عرضِ مرتّب
عبد الرزّاق شاکرؔ کے نام ایک خط میں غالبؔ (پیدایش: ۲۷!دسمبر ۱۷۹۷ ء ، وفات: ۱۵!فروری ۱۸۶۹ء) نے اپنے متعلق ایک پیشین گوئی کی ہے جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ۔ لکھتے ہیں ’ نظم و نثر‘کی قلمرو کا انتظام ایزدِ دانا و توانا کی اعانت سے خوب ہو چکا ۔ اگر اس نے چاہا تو قیامت تک میرا نام و نشان باقی و قائم رہے گا۔‘
اپنے کلام کی بقا و دوام کے متعلق یہ پیشین گوئی کرنے والے غالبؔ خود اپنے عہد سے لے کر ہمارے عہد تک تو علیٰ کلِّ غالب ہیں ہی ۔ اب رہا مستقبل تو بظاہرِ حالات اس امرِ خاص میں بھی شبہ کی کو ئی وجہ نظر نہیں آتی کہ قیامت تک ان کا نام و نشان باقی وقائم رہے گا ۔ لہٰذا اگر وہ خود اپنی زبان سے اپنے آپ کو ’ غالبِ نام آور ‘ کہتے ہیں تو یہ خود ستائی انھیں زیب دیتی ہے ، اور جب وہ اپنے اشعار میں آنے والے ہر لفظ کو ’ گنجینۂ معنی کا طلسم ‘ کہتے ہیں تو اردو شاعری کے مزاج داں ہر قاری کی زبان سے آمنّا و صدّقنا کی صدائیں سنائی دیتی ہیں ۔
چار جزو کا وہ دیوان جس میں سے کہیں کہیں مطلع و مقطع بھی غائب ہے، شہر اور دربارِ شاہی دونوں میں حریفوں کے سہامِ طعن و تشنیع کی آماج گاہ بنا رہتا تھا۔ یہ شاعر وہ تھے جن کے لیے سہ غزلے اور چو غزلے کہنا کوئی بات ہی نہیں تھی، یہاں غالبؔ کو طول طویل غزلیں سِرے سے نا پسند تھیں ۔ تفتہ ؔ کو لکھتے ہیں : ’ ایک بات اور تمھارے خیال میں رہے کہ میری غزل پندرہ سولہ بیت کی بہت شاذ و نادر ہے ۔ بارہ بیت سے زیادہ اور نو شعر سے کم نہیں ہوتی ‘۔حریف جن سے دربارِ شاہی اور شہربھرا پڑا تھا اس چھوٹے سے دیوان کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے ۔ انھوں نے بادشاہ کو اپنی پُر گوئی اور غالبؔ کی کم گوئی کی طرف متوجّہ کیا ۔ غالبؔ نے جھنجھلا کر اپنے اردو کلام کو خود ہی ’’ دژم برگ از نخلستانِ فرہنگِ من ‘ ‘ کہا اور دعویٰ کیا کہ یہ بے رنگ اردو شاعری کیا دیکھتے ہو ،یہ تمھارے لیے باعثِ فخر ہوگی ، میرے لیے توموجبِ ننگ ہے۔ دیکھنا ہے تو میرا فارسی کلام دیکھو
نیست نقصان ، یک دو جزو است ار سوادِ ریختہ
کاں دژم برگے ز نخلستانِ فرہنگِ من است
فارسی بیں ، تا بہ بینی نقشہاے رنگ رنگ
بگذر از مجموعۂ اردو کہ بے رنگِ من است
راست می گویم من و از راست سر نتواں کشید
ہر چہ در گفتار فخرِ تُست ، آن ننگِ من است
لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کے نخلستانِ فرہنگ کے اسی ’’ برگِ دژم ‘ ‘ کی مانگ اطرافِ ملک سے مسلسل آتی رہتی تھی اور غالبؔ کو اسی کی اشاعت نے زندگی بھر مصروف رکھا ۔ ’منشی نولکشور کے تین آنے چھ پائی کے سستے نسخے سے ایک سو بارہ روپے کے چغتائی ایڈیشن تک ‘ (نسخۂ عرشی، ص ۷۳ ) ، اور پھر تین سو روپے کے ’ ’نسخۂ عرشی زادہ ‘‘ تک ، اس کے ہزاروں نسخے دنیا بھر میں پھیلے ۔ اور مولانا حالیؔ مرحوم کی توضیحِ اشعار سے شروع کر کے مولانا غلام رسول مہرؔ کی تازہ شرحِ اشعارِ غالبؔ تک متعدد شرحیں اسی کی شائع ہوئیں ۔
مولانا حالی نے غالبؔ کی شاعرانہ خصوصیات کا جو تجزیہ کیا ہے اس کی تمہید کے طور پر لکھتے ہیں : جس قدر بلند اور عالی خیالات مرزا کے ریختے میں نکلیں گے اس قدر کسی ریختہ گو کے کلام میں نکلنے کی توقع نہیں ہے ۔ البتہ ہم کو مرزا کے عمدہ اشعار کے جانچنے کے لیے ایک جدا گانہ معیار مقرر کرنا پڑے گا۔۔۔ (یادگارِ غالب ص۱۰۷ )
علّامہ علی حیدر نظم طباطبائی کی شرح اس لحاظ سے نہایت اہم قرار پاتی ہے کہ ا نھوں نے یہی ’ جدا گانہ معیار ‘ مقرر کر کے متداول دیوان غالبؔ کے سیکڑوں اشعار میں سے ہر ایک شعر پر گہری ناقدانہ نظر ڈالی ہے ۔ اشعار کی شرح کے دوران میں ایسے ایسے نادر و نایاب ادبی ، علمی ، فنی نکتوں کی وضاحت کی ہے کہ اشعار کی تشریح تو ہو ہی جاتی ہے ، پڑھنے والا غالبؔ کے تفکّر، تصور اور تجربے کی تازہ کاری ، ان کے طرزِ گفتار اور اسلوبِ اظہار کی ندرت ، جذبہ و تخیّل کی گہری معنویت اور اِن سب کی مجموعی ترکیب و پیشکش کے اُن اکثرطریقوں سے بھی متعارف ہو جاتا ہے جو غالبؔ نے سب سے الگ اپنے لیے اختیار کیے تھے ۔
علّامہ نظم طباطبائی دورِ آخر کے اُن علما میں سے ایک تھے جو فنِّ شعر و ادب کے کثیر الجہات پہلوؤں پر نہایت گہری نظر رکھتے تھے اور مکمل اعتماد اور وثوق کے ساتھ ان پر گفتگو کر سکتے تھے ۔ شرحِ دیوانِ اردوئے غالبؔ ان کے علمی تبحّر اور اعلیٰ ذوقِ شعری کا ایک مظہر ہے ۔
اشعار کی تشریح کے دوران میں جو علمی و فنی نکات زیرِ بحث آئے ہیں وہ ضرورتاً پوری کتاب میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں ۔ مجھے خیال آیا کہ اگر ان نکات کو مختلف عنوانات کے تحت یک جا کیا جائے تو ممکن ہے نہ صرف تفہیمِ غا لبؔ میں آسانی پیدا ہو جائے بلکہ قاری کو غالبؔ کی غیر معمولی اُپج اور انفرادیت کے نمونے ڈھونڈھنے میں بھی سہولت ہو ۔ چنانچہ میں نے موضوع کے لحاظ سے کچھ عنوانات قائم کر کے ان کے ذیل میں ردیف وار صرف ایسے اشعار مع شرح اکھٹے کر دیے ہیں جن میں معانی ، بیان ، بدیع اور بلاغت وغیرہ کے متعلق نکات پر علاّمہ نظم نے بحث و تمحیص کی ہے ۔ جہاں جہاں مناسب معلوم ہوا اور ضرورت محسوس کی ، ہر موضوع کی تعریف و توضیح کے لیے میں نے عَروض ، قواعدِ اردو اور معانی و بیان وغیرہ کی مستند کتابوں سے اقتباسات تشریحِ کلام کے افتتاح کے بطورنقل کر دیے ہیں تاکہ شرح میں واقع ہونے والی اصطلاحات کا ایک مختصر تعارف قاری کو ہو جائے ۔ اب جسے مزید شوق اور توفیق ہو وہ تفصیل کے لیے مبسوط کتابیں ان فنون پر ضرور پڑھے ۔ میرے مآخذ میں خصوصاً یہ کتابیں رہی ہیں : ’غیاث اللغات ‘ ( ملّا غیاث الدّین رامپوری ) ، قواعد العَروض (علّامہ قدرؔ بلگرامی ) ، قواعدِ اردو ( مولوی عبد الحق ) ، آئینِ اردو ( مولانا محمد زین العابدین فرجاؔد کوتانوی ) ، ’تسہیل البلاغت‘ ( پروفیسر سجّاد مرزا بیگ دہلوی ) اور ’میزانِ سخن ‘ ( حمیدؔ عظیم آبادی)۔
بعض اشعار کی تشریح کرتے ہوئے علّامہ نظم طباطبائی نے کسی نکتے کی وضاحت کے لیے کئی کئی صفحات میں اپنے عالمانہ خیالات کا بھی اظہار کیا ہے ۔ یہ بظاہر زیرِ تشریح شعر سے کم ہی تعلق رکھتے ہوں لیکن بذاتِ خود اس قدر دل چسپ اور معلومات افزا ہیں کہ مناسب معلوم ہو اانھیں مستقل مقالات کی حیثیت سے الگ درج کیا جائے ۔ ان مقالات کو ’ اقسامِ کلام ‘ ، ’ دہلی اور لکھنؤ کی زبان ‘ ، اور ’ مصرع لگانے کا فن ‘، کے عنوانات کے تحت ملاحظہ فرمائیے ۔
با وجودے کہ اب دہلی و لکھنؤ کی زبان کی بحثیں ادبی منظر نامے کے مرکزی مقام کا حصّہ نہیں رہیں ، ان کی تاریخی و علمی حیثیت اپنی جگہ بر قرار رہے گی ۔ علامہ نظم کے فرمودات کے جواب میں پروفیسر سجّاد مرزا بیگ دہلوی کے ارشادات ان کی کتاب ’ تسہیل البلاغت ‘ سے نقل کیے گئے ہیں۔ یقین ہے یہ بحث دلچسپی سے پڑھی جائے گی ۔
فنِ شعر پرعلّامہ نظم کے عبور اور زبان و بیان پر کامل دسترس کے نمونے شرح میں جا بجا نظر آتے ہیں ۔ وثوق و اعتمادِ نفس کا یہ عالم ہے کہ غالبؔ کی اغلاط کی نہ صرف بے جھجھک نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اپنی رائے ظاہر کرنے میں بھی تکلف نہیں کرتے کہ بجائے یوں کہنے کے ، اِس طرح کہنا چاہیے تھا ۔
وثوقِ علم اور عبورِ فن ہی نے انھیں وہ سب سے زیادہ اہم بات کہنے کا اعتماد بخشا ہے جو انھوں نے غالبؔ کی اس مشہور رباعی کے سلسلے میں فرمائی ہے:
دکھ جی کی پسند ہو گیا ہے ، غالبؔ
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے ، غالبؔ
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے ، غالبؔ
لکھتے ہیں :’ اس رباعی کے دوسرے مصرع میں دو حرف وزنِ رباعی سے زائد ہو گئے ہیں اور نا موزوں ہے ۔ ۔ ۔ اب خیال کرو غالبؔ سا موزوں طبع شخص اور نا موزوں کہہ جائے بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ جو عروض کہ فارسی و اردو کہنے والوں نے عربی کو ماخذِ علوم سمجھ کر اختیار کیا ہے یہ غرض عربی زبان ہی کے واسطے خاص ہے ۔ اردو کہنے والوں کو پنگل کے اوزان میں کہنا چاہیے جو زبانِ ہندی کے اوزانِ طبعی ہیں ۔ جانتا ہوں میرے اس مشورے پر شعراے ریختہ گو ہنسیں گے اور نفرت کریں گے مگر اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ہندی زبان عربی کے اوزان میں ٹھونس کر شعر کہا کرتے ہیں ، اور ہندی کے جو اوزان طبعی ہیں اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔ ...... جن اوزان کو ہم نے اختیار کر لیا ہے ان وزنوں میں بہ تکلف ہم شعر کہتے ہیں اور ہماری شاعری میں اس سے بڑی خرابی پیدا ہو گئی ہے جس کی ہمیں خبر نہیں ۔غالبؔ سے شاعرِ منفرد نے عمر بھر مشق کر کے بھی ان اوزان پر قابو نہ پایا اور وزن غیر طبعی ہونے کے سبب سے دھوکا کھایا ۔ ‘ ا نتہی۔ (تفصیل زیرِ عنوان ’’عروض‘‘ دیکھیے )
ایک جگہ بری طرح جھنجھلا کر لکھا ہے: ’ فارسی کا ترجمہ کر لینے میں مصنف مرحوم کی جرأت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ان کے کلام سے اردو کے محاورات کوئی نہیں سیکھ سکتا ۔‘ ( ملاحظہ ہو شرحِ شعرزیرِ عنوان:’’ محاورہ اور روز مرّہ ‘‘
تیرے در کے کیے اسبابِ نثار آمادہ
خاکیوں کو جو خدا نے دیے جان و دل و دیں
غالبؔ نے اپنے کئی خطوں کے علاوہ کلیاتِ فارسی کے دیباچے میں صنایع لفظی سے بیزاری کا اظہار کیا ہے ۔لیکن علامہ نظمؔ طباطبائی نے ایسی متعدد مثالیں غالبؔ کے کلام سے دی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ خصوصاً ضلع بولنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے اور مناسباتِ لفظی کے لانے میں شعوری کوشش کرتے تھے یہ ایرادات اپنی جگہ ، لیکن جب علّامہ نظمؔ کسی شعر کی دا د دیتے ہیں تو نہایت کھلے دل سے دیتے ہیں ۔ داد دینے کا یہ والہانہ انداز اُن متعدد اشعار کی شرح میں ملاحظہ کیجیے جو میں نے ’ متفرق خصوصیات ‘ کے عنوان کے تحت یکجا کیے ہیں ۔کوئی خاص شعر قابلِ داد کیوں ہے اس کی تفصیل تو مقررہ مقام پر آپ پڑھ لیں گے ، چند اشعار کی داد علّامہ نے کس قدر خلوص ، محبت اور عقیدت سے دی ہے اِس جگہ اُس کے لطف میں آپ کو شریک کیے بغیر جی نہیں مانتا ۔چند شعر ملاحظہ ہوں
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
’ خوبی اس شعر کی حدِّ تحسین سے باہر ہے ‘۔
کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو ، سچ کہتے ہو ، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو
’ بندش اس کی سحر کے مرتبہ تک پہنچ گئی ہے۔‘
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
’ یہ وہ شعر ہے کہ میرؔ کو بھی جس پر رشک کرنا چاہیے ۔‘
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی ، نہ سہی
امتحان اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
’ اس شعر پر اگر غالبؔ خداے سخن ہونے کا دعوےٰ کریں تو خدا گواہ ہے کہ زیبا ہے ۔ پھر دیکھیے تو نہ فنِّ معانی کی کوئی خوبی ہے ، نہ فنِّ بیان کاکچھ حسن ہے ، نہ فنِّ بدیع کے تکلفات ہیں ۔‘
ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں
شوقِ عناں گسیختہ ، دریا کہیں جسے
’ عناں گسیختہ ‘ اس شعر میں لفظ نہیں ہے الماس جڑ دیا ہے ۔ جب دوسری زبان کی لفظوں پر ایسی قدرت ہو جب کہیں اپنی زبان میں اس کا لانا حسن رکھتا ہے ۔ ‘
ماہ بن ، ماہتاب بن ، میں کون
مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام
’ اس سارے قصیدے میں عموماً اور اس شعر میں خصوصاً مصنف نے اردو کی زبان اور حسنِ بیان کی عجب شان دکھائی ہے ایک مصرع میں تین جملے جس کے مضمون سے رشک ٹپک رہا ہے اور دوسرا مصرع طنز سے بھرا ہوا ہے ۔ چاروں جملوں میں حسنِ انشا ، پھرخوبیِ نظم و بے تکلفیِ ادا !‘
استادِ شہ سے ہو مجھے پر خاش کا خیال
یہ تاب ، یہ مجال ، یہ طاقت نہیں مجھے
’ اس قطعے میں جس جس پہلو سے معنیِ استعطاف کو مصنف نے باندھا ہے قابل اس کے ہے کہ اہلِ قلم اس سے استفادہ کریں ۔ ایسے پہلو شاعر کے سوا کسی کو نہیں سوجھتے ۔ یہ عرش کے خزانے سے نکلتے ہیں اور اس کی کنجی شاعروں کے سوا کسی کے پاس نہیں ۔‘
قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں
ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
’یہ شعر مصنف کی بلاغت کی سند اور استادی کی دستاویز ہے ۔‘
دیوانِ غالبؔ کا ’’نسخۂ عرشی ‘ ‘ صحت متن اور کثرتِ حواشی میں جو بجا شہرت رکھتا ہے وہ محتاجِ تعارف نہیں ۔ میں نے بعض اشعار کی تصحیح اور اکثر استدراکات کے لیے نسخۂ عرشی ( مطبوعۂ لاہور ، ۱۹۹۲ ع ) سے رجوع کیا ہے ۔ استدراکات کے لیے کوئی علیٰحدہ باب قائم نہیں کیا ہے ، متعلقہ شعر کے ساتھ ہی استدراک بھی درج کر دیا ہے ۔
’نسخۂ عرشی ‘ کے علاوہ ’ یادگارِ غالبؔ ‘ ( مولانا حالی ؔ) اور مرآۃ الغالب، ؔحضرتِ بیخودؔ دہلوی )سے بھی بعض استدراکات کے لیے استمدادکی گئی ہے ۔
جس زمانے میں انفارمیشن ٹکنالوجی کی بینڈ ویگن میں سوار ہونے کے لیے اندھا دھند دوڑ مچی ہوئی ہے نیز، اس سے پہلے سے ، اردو کی تعلیم و تعلّم کی طرف سے بے نیازی اور بے پروائی کا جو ہمارا مزاج بن چکا ہے اس میں یہ توقع کرنا عبث ہے کہ اس شرح کا عام طور پر استقبال کیا جائے گا ۔ لیکن اگریونیورسٹیوں میں اردو کی اعلیٰ جماعتوں کے طلّاب اور اساتذہ ہی اس کتاب سے فائدہ اٹھا لیں تو غنیمت سمجھا جائے گا ۔
ذکا ٔ صدیقی
3, Meenakshi Lake Paradise,
Karbala Road,
BHOPAL 462 001
جمعہ، ۱۲! اکتوبر ۲۰۰۱ء