کلام الامام امام الکلام

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
دھارے چلتے ہیں عطاکے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا
فیض ہے یا شہ تسنیم نرالا تیرا
آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا
اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرا
اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کہ تلوا تیرا
چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا
ایک میں کیا مِرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سےسو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
موت، سُنتا ہوں سِتَم تَلخ ہے زہرابہ ناب
کون لادے مجھے تلووں کا غسالہ تیرا
دور کیا جانئے بدکار پہ کیسی گذرے
تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا
تیری سرکار میں لاتا ہے رضاؔ اس کو شفیع
جو مِرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
 
آخری تدوین:
دھارے = تارے
چلتے = کھلتے
ہیں = ہیں
عطا = سخا
کے = کے
وہ = وہ
ہے = ہے
قطرہ = ذرّہ
تیرا = تیرا


اغنیا = اصفیا
پلتے ہیں = چلتے ہیں
در سے = سر سے
وہ ہے = وہ ہے
باڑا تیرا = رستا تیرا
 
Top