پروا نہیں کرتی اور فرد جب جماعت سے بے نیاز ہو کر اوپر اٹھنے کی جستجو کرتا ہے تو تنہائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ تاہم تنہائی کا یہ احساس موضوعیت کے لیے ضروری ہے۔ جماعت سے الگ ہو کر ہی وجود کی تکمیل ممکن ہے۔ تنہائی وجود کا جزو لازم ہے، یہی وجود کے لیے اپنے اثبات کا ذریعہ بنتی ہے۔ تنہائی فرد کو اپنے فیصلے کے لیے خود مختار بنا کر اسے وہ وقار عطا کرتی ہے جو وجودیت سے پہلے اسے حاصل نہیں تھا۔ تنہائی ہی فرد کی شناخت بھی ہے اور اس کی تکمیل بھی۔ مختصراً یہ کہ وجودیت کے نزدیک


۴؎ ’’انسان آپ اپنا خدا ہے… اس لیے کہ وہ اپنا جوہر اور اپنی فطرت خود مقرر کرتا ہے اور اپنے اور دوسروں کے لیے اقدار کا تعین خود کرتا ہے۔ اب چونکہ اس اہم ترین فریضے کو اسے اکیلے ہی انجام دینا ہے اور کسی مافوق البشر ذات یا کسی مطلق قدر کی رہنمائی میں اسے یہ کام نہیں کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ اپنے افعال کا خود ذمہ دار ہے اس لیے اس مقام پر اسے اس کیفیت کا تجربہ ہوتا ہے۔ جسے ’’کرب‘‘ کہتے ہیں۔ وہ خدا تو ہے مگر پا بہ زنجیر! وہ یہ کام کرنے پر مجبور ہے۔ خدائی کا یہ فریضہ انجام دینا اس کے اپنے آزادانہ انتخاب کا نتیجہ نہیں ہے پھر بھی اسے یہ کام کرنا ہے، بہرصورت کرنا ہے۔ چنانچہ انہی کربناک حالات کے نتیجے میں وہ اس کس مپرسی، بیچارگی اور یاس کا شکار ہوتا ہے جو اسے یہ کہنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ


’’ میں اپنے آپ کو اس بھری دنیا میں بغیر کسی مدد کے پاتا ہوں۔ اس دنیا کی پوری پوری ذمہ داری مجھ پر ہے۔ میں کسی طرح بھی اس ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا۔ کیونکہ ذمہ داری سے بچنے کی خواہش کی ذمہ داری مجھ ہی پر عائد ہوتی ہے۔ ‘‘


چنانچہ وجودی مفکرین کے ہاں ڈر، خوف، دہشت، یاس اور بیچارگی کے جو احساسات ملتے ہیں ان کا ماخذ انسان کی آزادی اور ذمہ داری ہے۔ ‘‘


جدیدیت کی طرح وجودیت کی تحریک بھی زمانہ غالب کی تحریک نہ تھی مگر کلام غالب میں وجودی طرز کے جذبات و احساسات وافر مقدار میں موجود ہیں یہاں وجودیت کے حوالے سے افکار کا لفظ شعوری طور پر استعمال نہیں کیا گیا کیوں کہ وجودی خود وجودیت کو نظام افکار تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے جذبات و احساسات کی ایک صورت سمجھتے ہیں۔ بہ ہر حال یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر وہ کیا تناظر تھا جس نے غالب کو ایک ایسے وقت میں وجودیت کے قریب کر دیا تھا جب ابھی اس تصور کو تحریک کی شکل حاصل نہیں ہوئی تھی۔


۵؎ ’’اگر ہم غالب اور وجودیت کے سماجی اور تاریخی حالات پر غور کریں تو دونوں میں گہری مماثلت پائیں گے۔ وجودیت کی تحریک دو بڑی جنگوں کے بعد ابھر ی جب انسانی خون کی کوئی قدرو قیمت نہ رہی اور جنگ کے شعلوں نے شہروں کے شہر راکھ کر ڈھیر بنا ڈالے تو مطلقیت پسندانہ فلسفیوں کے خلاف رد عمل پیدا ہوا اور فرد کی انفرادیت کو بچانے کا قوی رجحان ابھرا۔ وہ بڑے بڑے آدرش جن کے پیچھے، قومی وابستگیاں اور سیاسی مفادات پوشیدہ تھے اور جن کی بھینٹ ہزاروں لاکھوں انسانی جانیں چڑھ چکی تھیں، حساس مفکرین کی نظروں سے گر گئے۔ انہوں نے گروہی اور قومی مفاد اور اجتماعی نظام کو بچانے کی بجائے فرد اور اس کی انفرادیت کو بچانے کی مہم شروع کر دی۔ غالب نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو اپنے ارد گرد سیاسی و سماجی زبوں حالی کے مناظر دیکھے۔ ایک عظیم الشان سلطنت کے انہدام کے آخری مراحل اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ انگریزوں کا غلبہ، مغل فرمانروا کی بے بسی اور بدبختی، اپنوں کی غداری اور ۱۸۵۷ء کی قتل و غارت کے واقعات نے اسے بھی انسانی صورت حال کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جس سے وجود ی مفکرین نے جنگ کے بعد یوروپی اقوام کو دیکھا تھا۔ چنانچہ پس منظر کی مشابہت نے غالب کی داخلی واردات کو وجودیت کے گہرے رنگ میں رنگ دیا۔ اسی لیے ہمیں غالب میں مطلقیت سے بیزاری اور فرد کی انفرادیت کو بچانے کا قوی رجحان نظر آتا ہے۔ ‘‘


خارجی پس منظر کی اس مماثلت کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر غالب کے زاویہ نگاہ میں ایک وجودی کا طرز مشاہدہ ان کی ذات میں کچھ اس طرح تحلیل دکھائی دیتا ہے کہ اگر خارجی پس منظر کا یہ اشتراک نہ بھی ہوتا تو بھی شاید غالب کی شاعری وجودی طرز کے جذبات و احساسات سے بالکل اسی طرح ثروت مند نظر آتی :


۶؎ کوئی آگاہ نہیں باطن ہم دیگر سے


ہے ہر اک فرد جہاں میں ورق ناخواندہ


مشاہدے کی یہ باریکی، خارج کی سطح پر موجود انتشار، شکست و ریخت نیز بدامنی اور بدحالی کا نتیجہ نہیں، اگر غالب کے زمانے کے حالات اچھے بھی ہوتے تو وہ اس وجودی حقیقت تک ضرور پہنچتے، غالب اس شعر میں فرد کو ایک واحد اکائی کے روپ میں پیش کرتے ہوئے اس کے حقیقی وجود کو اس کے ظاہر کے برعکس اس کے باطن میں تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ انسان کے اجتماعی و نوعی تصور کے منافی نکلتا ہے۔ انسان کے مجموعی /نوعی تصور کی اساس ’’ جوہر ‘‘ ہے۔ لہٰذا اس تصور کا حقیقی استرداد اس وقت تک امکان نہیں رکھتا۔ جب تک جوہر کے وجود پر تقدم کی نفی نہ کی جائے۔ وجودیت نے ’’وجود‘‘ کو ’’ جوہر‘‘ پر مقدم سمجھتے ہوئے اس لفظ کو وہ نیا تناظر دیا جو فکری تحریکوں میں اس کی الگ شناخت بنا۔ اس لیے کسی بھی شاعر کو اس وقت تک وجودی نقطہ نظر کا حامل قرار دینا ممکن نہیں ہو گا جب تک اس کے ہاں وجود کے جوہر پر تقدم کا اظہار موجود نہ ہو۔ کیا غالب وجود کو جوہر پر مقدم تصور کرتے تھے؟


۷؎ نہ تھا کچھ خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا


ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا


اس شعر کے مصرع اولیٰ میں مظہریت کی گونج صاف سنائی دیتی ہے تاہم مصرع ثانی شعر کو وجودیت کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے۔ پہلے مصرع میں جوہر (خدا) کے وجود پر تقدم کا اظہار کیا گیا ہے جب کہ دوسرے مصرعے میں غالب خود کو مصرع اولیٰ میں پیش کیے گئے تصور سے الگ کرتے ہوئے وجود کی اہمیت ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں ’’ نہ ہوتا میں ‘‘ پر جو زور دیا گیا ہے وہ مصرع کے آخر میں موجود استفہامیے ( تو کیا ہوتا ؟) کو مصرع اول سے جوڑ دیتا ہے یعنی (اگر وجود نہ ہوتا تو کیا جوہر ہوتا؟) یہ استفہامیہ وجود کے جوہر پر تقدم کا روشن اظہار ہے۔ الفاظ کا دروبست یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ غالب وجود کو جوہر پر اولیت دے رہے ہیں۔ وجود کے حوالے سے یہی وہ خاص نقطہ نظر ہے جو وجودیت سے پہلے کے فلسفیانہ مباحث میں نظر نہیں آتا اور غالب سے پہلے کی اردو شاعری میں۔


وجود کو جوہر پر مقدم تصور کرتے ہی انسان تمام پابندیوں سے نجات پا لیتا ہے اسے انتخاب اور عمل پر اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ اسے وہ آزادی میسر آ جاتی ہے جو اس کے وجود کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔ تاہم فرد کی یہ آزادی ہر وقت دوسروں کی نگاہ میں رہتی ہے۔ فرد اپنے وجود کو دوسروں کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ دوسروں کی نظر سے خود کو دیکھتے ہوئے مصدقہ زندگی گزارنے کا تصور محال ہے۔ مصدقہ زندگی گزارنے کے لیے وجود کو دوسرے وجودوں جنہیں سارتر ’’ جہنم ‘‘ کہتا ہے سے نجات دلانا لازم ہے کیوں کہ حقیقی آزادی صرف اور صرف فرد کا اپنا وجود ہے کوئی خارجی ضابطہ انفرادی عمل کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتا۔ غالب بھی سارتر کی طرح دوسرے وجودوں کو مصدقہ زندگی گزارنے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں ؎


۸؎ رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو


ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو


بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے


کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو


پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار


اور گر مر جایئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو


ان اشعار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غالب کے لیے آزادی صرف اپنے وجود کا نام ہے۔ دوسرے چونکہ اس آزادی کو محدود کرتے ہیں اس لیے غالب ان سے نجات حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ جماعت سے علاحدگی کا یہ تصور غالب کے دور میں ناپید تھا۔ ایک ایسے دور میں جب ابھی انسان کے سماجی روابط مضبوط اور توانا تھے۔ انسان، انسان کا ہم درد اور غم گسار تھا۔ غالب ان وجودی کیفیات کا کرب جھیل رہے تھے:


۹؎؎ خود پرستی سے رہے باہم دگر ناآشنا


بے کسی میری شریک، آئینہ تیرا آشنا


ربط یک شیرازہ وحشت ہیں اجزائے بہار


سبزہ بے گانہ، صبا آوارہ، گل ناآشنا





۱۰؎ پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ


ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں


اپنے عہد سے نا موافقت رکھنے والا یہ احساس مغائرت اور مردم گزیدگی کا خوف غالب کو ایک سچا وجودی ثابت کرتے ہیں۔ انسان کا تصور آزادی بھی غالب کو وجودیوں کا ہم خیال ثابت کرتا ہے۔ سارتر کی طرح غالب بھی انسان کو آزاد بلکہ آزاد رہنے کی سزا کا موجب سمجھتے ہیں۔ یہ آزادی قیمتی ہونے کے باوجود کوئی خوش گوار احساس نہیں ہے کیوں کہ احساس آزادی پا بہ زنجیر ہونے کی ایک صورت ہے۔ پابندی کا یہ احساس خارج کی عطا نہیں بلکہ آزادی کے وجود کا جزو لاینفک ہے:


۱۱؎ کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعی آزادی


ہوئی زنجیر موج آب کو فرصت روانی کی


’’ پابند آزادی ‘‘ کا یہ منفرد احساس زیست کرنے کے عمل میں آسانی پیدا کرنے کی بجائے اسے مزید دشوار بنا دیتا ہے۔ انسان کی یہ کامل ’’پابند آزادی ‘‘ غم و آلام میں کمی کا باعث نہیں بنتی البتہ فرد کو انتخاب کی آزادی دے کر نتائج کے لیے اسے مکمل طور پر ذمہ دار ضرور بنا دیتی ہے۔ غالب کے کلام میں موجود ’’ احساس غم‘‘ کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے غموں کو اپنے فیصلوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں اس لیے کسی دوسرے کو مورد الزام قرار دینے کی بجائے تمام تر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خود کو رنج کا خوگر بنا لیتے ہیں :


۱۲؎ رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج


مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں


غالب ’’ احساس غم ‘‘ کو زیست کرنے کے عمل میں توانائی کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ یہ احساس ان کی زندگی میں عدم فعالیت پیدا نہیں کرتا بلکہ اسے مزید فعال بنا دیتا ہے۔ وجودیت زندگی کے فعال تصور میں اعتقاد رکھتی ہے۔ زندگی کی طرح وجود بھی کوئی جامد حقیقت نہیں۔ انسان ایک مستقل بدلتا ہوا وجود ہے۔ اس لیے اسے مستقل تصور کرتے ہوئے اس پر کوئی ضابطہ عائد کرنا بعید از امکان ہے۔ انسان ہر لمحہ کسی صورت حال سے دوچار رہتا ہے۔ اس لیے جب تک وجود کی تکمیل نہیں ہوتی اس کی تفہیم نیز اسے پابند ضابطہ بنانے کی کوئی بھی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتی:


۱۳؎ آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز


پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں


وجودیت وجود کی تکمیل کو عمل سے مشروط جانتی ہے۔ عمل اس فیصلے کا نتیجہ ہے جو صورت حال کے پیدا کردہ کرب کے ناقابل برداشت ہونے پر وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کلام غالب میں وجود کو درپیش صورت حال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا کرب صاف محسوس کیا جا سکتا ہے:


۱۴؎ ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر


کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے


تاہم یہ کرب ہمیشہ فیصلے سے بامعنی عمل کی طرف نہیں بڑھتا۔ غالب اس ناقابل برداشت کرب سے فرار بھی اختیار کرتے نظر آتے ہیں جو بہ ہر حال وجود یوں کے لیے معیوب ہے:


۱۵؎ رات دن گردش میں ہیں سات آسماں


ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا


لیکن فرار کا یہ عمل دائمی نہیں لمحاتی ہے اس لمحاتی فرار کا سبب انتخاب کی آزادی نیز ذمہ داری کا شعور ہے۔ غالب جانتے ہیں کہ ان کا انتخاب صرف ان کے لیے نہیں بلکہ نوع انسانی کے لیے ہے۔ یعنی ان کی موضوعیت میں ا نسانی موضوعیت بھی شامل ہے۔ لہٰذا ان پکر لازم ہے کہ وہ احساس کرب کی سختی جھیلتے ہوئے ذمہ داری کی دونوں جہتوں کو پیش نظر رکھیں اور خیر کا انتخاب کریں :


۱۶؎ وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر


نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے


وجودیت انسان کو با اختیار سمجھتی ہے۔ اس اختیار میں کمی صرف موت کے خوف سے واقع ہوتی ہے۔ ا س لیے وجودیت موت کے خوف پر قابو پانے کے لیے یہ ضروری سمجھتی ہے کہ اسے ایک خارجی حقیقت کی بجائے وجود کی داخلی حقیقت سمجھا جائے اس طرح موت ہر لمحہ وجود کے ساتھ رہے گی۔ نتیجتاً خوف، خواہش میں منقلب ہو جائے گا۔ انسان، زندگی کے اختصار کو سمجھ کر زیادہ فعال روپ میں سامنے آئے گا۔ وہ اپنی تکمیل اور عظمت کو اپنی زندگی میں پانے کے لیے جدوجہد کرے گا کیوں کہ یہ حقیقت اس پر عیاں ہو گی کہ اس کی خواہشیں صرف اس کے لیے قابل قدر ہیں، اپنے مقاصد کا حصول صرف ا س کے لیے ضروری ہے، ا سکی موت کے بعد کسی دوسرے سے ان مقاصد اور خواہشات کی تکمیل کی توقع بے سود ہے کیوں کہ ہر وجود اپنے مقاصد اور خواہشات رکھتا ہے اور اسے پورا حق ہے کہ وہ انہی کی تکمیل کے لیے کوشاں رہے۔ تاہم یہ حقیقت امید کی مکمل تردید کا باعث بن جاتی ہے:


۱۷؎ کوئی امید بر نہیں آتی


کوئی صورت نظر نہیں آتی


موت کا ایک دن معین ہے


نیند کیوں رات بھر نہیں آتی


دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں موجود استفہامیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نیند نہ آنے کا سبب اپنے مقاصد کو اپنی زندگی میں پورا نہ ہوتے دیکھنے کا خوف ہے۔


وجودیوں کے نزدیک موت خارجی واقع بھی ہے اور داخلی جذبہ بھی، یہ موت انفرادیت کی تکمیل بھی ہے کہ اپنی موت صرف اپنے لیے یعنی صرف اپنی ہوتی ہے۔ کسی دوسرے کی نہیں اور انفرادیت سے لاتعلق بھی کیوں کہ ہم اپنے لیے نہیں دوسرے کے لیے مرتے ہیں، موت ہمیں دوسروں کا محتاج بنا دیتی ہے۔ موت زندگی کا ترکیبی جزو بھی ہے اور اس کی دشمن بھی، موت کا شعور اور خوف پیدا ہوتے ہی انسان کو گھیر لیتے ہیں لیکن ان کا کوئی وقت مقرر نہیں یہ انسان کی مرضی سے نہیں آتی۔ موت انسانی داخلیت کا جز و بھی ہے اور ایک سراسر لغو خارجی صورت حال بھی۔ ہم ہر وقت اس کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور اس کے خوف کا بہ صورت ایک موضوعی حقیقت کے کوئی جواز بھی نہیں۔


موت کے حوالے سے وجودیوں کی ان متضاد آرا کا عکس غالب کی شاعری میں صاف جھلکتا ہے۔ ان متضاد آراء کو غالب کے وجودی ہونے کے منافی نہیں سمجھنا چاہئے کیوں کہ غالب نے بہ ہر حال موت کے موضوع کو وجودیت کی طرح اہم سمجھا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے:


۱۸؎ جس طرف سے آئے ہیں، آخر ادھر ہی جائیں گے


مرگ سے وحشت نہ کر، راہ عدم پیمودہ ہے





۱۹؎ تیغ در کف، کف بہ لب آتا ہے قاتل اس طرف


مژدہ باد، اے آرزوئے مرگ غالبؔ، مژدہ باد





۲۰؎ کبھی آ جائے گی کیوں کرتے ہو جلدی غالبؔ


شہرہ تیزی شمشیر قضا ہے تو سہی





۲۱؎ خیال مرگ کب تسکیں دل آزردہ کو بخشے


مرے دام تمنا میں ہے اک صید زبوں وہ بھی





۲۲؎ مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی


موت آتی ہے پر نہیں آتی





۲۳؎ منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید


نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے





۲۴؎ ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام


ایک مرگ ناگہانی اور ہے





۲۵؎ تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا


اڑنے سے پیش تر بھی مرا رنگ زرد تھا


موت، مندرجہ تمام رنگوں کے علاوہ تمام فیصلوں کی موجب بھی ہے اور ان پر عمل کی محرک بھی، موت کا شعور ہمیں اس پر غالب آنے کے لیے ہر وقت محو عمل رکھتا ہے۔ یہ شعور در حقیقت دعوت عمل ہے۔ جس پر داخلیت کی ترقی کا انحصار ہے۔ زندگی کی تمام سرگرمیاں اور نیرنگیاں دراصل موت ہی کی بدولت ہیں :


۲۶؎ ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا


نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا





۲۷؎ کوئی دن گر زندگانی اور ہے


ہم نے اپنے جی میں ٹھانی اور ہے


موت زندگی میں فعالیت پیدا کرتی ہے۔ فعالیت ہی غالب کی تخلیقی شخصیت کا اختصاص ہے :


۲۸؎ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے


بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے


وجودیت کے حوالے سے انفعالی زندگی کا مقبول تصور درست نہیں کیوں کہ وجودیت زندگی کی فعالیت میں یقین رکھتی ہے۔ اس لیے وہ فرد کے تصورات اور خیالات کے برعکس اس کے عمل کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ زندگی کے کام وجودیت کے لیے بھی اہم ہیں اور غالب کے لیے بھی، غالب زندگی کا کوئی کام ادھورا چھوڑنے پر آمادہ نہیں کیوں کہ زندگی کے کاموں کی تکمیل ان کے وجود کی تکمیل ہے اور یہ حقیقت ان پر پوری طرح آشکار ا ہے:


۲۹؎ خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ


رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے


عینیت پسندوں نے دنیا کو غیر حقیقی اور سراب قرار دے کر ا س کی اہمیت کو کم کر دیا تھا۔ دنیا سے عدم دلچسپی کا نتیجہ معاملات حیات سے بے اعتنائی کی صورت ظاہر ہوا۔ اس لیے عمل کی جگہ بے عملی نے لے لی۔ غالب تک کی اردو شاعری دنیا سے اسی عدم دلچسپی کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ جب کہ غالب نے ’’ رہنے دے مجھے یاں ‘‘ کہہ کر دنیا سے لگاؤ کے ساتھ اسے حقیقی سمجھنے کے وجودی تصور کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ جو تقلید روایت کے برعکس ان کی جدیدیت پسند فکر کی ترجمانی کرتا ہے۔ غالب کے انہی منفرد تصورات نے انہیں انانیت میں مبتلا کر دیا تھا جو ان کے اکیلے پن اور تنہائی ہی ایک صورت تھی۔ اکیلے پن اور تنہائی کے احساسات کے شدت اور وسعت غالب اور وجودیت کے اہم اشتراکات میں سے ہے۔ تاہم یہ تنہائی وہ تنہائی نہیں ہے جو رومانی فن کاروں کو اپنے آئیڈیل سے دوری کے باعث محسوس ہوتی ہے بلکہ یہ تنہائی وجود کو موضوعیت کی جانب متوجہ کرنے کا سبب بھی ہے اور اس کی تکمیل کا ذریعہ بھی۔


غالب کی شاعر ی سے تنہائی کا جو احساس قاری تک منتقل ہوتا ہے۔ اس کی نوعیت وجودیت کے تصور تنہائی سے مختلف نہیں کیوں کہ غالب کے ہاں احساس تنہائی کسی عمل کے رد عمل کے طور پر نہیں ابھرتا بلکہ وجود کے ساتھ جنم لیتا، پرورش پاتا، زیست کرتا نیز تکمیل وجود کے سفر میں شریک رہتا ہے:


۳۰؎ کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ


صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا


غالب کا احساس تنہائی ان کے تخلیقی اور غیر تخلیقی وجود دونوں کو محیط ہے۔ تخلیقی وجود کی سطح پر یہ احساس معنویت کے بلند تر مقامات کومس کرنے کے باعث بھی پیدا ہوا ہے اور بے معنویت کو چھونے کے باعث بھی:


۳۱؎ ہو گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ


ہوں میں کلام نغز ولے نا شنیدہ ہوں





۳۲؎ نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا


گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی


غیر تخلیقی وجود کی سطح پر یہ احساس سائے تک کو خود سے مفائی اور بیگانہ محسوس کرتا ہے:


۳۳؎ وحشت آتش دل سے شب تنہائی میں


صورت دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے


کلام غالب میں تنہائی کبھی وحشت آتش دل بنتی ہے تو کبھی سوز غم کا روپ دھار لیتی ہے :


۳۴؎ آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں


سوز غم ہائے نہانی اور ہے


غالب کی تنہائی اپنی ارفع ترین صورت میں یکتائی کو مس کرتی دکھائی دیتی ہے اس مقام پر غالب کی تنہائی، تمنا میں تحلیل و منقلب ہو جاتی ہے۔ اس عمل تقلیب کے بعد اپنے ’’ کیا پن ‘‘ کی جستجو میں منہمک تمنا، زمانی اور مکانی حدود کو عبور کرتے ہوئے لامحدود جوہروں والی لا زمانی اور لامکانی دنیا کو تلاش کرتی نظر آتی ہے:


۳۵؎ ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب


ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا


لامحدود جوہروں کو معدوم یا نیست سے وجود کے پیکر میں ڈھال کر وجود کی تنہائی یکتائی میں تبدیل ہوتی یعنی اپنے جوہر کی تکمیل کرتی ہے۔ غالب کے ہاں موجود وسعتوں کی تمنا اور کشادگی ظرف کے مضامین، شعوری موجودگی کے احساس اور لامحدود جوہروں والی لا زمانی و لامکانی دنیا تک رسائی کی کاوش اور خواہش ہی کی ایک صورت ہے۔


لامحدود جوہروں والی ذات (خدا) کے حوالے سے وجودیت دو گروہوں میں منقسم ہے ایک گروہ ان مفکرین کا ہے جو خدا کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں جب کہ دوسرے گروہ کے مفکرین خدا کے وجود کو نہیں مانتے۔ تاہم وجودیت کے اساسی تصورات پر خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ وجودیوں کے نزدیک خدا انسان کے دکھوں کو کم نہیں کر سکتا۔ خدا کے ہونے یا نہ ہونے سے انسانی وجود کو درپیش بحران، اس کی تنہائی، موت کے سامنے اس کی بے بسی، تکمیل وجود نیز انتخاب کرنے کی مشکل جیسے مسائل پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ غالب کا تعلق وجودیوں کے الہیاتی گروہ سے ہے یا الہادی سے۔ اس کا تعین آسان نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ غالب وجودیوں کی طر ح خدا کی موجودگی یا غیر موجودگی کو وجود کے دکھوں سے علاحدہ سمجھتے ہیں :


۳۶؎ زندگی اپنی جب اس شکل پہ گزری غالبؔ


ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے


اس شعر میں غالب خدا کو انسانی وجود کو درپیش مسائل یعنی صورت حا ل، کرب، انتخاب اور انتخاب کے نتائج کی ذمہ داری جیسے معاملات سے الگ کر دیتے ہیں۔ اس لیے غالب کا تعلق وجودیوں کے الہیاتی یا الحادی کسی بھی گروہ سے ہو وہ انسانی وجود کو درپیش مسائل کے تناظر میں وجودیوں کے تصور خدا کے ہم خیال ضرور ہیں۔


ان اشتراکات کے علاوہ غالب کے بے شمار اشعار فرد کے ان جذبات و احساسات نیز تصورات کا حاطہ کرتے نظر آتے ہیں جن سے وجودیت بحث کرتی ہے۔


۳۷؎ ’’غالب کے شعر میں انسان کے نازک سے نازک، لطیف سے لطیف اور پیچیدہ سے پیچیدہ جذبے اور احساس کو اظہار کی زبان عطا کرنے، اسے تصویر اور مجسمے کی صورت دینے اور تصویر اور مجسمے میں روح پھونک دینے کی جو غیر معمولی قوت ہے۔ اس نے ہمارے لیے ہر تجربے کا ادراک ممکن بنا دیا ہے اور اس لیے غالب کا قاری جب اپنے کسی جذبے اور احساس کے معنی سمجھنے میں دقت محسوس کرتا ہے یا اس کی تہ تک نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے ایک کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے تو غالب کا کوئی نہ کوئی شعر سامنے آ کر اس سے کہتا ہے کہ دیکھو میں تمہاری الجھن اور تمہاری کشمکش کی تفسیر ہوں۔ اس صورت حال میں انسان کو حوصلہ دینے اور اس کا حوصلہ برقرار رکھنے کے جو امکانات ہیں انہوں نے غالب کے شعر کو ہر دل کی آواز بنا دیا ہے۔ آدمی کو اگر یہ یقین ہو جائے کہ دنیا میں کوئی ایسا ہے جو اس کے دکھ کے معنی سمجھتا ہے اور اسے اظہار کی زبان دے سکتا ہے تو اس کے لیے زندگی بسر کرنا اور زندگی کو بسر کرنے کی چیز سمجھنا آسان ہو جاتا ہے غالب کے کلام نے اردو کے ہر شاعر سے زیادہ یہ خدمت انجام دی ہے۔ ‘‘


انسانی تجربے کی پیچیدگی اور جذبات و احساسات کی لطافت کے حامل یہ اشعار دیکھئے جن سے وجودی طرز کے جذبات و تصورات کی گونج صاف سنائی دیتی ہے:


۳۸؎ پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا


آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے





۳۹؎ ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال


ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو





۴۰؎ سایہ میرا، مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسدؔ


پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے





۴۱؎ باغ پا کر خفقانی، یہ ڈراتا ہے مجھے


سایہ شاخ گل، افعی نظر آتا ہے مجھے





۴۲؎ بہ صورت تکلف، بہ معنی تاسف


اسد! میں تبسم ہوں پژ مردگاں کا





۴۳؎ کل اسدؔ کو ہم نے دیکھا گوشہ غم خانہ میں


دست برسر، سر بہ زانوئے دل مایوس تھا





۴۴؎ بے دماغ خجلت ہوں رشک امتحاں تا کے


ایک بے کسی! تجھ کو عالم آشنا پایا


انسانی تجربے میں مشارکت اور فرد کے جذبہ و احساس کی لطافت و پیچیدگی کو گرفت میں لینے کی جو غیر معمولی صلاحیت غالب کے حصے میں آئی اس نے غالب کی شاعری کو وجودیت کے وہ تمام رنگ عطا کر دیئے جن سے جدید شاعری مزین و آراستہ ہے تاہم غالب کی شاعری طویل سفر طے کرنے کے بعد بھی تازہ دم ہے جب کہ جدید شاعری کی سانس ابھی سے اکھڑتی محسوس ہوتی ہے جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ جدید شاعری تحریکوں کے زیر اثر پروان چڑھی ہے جب کہ غالب کی شاعری سے نئی نئی تحریکوں نے جنم لیا ہے۔





حوالہ جات​





۱۔ قاضی قیصر الاسلام، ۲۰۰۵، ’’تاریخ فلسفہ مغرب‘‘ ( حصہ دوم )، کراچی، نیشنل بک فاؤنڈیشن، ص۱۸۲


۲۔ قاضی جاوید، ۲۰۰۵ء، ’’ وجودیت ‘‘ ، لاہور، فکشن ہاؤس، ص۱۴، ۱۵


۳۔ قاضی قیصر الاسلام، ایضاً، ص۱۹۴، ۱۹۵، ۱۹۶


۴۔ ممتاز حسین، ’’ وجودیت۔ منظر و پس منظر‘‘ ، مشمولہ، ادب، فلسفہ اور وجودیت، ( مرتبہ، شیما مجید، نعیم احسن )، لاہور، نگارشات، ۱۹۹۲، ص ۶۹۷


۵۔ نعیم احمد، ڈاکٹر، ’’ غالب اور فلسفہ وجودیت‘‘ ، مشمولہ، ماہ نو (غالب نمبر)، مارچ ۱۹۹۸ء، ص۴۷


۶۔ حمید احمد خان، طبع دوم۱۹۹۲، ’’دیوان غالب (نسخہ حمیدیہ)، لاہور، مجلس ترقی ادب، ص۱۷۲


۷۔ غلام رسول مہر، مولانا، اشاعت اول۱۹۶۷ء، ’’دیوان غالب(مکمل)‘‘ ، لاہور، شیخ غلام علی اینڈسنز، ص۵۷


۸۔ ایضاً، ص۱۷۸


۹۔ حمید احمد خان، ایضاً، ص۶۶، ۶۷


۱۰۔ کالی داس گپتا رضا، ۹۶۔ ۱۹۹۷ء، ’’دیوان غالب کامل‘‘ ، کراچی، انجمن ترقی اردو، ص۳۶۴


۱۱۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۲۱۷


۱۲۔ ایضاً، ص۱۵۲


۱۳۔ ایضاً، ص۱۳۵


۱۴۔ ایضاً، ص۲۶۴


۱۵۔ ایضاً، ص۷۲


۱۶۔ ایضاً، ص۲۹۰


۱۷۔ ایضاً، ص۲۱۲


۱۸۔ حمید احمد خان، ایضاً، ص۲۳۹


۱۹۔ ایضاً، ص۹۸


۲۰۔ کالی داس گپتا رضا، ایضاً، ص۳۴۷


۲۱۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۱۸۳


۲۲۔ ایضاً، ص۲۱۲


۲۳۔ ایضاً، ص۲۴۳


۲۴۔ ایضاً، ص۲۱۱


۲۵۔ ایضاً، ص۲۶


۲۶۔ ایضاً، ص۴۶


۲۷۔ ایضاً، ص۲۱۱


۲۸۔ ایضاً، ص۲۷۶


۲۹۔ ایضاً، ص۲۸۸


۳۰۔ ایضاً، ص۲۰


۳۱۔ کالی داس گپتا رضا، ایضاً، ص۳۶۴


۳۲۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۲۳۱


۳۳۔ ایضاً، ص۲۴۴


۳۴۔ ایضاً، ص۲۱۱


۳۵۔ حمید احمد خان، ایضاً، ص۳۳


۳۶۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۱۹۹


۳۷۔ وقار عظیم، ’’ غالب کی صد سالہ برس کیوں (سوال یہ ہے )‘‘ ، مشمولہ، اوراق ( غالب نمبر)، اپریل ۱۹۶۹ء، ص۷۔ ۱۔


۳۸۔ غلام رسول مہر، ایضاً، ص۲۶۸


۳۹۔ ایضاً، ص۱۶۵


۴۰۔ ایضاً، ص۲۰۴


۴۱۔ ایضاً، ص۲۷۴


۴۲۔ حمید احمد خان، ایضاً، ص۶۲


۴۳۔ ایضاً، ص۸۲


۴۴۔ ایضاً، ص۳۳


٭٭٭
اس مضمون کے اشتراک کا بے حد شکریہ۔یہ شاید ڈاکٹر آصف صاحب کا ہے اور میری نظر سے گزر چکا ہے۔ اس پر بہت سے سوالات کیے جاسکتے ہیں بہرحال میں یہ کہنا چاہوں گابلکہ کہہ بھی چکا ہوں کہ کلامِ غالب کی اس ضمن میں ازسرِ نو تعبیر ہونی چاہیے۔ یہ موضوع بہت پھیلا ہواہے۔ اسی لیے میں نے تو اپنے مضمون کے بعد ایم فل کےایک طالب علم کو تحقیق کے لیے دے دیا ہے۔ خود میرے مضمون میں بھی محض پہلی پچاس غزلیات ہی کا مطالعہ شامل ہے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
یہ فسلسفہ وجودیت کا حصہ ہے۔ ابتداً یہ فلسفہ مذہبی تھا یعنی انسان کا وجود، اللہ تعالیٰ کے وجود پر منحصر ہے۔ کیگارڈ نے یہ نظریہ پیش کیا تھا ۔ پھر یہ فلسفہ الحاد کی جانب بڑھا۔ انسان مادر پدر آزادی کی جانب گیا اور اپنے وجود کو ہر شے پر مقدم رکھا۔ کربِ وجود ایسا کرب ہے جو انسان اپنے وجود کے حوالے سے محسوس کرتا ہے اورنہ تو الحادی ہوجاتا ہے اور نہ ہی ٹھوس مذہبی۔ وہ اپنے وجود کے حوالے سے سوال اٹھاتا ہے، کائنات میں اس کے مقام کا تعین چاہتا ہے اور کبھی کبھار علامہ اقبال کی طرح شکوہ کناں بھی ہوتا ہے۔
بہت شکریہ محمد خرم یاسین صاحب۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میری خواہش ہوگی اگر آپ اپنی ریسرچ میں محفلیں کو ،نہیں تو مجھے ساتھ شامل کرلیں
ان کے اشعار یہاں لکھیں...
اپنی اپنی آراء ہم سب دیتے ہیں

طوالت کی وجہ سے مکمل نہ پڑھ سکی
مضمون کمال ہے
غالب فقیر و صوفی شاعر تھے مگر یہ عیاں نہ کیا بلکہ کردار سے نبھاتے رہے....آپ ان کی فکری جہات پر غور کرتے ساتھ ملالیں
 
محمد خرم یاسین صاحب ، آپ بہت اچھا کام کررہے ہیں ۔غالؔب کے کلام کی بہت سی شرحیں نظر سے گزری ہیں ، جنھیں پڑھ کر کچھ ایسا لطف اور حظ محسوس نہیں ہوتا جو کلام ِغالب کو پڑھ کرخودسے غورکرنے میں میسر آتا ہے ۔مجھے تو غالب کے مکتوبات میں اُن کے بعض اشعار کا مطلب جو خود اُنہوں نے سمجھایا ہے وہی باعتبارِ شرح ، سیاق وسباق وَ شانِ نزول ، سب سے بہتر ، قریب الفہم اور لائقِ تسلیم معلوم ہوا ۔ آپ کا مقالہ گو شرح کلامِ غالب نہیں ایک خاص جہت سے اُن کے کلام کا مطالعہ ہے ، مگر پھر بھی اِس کے ڈانڈے اپنے موضوع ذات کے کرب سے گزرکر اِس کرب کی نشاندہی اوروضاحت کرتے ہوئے شرحِ کلام غالب ہی سے جاملتے ہیں۔
غالب جیسے مشکل پسند شاعر پر کسی بھی جہت سے تحقیق اور اور اُس تحقیق کے نتائج پر مبنی یہ مقالہ غالب پر کام کرنیوالوں کے لیے تومتاعِ بیش بہا ہے مگر اِس میں عام قاری کی دلچسپی کا سامان یہاں موجود قارئین کی آرا،تبصروں ، تجزیوں اور محاسن و معائب پر قدرے تفصیلی مراسلوں سے پیدا ہوگا اور آپ کی حوصلہ افزائی کا باعث بن جائے گا، ان شاء اللہ ۔​

بے حد شکریہ سر! جزاک اللہ خیرا۔ کلامِ غالب کی سو کے قریب شروح لکھی جاچکی ہیں ۔ 1980 کے بعد لکھی جانے والی شروع پر میرے دوست نے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا۔ بڑے شاعر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اس کے اشعار کی معنی آفرینی جاری رہتی ہے۔ شاید یہی معاملہ غالب کے ساتھ ہے۔ آپ درست فرمارہےہیں کہ اشعار کی تفہیم کے ڈانڈے شروح سے جاملتے ہیں۔ میں نے شروح کا حوالہ بھی پیش کیا ہے ، جس کا مقصود یہی ہے کہ شارحین جس زاویے سے میں نے دیکھنے کی کوشش کی ہے، بعض مقامات پر اس زاویے سے صرف نظر کر گئے ہیں۔ جواحساس دورانِ تحقیق ہوا ، وہ یہ تھا کہ غالب کے اشعار کو چیدہ چیدہ اشعار جن کا میں نے حوالہ پیش کیا ہے، ان کی سطحی تشریح کرنے سے ان کی آفاقیت ختم ہوجاتی ہے۔ میری یہ کوشش تو ادنٰی آغاز ہے۔ احباب اس پر رائے دے کر اسے نکھارسکتے ہیں۔ آپ کا شکریہ، آپ مضامین پڑھتے اور رائے دیتے ہیں۔ شاد و آباد رہیں۔ آمین
 
میری خواہش ہوگی اگر آپ اپنی ریسرچ میں محفلیں کو ،نہیں تو مجھے ساتھ شامل کرلیں
ان کے اشعار یہاں لکھیں...
اپنی اپنی آراء ہم سب دیتے ہیں

طوالت کی وجہ سے مکمل نہ پڑھ سکی
مضمون کمال ہے
غالب فقیر و صوفی شاعر تھے مگر یہ عیاں نہ کیا بلکہ کردار سے نبھاتے رہے....آپ ان کی فکری جہات پر غور کرتے ساتھ ملالیں
ان شا اللہ! غالب کے اشعار کے حوالے سے ان شا اللہ مزید کام کیا تو ضرور اشتراک کروں گا۔ ان کا کلام جتنی بار بھی پڑھا، نئی معنویت آشکار ہوئی۔ یہ کام چوں کہ طوالت کے حوالے سے کم از کم ایک سال پر محیط تھا اس لیے ایک بچی کو ایم فل کے مقالے کے لیے دے دیا ہے۔ مجھے ایک سال کے دوران پانچ سے چھ اچھے مضامین، چار پانچ کانفرنسز اور ڈھیروں مقالات اور کتب دیکھنی ہوتی ہیں اس لیے ایک موضوع کو دیر تک جاری رکھنا ، مشکل ہوجاتا ہے۔ کئی پراجیکٹس کئی کئی سال سے تکمیل کے منتظر ہیں۔ مسلسل بھاگ دوڑ نے زندگی کو مشینی بنادیا ہے۔ دعا کی درخواست ہے۔ ان شا اللہ ایک لڑی شروع کرتے ہیں جس میں کلامِ غالب کی آپ کے مشورے کے مطابق صوفیانہ تشریح پر غورو فکر کیا جائے گا۔
 
Top