کلامِ غالب کا فنی اور جمالیاتی مطالعہ۔ ذکا صدیقی

الف عین

لائبریرین
عرضِ مرتّب​

عبد الرزّاق شاکرؔ کے نام ایک خط میں غالبؔ (پیدایش: ۲۷!دسمبر ۱۷۹۷ ء ، وفات: ۱۵!فروری ۱۸۶۹ء) نے اپنے متعلق ایک پیشین گوئی کی ہے جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ۔ لکھتے ہیں ’ نظم و نثر‘کی قلمرو کا انتظام ایزدِ دانا و توانا کی اعانت سے خوب ہو چکا ۔ اگر اس نے چاہا تو قیامت تک میرا نام و نشان باقی و قائم رہے گا۔‘
اپنے کلام کی بقا و دوام کے متعلق یہ پیشین گوئی کرنے والے غالبؔ خود اپنے عہد سے لے کر ہمارے عہد تک تو علیٰ کلِّ غالب ہیں ہی ۔ اب رہا مستقبل تو بظاہرِ حالات اس امرِ خاص میں بھی شبہ کی کو ئی وجہ نظر نہیں آتی کہ قیامت تک ان کا نام و نشان باقی وقائم رہے گا ۔ لہٰذا اگر وہ خود اپنی زبان سے اپنے آپ کو ’ غالبِ نام آور ‘ کہتے ہیں تو یہ خود ستائی انھیں زیب دیتی ہے ، اور جب وہ اپنے اشعار میں آنے والے ہر لفظ کو ’ گنجینۂ معنی کا طلسم ‘ کہتے ہیں تو اردو شاعری کے مزاج داں ہر قاری کی زبان سے آمنّا و صدّقنا کی صدائیں سنائی دیتی ہیں ۔
چار جزو کا وہ دیوان جس میں سے کہیں کہیں مطلع و مقطع بھی غائب ہے، شہر اور دربارِ شاہی دونوں میں حریفوں کے سہامِ طعن و تشنیع کی آماج گاہ بنا رہتا تھا۔ یہ شاعر وہ تھے جن کے لیے سہ غزلے اور چو غزلے کہنا کوئی بات ہی نہیں تھی، یہاں غالبؔ کو طول طویل غزلیں سِرے سے نا پسند تھیں ۔ تفتہ ؔ کو لکھتے ہیں : ’ ایک بات اور تمھارے خیال میں رہے کہ میری غزل پندرہ سولہ بیت کی بہت شاذ و نادر ہے ۔ بارہ بیت سے زیادہ اور نو شعر سے کم نہیں ہوتی ‘۔حریف جن سے دربارِ شاہی اور شہربھرا پڑا تھا اس چھوٹے سے دیوان کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے ۔ انھوں نے بادشاہ کو اپنی پُر گوئی اور غالبؔ کی کم گوئی کی طرف متوجّہ کیا ۔ غالبؔ نے جھنجھلا کر اپنے اردو کلام کو خود ہی ’’ دژم برگ از نخلستانِ فرہنگِ من ‘ ‘ کہا اور دعویٰ کیا کہ یہ بے رنگ اردو شاعری کیا دیکھتے ہو ،یہ تمھارے لیے باعثِ فخر ہوگی ، میرے لیے توموجبِ ننگ ہے۔ دیکھنا ہے تو میرا فارسی کلام دیکھو ؂
نیست نقصان ، یک دو جزو است ار سوادِ ریختہ
کاں دژم برگے ز نخلستانِ فرہنگِ من است
فارسی بیں ، تا بہ بینی نقشہاے رنگ رنگ
بگذر از مجموعۂ اردو کہ بے رنگِ من است
راست می گویم من و از راست سر نتواں کشید
ہر چہ در گفتار فخرِ تُست ، آن ننگِ من است
لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کے نخلستانِ فرہنگ کے اسی ’’ برگِ دژم ‘ ‘ کی مانگ اطرافِ ملک سے مسلسل آتی رہتی تھی اور غالبؔ کو اسی کی اشاعت نے زندگی بھر مصروف رکھا ۔ ’منشی نولکشور کے تین آنے چھ پائی کے سستے نسخے سے ایک سو بارہ روپے کے چغتائی ایڈیشن تک ‘ (نسخۂ عرشی، ص ۷۳ ) ، اور پھر تین سو روپے کے ’ ’نسخۂ عرشی زادہ ‘‘ تک ، اس کے ہزاروں نسخے دنیا بھر میں پھیلے ۔ اور مولانا حالیؔ مرحوم کی توضیحِ اشعار سے شروع کر کے مولانا غلام رسول مہرؔ کی تازہ شرحِ اشعارِ غالبؔ تک متعدد شرحیں اسی کی شائع ہوئیں ۔
مولانا حالی نے غالبؔ کی شاعرانہ خصوصیات کا جو تجزیہ کیا ہے اس کی تمہید کے طور پر لکھتے ہیں : جس قدر بلند اور عالی خیالات مرزا کے ریختے میں نکلیں گے اس قدر کسی ریختہ گو کے کلام میں نکلنے کی توقع نہیں ہے ۔ البتہ ہم کو مرزا کے عمدہ اشعار کے جانچنے کے لیے ایک جدا گانہ معیار مقرر کرنا پڑے گا۔۔۔ (یادگارِ غالب ص۱۰۷ )
علّامہ علی حیدر نظم طباطبائی کی شرح اس لحاظ سے نہایت اہم قرار پاتی ہے کہ ا نھوں نے یہی ’ جدا گانہ معیار ‘ مقرر کر کے متداول دیوان غالبؔ کے سیکڑوں اشعار میں سے ہر ایک شعر پر گہری ناقدانہ نظر ڈالی ہے ۔ اشعار کی شرح کے دوران میں ایسے ایسے نادر و نایاب ادبی ، علمی ، فنی نکتوں کی وضاحت کی ہے کہ اشعار کی تشریح تو ہو ہی جاتی ہے ، پڑھنے والا غالبؔ کے تفکّر، تصور اور تجربے کی تازہ کاری ، ان کے طرزِ گفتار اور اسلوبِ اظہار کی ندرت ، جذبہ و تخیّل کی گہری معنویت اور اِن سب کی مجموعی ترکیب و پیشکش کے اُن اکثرطریقوں سے بھی متعارف ہو جاتا ہے جو غالبؔ نے سب سے الگ اپنے لیے اختیار کیے تھے ۔
علّامہ نظم طباطبائی دورِ آخر کے اُن علما میں سے ایک تھے جو فنِّ شعر و ادب کے کثیر الجہات پہلوؤں پر نہایت گہری نظر رکھتے تھے اور مکمل اعتماد اور وثوق کے ساتھ ان پر گفتگو کر سکتے تھے ۔ شرحِ دیوانِ اردوئے غالبؔ ان کے علمی تبحّر اور اعلیٰ ذوقِ شعری کا ایک مظہر ہے ۔
اشعار کی تشریح کے دوران میں جو علمی و فنی نکات زیرِ بحث آئے ہیں وہ ضرورتاً پوری کتاب میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں ۔ مجھے خیال آیا کہ اگر ان نکات کو مختلف عنوانات کے تحت یک جا کیا جائے تو ممکن ہے نہ صرف تفہیمِ غا لبؔ میں آسانی پیدا ہو جائے بلکہ قاری کو غالبؔ کی غیر معمولی اُپج اور انفرادیت کے نمونے ڈھونڈھنے میں بھی سہولت ہو ۔ چنانچہ میں نے موضوع کے لحاظ سے کچھ عنوانات قائم کر کے ان کے ذیل میں ردیف وار صرف ایسے اشعار مع شرح اکھٹے کر دیے ہیں جن میں معانی ، بیان ، بدیع اور بلاغت وغیرہ کے متعلق نکات پر علاّمہ نظم نے بحث و تمحیص کی ہے ۔ جہاں جہاں مناسب معلوم ہوا اور ضرورت محسوس کی ، ہر موضوع کی تعریف و توضیح کے لیے میں نے عَروض ، قواعدِ اردو اور معانی و بیان وغیرہ کی مستند کتابوں سے اقتباسات تشریحِ کلام کے افتتاح کے بطورنقل کر دیے ہیں تاکہ شرح میں واقع ہونے والی اصطلاحات کا ایک مختصر تعارف قاری کو ہو جائے ۔ اب جسے مزید شوق اور توفیق ہو وہ تفصیل کے لیے مبسوط کتابیں ان فنون پر ضرور پڑھے ۔ میرے مآخذ میں خصوصاً یہ کتابیں رہی ہیں : ’غیاث اللغات ‘ ( ملّا غیاث الدّین رامپوری ) ، قواعد العَروض (علّامہ قدرؔ بلگرامی ) ، قواعدِ اردو ( مولوی عبد الحق ) ، آئینِ اردو ( مولانا محمد زین العابدین فرجاؔد کوتانوی ) ، ’تسہیل البلاغت‘ ( پروفیسر سجّاد مرزا بیگ دہلوی ) اور ’میزانِ سخن ‘ ( حمیدؔ عظیم آبادی)۔
بعض اشعار کی تشریح کرتے ہوئے علّامہ نظم طباطبائی نے کسی نکتے کی وضاحت کے لیے کئی کئی صفحات میں اپنے عالمانہ خیالات کا بھی اظہار کیا ہے ۔ یہ بظاہر زیرِ تشریح شعر سے کم ہی تعلق رکھتے ہوں لیکن بذاتِ خود اس قدر دل چسپ اور معلومات افزا ہیں کہ مناسب معلوم ہو اانھیں مستقل مقالات کی حیثیت سے الگ درج کیا جائے ۔ ان مقالات کو ’ اقسامِ کلام ‘ ، ’ دہلی اور لکھنؤ کی زبان ‘ ، اور ’ مصرع لگانے کا فن ‘، کے عنوانات کے تحت ملاحظہ فرمائیے ۔
با وجودے کہ اب دہلی و لکھنؤ کی زبان کی بحثیں ادبی منظر نامے کے مرکزی مقام کا حصّہ نہیں رہیں ، ان کی تاریخی و علمی حیثیت اپنی جگہ بر قرار رہے گی ۔ علامہ نظم کے فرمودات کے جواب میں پروفیسر سجّاد مرزا بیگ دہلوی کے ارشادات ان کی کتاب ’ تسہیل البلاغت ‘ سے نقل کیے گئے ہیں۔ یقین ہے یہ بحث دلچسپی سے پڑھی جائے گی ۔
فنِ شعر پرعلّامہ نظم کے عبور اور زبان و بیان پر کامل دسترس کے نمونے شرح میں جا بجا نظر آتے ہیں ۔ وثوق و اعتمادِ نفس کا یہ عالم ہے کہ غالبؔ کی اغلاط کی نہ صرف بے جھجھک نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اپنی رائے ظاہر کرنے میں بھی تکلف نہیں کرتے کہ بجائے یوں کہنے کے ، اِس طرح کہنا چاہیے تھا ۔
وثوقِ علم اور عبورِ فن ہی نے انھیں وہ سب سے زیادہ اہم بات کہنے کا اعتماد بخشا ہے جو انھوں نے غالبؔ کی اس مشہور رباعی کے سلسلے میں فرمائی ہے:
دکھ جی کی پسند ہو گیا ہے ، غالبؔ
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے ، غالبؔ
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے ، غالبؔ
لکھتے ہیں :’ اس رباعی کے دوسرے مصرع میں دو حرف وزنِ رباعی سے زائد ہو گئے ہیں اور نا موزوں ہے ۔ ۔ ۔ اب خیال کرو غالبؔ سا موزوں طبع شخص اور نا موزوں کہہ جائے بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ جو عروض کہ فارسی و اردو کہنے والوں نے عربی کو ماخذِ علوم سمجھ کر اختیار کیا ہے یہ غرض عربی زبان ہی کے واسطے خاص ہے ۔ اردو کہنے والوں کو پنگل کے اوزان میں کہنا چاہیے جو زبانِ ہندی کے اوزانِ طبعی ہیں ۔ جانتا ہوں میرے اس مشورے پر شعراے ریختہ گو ہنسیں گے اور نفرت کریں گے مگر اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ہندی زبان عربی کے اوزان میں ٹھونس کر شعر کہا کرتے ہیں ، اور ہندی کے جو اوزان طبعی ہیں اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔ ...... جن اوزان کو ہم نے اختیار کر لیا ہے ان وزنوں میں بہ تکلف ہم شعر کہتے ہیں اور ہماری شاعری میں اس سے بڑی خرابی پیدا ہو گئی ہے جس کی ہمیں خبر نہیں ۔غالبؔ سے شاعرِ منفرد نے عمر بھر مشق کر کے بھی ان اوزان پر قابو نہ پایا اور وزن غیر طبعی ہونے کے سبب سے دھوکا کھایا ۔ ‘ ا نتہی۔ (تفصیل زیرِ عنوان ’’عروض‘‘ دیکھیے )
ایک جگہ بری طرح جھنجھلا کر لکھا ہے: ’ فارسی کا ترجمہ کر لینے میں مصنف مرحوم کی جرأت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ان کے کلام سے اردو کے محاورات کوئی نہیں سیکھ سکتا ۔‘ ( ملاحظہ ہو شرحِ شعرزیرِ عنوان:’’ محاورہ اور روز مرّہ ‘‘ ؂
تیرے در کے کیے اسبابِ نثار آمادہ
خاکیوں کو جو خدا نے دیے جان و دل و دیں
غالبؔ نے اپنے کئی خطوں کے علاوہ کلیاتِ فارسی کے دیباچے میں صنایع لفظی سے بیزاری کا اظہار کیا ہے ۔لیکن علامہ نظمؔ طباطبائی نے ایسی متعدد مثالیں غالبؔ کے کلام سے دی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ خصوصاً ضلع بولنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے اور مناسباتِ لفظی کے لانے میں شعوری کوشش کرتے تھے یہ ایرادات اپنی جگہ ، لیکن جب علّامہ نظمؔ کسی شعر کی دا د دیتے ہیں تو نہایت کھلے دل سے دیتے ہیں ۔ داد دینے کا یہ والہانہ انداز اُن متعدد اشعار کی شرح میں ملاحظہ کیجیے جو میں نے ’ متفرق خصوصیات ‘ کے عنوان کے تحت یکجا کیے ہیں ۔کوئی خاص شعر قابلِ داد کیوں ہے اس کی تفصیل تو مقررہ مقام پر آپ پڑھ لیں گے ، چند اشعار کی داد علّامہ نے کس قدر خلوص ، محبت اور عقیدت سے دی ہے اِس جگہ اُس کے لطف میں آپ کو شریک کیے بغیر جی نہیں مانتا ۔چند شعر ملاحظہ ہوں ؂
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
’ خوبی اس شعر کی حدِّ تحسین سے باہر ہے ‘۔
کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو ، سچ کہتے ہو ، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو
’ بندش اس کی سحر کے مرتبہ تک پہنچ گئی ہے۔‘
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
’ یہ وہ شعر ہے کہ میرؔ کو بھی جس پر رشک کرنا چاہیے ۔‘
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی ، نہ سہی
امتحان اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
’ اس شعر پر اگر غالبؔ خداے سخن ہونے کا دعوےٰ کریں تو خدا گواہ ہے کہ زیبا ہے ۔ پھر دیکھیے تو نہ فنِّ معانی کی کوئی خوبی ہے ، نہ فنِّ بیان کاکچھ حسن ہے ، نہ فنِّ بدیع کے تکلفات ہیں ۔‘
ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں
شوقِ عناں گسیختہ ، دریا کہیں جسے
’ عناں گسیختہ ‘ اس شعر میں لفظ نہیں ہے الماس جڑ دیا ہے ۔ جب دوسری زبان کی لفظوں پر ایسی قدرت ہو جب کہیں اپنی زبان میں اس کا لانا حسن رکھتا ہے ۔ ‘
ماہ بن ، ماہتاب بن ، میں کون
مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام
’ اس سارے قصیدے میں عموماً اور اس شعر میں خصوصاً مصنف نے اردو کی زبان اور حسنِ بیان کی عجب شان دکھائی ہے ایک مصرع میں تین جملے جس کے مضمون سے رشک ٹپک رہا ہے اور دوسرا مصرع طنز سے بھرا ہوا ہے ۔ چاروں جملوں میں حسنِ انشا ، پھرخوبیِ نظم و بے تکلفیِ ادا !‘
استادِ شہ سے ہو مجھے پر خاش کا خیال
یہ تاب ، یہ مجال ، یہ طاقت نہیں مجھے
’ اس قطعے میں جس جس پہلو سے معنیِ استعطاف کو مصنف نے باندھا ہے قابل اس کے ہے کہ اہلِ قلم اس سے استفادہ کریں ۔ ایسے پہلو شاعر کے سوا کسی کو نہیں سوجھتے ۔ یہ عرش کے خزانے سے نکلتے ہیں اور اس کی کنجی شاعروں کے سوا کسی کے پاس نہیں ۔‘
قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں
ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
’یہ شعر مصنف کی بلاغت کی سند اور استادی کی دستاویز ہے ۔‘
دیوانِ غالبؔ کا ’’نسخۂ عرشی ‘ ‘ صحت متن اور کثرتِ حواشی میں جو بجا شہرت رکھتا ہے وہ محتاجِ تعارف نہیں ۔ میں نے بعض اشعار کی تصحیح اور اکثر استدراکات کے لیے نسخۂ عرشی ( مطبوعۂ لاہور ، ۱۹۹۲ ع ) سے رجوع کیا ہے ۔ استدراکات کے لیے کوئی علیٰحدہ باب قائم نہیں کیا ہے ، متعلقہ شعر کے ساتھ ہی استدراک بھی درج کر دیا ہے ۔
’نسخۂ عرشی ‘ کے علاوہ ’ یادگارِ غالبؔ ‘ ( مولانا حالی ؔ) اور مرآۃ الغالب، ؔحضرتِ بیخودؔ دہلوی )سے بھی بعض استدراکات کے لیے استمدادکی گئی ہے ۔
جس زمانے میں انفارمیشن ٹکنالوجی کی بینڈ ویگن میں سوار ہونے کے لیے اندھا دھند دوڑ مچی ہوئی ہے نیز، اس سے پہلے سے ، اردو کی تعلیم و تعلّم کی طرف سے بے نیازی اور بے پروائی کا جو ہمارا مزاج بن چکا ہے اس میں یہ توقع کرنا عبث ہے کہ اس شرح کا عام طور پر استقبال کیا جائے گا ۔ لیکن اگریونیورسٹیوں میں اردو کی اعلیٰ جماعتوں کے طلّاب اور اساتذہ ہی اس کتاب سے فائدہ اٹھا لیں تو غنیمت سمجھا جائے گا ۔
ذکا ٔ صدیقی
3, Meenakshi Lake Paradise,
Karbala Road,
BHOPAL 462 001
جمعہ، ۱۲! اکتوبر ۲۰۰۱ء
 

الف عین

لائبریرین
فن
اقسام کلام

۔ ۔ ۔ شیخ الرئیس لکھتا ہے کہ شعر کبھی فقط حیرت و تعجب پیدا کرنے کے لیے کہتے ہیں ، کبھی اغراض و معاملات کے لیے کہتے ہیں ۔۔۔ شعراے غزل گو کی شاعری پہلی قسم کی ہے کہ موسیقی و مصوری کی طرح اس کی غایت بھی محض حظِ نفس و تغذیۂ روح کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی ۔ لیکن دوسری قسم البتہ اہتمام و اعتنا کے قابل ہے ۔ ہر ادیب و اہلِ قلم اس کا محتاج ہے اور پھر حظِ نفس و تعجیب سے بھی خالی نہیں ۔نثار و معاملہ نگار کو ایسے مضامین کی بہت حاجت ہے جو اغراض سے تعلق رکھیں ۔ غزل گویوں کو مضمون نگاری کی مشق نہ ہونے سے اچھی طرح نثر لکھنے کا سلیقہ نہیں ہوتا ۔ کسی مطلب کو نثر میں دل نشیں نہیں کر سکتے ۔ بلکہ ابنِ خلدون نے تو یہ دعویٰ کیا کہ شاعر سے نثر نہیں لکھی جاتی اور نثّار سے شعر نہیں کہا جاتا ۔ میرے خیال میں اس کی لم یہی ہے کہ ابنِ خلدون کے زمانے میں عرب کی شاعری بھی اغراق و تصنع و تکلف سے بھر گئی تھی ، اغراض پر شعر کہنا بہت کم ہو گیا تھا ۔ اس فن کو اہلِ نثر نے اختیار کر لیا تھا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شعر میں اغراق و تکلف کرنا اور اغراض و مطالب سے خالی رکھنا یہاں تک پھیلا کہ اب عموماً ہم لوگوں کا یہ مذاق ہو گیا ہے کہ جو شعر کہ اغراض و مطالب کے لیے کہے جاتے ہیں ان کو شعر نہیں سمجھتے بلکہ جانتے ہیں شاعر نے رام کہانی ناندھی یا دکھڑا رویا ۔ شعرا کے بر خلاف اہلِ نثر نے معاملہ نگاری میں غضب کا پھیکا پن اختیا رکیا ۔ انھوں نے تکلف میں اس قدر افراط کی کہ معانی کو رو بیٹھے ۔ انھوں نے اسقدر تفریط کی کہ تمام محاسنِ کلام سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
ہمارے یہاں کلام کی تقسیم اس طرح مشہور ہے کہ :
( الف ) جس کلام میں وزن و قافیہ دونوں ہوں وہ نظم ہے ۔
( ب ) جس میں دونوں نہ ہوں وہ نثرِ عاری ہے ۔ اس نثر کی بڑی خوبی بیان کی بے ساختگی ہے ، لیکن اس میں بھی مجاز و کنایہ و تشبیہ و استعارہ و تحویلِ خبر بہ انشا و صنایعِ معنویہ و لفظیہ سے بہت کچھ حسن پیدا ہو جاتا ہے ۔ مثلاً یہ فقرہ :
( ۱ ) میں نے اسے بہت ڈھونڈھا مگر نہ ملا ۔۔۔ ( اس ) فقرے میں خبر ہے اور سب لفظوں سے حقیقتِ معنی مقصود ہے۔
( ۲ ) میں نے کیسا کیسا ڈھونڈھا مگر وہ کب ملتا ہے ۔۔۔اسی خبر کو انشاکی صورت میں ظاہر کیا ہے ۔
( ۳ ) میں نے بہت خاک چھانی مگر وہ ہاتھ نہ آیا ۔۔۔( اس ) فقرے میں خبر ہے مگر الفاظ میں مجاز ہے ۔
( ۴ ) میں نے کیسی کیسی خاک چھانی مگر وہ کب ہاتھ آتا ہے ۔۔۔( اس ) فقرے میں انشا و مجاز دونوں جمع ہیں ۔
( ۵ ) میں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے تھکا مگر وہ تو عنقا ہے ۔۔۔ ( اس ) میں مجاز کی جگہ تشبیہ ہے اور ڈھونڈھنے میں مبالغہ ہے ۔
( ج ) اور سب سے بڑھ کر فقروں کا متشابہ ہونا لطف دیتا ہے ۔ مثلاً جملۂ فعلیہ کا عطف فعلیہ پر ، اور اسمیہ کا اسمیہ پر ۔ اور جیسی ایک فقرے میں فعل کی اور اس کے متعلقات کی ترتیب ہو ویسی ہی دوسرے فقرے میں ہو ۔ جس کلام میں وزن نہ ہو اور قافیہ ہو، یعنی فقرہ ، دوسرے فقرے کا ، سجع ہو اس کا نام نثرِ مسجّع رکھا ہے ۔ یہ نثر فقط زبانِ عربی کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اردو فارسی کی زبان اس کی متحمل نہیں ، اس سبب سے کہ اردو فارسی میں جملہ فعل پر تمام ہوتا ہے اور فعل کا سجع بہت کم ہاتھ آتا ہے ۔ اسی وجہ سے عام آفت یہ پیدا ہوئی ہے کہ بہ تصنع و تکلف دو دو فقرے ایک ہی معنی کے اکثر لوگ لکھا کرتے ہیں اور اس تکرارِ مُخِل و اطنابِ مُمِل سے سجع کا لطف بھی جاتا رہتا ہے ۔ مثلاً یہ مضمون: میں نے سب حال سنا ، نہایت خوشی حاصل ہوئی ۔اسے سجع کرنے کے لیے خواہ مخواہ اس طرح لکھنا پڑتا ہے : میں نے سب حال سنا ، دامنِ شوق میں گلہاے مضامیں کو چنا ۔ نہایت خوشی حاصل ہوئی ، فکر و تشویش زائل ہوئی ۔
پھر یہ بھی دیکھیے کہ فعل کا سجع مل بھی گیا تو اس میں وہ لطف کہاں جو اسم کے سجع میں ہوتا ہے اور وجدانِ صحیح اس بات کا شاہد ہے کہ افعال و روابط میں سجع کا وہ لطف نہیں جو اسم میں ہے ۔ غرض کہ اردو فارسی میں عربی کی طرح نثرِِمسجع لکھنا غیر کا منہ چڑھا کو اپنی صورت بگاڑنا ہے ۔ ہاں ، اردو فارسی سجع اگر اچھا معلوم ہوتا ہے تومتعلقاتِ جملہ میں ، جیسے : فضلِ خدا سے اور آپ کی دعا سے خیریت ہے ۔یا کہیں ایسا ہی بے تکلف محاورے میں پورا اتر جائے تو خیر ، جملے کا سجع جملہ ہی سہی، لیکن تمام عبارت میں اس کی پابندی تو عربی میں بھی مشکل سے نبھتی ہے ۔ ابنِ عرب شاہ کی ’’تاریخِ تیموری ‘ ‘اور ’ ’فاکہۃ الخلفا ‘‘ دونوں کتابیں آخر زٹل قافیہ ہو کے رہ گئیں ۔
( د ) جس کلام میں قافیہ نہ ہو اور وزن ہو اس کا نام ’’ نثرِ مرجّز ‘‘ مشہور ہے ۔گو ائمۂ فن نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کا نام بھی رکھ لیا ہے مگر کسی نے اس پر قلم نہیں اٹھایا ہے ۔ بے تکی نثر سمجھا کیے ۔ سچ یہ ہے کہ میرا بھی خیال یہی رہا کہ جب وزن کے ساتھ قافیہ نہ ہو تو وہ ایسی لَے ہوئی جس میں سُر ندارد ۔ مگرمحققؔ نے ’ ’معیار ‘ ‘میں ذکر کیا ہے کہ کسی یونانی شاعر نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وزن ہے اور قافیہ نہیں ۔ اور انگریزی میں بھی اس طرح کی تالیف کا رواج بہت ہے اور بے شک اس کی برجستگی وبے ساختگی کلامِ مقفےٰ سے کہیں بڑھی ہوئی ہے اس قسم کے کلام کو وہ لوگ نظم کے اقسام میں داخل کرتے ہیں ۔ اور بات یہی ٹھیک ہے کہ موزوں کلام کو نظم کہنا چاہیے نہ کہ نثر ۔
 

الف عین

لائبریرین
عَروض
وہ علم ہے جس سے نظم یعنی کلامِ موزوں اور نثر یعنی کلامِ غیر موزوں کا فرق معلوم ہوتا ہے یہ علم خلیل بن احمد بصری (پیدایش ۱۰۰ ہجری ، وفات ۱۷۰ ہجری ؛ بقول علّامہ سیّد غلام حسنین قدرؔ بلگرامی ، مؤلف ’ قواعد العروض ‘ )نے فنِّ موسیقی کی بنیاد پر استخراج کیا تھا ۔ جس طرح طبلے پر ضرب اور خالی سے مختلف ماترائیں اور ان ماتراؤں سے مختلف تال پیدا ہوتے ہیں اسی طرح علمِ عَروض میں حرکت =(ضرب ) اور سکون= ( خالی ) کے موافق خلیلؔ نے مختلف اوزانِ عروضی تراش لیے۔ اہلِ موسیقی کا مدار ’ ت ‘ اور ’ ن ‘ یعنی تن تن پر ہے تو اہلِ عروض کا اعتبار ’ ف اور ’ع ‘ اور ’ ل ‘ او ر ’ ن ‘ یعنی فَعِلُن پر ہے ۔ مختصر یہ کہ علمِ عروض کا موضوع وزنِ شعر ہے ۔
وزن
شاعری کی مقررہ بحروں میں سے کسی بحر کی میزان پر کسی کلام کو ناپنے تولنے کا نام ’ وزن ‘ ہے اہلِ عَروض کی اصطلاح میں اس ناپ تول یعنی دو کلموں کی حرکت اور سکون کے برابر ہونے کو تقطیع کہتے ہیں ( تقطیع کے معنی ہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنا) وزنِ شعر میں صرف انھیں حروف کا اعتبار ہے جو ملفوظ ہوں ۔ اِس لحاظ سے ’ خواب ‘ کا ’ و ‘ وزنِ شعر کے شمار ( یا تقطیع ) میں نہیں آئے گا ، اسی طرح ’ کیا ‘ اور ’ کیوں ‘ کی ’ ی ‘ بھی تقطیع میں نہیں آئے گی۔ گویا کہ یہ ’ و ‘ اور ’ ی ‘ حروف نہیں ہیں ۔
اجزا
جمع ہے جُز کی ۔ تقطیعی اجزا کے باہم ملنے سے جو لفظ بنتا ہے اسے اصطلاحِ عروض میں ’ جز ‘ کہتے ہیں ۔ علمِ عروض میں اجزاتین ہیں : (۱ ) سبب ( ۲) وتد اور ( ۳ ) فاصلہ۔( ان کی تفصیل علّامہ طباطبائی کے مقالے میں ملاحظہ ہو جو اس تعارف کے بعد آتا ہے ۔ کچھ اور متعلقہ معلوما ت یہاں دی جاتی ہیں ۔)
( ۱ )سبب: دو حرفی کلمہ کو سبب کہتے ہیں ۔ اس کی دو قسمیں ہیں :۔
( الف) سببِ خفیف: وہ دو حرفی لفظ جس کا پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن ہو ، جیسے : دِلْ ، چَلْ ، گُلْ۔
( ب ) سببِ ثقیل: وہ دو حرفی لفظ جس کے دونوں حروف متحرک ہوں ، جیسے : دِلِ ، غَمِ ،شَبِ ( تینوں میں آخری حرف بہ حالتِ اضافت )
(عروض کی بعض کتابوں میں ، اور خود علّا مہ نظم طَباطَبائی نے، سبب کی ایک اور قسم سببِ متوسط بھی بتائی ہے ۔ لیکن اکثر علما کو اس سے اختلاف ہے ۔)
( ۲ ) وتد: سہ حرفی کلمہ کو وتد کہتے ہیں ۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں :۔
( الف ) وتدِ مجموع یا مقرون: وہ سہ حرفی کلمہ جس کا پہلا اور دوسرا حرف متحرک ہو اور تیسرا ساکن ، جیسے : خُدَاْ، وَطَنْ ، جِگَرْ ۔
( ب ) وتدِ مفروق: وہ سہ حرفی کلمہ جس کا پہلا حرف متحرک ، دوسرا ساکن اور تیسرا متحرک ہو، جیسے: دَرْدِ ،مُرْغِ ، صِدْقِ ( تینوں میں آخری حرف بہ حالتِ اضافت)
( سبب کی طرح وتد کی بھی ایک قسم وتدِ کثرت ہے ۔ یہ چہار حرفی کلمہ ہے جس کے پہلے دو حروف متحرک اور بعد کے دو حرف ساکن ہوں ، جیسے: زَبَاْنْ ، نَظِیْرْ ، شُمَاْرْ ۔)
(۳ ) فاصلہ: چہار حرفی کلمہ ہوتا ہے۔اس کی بھی دو قسمیں ہیں :۔
( الف ) فاصلۂ صغریٰ: جس میں پہلے تین حروف متحرک ہوں اور چوتھا ساکن ۔ گویا یہ اجتماع ہوتا ہے ایک سببِ ثقیل اور ایک سببِ خفیف کا۔ جیسے : صَنَمَاْ، بَخُدَ اْ۔۔۔
( ب ) فاصلۂ کُبریٰ: پنج حرفی کلمہ ہوتا ہے جس کے پہلے چار حروف متحرک ہوں اور پانچواں ساکن ۔ یہ اجتماع ہوتا ہے وتدِ مجموع اور سببِ خفیف کا ۔ جیسے:شِکَنَمَشْ
(نوٹ: اردو میں سببِ ثقیل ، وتدِ مفروق اور فاصلہ کی مثالیں نہیں ہیں ، اس لیے فارسی کی مثالیں دی گئی ہیں ۔)
رُکن
کم سے کم دو اجزا اور زیادہ سے زیادہ تین کے ملنے سے جو لفظ بنتا ہے اسے ُرکن کہتے ہیں ۔ رُکن کی جمع ارکان ہے ۔ ( ان کو افاعیل یا امثال بھی کہتے ہیں ) انھیں تین اجزا ( سبب ، وتد اور فاصلہ ) کو مختلف طور پر ترتیب دے کر از روئے اصل آٹھ ارکان ، اور از روئے اعتبار دس ارکان قائم کیے گئے ہیں ۔ اور انھیں ارکان سے مختلف بحریں بنائی گئی ہیں جن کی مجموعی تعداد اُنّیس ہے ۔ ان میں سے چار بحریں عربی کے لیے مخصوص ہیں اور تین فارسی کے لیے ۔ باقی بارہ بحریں ، فارسی اور عربی میں مشترک ہیں ۔بارہ مشترک بحروں کے نام اور اوزان یہ ہیں :
( ۱ ) بحرِ متقارَ ب: فَعُوْ لُنْ ، فَعُوْ لُنْ، فَعُوْلُنْ ، فَعُوْلُنْ۔ (اِسی طرح دوسرا مصرع۔ کُل آٹھ بار )
( ۲ ) بحرِ متدارک: فَاْعِلُنْ ، فَاْعِلُنْ، فَاْعِلُنْ، فَاْعِلُنْ( ایضا ً)
( ۳ ) بحرِ ہزج : مَفَاْعِیْلُن ، مَفَاْعِیْلُن ، مَفَاْعِیْلُن ،مَفَاْعِیْلُن(ایضاً )
( ۴ ) بحرِ رجز: مُسْتَفْعِلُن، مُسْتَفْعِلُن ، مُسْتَفْعِلُن، مُسْتَفْعِلُن۔ ( ایضاً)
( ۵ ) بحرکامل: مُتَفَا عِلُن، مُتَفَا عِلُن ، مُتَفَا عِلُن ، مُتَفَا عِلُن ۔ (ایضاً )
( ۶ ) بحرِ رمل: فَاْعِلَاْتُنْ ، فَاْعِلَاْتُنْ ، فَاْعِلَاْتُنْ ، فَاْعِلَاْتُنْ۔ ( ایضاً)
( ۷ ) بحرِ منسرح: مُسْتَفْعِلُن مَفْعُوْلَاْتُ ، مُسْتَفْعِلُنْ مَفْعُوْلَاْتُ ۔( ایضاً)
( ۸ ) بحرِ سریع: سْتَفْعَلُنْ مُسْتَفْعَلُنْ مَفْعُوْلَاتُ۔ ( اسی طرح دوسرا مصرع کُل چھ بار )
( ۹ ) بحرِ خفیف : فَاْعِلَاْتُنْ ، مُسْ تَفْع لُن، فَاْعِلَاْتُن (ا یضاً ۔۔۔ کُل چھ بار)
( ۱۰ ) بحرِ مضارع : مَفَاْعِیْلُنْ، فَاْعِ لَاْتُنْ، مَفَاْعِیْلُنْ فَاْعِ لَاْتُنْ (ایضاً۔۔۔ کُل آٹھ بار)
( ۱۱ ) بحرِ مقتضب : مَفْعُوْلَاْتُ مُسْتَفْعِلُن، مَفْعُوْلَاْتُ، مُسْتَفْعِلُنْ (۔۔ایضاً۔۔ ایضاً)
( ۱۲ ) بحرِ مُجتَث: مُس ْتَفْعِ لُنْ، فَاْعِلَاْتُن، مُس ْتَفْعِ لُن، فَاْعِلَاْتُنْ (ایضاً۔۔ایضاً)
بحرِ طویل : یہ خاص عربی کی بحر ہے ۔فعولن، مفاعیلن ، فعولن، مفاعیلن (کُل آٹھ بار )۔ فارسی میں بہ تکلف کچھ شاعروں نے اس بحر میں بھی شعر کہے ہیں ۔اردو کے مذاق میں یہ بحر بے کیف ہے اس لیے اس میں ہمارے یہاں کلام نہیں ملتا ۔
 

الف عین

لائبریرین
تقطیع
یعنی ٹکڑے ٹکڑے کرنا ۔ اصطلاحِ عروض میں شعر کے الفاظ کو اتنے ٹکڑوں یعنی ارکان میں تقسیم کرنا جتنے اس بحر کے ارکان ہیں جس میں وہ شعرکہا گیا ہے ۔شعر کے حروف ارکان کے حروف سے اس طرح مطابق ہونے چاہییں کہ متحرک کے مقابل متحرک اور ساکن کے مقابل ساکن رہے ۔تقطیع میں حرکات یعنی زیر ، زبر ، پیش کا فرق نہیں مانا جاتا چنانچہ بُلبُل ، دَلدَل ، جھِل مِل یہ تینوں ایک ہی وزن ’ فِعْلُن ‘پر ہیں ۔ مثلاً اس مصرع کی تقطیع : کروں حمدِ پروردگارِ قدیم ۔۔۔ یوں ہوگی:۔ کرو حم : فعولن ! دِپرور: فعولن ! دِگارے:فعولن ! قدیم:فعول ۔۔۔یہ بحرِ متقارب کے ارکان ہیں اور آخری رکن میں زحاف کے نام کو ملا کر اس بحر کا پورا نام معلوم ہو سکتا ہے جو یہ ہے : بحرِ متقارب ہشت رُکنی ( یا مُثَمَّن ) مقصور ۔
زحاف
سبب کے حرفِ دوم کو ، جو کہ ساکن ہوا کرتا ہے ، کسی رکن سے ساقط کر دیں تو اسے اصطلاح میں زحاف کہتے ہیں ۔ گویا ارکانِ شعر میں سبب کے حرفِ دوم کو ساقط کر دینے سے جو تغیّرات ہوتے ہیں انھیں کا نام زحاف ہے۔ زحافات کے ناموں کی رعایت سے بحروں کے بھی وہی نام ہوتے ہیں ۔ مثلاً جس بحر میں خُبْن کا زحاف آئے گا وہ مَخبون کہلائے گی ۔ زحافات یعنی تغیّرات کی تین صورتیں ہیں :
(۱ ) رکن میں سے کسی حرف کو کم کر دینا ؛ ( ۲ ) کوئی حرف زیادہ کر دینا ؛ ( ۳ ) کسی حرفِ متحرک کو ساکن کر دینا ۔

رباعی کے اوزان
رباعی کا وزن، مَفْعُوْلَ مَفَاْعِلُنْ مَفَاْعِیْل ُ فَعُوْل،بحرِ ہزج کے ساتھ مخصوص ہے اور اصل میں فارسی والوں کا نکالا ہوا ایک وزن ہے ۔اس میں نو ( ۹ ) زحاف آتے ہیں ،جن کی وجہ سے چوبیس وزن ہو جاتے ہیں ۔جو چار مصرعے ان چوبیس اوزان میں سے کسی وزن پر ہوں گے وہ رباعی ہے ورنہ ہر ایسے دو شعر جن کا پہلا، دوسرا ، چوتھا مصرع ہم قافیہ ہو رباعی نہیں ہے، اسے قطعہ کہیں گے ۔
 

الف عین

لائبریرین
پِنگَل

سنسکرت اور برج بھاشا میں جو علمِ عَروض ہے اسے پِنگل کہتے ہیں ۔یہ علم ہندی شاعری کے اوزان و قواعد کا ضابطہ ہے ۔ جس طرح عَروض میں سبب ، وتد ، فاصلہ وغیرہ اجزا ہیں اسی طرح پنگل میں بھی اجزا ہیں جن کی تعداد دو ہے اور یہ ’ لَگُھ‘ اور ’ گُرُ ‘ کہلاتے ہیں ۔ جس طرح اجزاے عروضی سے ارکان بنتے ہیں اسی طرح لگھ اور گر سے گَنَ مرتّب ہوتے ہیں ۔
لَگھُ : ایک حرفِ متحرّک کو لگھ کہتے ہیں ۔
گُرُ: ا ک حرف متحرک مع ایک ساکن کو گر کہتے ہیں ۔ گویا ’ گر‘ سببِ خفیف ہوا ۔
گَن: (اصل ’ گَنْڑ) یعنی ارکان۔
چھنْد : بحر اور اس کی اقسام کو کہتے ہیں ۔
چرن یا پَد: ایک مصرع کو کہتے ہیں ۔
اَنُپَّراس : قافیے کو کہتے ہیں ۔
تُکانُت : ردیف ہے ۔
پِرِتِّے : وہ آٹھ کلّیے ہیں جن کے ادراک کے بغیر چھندوں ( یعنی بحروں ) کے اصول پر عبور نہیں ہوتا۔
غرض پِنگل بھی علمِ عروض کی طرح ایک مبسوط و مکمّل اور محنت طلب علم ہے۔
مندرجۂ بالا معلومات کے لیے اِن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے:۔
۔۔۔ قواعد العروض مؤلفۂ قدرؔ بلگرامی
۔۔۔ تلخیصِ عروض و قافیہ مؤلفہ ٔ نظم طباطبائی
۔۔۔ میزانِ سخن مؤلفۂ حمیدؔ عظیم آبادی
۔۔۔ قواعدِ اردو مؤلفۂ مولوی عبد الحق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ارشاداتِ طباطبائی

دکھ جی کی پسند ہو گیا ہے ، غالبؔ
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے ، غالبؔ
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے ، غالبؔ
اس رباعی کے دوسرے مصرع میں دو حرف وزنِ رباعی سے زائد ہو گئے ہیں اور ناموزوں ہے ۔ مختلف چھاپے کے سب نسخوں میں بھی ، اور جس نسخے کی کاپیاں خود مصنف مرحوم کی صحیح کی ہوئی ہیں اس میں بھی یہ مصرع اسی طرح ہے ۔ اوزانِ رباعی میں سے جس وزن میں سببِ خفیف سب سے زیادہ ہیں وہ یہ مصرع مشہور ہے،ع۔۔۔ یا می گویم نامِ تو یا می گریم ۔ وزن پر اگر اس مصرع کو کھینچیں تو یوں ہونا چاہیے ، ع ۔۔۔ دل رک رک کر بند ہوا ہے غالب۔۔اور اس صورت میں زمین بدل جاتی ہے ۔ غالباً اسی فارسی مصرع نے مصنف کو دھوکا دیا ۔ اب خیال کرو غالبؔ سا موزوں طبع شخص اور نا موزوں کہہ جائے بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ جو عروض کہ فارسی و اردو کہنے والوں نے عربی کو ماخذِ علوم سمجھ کر اختیار کیا ہے یہ غرض عربی زبان ہی کے واسطے خاص ہے ۔ اردو کہنے والوں کو پنگل کے اوزان میں کہنا چاہیے جو زبانِ ہندی کے اوزانِ طبعی ہیں ۔ جانتا ہوں میرے اس مشورے پر شعراے ریختہ گوہنسیں گے اور نفرت کریں گے ۔ مگر اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ہندی زبان عربی کے اوزان میں ٹھونس کر شعر کہا کرتے ہیں اور ہندی کے جو اوزان طبعی ہیں اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے کوئی انگریزی قصیدہ بحرِ طویل میں کہے کہ کوئی انگریز اسے موزوں نہ کہے گا ۔
اس کے بر خلاف پِنگل کے سب اوزان ہم کو بھی موزوں معلوم ہوتے ہیں ۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ وہ سب اوزان ہمارے اوزان طبعی ہیں اور جن اوزان کو ہم نے اختیار کر لیا ہے ان وزنوں میں بہ تکلف ہم شعر کہتے ہیں اور ہماری شاعری میں اس سے بڑی خرابی پیدا ہو گئی ہے جس کی ہمیں خبر نہیں ۔ میں نے انگریزی کا ایک فقرہ دیکھا جو ہزج میں موزوں معلوم ہوا:
Let us stand still on pond or bank
لیکن جو لوگ اہلِ زبان ہیں ان کو سنایا تو انھوں نے کہا اس طرح موزوں نہیں ہے ۔
بعض لوگوں نے عربی کو فارسی والوں کے اوزان میں نظم کیا ہے ، مثلاً :
یا صاحبَ الجمالِ وَ یا سیّدِ البشر
لیکن جو لوگ عربی اشعار سے مزہ اٹھانے والے ہیں ان سے پوچھو ، ان کے نزدیک یہ مصرع نا موزوں ہے ۔ یا یہ سمجھو کہ وزن سے جو مزہ پیدا ہوجاتا ہے وہ اس میں نہیں پیدا ہوا ۔ وجہ یہ کہ اوزانِ مطبوع میں شعر ہو تو اہلِ زبان اس شعر کو شعر سمجھیں ۔ اور اوزانِ مصنوع کی کوئی انتہا ہی نہیں ۔ یہی حال پنگل والوں کی نظر میں اردو شاعری و اردو اشعار کا ہے کہ وزن سے جو مزہ آنا چاہیے وہ مزہ ان کو ہمارے شعر سے نہیں ملتا اور مختلف زبانوں کے مختلف اوزان ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہر زبان کا خاص لہجہ ہوتا ہے ۔ اس کے اسماء و افعال کے خاص اوزان ہوتے ہیں ، وزنِ شعر بھی لا محالہ جدا ہوگا ۔
مثلاً انگریزی میں عروض کا دار و مدار لہجے کے شدّت و رَخا پر ہے ، اعدادِ حروف و مطابقتِ حرکات و سکنات کو کچھ دخل نہیں ۔ اس کے بر خلاف عربی کا عروض ہے کہ اس میں محض مطابقتِ حرکات و سکنات و شمارِ حروف پر عروض کی بنا ہے ، شدّت وَرخائے لہجہ سے وزن میں کچھ خلل پیدا نہیں ہوتا ۔ ہندی میں اکثر الفاظ کے آخر میں حروفِ علّت ہوا کرتے ہیں ۔ انھیں حرفوں کے مد و قصر و حذف و وقف پر پنگل کی بنا ہے ۔قواعدِ پنگل میں اردو زبان کے لیے البتہ ایک دشواری ہے کہ ان لوگوں کے لہجے میں بعض حروف مثل‘ لام‘ و ’را ‘ وغیرہ کے ایسے خفیف اور مخلوط سے ہیں کہ ان حرفوں کا شمار حروفِ صحیح میں نہیں بلکہ ایک قسم کا اعراب سمجھتے ہیں ، بر خلاف اردو کے لہجے کے کہ ’لام‘ یا ’رے‘ کو مثلاً تقطیعِ شعر میں شمار نہ کریں تو وزن ہی باقی نہیں رہتا اتنا اثر عربی و فارسی کا اردو کے لہجے پر رہ گیا ہے ۔ میرے مزعوم پر ایک دلیل یہ ہے کہتفحص و استقراء کے بعد الفاظ اردو کے اجزا چارطرح کے پائے جاتے ہیں اور خود الفاظ پندرہ قسم کے:۔
( ۱ ) پہلا حرف متحرک ، اور دوسرا ساکن۔۔ جیسے چَل ، سُن ۔عروض کی اصطلاح میں اسے سببِ خفیف کہتے ہیں ۔
( ۲ ) پہلا حرف متحرک اور اس کے بعد دو ساکن ۔۔۔ جیسے بات ، زور ، شور ، ایک ، نیک وغیرہ ۔ اس کو اصطلاح میں سببِ متوسّط کہتے ہیں ۔
( ۳ ) پہلے دو حرف متحرک ، اس کے بعد ایک حرف ساکن۔۔۔ جیسے کہا ، سنا ، لیا وغیرہ۔ عروضی اسے وتدِ مجموع کہتے ہیں ۔
( ۴ ) پہلے دو حرف متحرک ، اس کے بعد دو حرف ساکن ۔۔۔ جیسے نشان ، مکان ، امیر ، وزیر ، حصول ، وصول وغیرہ ۔ شعرا اسے وتدِ کثرت کہتے ہیں ۔ اردو میں جتنے کلمات جس جس زبان کے پائے ہیں اور محاورے میں داخل ہیں یا تو وہ انھیں چار چیزوں میں سے کسی جزو کے وزن پر ہیں ، جیسے : تم یاد کرو مثال ۔۔۔ اور یا انھیں چاروں جزوں سے مرکب ہوتے ہیں ، مثلاً:۔
(۵ ) کسی کلمہ میں دو سببِ خفیف ہیں ، جیسے : ماتھا
( ۶ ) کسی میں تین سببِ خفیف ہیں ، جیسے : پیشانی
( ۷ ) کسی میں پہلا جزو سببِ خفیف ہے اور دوسرا متوسط ،جیسے : رخسار
( ۸ ) کسی میں عکس اس کا ، جیسے : کالبد
( ۹ ) کسی میں دونوں سببِ متوسّط ہیں ، جیسے : خاکسار
( ۱۰ ) کسی میں پہلا جزو وتدِ مجموع ، اور دوسرا سببِ خفیف ، جیسے : مسرّت
( ۱۱ ) کسی میں عکس اس کا ، جیسے : تہنیت
( ۱۲ ) کسی میں پہلا جزو وتدِ مجموع ، اور دوسرا سببِ متوسّط ، جیسے : خریدار
( ۱۳ ) کسی میں دونوں جزو وتدِ مجموع ہیں ، جیسے : موافقت
( ۱۴ ) کسی میں پہلا وتدِ کثرت ہے اور دوسرا سببِ خفیف ، جیسے : نیاریا
( ۱۵ ) کسی میں عکس اس کا ہے ، جیسے : اعتبار
بس ،کلماتِ اردو کے یہی پندرہ وزن ہیں ۔ تم کہوگے : غَلَبہ اور دَرَجہ بھی تو ایک وزن ہے ۔ اور حَیَوان و جَوَلان بھی تو وزن ہے ۔ نہیں ، ایسے الفاظ میں دوسرے متحرک کو ساکن کر کے بولتے ہیں ، یعنی وزن ان کا نا مانوس و ثقیل سمجھ کر مہنّد کر ڈالتے ہیں ۔ اور جب دوسرا حرف ساکن ہو گیا تو غلبہ و درجہ پانچویں قسم کے وزن میں اور حیوان و جولان ساتویں قسم کے وزن میں داخل ہو گیا ۔ اس وجہ سے کہ اردو کی زبان توالیِ حرکات کی متحمل نہیں ہے ۔ اور اسی وجہ سے(۱ ) سببِ ثقیل اور ( ۲ ) وتدِ مفروق اور( ۳ ) فاصلہ اردو کے الفاظ میں نہیں پایا جاتا ۔ یہ تینوں جزو الفاظِ عربی کے لیے مخصوص ہیں ۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ الفاظِ اردو کے اجزا چار ہی طرح کے ہیں اور سببِ ثقیل و وتدِ مفروق و فاصلہ کبھی اردو میں جزوِ کلمہ نہیں واقع ہوتا ، اور یہ بھی تم سمجھ گئے کہ تمام زبان بھر میں الفاظ کے پندرہ ہی وزن ہیں جس میں کہیں توالیِ حرکات نہیں پائی جاتی تو اب اوزانِ عروض پر لحاظ کرو ۔
مثلاً ایک وزن ہے : فَعِلُنْ فَعِلُنْ فَعِلُنْ فَعِلُنْ ۔ کہ یہ سارا وزن محض فواصل سے مرکّب ہے۔
اور ایک وزن ہے : مُتَفَاعِلُنْ مُتَفَاعِلُنْ مُتَفَاعِلُن ْ مُتَفَاعِلُنْ ۔کہ اس کے ہر رکن میں توالیِ حرکات موجود ہے ۔
اسی طرح اور ایک وزن ہے جس میں قصائد و غزلیات و واسوخت و مراثی بکثرت ہم لوگ کہا کرتے ہیں : فَعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ اس کے بھی ہر رکن میں توالیِ حرکات موجود ہے ۔
اب خیال کرو کہ ایسے ایسے اوزان میں جب ہم اردو کے الفاظ باندھیں گے تو ان الفاظ کی کیا گت ہوگی اور کن کن تکلفات سے اس میں توالیِ حرکات پیدا کرنا پڑے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ عمر بھر شعر کہوجب بھی ان اوزان میں فی البدیہہ کہنے کی قدرت نہیں حاصل ہوتی بخلاف عرب کے کہ ان کو یہ اوزان طبعی معلوم ہوتے ہیں اور ان کا فی البدیہہ کہنا مشہور و معروف بات ہے ۔
غرض کہ غالبؔ سے شاعرِ منفرد نے عمر بھر مشق کر کے بھی ان اوزان پر قابو نہ پایا اور وزن غیر طبعی ہونے کے سبب سے دھوکا کھایا ۔ اس رباعی کی شرح میں جو کچھ میں لکھ گیا ہوں وہ کتاب کے مختصات و سوانح و اوقات و مغتنمات میں سے ہے ، و ھذا ممّا تفردت بہ ۔۔۔
سہرے کا بھلا لگناذوقؔ نے اس طرح کہا ہے ؂
سر پہ طرّہ ہے مزیّن تو گلے میں بدّھی
کنگنا ہاتھ میں زیبا ہے تو منہ پر سہرا
’ کنگنا ‘ اس طرح باندھا ہے کہ فاعلن کے وزن پر ہو گیا اور محاورہ یوں ہے کہ نون و گاف مخلوط ہو کر ایک حرف ہو جاتا ہے اور فعلن کے وزن پر بولتے ہیں ۔ اسی طرح اردو میں اکثر الفاظ ہیں جن کے نظم کرنے میں شاعر کو تشویش پیدا ہوتی ہے ۔ کنگنے سے بڑھ کر رنگنے میں بکھیڑا ہے کہ یہ ایک ہندی مصدر فارسی لفظ سے بنا لیا ہے ۔ فیصلہ یہ ہے کہ رنگنے میں ، اور اس کے مشتقات میں ، جہاں جہاں گاف ساکن ہو وہاں دونوں طرح بولنا اور نظم کرنا درست ہے ۔
اور جہاں گاف متحرک ہو جائے وہاں ایک ہی صورت بس درست ہے ۔ آتشؔ مرحوم کے اس مصرع میں ، ع( رنگریز بن کے فکر نے رنگے ہزار رنگ )، رنگے کا لفظ بہ سبب اظہارِ نون کے خلافِ محاورہ سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں نون کا مخلوط رکھنا واجب ہے اور دوسرا اعتراض ناسخؔ والوں کا اس مصرع پر یہ بھی ہے کہ رنگریز فارسی لفظ ہے ، اس میں نون کو محاورۂ عوام کی بنا پر مخلوط کر دینا خلاف ہے ۔لفظ رنگریز میں محاورہ یہی ہے کہ نون و گاف دونوں مخلوط رہیں اور خلط نہ کرنا خلاف ہے ۔ اسی طرح بنگلہ اور انگیا میں بھی خلط ضرور ہے اور نون کا ظاہر کرنا خلافِ محاورہ ہے اس سبب سے کہ یہ ہندی الفاظ ہیں لیکن بہت سے اور ہندی لفظ ہیں امنگ ، النگ ،پتنگ ، ڈھنگ وغیرہ کہ اس میں نون و گاف دونوں لہجے میں ہیں ۔ ان الفاظ کو اس طرح نظم کریں کہ نون و گاف ایک حرف ہو جائے تو غلط ہوگا ۔غرض ہندی لفظوں میں محاورہ و لہجہ پر مدار ہے ۔ اور کنگنا محاورہ میں فعلن کے وزن پر ہے ، نہ فاعلن کے وزن پر ۔
میر وزیر علی صباؔنے صیدیہ مثنوی میں یہ مصرع کہاتھا ، ع ۔۔۔ پھر آیا بہادر جنگ اس کو خطاب ۔۔۔ اس پر نا موزوں ہونے کا اعتراض ان کے معاصرین نے کیاتھا کہ موزوں کر کے پڑھو تو نون کا کچھ پتا نہیں رہتا ۔ اور صباؔ سے کچھ جواب نہیں بن پڑا۔ مگر انصاف کرنا چاہیے کہ بہادر جنگ نام ہے ، اس کا ذکر شعر میں اہم اور ضروری ہے ۔ اور جس وزن میں مثنوی ہے اس وزن میں بہادر جنگ کا لفظ بے نون کے گرائے ہوئے کسی طرح سے آ ہی نہیں سکتا ، وزن ہی اس کا متحمل نہیں ہے تو ایسے وقت میں شاعر کیا کرے گا سوا اس کے کہ تصرّف کرے۔ ۔ ۔ ۔ یہ سچ ہے کہ ضرورتِ شعر کے لیے جو جو تصرف عرب کر جاتے ہیں فارسی و اردو والوں نے وہ سب تصرفات غیر مقبول و نا جائز قرار دیے ہیں ۔ لیکن یہاں تو ضرورتِ شعر سے بڑھی ہوئی ایک وجہ موجود ہے ۔ معترضین سے ہم کہتے ہیں کہ بہادر جنگ کو وہی موزوں کر کے دکھا دیں ۔ سوا اس کے کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے کہ، ع ۔۔۔ ملا دو بہادر سے تم لفظِ جنگ ۔۔۔ بھلا اس طرح نام کو توڑ پھوڑ ڈالنا اورعَلَمکی ترکیب میں تصرف کرنا کیونکرجائز ہو سکتا ہے ۔ پھر اس سے ہزار درجے وہی اچھا ہے کہ ایک ذرا سے نون کو گرا دیں ، جیسا صبا ؔنے کیا ہے ۔
اسی طرح علم میں سے ’ ع ‘ ، ’ ہ ‘ ، ’ ح ‘ کا گرانا بھی بہتر ہوگا بہ نسبت تصرف کرنے کے ۔ جیسے آقا طوباے شوستری نے یہ مصرع کہا ہے ، ع ۔۔۔
در زمانِ حضرتِ محبوب علی شاہِ دکن ۔
 

الف عین

لائبریرین
شرحِ کلامِ غالبؔ از طباطبائی
گریہ نکالے ہے تری بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے
یہ وزن مانوس اوزان میں سے نہیں ہے ۔ اس وجہ سے کاتب نے اپنے وزنِ مانوس کی طرف پہلے مصرع کو کھینچ لیا ہے ۔ اور سب نسخوں میں ’ تری ‘ بغیر ’ یا ‘ چھپا ہوا ہے ، لیکن اس میں قباحت ہے کہ دوسرا رکن فاعلاتُ ہونا چاہیے تھا ۔ اس کی جگہ پر مفتعلن ہو جاتا ہے۔ تو ضرور ہے کہ’ تیری ‘ کہا ہوگا مصنف نے ، اور اس صورت میں و ز ن مستقیم رہتا ہے کہ ’ تیری ‘ میں سے آخر کی ’ ی ‘ کو گرا دیں اور درمیان کی ’ ی ‘ باقی رکھیں ۔
( استدراک :۔ ’ بحر کا نام ہے منسرح مطوی منحور ۔ ’ چراغِ سخن ‘ میں زحافِ نحر کا ذکر ہے ۔ یہ اصطلاح ’ میزان الافکار ‘ اور ’ حدایق البلاغت ‘میں نہیں ملی ۔ مگر بات صحیح ہے ۔ دوسروں نے کچھ اور نام رکھا ہے ۔ اس بحر کی اصل دایرے میں مستفعلن مفعولات چار بار ہے۔ مستفعلن زحافِ طی سے مفتعلن ہو گیا اور مفعولات زحافِ نحر سے فع رہ گیا ۔ اس طرح وزن مفتعلن فع پیدا ہوا ۔ اس کا نام ہوا بحر منسرح مطوی منحور،غالبؔ کے مصرع :گریہ نکالے ہے تری بزم سے مجھ کو ‘ پرنظمؔطباطبائی نے اپنی شرح میں مفصل نوٹ لکھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب ان کا یہ ہے کہ دوسرے رکن میں فاعلات ُپیدا کرنے کے لیے ’ تیری ‘ کی آخری ’ ی ‘ گرا کر ’ تے رِ ‘ پڑھنا چاہیے۔ یعنی اس طرح تقطیع کرو۔گری ن کا ۔۔ ۔۔۔۔۔۔! مفتعلن ۔ لے ہ تے رِ ! فاعلاتُ ۔ بزم سے مجھ ! مفتعلن ۔ کو ! فع’ تیری ‘ پڑھنے سے جو وزن پیدا ہوتا ہے وہ ’ مفتعلن مفتعلن مفتعلن فع ، منسرح کا وزن نہیں ہے ۔ یہ سب ارکان رجز کے ہو جاتے ہیں ۔ یہ وزن مانوس ہے ، خوش آیند ہے ، غلط نہیں معلوم ہوتا ۔ مگر قباحت یہ ہے کہ ساری غزل تو بحرِ منسرح میں ہے اور اسی کا ایک مصرع بحرِ رجز میں ‘ ۔ (حبیب الرحمٰن الصدّیقی میرٹھی ، ’ مکاتیبِ حبیب ‘ ، مکتوب بنام ذکاؔ صدّیقی ،ص ۸۴ )
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں
لکھنؤ اور دہلی کی زبان میں جو بعض الفاظ میں فرق ہے ان میں سے ’ تیوری ‘ کا لفظ بھی ہے ۔ مصنف نے زبانِ دہلی کے موافق اسے موزوں کیا ہے اور لکھنؤ میں ’ ی ‘ کو ظاہر نہیں کرتے ۔ یعنی دہلی میں ’تیوری ‘ فاعلن کے وزن پر ہے اور لکھنؤ کی زبان میں فعلن کے وزن پر ہے ۔
دی سادگی سے جان ، پڑوں کوہکن کے پانو
ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گئے پیر زن کے پانو
کسی کی مصیبت پر جوشِ محبت میں کہتے ہیں کہ : ہے ہے ، میں اس کے پاؤں پڑوں ۔ اور یہ بڑے محاورے کا لفظ ہے ۔ اور التجا کے لیے تو پاؤں پڑنا مشہور بات ہے ۔ اس شعر میں مرزا صاحبؔ ہیہات کا لفظ ضلع کا بول گئے ہیں مگر کیا کرتے ، مصرع میں ایک رکن کم پڑتا تھا ۔
بتا ؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار
یہ نیش ہو رگِ جاں میں فرو تو کیونکر ہو
اردو کے مذاق میں مژہ کی ’ ہ ‘ کا گرنا برا معلوم ہوتا ہے ۔ مصنف نے یہاں فارسی گویوں کا اتباع کیا ہے اس شعر میں نہایت تعقید ہے ۔ اس کو نثر میں یوں کہیں گے کہ اس کی مژہ دیکھ کر یہ بتاؤ کہ ایسے نشتر رگِ جاں میں فرو ہوں تو قرار مجھ کوکیونکرہو۔
نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
’ خاموشی ‘ کی ’ ی ‘ وزن میں نہیں سماتی ۔ اس سے مصنف کا یہ مذہب ظاہر ہوتا ہے کہ فارسی لفظ کے بھی آخر میں سے نظمِ اردو میں حروفِ علّت کا گر جانا وہ جایز سمجھتے تھے ۔ مگر سارے دیوان بھر میں ’’الف‘‘ کو یا ’’واو‘‘ کو مصنف نے لفظ فارسی سے نہیں گرنے دیا ہے ۔
ہے وصل ہجر ، عالمِ تمکین و ضبط میں
معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے
اگر اس( دوسرے ) مصرع کو دونوں اضافتیں چھوڑ کر پڑھیں تو مصرع جب بھی موزوں رہے گا، یعنی ’’فاعلاتُ مفاعیل‘‘ کی جگہ ’’ فاعلاتن مفعول ‘‘ آ جائے گا ۔
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے
’ سی ‘ معنیِ تشبیہ کے لیے ہے یعنی تو تشبیہِ جسمانیات سے منزّہ ہے۔ سی کی ’ ی ‘ جس جگہ واقع ہوئی ہے یہ مقام حر فِ متحرک کا ہے، یعنی مفعولُ مفاعلن فعولن میں مفاعلن کے میم کی جگہ ’ ی ‘ واقع ہوئی ہے ۔ او ر ’ ی ‘ ساکن ہے ۔ تو گویا کہ مفاعلن کے میم کو مصنف نے ساکن کر لیا ہے ۔ یعنی مفعولُ مفاعلن کے بدلے مفعولم فاعلن اب ہو گیا ہے جسے مفعولن فاعلن سمجھنا چاہیے ۔ یہ زحاف گو اردو فارسی میں نا مانوس معلوم ہوتا ہے مگر سب لایا کرتے ہیں ۔ نسیمؔ لکھنوی کی مثنوی اسی وزن میں ہے اور جا بجااس زحاف کو لائے ہیں ۔
شاد دل شاد ، و شادماں رکھیو
اور غالبؔ پہ مہرباں رکھیو
رکھنا کے مقام پر رکھیو ابھی تک محاورے میں جاری ہے بلکہ فصحا کی زبان ہے ۔ مونس ؔ کہتے ہیں ؂
دیجو نہ سرکشوں کو ا ماں ،اے دلاورو
ا عدا سے چھین لیجو نشاں اے دلاورو
جیتے نہ پھریو ، صدقے ہو ماں اے دلاورو
جانوں پہ کھیل جائیو ہاں اے دلاورو
میری تمھیں میں جان ہے گو بے حواس ہوں
تم مڑ کے دیکھ لو کہ میں پردے کے پاس ہوں
پانچویں مصرع میں ’ ہے ‘ کے بعد ’ گو ‘ اور پھر ’ ے ‘ تقطیع میں گر گئی ، نہایت مکروہ لفظ پیدا ہوتا ہے ۔ مونس ؔ مرحوم سے بعید ہے ۔ چوک جانے کی وجہ غالباً یہ ہوئی ہے کہ میر انیسؔ کے طرز میں پڑھتے وقت پانچویں مصرع کے درمیان میں ضرور وقف کیا کرتے ہیں اور جب ’ ہے ‘ پر وقف کر دو تو پھر نظر چوک جاتی ہے اور تقطیع میں جو قباحت ہو گئی ہے وہ چھپ جاتی ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
قافیہ و ردیف
صرف اُن چند اصطلاحات کامختصر تعارف جو تشریح کے دوران میں استعمال ہوئی ہیں

قافیہ
اصطلاحِ شاعری میں ایسے کلمات ایک دوسرے کا قافیہ کہلاتے ہیں جو متشابہ الاواخر ہیں ، جیسے: در اور بر ؛ چبانا اور دبانا ؛ کھولنا اور بولنا ؛ سردی اور زردی ۔ جبر کا قافیہ صبر ہوگا لیکن فخر اور بکر نہیں ہوگا کیونکہ تشابہ مفقود ہے ۔
حرفِ روی​
قافیوں کا دارو مدار جس حرف پر ہوتا ہے اسے ’روی‘ کہتے ہیں ۔ در اور بر میں ’ ر ‘ جوقافیے کے آخر حروف ہیں ، حروفِ اصلی ہیں ، اور مکرر آتے ہیں ۔یہ ’ ر ‘ حرفِ روی ہوئی ۔ اسی طرح چبانا اور دبانا میں ’ انا‘ توزائد حروف ہیں لیکن چب اور دب کی ’ ب ‘ حرفِ روی ہے ۔ کھولنا اور بولنا میں ’ نا ‘ حروفِ زائدہ اور ’ لام ‘ حرفِ روی ہے ۔
قافیۂ معمولہ
بوستان اور ہندوستان میں ’ واو ‘ حرفِ روی ہے ،ما بعدِ روی چار حروف زائد ہیں ۔ لیکن بوستاں کے ساتھ دوستاں کا قافیہ درست نہیں ہوگا ۔ اسے قافیۂ معمولہ کہتے ہیں کیونکہ بوستاں میں ’ واو ‘ اور دوستاں میں ’ ت ‘ روی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ تکرارِ روی میں خلل آگیا ، اور اسے عیوبِ قافیہ میں شمار کرتے ہیں ۔قافیۂ معمولہ کی دو قسمیں ہیں : ۔
(۱ )قافیۂ معمولہ ترکیبی
ایک کلمے کے ساتھ دوسرا کلمہ بڑھا کر قافیہ بنانا ۔ مثلاً پروانہ ہوا ، دیوانہ ہوا کے ساتھ اچھانہ ہوا ۔
( ۲ ) قافیۂ معمولہ تحلیلی
ایک لفظ کے دو ٹکڑے کریں ، پہلے کو داخلِ قافیہ کریں اور دوسرے کو ردیف میں شامل کر دیں ،مثلاً ؂
لپٹ جاتے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے
الٰہی ، یہ گھٹا دو دن تو برسے
۔ ۔۔ڈر سے اور برسے قافیۂ معمولہ تحلیلی ہیں ۔
توجیہ
حرفِ روی سے پہلے جو حرکت ( زیر ، زبر یا پیش ) ہوتی ہے اسے توجیہ کہتے ہیں ۔اس حرکت کا اختلاف ناجائز ہے ، اسی کو اختلافِ توجیہ کہتے ہیں ،۔نیز اسی عیب کو اقوا بھی کہتے ہیں ۔ مثالیں : دِل کا قافیہ گُل، طُول کا قافیہ ہَول ، دَشت کا قافیہ زِشت وغیرہ ۔
ایطا
ہم جان چکے ہیں کہ روی حروفِ اصلی کا آخر ، اور زائد حروف سے پہلے ہوتا ہے ۔ چنانچہ ’ حاصلات ‘ اور ’واقعات‘ میں سے زائد حروف ،یعنی( ’ات ‘ ) نکال دیں تو ’ حاصل‘ اور ’ واقع ‘ باقی رہتے ہیں ،ظاہر ہے کہ یہ قافیہ نہیں ہیں ۔اسی کو ایطا کہتے ہیں ۔ اس کے بر خلاف ’حاصلات‘ اور ’فاضلات ‘ میں ’ل ‘ روی ہے ۔ زوائد کو حذف کرنے کے بعد حاصل اور فاضل باقی رہتے ہیں اور یہ قافیہ ہیں ، اس لیے اس میں ایطانہیں ہے ۔

ایطا کی دو قسمیں ہیں :۔
( ۱ ) ایطاے خفی: جب متحد المعنی کلمۂ آخر کی تکرار بظاہر معلوم نہ ہو تو وہ ایطاے خفی ہے ۔ جیسے: دانا اور بینا ، حیراں اور سر گرداں ، آب اور گلاب ۔
( ۲ ) ایطاے جلی: جب متحد المعنی کلمۂ آخر کی تکرار صاف ظاہر ہو تو وہ ایطاے جلی ہے ۔ جیسے: درد مند اور حاجت مند میں کلمۂ ’ مند ‘ یا جانا اور رونا میں کلمۂ ’ نا ‘ یا ستمگر اور دادگر میں ’ گر ‘ ۔ اگر ان آخری کلمات کو الگ کر دیں تو قافیہ باقی نہیں رہتا ۔زائد حروف کو اصلی حروف کے ساتھ قافیہ کرنا ہی قافیۂ شائگاں ہے ۔ دیگر مثالیں : دلیران اور مردمان کو جان اور زمان کے ساتھ قافیہ کرنا ؛ آہنین اور رنگین کو نسرین اور چین کے ساتھ قافیہ کرنا ، وغیرہ۔
ردیف
اصطلاحِ شاعری میں وہ کلمۂ مستقل ردیف کہلاتا ہے جو آخرِ مصرع میں قافیے کے بعد آتا ہے ۔ردیف کا ایک ہی معنی میں مستقل لفظ کی حیثیت سے ہونا ضروری ہے ورنہ اس پر قافیے کا اطلاق ہوجائے گا ۔تاہم صرف تکرارِ لفظی ضروری ہے ، تکرارِ معنی لازم نہیں مثلاً غالبؔ کے یہ دو شعر دیکھیے:
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں رو شناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِجاوداں کے لیے
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا ، مری جو شامت آے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے
دونوں شعروں میں ردیف دو مختلف معنوں میں آئی ہے ۔
شعر میں ردیف کا لانا ضروری نہیں ، لیکن قافیے کا ہونا ضروری ہے ۔گویا قافیہ رکنِ شعر ہے اور ردیف مستحسنات میں ہے ۔ فارسی اور اردو میں ردیف تال اور سَم کا کام دیتی ہے ۔ جس طرح راگ میں تال نہ ہو تو بد مزہ ہے ، یہی حالت اردو شعر کی ہے ۔ البتہ ردیف کے التزام کے لیے بہت بڑا قادر الکلام ہونا ضروری ہے ۔ ورنہ ردیف کے التزام کے ساتھ آمد اور بے ساختگی قائم نہیں رہتی ، لیکن اگر یہ خوبی ہاتھ سے نہ جانے پائے تو ردیف سے شعر چمک جاتا ہے ۔

مندرجۂ بالا معلومات اِن کتابوں سے اخذ کی گئی ہیں :۔
تلخیصِ عروض و قافیہ مؤلفۂ علّامہ نظم طباطبائی
جانِ سخن مؤلفہ مولوی سید غضنفر حسین عروجؔ بھرتپوری
میزانِ سخن مؤلفۂ حمیدؔ عظیم آبادی
موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ مؤلفۂ مولانا شبلی نعمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
شرحِ کلامِ غالبؔ از طباطبائی​

شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
مزہ اور شور، . نمک کے مناسبات میں سے ہیں ۔ مصنف نے ’مزہ ‘ کو قافیہ کیا اور ہاے مختفی کوالف سے بدلا ۔ اردو کہنے والے اس طرح کے قافیے کوجائزسمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ قافیہ میں حروفِ ملفوظہ کا اعتبار ہے ۔ جب یہ ’ہ ‘ ملفوظ نہیں بلکہ ’ز‘ کے اشباع سے الف پیدا ہوتا ہے تو پھر کون مانع ہے اسے حرفِ روی قرار دینے سے ۔ اسی طرح سے فوراً اور دشمن قافیہ ہو جاتا ہے گو رسم خط اس کے خلاف ہے ۔ لیکن فارسی والے مزہ اور دوا کا قافیہ نہیں کرتے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ ہاے مختفی کو کبھی حرفِ روی ہونے کے قابل نہیں جانتے ۔
دل گذر گاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادۂ سر منزلِ تقویٰ نہ ہوا
تار اور رشتہ اور خط اور جادہ نفس کے تشبیہات میں سے ہے ۔قافیہ ’تقوےٰ ‘ میں فارسی والوں کا اتباع کیا ہے کہ وہ لوگ عربی کے جس جس کلمے میں ’ی ‘ دیکھتے ہیں اس کو کبھی الف اورکبھی ’ی‘ کے ساتھ نظم کرتے ہیں ۔ تمنی و تمنیٰ ، تجلی وتجلّیٰ، تسلی وتسلّٰی، ہیولی و ہیولیٰ اور دنیی و دنیا بکثرت ان کے ٖکلام میں موجود ہے ۔
رہ زنی ہے کہ دل ستانی ہے
لے کے دل ، دل ستاں روانہ ہوا
’ روانہ ‘ میں ’روا ‘ قافیہ ہے اور ’ نہ ‘ جزوِ ردیف تھا جو یہاں لفظ ’ روانہ ‘ کا جزو واقع ہوا ہے ۔ اصطلاح میں ایسے قافیے کو قافیۂ معمولہ کہتے ہیں ۔ قواعدِ قافیہ میں اسے عیب لکھتے ہیں لیکن اب تمام شعرا اسے صنایع لفظیہ میں جانتے ہیں اور بے تکلف استعمال کرتے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ قافیۂ معمولہ سے شعر سست ہوجاتا ہے ۔ نیز دیکھیے:
کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں غالب
بدی کی اُس نے ، جس سے ہم نے کی تھی بار ہا نیکی ( ص۱۴۴)
یہ غزل اپنی مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ
ہے ردیفِ شعر میں غالبؔ ز بس تکرارِ دوست
جو لفظ کہ آخرِ شعر میں قافیے کے بعد مکرر آئے اسے ردیف کہتے ہیں ۔ قافیوں میں باہم دگر تشابہ ہوتا ہے اور ردیف میں تکرار ہوتی ہے اور قافیہ رکنِ شعر ہے اور ردیف مستحسنات میں ہے ۔ عرب و فارس و ہند میں شعرا تعریفِ شعر میں کلامِ موزوں کو مقفّیٰ کہتے ہیں اور اہلِ منطق کلامِ مخیّل کو شعر کہتے ہیں خواہ وزن و قافیہ نہ ہو ۔ شعرا کی اصطلاح میں ہر کلامِ موزوں با قافیہ شعر ہے خواہ تخییل نہ ہو ۔ وجہ اختلاف کی یہ ہے کہ منطق یونانی سے ترجمہ ہوئی ہے اور یونانیوں میں شعر کے لیے قافیہ ضرور نہ تھا اور اگر تخییل میں وزن ہے تو اسے شعر سمجھے اور جو وزن نہ ہو تو قضیۂ شعر کہتے تھے ۔ ہند و ایران کے شعرا وزنِ بے قافیہ کو نثرِ مرجّز کہتے ہیں ۔
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں
لفظ ’ کافَر ‘ میں اہلِ زبان ’ ف ‘ کو زیر پڑھتے ہیں لیکن عجم کا محاورہ زبر ہے ۔ اسی سبب سے اس کو ساغر کے ساتھ قافیہ کرتے ہیں ۔ ایک یہ لفظ اور ایک لفظ ’ ظاہر ‘ کو قا آنیؔ نے ’ساغر ‘ کے ساتھ قافیہ کیا ہے اورروی ( یعنی رے ) متحرّک ہے اور اسی طرح ایک شعر یہ مشہور ہے ۔
آدمی را آدمیت لازم است
عود را گر بو نباشد ہیزم است
اس شعر میں بھی میم جو کہ حرفِ روی متحرک ہے اس سے یہ استنباط نہ کرنا چاہیے کہ جہاں روی متحرک ہو جائے وہاں اختلافِ توجیہ یعنی حرکت ما قبلِ روی کا اختلاف درست ہے اور یہ بھی خیال نہ کرنا چاہیے کہ ضرورتِ قافیہ کے لیے مکسور کو مفتوح کر لینا درست ہوگا بلکہ یہی الفاظ مخصوص سمجھنا چاہیے اس حکم کے لیے ۔
مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بقولِ حضور
’ ’ فرا قِ یار میں تسکین ہو تو کیونکر ہو ‘‘
دوسرا مصرع حضور(بہادر شاہ ظفرؔ) کا ہے اور زمین فرمایشی ہے جس میں قافیہ ندارد ۔ مصنف نے کمال کیا کہ اس زمین میں فرمایش کو پورا کیا لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ استادِ کامل کے لیے سب کچھ روا ہے ورنہ ’ گفتگو ‘ اور ’ کہو ‘ اور ’ دو ‘ اور ’ دیدار جو ‘ اور ’ غالیہ مو ‘ وغیرہ قافیوں سے احتراز کرنا بہتر ہے ۔
نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
اس مطلع کے قافیے ’ سنانا ‘ اور ’ بنانا ‘ کو ایطا کہتے ہیں اس وجہ سے کہ دونوں لفظوں میں الف زاید ایک ہی طرح کا ہے ۔ یعنی معنیِ تعدیہ کے لیے ہے اور ساری غزل میں ستائے نہ بنے ، اور آئے نہ بنے ، اور بلائے نہ بنے کے سب قافیے شائگاں ہیں یعنی سب میں الف تعدیہ ہے ۔ حاصل یہ کہ ساری غزل بھر میں چارہی قافیے ہیں جس میں ایک شائگاں ہے جو سات جگہ بندھا ہے ۔
دل لگاکر آپ بھی غالبؔ مجھی سے ہو گئے
عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحَب مجھے
آپ بھی یعنی وہ خود بھی ۔ ’ آپ ‘ یہاں محل خطاب میں نہیں ہے ۔ میرزا صاحب طعن سے غالبؔ کو کہا ہے ۔ یہاں مصنف نے ’ صاحب ‘ کو’ مطلب ‘ کا قافیہ عام محاورے کی بنا پر کیا ہے کہ محاورے میں ’ ح ‘ کومفتوح بول جاتے ہیں ۔ اگر کوئی کہے کہ عربی وفارسی لفظوں میں محاورۂ عام کا تتبع کرنا خطا ہے ، نہیں تو یہ مصرع بھی درست ہو جائے گا ، ع۔۔ سَخَت دل کو اپنے نَرَم کیجیے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس شعر کو مصنف نے اپنا قول نہیں قرار دیا ہے بلکہ دوسرے شخص کی زبانی ہے اور شوخی یہ کی ہے کہ اس کا کلام بعینہ نقل کر دیا ہے ۔ ورنہ غالبؔ پر یہ گمان کرنا کہ لفظ ’ صاحب ‘ کے کسرہ سے ناواقف تھے خطا ہے ۔ البتہ فارسی دیوان میں یہ شعر مصنف کا ؂
نامہ بنازد بہ خویش ، کز اثرِ فیضِ مدح
نقطہ ز بس روشنی تابشِ نیّر گرفت
اختر گرفت ، و اخگر گرفت کی زمین میں کوئی تاویل عیبِ اقوا سے بری ہونے کی نہیں رکھتا ، اس سبب سے کہ اور سب قافیوں میں حرکتِ توجیہ زبر ہے۔ اور ’ نیّر‘ میں زیر ہے ۔ اساتذہ. اہلِ زبان جو عربی داں گذرے ہیں انھیں ایسا دھوکا ہو جائے ممکن نہیں ۔ ہاں جو زبانِ عربی سے نا آشنا ہیں اگر ان کے کلام میں نےّر کہیں اختر کے ساتھ آ بھی گیا ہو تو قابلِ استناد نہیں ہو سکتا اس سبب سے کہ عربی میں لفظِ عجم کا تصرف نامقبول ہے سوا چند محاوروں کے کہ وہاں حکم عجمہ پیدا ہو گیا ہے ، جیسے کافر ہے ۔
( استدراک:۔ ’ مولانا نجم الغنی خاں نے بحر الفصاحت۔ ص ۲۵۵ ) میں لکھا ہے :ِِ توجیہ کے اختلاف کا نام اقوا ہے ۔جیسے ’گل‘ کا قافیہ ’چل‘ بالفتح سے کر نا ۔ اور یہ عیوبِ قافیہ میں شمار ہوتا ہے۔ اس طرح کا قافیہ لانا ناروا ہے جیسے عندلیبِ عجم ، مرزا غالبؔ کے کلام میں ایک جگہ واقع ہوا ہے۔ لکھتے ہیں : عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے۔ لفظ ۔۔۔۔... صاحب کی حاے حطی باعتبار قواعدِ صرف کے مکسور ہے او ر ’ لب ‘ ’ یا رب ‘ میں لام اور رے مفتوح۔(لب اور یا رب اس غزل کے دیگر قوافی ہیں ۔۔ذکا ) ...اور راقم نے ( ۱۳۰۲ ھ میں ) نواب مرزا خاں صاحب داغؔ سے اس باب میں استفسار کیا تو جواب دیا کہ غالبؔ نے مقولۂ غیر بیان کیا ہے ، اور مثال میں یہ شعر ناظم ؔ کا پڑھا ؂
غلطی غیر کی گفتار کی دیکھی ناظم
واں میں جاتا ہوں تو کہتا ہے: نواب آتے ہیں
اور حق یہ ہے کہ اب روز مرّہ. اردو میں ’ صاحب‘ اعلام کے ساتھ بفتحِ حاے حطّی بیشتر مستعمل ہے ۔ ہم کو اس سے کیا مطلب کسی زبان میں کچھ ہو ۔۔۔ جو الفاظ ہم لوگوں کی زبان پر جاری ہوں گے ، وہ ہی صحیح سمجھے جاویں گے ۔ ہاں ، جس وقت عربی عبارت میں لکھیں ، یا تلفظ کریں ، اس وقت ان کی زبان کی پابندی لازم ہے ۔ البتہ صحتِ لفطی ضرور ہے ۔ ( بہ حوالہ نسخۂ عرشی ، ص ص ۲۷۳ و ۲۷۴ )
آمدِ سیلاب طوفانِ صدائے آب ہے
نقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے
اس مصرع میں : نقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے ۔۔۔ یہ ضرور ہے کہ’ دال ‘کو زیر دیں اور ’ جادے سے ‘ کہیں ۔ اس لیے کہ سے ، میں ، پر ، تک ، کو ، نے ، کا ، یہ سات حروفِ معنویہ زبان اردو میں ایسے ہیں کہ جس لفظ میں ہاے مختفی ہو اسے زیر دیتے ہیں ۔ غرض کہ اس مصرع میں تو ’ جادہ ‘ کی دال کو زیر ہے ، اور اس کے بعد کا جو شعر ہے اس میں کہتے ہیں ، ع شیشے میں نبض پری پنہاں ہے موجِ بادہ سے ۔۔ ۔ ۔یہاں بادہ اضافتِ فارسی کی ترکیب میں واقع ہے اور موج کا مضاف الیہ ہے۔ اب اس پر ترکیبِ اردو کا اعراب یعنی ’ سے ‘ کے سبب سے زیر نہیں آ سکتا۔ اس لیے کہ اگر ’ موجِ بادے سے ‘ اسے پڑھیں تو یہ قباحت ہوگی کہ لفظ ’ بادہ ‘ میں ہندی تصرف کر کے اور اسے ہندی لفظ بنا کر ترکیب اضافت فارسی میں داخل کیا ، بعینہ جیسے کو ئی کہے ’ عشقِ بتوں میں یہ حال ہوا ‘۔ اور یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کیونکہ لفظ ’ بت ‘ میں ہندی تصرف کیا ہے اور ہندی جمع کی علامت اس میں بڑھائی ہے۔ اب وہ ہندی لفظ ہو گیا ۔ پھر ہندی لفظ کی طرف عشق کی اضافت کیونکر درست ہوسکتی ہے ۔اس کے علاوہ ’ سے ‘ کا عمل اگر ہے تو لفظِ موج پر ہے یعنی مطلب یہ ہے کہ ’ موج سے بادہ کی ‘ ۔ پھر ’ سے ‘ کے سبب سے بادہ کی دال کو زیر کیوں ہونے لگا ۔ غرض کہ جادہ کی دال کو زیر ہے اور بادہ کی دال کو زبرہے اورقافیے تہ و بالا ہیں ۔ اگر یوں کہو کہ ہم بادہ اور جادہ کی ’ ہ ‘ کو حرفِ روی لیتے ہیں تو اختلافِ توجیہ کے علاوہ ایک عیب یہ پیدا ہوگا کہ شعر بے قافیہ کے رہ جائے گا ، اس سبب سے کہ ’ و ‘ وزن سے گرگئی ہے ۔ جیسے حکیم مومن خاں صاحب ایک مثنوی میں دونوں کے باہمدگر عاشق ہو جانے کے بیان میں کہتے ہیں ؂
اس کا ہوش اپنے رنگ کا پیرو
اپنا صبر اس کے رنگ کا پیرو
اس شعر میں ’ اس کے ‘ اور ’ اپنے ‘ کو قافیہ کیا ہے اور حرفِ روی یعنی ’ ے ‘ وزن میں نہیں سماتی ۔ اب ’ اسک ‘ اور ’ اپن ‘ قافیے کی جگہ رہ گیا ۔ میر حسنؔ نے بھی یہ دھوکا کھایا ہے ؂
تو کہنے لگی مسکرا اس کو وہ
گرا اس طرف سے قدم پر جو وہ
ہمیں پھر ان سے امید اور انھیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیونکر ہو
یعنی ہمیں امید کیونکر ہو اور انھیں قدر کیونکر ہو ۔ بندش میں تعقید ہے اور ’ وہ ‘ کی ’ ہ ‘ کو قافیے کے لیے وا و بنا لیا ہے اس لیے کہ یہ ’ ہ ‘ تلفظ میں نہیں ہے بلکہ اظہارِ حرکتِ ما قبل کے لیے ہے جیسی ’ ہ ‘ لالہ و ژالہ و نہ و کہ وغیرہ میں ہے تو دوسر ا واو محض اشباعِ حرکت سے پیدا ہو ا ہے اور وہی یہاں حرفِ روی ہے جس طرح دریا کا قافیہ ’ لا ‘ کریں اورحرکتِ لام کے اشباع سے جو الف پیدا ہو وہی حرفِ روی قرار دیں ۔ لیکن میرؔ کی زبان پر ’ وہ ‘ کا لفظ بفتحِ واو تھا ۔ اور ’ ہ ‘ ملفوظ تھی ۔ یہ شعر ان کا شاہد ہے ؂
کہتا ہے کون تجھ کو یاں یہ نہ کر تو وہ کر
پر ہوسکے تو پیارے دل میں بھی ٹک جگہ کر

کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں ، غالب ؔ
بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی
اس غزل کے سب شعروں میں ’ کی‘ جز وِردیف تھا اور اس شعر میں جزوِِ قافیہ ہو گیا ہے ۔ قواعدِ قافیہ میں اس قسم کے قافیے کو معمول کہتے ہیں اسے عیوبِ قافیہ میں شمار کیا ہے ۔ ( اس سے پہلے صفحہ۱۳۹ پر یہی عیب مصرع: لے کے دل ، دل سِتاں روانہ ہوا ۔۔۔ میں ملاحظے سے گذر چکا ہے ۔) لیکن شعراے تصنّع پسند اسے ایک صنعت سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ اہلیؔ شیرازی نے ساری مثنویِ ’سحر حلال‘ میں ہر ہر شعر میں قافیۂ معمولہ کا بھی التزام کر لیا ہے ۔ اور اسی طرح مفتی میر عباس مغفور نے عربی کی مثنوی ’ مرصع ‘ میں قافیۂ معمولہ کی قید کو لازم کر لیا ہے ۔
وفائے دلبراں ہے اتّفاقی ، ورنہ اے ہمدم
اثر فریادِ دلہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے
اس شعر میں ’ دیکھا ‘ قافیۂشائگاں ہے یعنی الف اصلی نہیں ہے بلکہ علامتِ فعلِ ماضی ہے ۔ اسے مفت کا قافیہ کہتے ہیں اور سست سمجھتے ہیں ۔

بے طلب دیں تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچّھا ہے
غزل اور قصیدے میں اس کا خیال رکھنا اچّھا ہے کہ مطلع کے بعد پھر دونوں مصرعوں میں ایسا تشابہ نہ ہونے پائے جیسا مصنف کے اس شعر میں ہو گیا ہے کہ جس نے اور شعر نہ سنے ہوں وہ مطلع سمجھے اسے بھی۔یعنی ’ ملتا ‘ اور ’ اچّھا ‘ یہ دونوں لفظ قافیہ معلوم ہوتے ہیں اور ’ ہے ‘ ردیف ۔ جس کو مذاقِ صحیح ہے وہ ضرور اس نکتے کی قدر کرے گا کہ اس سے شعر کی بندش میں سستی پیدا ہوتی ہے اس وجہ سے کہ مطلع کے بعد دونوں مصرعوں کا مبا ین ہونا شرط ہے اور اس میں شک نہیں کہ زمین کے اعتبارسے اس شعر میں بھی مباینت بقدرِ کافی ہے ۔ لیکن اگر اتنی مشابہت بھی نہ ہوتی تو اور بھی اچھا تھا ۔
 

الف عین

لائبریرین
ارشادات طباطبائی

میر محمد حسین صاحب آزادؔ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ، کروں ہوں اور مروں ہوں ،دہلی میں بھی عرصے سے غیر فصیح سمجھتے ہیں ۔ پھر ایک جگہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اساتذۂ دہلی کے کلام میں آئے ہے ، جائے ہے اکثر ہے مگر اخیر کی غزلوں میں انھوں نے بھی بچاؤ کیا ہے ۔ اسی طرح ’ کروں ہوں اور پھروں ہوں ‘ جیسا مصنف نے کہا ہے ، یا تم آؤہو ، جاؤ ہو : یا ہم کھائے ہیں اور پیے ہیں یہ سب محاورے البتہ غیر فصیح ہیں اور اہلِ لکھنؤ تو کیا تمام ہندوستان کے کان اس کے سننے کے متحمل نہیں ۔ مگر دلّی کی زبان پر باقی ہیں ۔ ۔۔’’ ریاض الاخبار ‘ ‘ ( گورکھپور ) میں دلّی کی آئی ہوئی ایک غزل شایع ہوئی کہ مصنف اس کے ذوقؔ مرحوم کے نواسے ہیں ۔ اس کا مطلع یہ ہے
کہے ہے برقِ تجلّی لُٹا لُٹا کے مجھے
یہی ہیں دیکھنے والے نظر اٹھا کے مجھے
مگر بقولِ آزادؔاکثر اب یہی ہے کہ اہلِ دہلی اپنے شعر کو اس سے بچاتے ہیں اور عجب نہیں کہ اس کا سبب یہ ہو اہلِ لکھنؤ کا کلام کثرت سے دیکھا اور سنا تو اس کا اثر یہ پڑا ۔ نواب فصیح الملک بہادر مرزا داغؔ صاحب ایک دفعہ فرماتے تھے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ’ سانس ‘ اور ’ فکر ‘ کا لفظ دلّی میں مذکّر ہی بولتے سنا ۔ مگر استاد ذوقؔ نے جب ’سانس ‘ کو نظم کیا مؤنّث نظم کیا اور یہی فرمایا کہ میرؔ کی زبان پر بھی یہ لفظ مؤنث ہی تھا ، اور مرزا غالبؔ نے مجھے یہ ہدایت کی ہے کہ فکر کو بھی مؤنث ہی نظم کیا کرو ۔ اس سے یہ ظاہر ہے کہ قدما کے جو الفاظ لکھنؤ میں باقی رہ گئے ہیں اہلِ دہلی اس میں تذکیر و تانیث کا تصرف کرنے کے مجاز نہیں ہیں لکھنؤ کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے محاورے میں بہت ہی نازک فرق ہے ۔ مثلاً ہندو کہتے ہیں ’ مالا جپی اور پوجا کی ‘ اور مسلمان کہتے ہیں ’ مالا پہنا اور پوجا کیا ‘ ۔ یہی فرق قدیم سے چلا آتا ہے ۔ میر حسنؔ کہتے ہیں ؂
وہ موتی کے مالے لٹکتے ہوئے
رہیں دل جہاں سر پٹکتے ہوئے
مگر اب دلّی میں مالا اور پوجا مؤنث بولا جاتا ہے ۔
مرزا غالبؔمرحوم کی تحریروں میں ،میں نے محاورۂ لکھنؤ کے خلاف چند الفاظ دیکھے ۔ اس کے بارے میں نواب مرزا خاں داغؔ صاحب سے تحقیق چاہی ۔ انھوں نے لکھ دیا کہ یہ غلط ہیں ۔ مثلاً دایاں ہاتھ کہنا غلط ہے ، داہنا ہاتھ کہنا چاہیے ۔ چھٹویں تاریخ غلط ، چھٹی صحیح ہے ۔ ان کا اردو غلط ، ان کی اردو کہنا چاہیے ۔ کرسی پر سے کھسل پڑا خلافِ محاورہ ہے ۔ ’ غیر کیا ، خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے ‘ ۔ اس کو بھی غلط کہا ۔ ’ اپنی اوقات ‘ کہنا چاہیے تھا ۔ میں نے ورے اور پرے کے باب میں بھی تحقیق چاہی۔ کہا : آپ لوگوں کی خاطر سے میں نے ان لفظوں کو ترک کر دیا ۔ اس کے علاوہ بعض خاص محاورے دہلی کے مثلاً ،ٹھیک نکل جانا ،پکھنڈکرنا ،ٹوپی اوڑھنا ، مکان سجانا ، پترے کھولنا ، جالا پورنا وغیرہ مرزا داغؔ صاحب کے کلام میں اور قدماے دہلی کے دیوانوں میں بھی نہیں پائے جاتے ۔
غرض کہ جو لوگ دہلی کے فصحا و نقاد و مالکِ زبان و قلم ہیں ان کا کلام لکھنؤ کی زبان سے مطابقت رکھتا ہے کس وجہ سے کہ جب سے میرؔ و سوداؔلکھنؤ میں آکر رہ پڑے اسی زمانے سے دلّی گوش بر آوازِ لکھنؤ ہو گئی تھی۔ پھر انشأ اللہ خان و جرأت کے کلام نے ان کی توجّہ کو ادھر سے پھیرنے نہ دیا ۔ ان کے بعد آتشؔ و ناسخؔ کے مشاعروں نے متوجّہ کر لیا ۔ بلکہ شاہ نصیرؔ و ذوقؔ نے کلام کا رنگ ہی بدل دیا ۔ آخر میں میر( انیس ؟ ) صاحب کے مرثیوں نے خاص اور عام سب کی زبان پر اثر ڈال دیا ۔ اسی زمانے میں نواب مرزا شوقؔ کی تینوں مثنویاں گھر گھر پڑھی جانے لگیں کہ لوگوں کو حفظ ہو گئیں ۔ امانتؔ بھی انھیں دنوں میں ’ اندر سبھا ‘ کہہ کر اردو میں ڈراما کے موجد ہوئے ۔ اس کے علاوہ ’’ نامۂ قلق‘ؔ ‘ اور ’’واسوختِ امانتؔ‘ ‘ اور شہروں کی طرح دلّی کی گلیوں میں بھی لوگ گاتے ہوئے پھرنے لگے ۔ زبان کی شہرت کے اسباب پر جب غور کیجیے تو یہی لوگ معلوم ہوتے ہیں جن کے نام گذرے اور ان کے کلام کی شہرت نے اس زبان کو مانوس کر دیا ۔ یہاں تک کہ دلّی اور لکھنؤ کی زبان تقریباً ایک ہو گئی ۔
اس دعوے پر آزاد سلّمہ اللہ کی شہادت کافی ہے ۔ پانچویں دور کی تمہید میں لکھتے ہیں : اب وہ زمانہ آتا ہے کہ انھیں یعنی اہلِ لکھنؤ کو خود اہل زبانی کا دعوےٰ ہوگا اور زیبا ہوگا ، اور جب ان کے اور دلّی کے محاورے میں اختلاف ہوگا تو اپنے محاورے کی فصاحت اور دلّی کے عدمِ فصاحت پر دلایل قایم کریں گے ، بلکہ انھیں کے بعض بعض نکتوں کو دلّی کے اہلِ انصاف بھی تسلیم کریں گے ۔ ان بزرگوں نے بہت قدیمی الفاظ چھوڑ دیے جن کی کچھ تفصیل چوتھے دیباچے میں لکھی گئی اور اب جو زبان دلّی اور لکھنؤ میں بولی جاتی ہے وہ گویا انھیں کی زبان ہے
اور میر مہدیؔ کے اس مصرع پر ع ۔۔۔ میاں یہ اہلِ دہلی کی زباں ہے ۔ غالبؔ لکھتے ہیں : اے میر مہدیؔتجھے شرم نہیں ، ارے اب اہلِ دہلی یا ہندو ہیں یا اہلِ حرفہ ہیں ؛ یا خاکی ہیں یا پنج آبی ہیں یا گورے ہیں ۔ ان میں سے تو کس کی زبان کی تعریف کرتا ہے ۔ لکھنؤ کی آبادی میں کچھ فرق نہیں آیا ۔ ریاست تو جاتی رہی لیکن ہر فن کے کامل لوگ موجود ہیں ۔ اللہ اللہ ، دلّی نہ رہی اور دلّی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھا کہے جاتے ہیں ‘ انتہیٰ ۔
اب خیال کرنا چاہیے کہ میر محمد حسین صاحب آزادؔ لکھتے ہیں اب جو زبان دلّی اور لکھنؤ میں بولی جاتی ہے وہ گویا ایک ہی زبان ہے ، اصل یہ ہے کہ اہلِ لکھنؤ کی زبان دونوں جگہ بولی جاتی ہے ، جس کو دہلی کے تمام اُمرا و شرفا اپنے ساتھ لے کر لکھنؤ میں آئے تھے اور دلّی میں گنتی کے ایسے لوگ رہ گۓ تھے جو صاحبِ زبان تھے ۔ ان کی نسل پر بھی غیر قوموں کی زبان نے تو کم مگر لہجے نے بہت اپنا اثر ڈالا اور اس کی کسی کو خبر بھی نہ ہوئی، لیکن لکھنؤ میں وہ زبان سب آفتوں سے محفوظ رہی یعنی زوالِ سلطنتِواجد علی شاہ جنت آرام گاہ تک لکھنؤ کی زبان خاص دہلی کی زبان تھی اور ترقی کر رہی تھی اس سبب سے کہ چاروں جانب لکھنؤ کے صدہا کوس تک شہروں میں ملکی زبان اردو ہے ، اور گاووں میں زبان شیریں بھاکا مروّج ہے بخلاف دہلی کے کہ جن لوگوں سے دہلی، دہلی تھی وہ لوگ تو نہ رہے اور غیر لوگ جو اطراف سے آئے اور آرہے ہیں وہ سب اہلِ پنجاب ہیں ۔ اسی سبب سے دیکھیے غالبؔ میر مہدیؔ کو فہمایش کر رہے ہیں کہ دلّی کی زبان کو لکھنؤ پر ترجیح نہ دو اور اس کے علاوہ ذوقؔ کے کلام میں زبانِ لکھنؤ کا تتبع پایا جاتا ہے ۔ مثلاً فکر بتانیث ذوقؔ نے نظم کیا ہے ۔ سانس کو بھی بہ تانیث باندھا ہے ۔ اس پر بھی بعض نا واقف کہہ اٹھتے ہیں کہ دلّی کی زبان لکھنؤ سے بہتر ہے ۔ اس کلمے سے جو لوگ باہر والے ہیں وہ دھوکا کھا تے ہیں اور بہک جاتے ہیں ۔ یہ علمی مسٔلہ ہے اس میں انصاف و راستی سے نہ گذرنا چاٖہیے۔
دلّی میں ’ نے ‘ کا استعمال عجیب طرح سے اب ہونے لگاہے ۔ آزادؔ ؂
طرّے اعزاز کے جن لوگوں نے ہیں پائے ہوئے
بالیں گیہوں کی وہ شملے میں ہیں لٹکائے ہوئے
ایک جگہ ’ قصصِ ہند ‘ میں لکھتے ہیں : ’ تم نے مجھے بادشاہ سمجھا ہوا تھا ‘ جو بیچارے محض تتبع کرتے ہیں ان کی تحریروں میں تو اس طرح کا ’ نے ‘ بہت افراط سے دیکھنے میں آتا ہے لیکن ذوق و مومنؔ و ممنونؔ کا کلام ہمارے پاس موجود ہے اس میں کہیں ایسا ’نے ‘ نہیں ہے۔
حقیقتِ امر یہ ہے کہ لکھنؤ کی جو زبان ہے یہ دلّی ہی کی زبان ہے ۔ ۱۱۵۲ ھ سے ۱۱۷۰ھ تک اٹّھارہ برس کے عرصے میں تین دفعہ دلّی تاراج و برباد ہوئی۔ وہاں کے لوگ فیض آباد و لکھنؤ میں صفدر جنگ و شجاع الدولہ کے ساتھ آ بسے ۔ پھر اس کے بعد دلّی ایک کیا تمام ہندوستان خاص مرہٹوں کا جولاں گاہ ہو گیا ۔ لکھنؤ کے سوا کہیں امن نہ تھا ۔ یہاں آصف الدولہ کے عہد سے واجد علی شاہ کے زمانے تک یہ زبان جلا پاتی رہی اور دلّی میں غیر قوموں کے خلط نے یہ اثر کیا کہ لہجہ تک بدل گیا کہ اب پنجاب کے لہجے میں اردو بولی جاتی ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
ارشادت سجاد مرزا بیگ دہلوی

مولوی علی حیدر صاحب طباطبائی نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ لکھنؤ کی زبان دلّی ہی کی زبان ہے مگر وہ ایک پیچ دار طریقے سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دلّی میں لکھنؤ کی زبان کا تتبع کیا جاتا ہے ۔ ممکن ہے کہ بعض ناواقف اس بیان سے غلطی میں پڑ جائیں اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب موصوف کے بیان پر ایک تنقیدی نظر ڈالی جائے ۔ ملاحظہ ہو شرحِ دیوانِ غالبؔ ، صفحہ ۱۵۸ ۔ ’جو لوگ دہلی کے فصحا و نقاد و مالکِ زبان و قلم ہیں ان کا کلام لکھنؤ کی زبان سے مطابقت رکھتا ہے کس وجہ سے کہ جب سے میرؔ و سوداؔلکھنؤ میں آکر رہ پڑے اسی زمانے سے دلّی گوش بر آوازِ لکھنؤ ہو گئی تھی۔ پھر انشأ اللہ خان و جرأت کے کلام نے ان کی توجّہ کو ادھر سے پھیرنے نہ دیا ۔‘
میر صاحب کے نزدیک میرؔ و سوداؔ ، جرأتؔ و انشاؔاگر لکھنؤ چلے گۓ تو ان کی زبان بھی لکھنؤ کی ہو گئی۔ اگر ان کے کلام سے اہلِ دہلی کا کلام مطابقت رکھتا ہے تو وجہ ظاہر ہے کہ یہ لوگ خود دلّی کے تھے ، مطابقت نہ ہوگی تو کیا ہوگا ۔ دلی و لکھنؤ کی زبان کا فرق ہم نے مختصر طور پر بیان کیا ہے ۔ دہلی کاکون سا اہلِ قلم ہے جو اس کا اتباع کرتا ہو۔
علّامہ نظم : ’’ اس کے بعد آتشؔ و ناسخؔ کے مشاعروں نے متوجّہ کر لیا بلکہ شاہ نصیرؔ وذوقؔ کے کلام کا تو رنگ ہی بدل دیا ‘‘۔ جو لوگ زبان و کلام کے لطف سے واقف ہیں اور اس میں تمیز و تنقید کر سکتے ہیں وہ اس فقرے کو پڑھ کر کیا کہیں گے ۔ آتشؔ و ناسخؔ ، نصیرؔ و ذوقؔ کے کلام اب بھی موجود ہیں ۔ سخن کے جوہری جانتے ہیں کہ آتش و ناسخ رعایتِ لفظی کی بندشوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں لیکن نصیرؔ و ذوقؔ کا طایرِ خیال معانی کے آسمان پر اڑتا چلا جاتا ہے ۔
علّامہ نظم : ’’ اصل یہ ہے کہ لکھنؤ کی زبان دونوں جگہ بولی جاتی ہے جس کو دہلی کے تمام امرأ و شرفأ اپنے ساتھ لے کر لکھنؤ آئے تھے اور دلی میں گنتی کے ایسے لوگ رہ گئے تھے جو صاحبِ زبان تھے ‘ ‘ عجیب مغالطہ ہے ۔ دلی کے امرأ و شرفأ اپنی زبان لے کر لکھنؤگئے ۔ لکھنؤ میں دلی کی زبان بولی گئی یا دلی میں لکھنؤ کی؟ رہی یہ بات کہ دلی میں اہلِ زبان رہے ہی نہیں ، خلافِ واقعہ ہے ۔ اوّل تو سارے شہر کا خالی ہو جانا خلافِ عقل ہے ۔ دوسرے اس زمانے میں جو سلطنتِ دہلی کے زوال کا زمانہ تھا دہلی میں ایسے ناظم و نثّار پیدا ہوئے کہ لکھنؤ ان کا مثل نہیں دکھا سکتا ۔
علّامہ نظم : ’ ’ ان کی نسل پر بھی غیرقوموں کی زبان نے تو کم مگر لہجے نے بہت اپنا اثر ڈالا ۔ غیر قوموں کے خلط نے یہ اثر کیا کہ لہجہ تک بدل گیا کہ اب پنجاب کے لہجے میں اردو بولی جاتی ہے ‘ ‘ اللہ اکبر، زمانے کا انقلاب دیکھیے کہ قانونِ قدرت تک بدل گیا ۔ لہجے پر مرز و بوم کا اثر ہوتا ہے ۔ چاہیے تھا کہ پنجاب کے لوگوں کا دلی میں آکر لہجہ بدل جاتا ۔ مولوی صاحب کے نزدیک اس کے بر عکس دلی والوں کا لہجہ بدل گیا ۔ شاید کسی نو وارد پنجابی کو وہاں باتیں کرتے سنا ہوگا ، سمجھے کہ یہی دلی کا لہجہ ہے ۔
خیر یہ شکر ہے کہ ان کے نزدیک بھی زبان پر اس کا اثر کم پڑا ۔ لیکن شیر علی افسوسؔ کے اس فقرے کا کیا جواب ہے کہ وہ خود لکھنؤ کی نسبت یہ لکھتا ہے کہ : ’ ’با وجود اس کے بھی لہجے میں تفاوت بہت رہ گیا ‘ ‘( آرایشِ محفل ) یعنی اس کے نزدیک لکھنؤ کا لہجہ اہلِ زبان کا سا نہیں ہے ۔
ارشاداتِ مزید :۔
’’ اگرچہ دلی کے اکثر اچھے اچھے شاعر بلکہ دوسرے صاحبِ کمال بھی لکھنؤ چلے گئے تھے لیکن آخر ساری دلی تو خالی نہیں ہو گئی تھی ۔ یہاں کا ہر چھوٹا بڑا ؛ عالم ہو یا جاہل ، شریف یا رذیل ، اہلِ زبان تھا بلکہ خواص بھی عوام ہی سے زبان سیکھتے تھے ۔ اس لیے چند لوگوں کے چلے جانے سے زبان میں کوئی فرق نہ آتا تھا۔ جو شہرزبان کے مرکز ہیں وہاں کے جہّال اور عورتوں کی زبان علمأ کی زبان سے زیادہ مستند ہوتی ہے بر خلاف دوسرے شہروں کے کہ وہاں کے پڑھے لکھوں کی زبان تو صاف ہوتی ہے اور باقی عوام اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں دلی کی جامع مسجد کی سیڑھیاں وہ مدرسہ تھیں کہ میرؔ جیسے استاد وہاں جاکر زبان سیکھتے تھے ‘‘۔ ( ص ص ۳۶، ۳۷ )
’’ ایسی حالت میں ناسخؔ و آتشؔ کے دیوان ، نواب مرزا شوقؔ کی مثنویاں ، امانتؔ کی ’ اندر سبھا ‘ ان کی زبانوں پر کیا اثر ڈالتیں ۔ دلّی میں آتشؔ و ناسخؔ کے ہم عصر شاہ نصیرؔ ، ذوقؔ ، غالبؔ وغیرہ ہیں ۔ اہلِ انصاف دونوں شہروں کے صاحب کمالوں کے کلام کا مقابلہ کریں ۔ آتشؔ و ناسخؔ زبان کے میدان میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں اور بڑی احتیاط یہ کرتے ہیں کہ قریب المرگ الفاظ کو بھی اپنے کلام میں نہیں آنے دیتے ۔ لیکن پھر بھی لطفِ زبان اور لطافتِ بیان میں د لّی والوں کی گرد کو نہیں پہنچتے ۔ اہلِ دہلی کے ہاں مضامین کی بلندی ، زبان کی سلاست و فصاحت ، کلام کی شیرینی ، الفاظ کی عمدہ بندش ، محاوروں کا صحیح استعمال، روز مرّہ کی صفائی ،تشبیہات اور استعارات کی خوش نمائی بہت زیادہ ہے ۔ اس لیے دلی کے صاحبِ کمال شاعروں پر تو لکھنؤ کے اہلِ قلم کا کیا اثر پڑتا ، عوام بھی ہمیشہ مستغنی رہے ‘‘۔ ( ص۳۹ )
چند ایسی خصوصیات جو دلی اور لکھنؤ والوں کی زبان میں ما بہ الامتیاز ہیں :
’ مہتم بالشان یہ ہیں : ( ۱ ) الفاظ کا ترک کرنا ؛ ( ۲ ) صحتِ تلّفظ ؛ ( ۳ ) صنایع کا استعمال ؛ ( ۴ ) محاورات و روز مرّہ کا اختلاف ؛ ( ۵ ) وحدت و جمع ؛ ( ۶ ) بعض الفاظ کی تذکیر و تانیث کا فرق۔
 
Top