فارسی شاعری کلام امیر خسرو

پشاور میں پچھلے 14 پندرہ دنوں سے بارش ہورہی ہے آج عصر کے وقت اچانک خنکی کا احساس ہوا تو بستر سنبھالا اچانک ذہن ماضی کی طرف نکل گیا اور ایک قوالی محفل یاد آگئی جس میں امیر خسرو کے اس کلام نے بہت محظوظ کیا تھا یوٹیوب پر جا کر کھوجا تو کلام سامنے آگیا آپ بھی سنیئے اور لطف لیجئے​

دی شب کہ می رفتی بتا ،رو کردہ ازما یک طرف
افگندہ کاکل یک طرف، زلفے چلیپاں یک طرف
سلطانے خوباں می رود ہرسو ہجوم عاشقاں
چابک سواراں یک طرف ،مسکین گداہا یک طرف
تا بر رخے زیبائے تو افتادہ زاہد را نظر
تسبیح وزہدش یک طرف ،ماندہ مصلا یک طرف
نوشن شراب لعل او ،شد مجلس ما بے خبر
جام و صراحی یک طرف،مستانہ رسوا یک طرف
بے چارہ خسرو خستہ را، خون ریختن فرمودہ است
خلقے بہ منت یک طرف،آن شوخ تنھا یک طرف
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
لاجواب۔

ویسے اس کی طرز استاد بہاالدین کی ”گفتا کہ روشن از قمر“ سے لی گئی ہے جو کہ خسرو ہی کا کلام ہے۔
 
محمد وارث آپ کی بات بالکل درست ہے لیکن جو مزہ اس میں ہے وہ گفتا کہ روشن از قمر مین نہیں ہیں ویسے یہ میرا ذاتی خیال ہے اس میں تو لطف ہی کچھ اور ہے دراصل میں نے جو لنک پیسٹ کیا ہے اس قوال نے اس کلام کو اسطرح نہیں پڑھا جس طرح کہ پڑھنے کا حق ہے میں نے ذکی تاجی قوال کی آواز میں سنا تھا۔ ذکی تاجی نے اِس کلام میں بڑی گرہ بندیاں کی تھیں
خصوصا اس شعر نے تو لوٹ ہی لیا
نے گلم نے نے بلبلم نے شمع نے پروانہ ام
عاشق روئے خودم،درعشق خود دیوانہ ام

من ز سودائے محبت والہ و دیوانہ ام​
عاشق شوریدہ سر محو رخِ جانانہ ام​
قبلہ گویم یا پیغمبر یا مصطفٰی​
استلائے شوق بسیار است و من دیوانہ ام​
من بہ قربانت شوم اے ساقی بادہ فروش​
از شرابِ بے خودی لبریز کن پیمانہ ام​
عشق آں شوخ پری رُو جانِ صابر سوختہ​
من نہ دانم شمع ام یا شمع را پروانہ ام​
 
روحانی بابا یا محمد وارث صاحب اس غزل کا ترجمہ بھی عنات فرما دیں۔ میں اس وقت یہی قوالی سن رہا ہوں۔ جزاک اللہ
بھائی حافظ محمد احمد اس کا سلیس ترجمہ تو محمد وارث صاحب ہی کرسکتے ہیں البتہ میں ٹوٹا پھوٹا ترجمہ جلدی میں کردیتا ہوں جو کہ میں سمجھ پایا ہوں یا کہ دوران سماعت مجھ پر جو معانی منکشف ہوئے
دی شب کہ می رفتی بتاں ،رو کردہ ازما یک طرف
افگندہ کاکل یک طرف، زلفے چلیپاں یک طرف​
گزشتہ شب جب میں مراد کی طرف گیا تو اس کامنہ میری طرف تھا، لٹکتی ہوئی سرکش لٹ ایک طرف تھی اور زلفے چلیپاں یعنی گھنگریالی(کرلی) زلفیں ایک طرف تھیں
سلطانے خوباں می رود ہرسو ہجوم عاشقاں
چابک سواراں یک طرف ،مسکین گداہا یک طرف
ہر طرف عاشقین کا ایک جمع غفیر جمع تھا کہ دریں اثناء حسن کا سلطان میری طرف بڑھا
تا بر رخے زیبائے تو افتادہ زاہد را نظر
تسبیح وزہدش یک طرف ،ماندہ مصلا یک طرف
اگر تیرے چہرے پر کسی زاہد کی نظر پڑجائے تو وہ تسبیح و زہد و بچھے ہوئے مصلے کو ایک طرف رکھ کر اٹھ کھڑا ہوگا
نوشن شراب لعل او ،شد مجلس ما بے خبر
جام و صراحی یک طرف،مستانہ رسوا یک طرف
اس کی مجلس میں لال شراب پی کر میں مجلس سے بے خبر ہوگیا اور جام و صراحی ایک طرف پڑی رہ گئی اور مستانہ رسوا ایک طرف رہ گیا
بے چارہ خسرو خستہ را، خون ریختن فرمودہ است
خلقے بہ منت یک طرف،آن شوخ تنھا یک طرف
اس شعر کی ترجمہ شائد مین نہ کرسکوں کیونکہ مجھے اس کے لیئے مناسب الفاظ نہیں مل رہے ہیں بہرحال ٹوٹی پھوٹی کوشش کرتا ہوں خسرو غریب مسکین حالت خستگی میں ریختہ یعنی گھسٹ گھسٹ کر زخمی حالت میں کہتا ہے ، مخلوق خدا کی منت ایک طرف اور وہ شوخ تنھا دوسری طرف میرے ساتھ کھڑا ہے
خستہ میرے خیال سے کسی چیز کے انتہائی آخری درجے کو کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ جلنا شروع کردیتا ہے جیسے کیک یا بسکٹ وغیرہ
ریخت کا مطلب شائد میرے ناقص علم کے مطابق یہ ہے کہ وہ مادہ جو کسی چیز کو کسی پتھر یعنی سل بٹہ یا کھرل میں بے انتہا رگڑنے سے حاصل ہوتا ہے یعنی وہ چیز اپنی ہیئت کو تبدیل کرکے دوسری توانائی میں منتقل ہوجاتی ہے
یعنی خسرو حالات و واقعات کی مار کھا کھا کر خستہ ہوگیا ہے اور عشق میں اس کا جگر اتنا رگڑ کھا چکا ہے کہ اس سے خون رواں ہے​
 
السلام علیکم محمد وارث بھائی اس کلام کا سلیس ترجمہ مہربانی فرما کر بیجھ دیں کیونکہ میں کل سے اس کلام کا ترجمہ تلاش کر رہا ہوں نہیں مل رہا اسی دی شب کہ می رفتی بتا والے کا
 
Top