جون ایلیا کلام جون ایلیا

عرفان سرور

محفلین
ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں
جانے یہ کون آ رہا مجھ میں

جون مجھ کو جلا وطن کر کے
وہ مرے بِن بھلا رہا مجھ میں

مجھ سے اُس کو رہی تلاشِ امید
سو بہت دن چھپا رہا مجھ میں

تھا قیامت سکوت کا آشوب
حشر سا اک بپا رہا مجھ میں

پسِ پردہ کوئی نہ تھا پھر بھی
ایک پردہ کھِنچا رہا مجھ میں

مجھ میں آکے گرا تھا اک زخمی
جانے کب تک پڑا رہا مجھ میں

اتنا خالی تھا اندروں میرا
کچھ دنوں تو خدا رہا مجھ میں
 

عرفان سرور

محفلین
بے انتہائی شیوہ ہمارا سدا سے ہے
اک دم سے بھولنا اسے پھر ابتدا سے ہے

یہ شام جانے کتنے ہی رشتوں کی شام ہو
اک حزن دل میں نکہت موج صبا سے ہے

دستِ شجر کی تحفہ رسانی ہے تا بہ دل
اس دم ہے جو بھی دل میں مرے وہ ہوا سے ہے

جیسے کوئی چلا بھی گیا ہو اور آئے بھی
احساس مجھ کو کچھ یہی ہوتا فضا سے ہے

دل کی سہولتیں ہیں عجب ، مشکلیں عجب
ناآشنائی سی عجب اک آشنا سے ہے

اس میں کوئی گلہ ہی روا ہے نہ گفتگو
جو بھی یہاں کسی کا سخن ہے وہ جا سے ہے

آئے وہ کِس ہنر سے لبوں پر کہ مجھ میں جون
اک خامشی ہے جو مرے شورِ نوا سے ہے
 

عرفان سرور

محفلین
جو رعنائی نگاہوں کے لئے فردوسِ جلوہ ہے
لباسِ مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی
یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی
 

عرفان سرور

محفلین
ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم
ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں
تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم
میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا ہوں میں
تم مجھ کو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں
اور اسطرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں

تم جس زمین پر ہو میں اُس کا خدا نہیں
پس سر بسر اذیت و آزار ہی رہو
بیزار ہو گئی ہو بہت زندگی سے تم
جب بس میں کچھ نہیں ہے تو بیزار ہی رہو
تم کو یہاں کے سایہ و پرتو سے کیا غرض
تم اپنے حق میں بیچ کی دیوار ہی رہو

میں ابتدائے عشق سے بے مہر ہی رہا
تم انتہائے عشق کا معیار ہی رہو
تم خون تھوکتی ہو یہ سُن کر خوشی ہوئی
اس رنگ اس ادا میں بھی پُر کار ہی رہو

میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
اپنی متاعِ ناز لُٹا کر مرے لیئے
بازارِ التفات میں نادار ہی رہو

جب میں تمہیں نشاطِ محبت نہ دے سکا
غم میں کبھی سکونِ رفاقت نہ دے سکا
جب میرے سب چراغِ تمنا ہوا کے ہیں
جب میرے سارے خواب کسی بے وفا کے ہیں
پھر مجھ کو چاہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
تنہا کراہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
 

عرفان سرور

محفلین
زخمِ امید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا

آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کُوچ کر گیا کب کا

دکھ کا لمحہ ازل ابد لمحہ
وقت کے پار اتر گیا کب کا

اپنا منہ اب تو مت دکھاؤ مجھے
ناصحو، میں سُدھر گیا کب کا

نشہ ہونے کا بےطرح تھا کبھی
پر وہ ظالم اتر گیا کب کا

آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں؟
دل میری جاں، مر گیا کب کا
 

عرفان سرور

محفلین
کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو
تُو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو

سفر کرنا ہے آخر دو پلک بیچ
سفر لمبا ہے بے بستر نہ رہیو

ہر اک حالت کے بیری ہیں یہ لمحے
کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو

ہمارا عمر بھر کا ساتھ ٹھیرا
سو میرے ساتھ تُو دن بھر نہ رہیو

بہت دشوار ہو جائے گا جینا
یہاں تُو ذات کے اندر نہ رہیو

سویرے ہی سے گھر آجائیو آج
ہے روزِ واقعہ باہر نہ رہیو

کہیں چھپ جاؤ تہ خانوں میں جا کر
شبِ فتنہ ہے اپنے گھر نہ رہیو

نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو
 

عرفان سرور

محفلین
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمھاری ہے

اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتطاری ہے

ایک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تری سواری ہے

خوش رہے تو کہ زندگی اپنی
عمر بھر کی امید واری ہے
 

عرفان سرور

محفلین
بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
میرے دل سے غبار اٹھتا ہے

میں جو بیٹھا ہوں تو وہ خوش قامت
دیکھ لو! بار بار اٹھتا ہے

تیری صورت کو دیکھ کر مری جاں
خود بخود دل میں پیار اٹھتا ہے

اس کی گُل گشت سے روش بہ روش
رنگ ہی رنگ یار اٹھتا ہے

تیرے جاتے ہی اس خرابے سے
شورِ گریہ ہزار اٹھتا ہے

کون ہے جس کو جاں عزیز نہیں؟
لے ترا جاں نثار اٹھتا ہے

صف بہ صف آ کھڑے ہوئے ہیں غزال
دشت سے خاکسار اٹھتا ہے

ہے یہ تیشہ کہ ایک شعلہ سا
بر سرِ کوہسار اٹھتا ہے

کربِ تنہائی ہے وہ شے کہ خدا
آدمی کو پکار اٹھتا ہے

تو نے پھر کَسبِ زَر کا ذکر کیا
کہیں ہم سے یہ بار اٹھتا ہے

لو وہ مجبورِ شہر صحرا سے
آج دیوانہ وار اٹھتا ہے

اپنے ہاں تو زمانے والوں کا
روز ہی اعتبار اٹھتا ہے

جون اٹھتا ہے، یوں کہو، یعنی
میر و غالب کا یار اٹھتا ہے
 

عرفان سرور

محفلین
نئی خواہش رچائی جا رہی ہے
تیری فرقت منائی جا رہی ہے

نبھائی تھی نہ ہم نے جانے کس سے
کہ اب سب سے نبھائی جا رہی ہے

یہ ہے تعمیرِ دنیا کا زمانہ
حویلی دل کی ڈھائی جا رہی ہے

کہاں لذت وہ سوزِ جستجو کی
یہاں ہر چیز پائی جا رہی ہے

سُن اے سورج جدائی موسموں کے
میری کیاری جلائی جا رہی ہے

بہت بدحال ہیں بستی، تیرے لوگ
تو پھر تُو کیوں سجائی جا رہی ہے

خوشا احوال اپنی زندگی کا
سلیقے سے گنوائی جا رہی ہے
 

عرفان سرور

محفلین
کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
کہ روٹھتے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو

گِلہ تو یہ ہے، تم آتے نہیں کبھی لیکن
جب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہو

تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے؟
تم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہو

سرودِ آتشِ زریں، صحنِ خاموشی
وہ داغ ہے جسے ہر شب جلانے لگتے ہو

سنا ہے کہکشاؤں میں روز و شب ہی نہیں
تو پھر تم اپنی زباں کیوں جلانے لگتے ہو

یہ بات جون تمہاری مذاق ہے کہ نہیں
کہ جو بھی ہو، اسے تم آزمانے لگتے ہو
 

عرفان سرور

محفلین

تشنگی نے سراب ہی لکھا
خواب دیکھا تھا، خواب ہی لکھا

ہم نے لکھا نصابِ تِیرہ شبی
اور بصد آب و تاب ہی لکھا

منشیانِ شُہود نے تا حال
ذکرِ غیب و حِجاب ہی لکھا

نہ رکھا ہم نے بیش و کم کا خیال
شوق کو بے حساب ہی لکھا

نہ لکھا اس نے کوئی بھی مکتُوب
پھر بھی ہم نے جواب ہی لکھا

دوستو ہم نے اپنا حال اُسے
جب بھی لکھا، خراب ہی لکھا

ہم نے اُس شہر دین و دولت میں
مسخروں کو جناب ہی لکھا

جون ایلیا
 

عرفان سرور

محفلین
حال یہ ہے کہ خواہشِ پُرسشِ حال بھی نہیں
اُس کو خیال بھی نہیں، اپنا خیال بھی نہیں

اے شجرِ حیاتِ شوق، ایسی خزاں رسیدگی؟
پوششِ برگ و گُل تو کیا، جسم پہ چھال بھی نہیں

مُجھ میں وہ شخص ہو چکا جس کا کوئی حساب تھا
سُود ہی کیا، زیاں ہے کیا، اس کا سوال بھی نہیں

مست ہیں اپنے حال میں دل زدگان و دلبراں
صُلح و سلام تو کُجا، بحث و جدال بھی نہیں

تُو میرا حوصلہ تو دیکھ، داد تو دے کہ اب مجھے
شوقِ کمال بھی نہیں، خوفِ زوال بھی نہیں

جون ایلیا
 

عرفان سرور

محفلین

تشنہ کامی کی سزا دو تو مزا آ جائے
تم ہمیں زہر پلا دو تو مزا آ جائے

میرِ محفل بنے بیٹھے ہیں بڑے ناز سے ہم
ہمیں محفل سے اُٹھا دو تو مزا آ جائے

تم نے اِحسان کیا تھا جو ہمیں چاہا تھا
اب وہ اِحسان جتا دو تو مزا آ جائے

آپنے یوسف کی زلیخا کی طرح تم بھی کبھی
کچھ حسینوں سے ملا دو تو مزا آ جائے

چین پڑتا ہی نہیں ہے تمھیں اب میرے بغیر
اب تم مجھ کو گنوا دو تو مزا آ جائے

جون ایلیا
 

عرفان سرور

محفلین
غم ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں
اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں

ہاں اُس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا
کیا اُس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں

کرب غم شعور کا درماں نہیں شراب
یہ زہر ہےاثر ہے اسے پی چکا ہوں میں

اے وحشتو! مجھے اسی وادی میں لے چلو
یہ کون لوگ ہیں، یہ کہاں آ گیا ہوں میں

میں نے غم حیات میں تجھ کو بھلا دیا
حسن وفا شعار، بہت بے وفا ہوں میں

عشق ایک سچ تھا تجھ سے جو بولا نہیں کبھی
عشق اب وہ جھوٹ ہے جو بہت بولتا ہوں میں

دنیا میرے ہجوم کی آشوب گاہ ہے
اور اپنے اس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوں میں

جون ایلیا
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ عرفان سرور۔ لیکن یہ بتائیں کہ یہ آپ کہاں سے مواد ھاصل کر رہے ہیں؟ خود ٹائپ کر رہے ہیں اصل کتاب سے (یعنی، شاید؟) یا کسی اور سائٹ سے۔ اور کیا یہاں موجوود مواد میں کوئی غزل شامل نہیں ہے؟ اسی فورم کا چسپاں تھریڈ بھی پڑھ لیں۔ دو ای بکس میں نے بھی بنا رکھی ہیں۔ اگر کچھ مواد مزید ہوا تو ان میں بھی اضافہ کر سکتا ہوں، تمہارے حوالے سے۔ لیکن پہلے ماخذ معلوم ہو جائے تو۔۔
 

عرفان سرور

محفلین
شکریہ عرفان سرور۔ لیکن یہ بتائیں کہ یہ آپ کہاں سے مواد ھاصل کر رہے ہیں؟ خود ٹائپ کر رہے ہیں اصل کتاب سے (یعنی، شاید؟) یا کسی اور سائٹ سے۔ اور کیا یہاں موجوود مواد میں کوئی غزل شامل نہیں ہے؟ اسی فورم کا چسپاں تھریڈ بھی پڑھ لیں۔ دو ای بکس میں نے بھی بنا رکھی ہیں۔ اگر کچھ مواد مزید ہوا تو ان میں بھی اضافہ کر سکتا ہوں، تمہارے حوالے سے۔ لیکن پہلے ماخذ معلوم ہو جائے تو۔۔
یہ سارا مواد میں ایک وب سائٹ سے اکٹھا کر رہا ہوں میں آپ کو اُس وب سائٹ
کا لنک ان بوکس میں سینڈ کر دیتا ہوں ۔ ۔ شکریہ
 
Top