جون ایلیا کلام جون ایلیا

عرفان سرور

محفلین
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

وفا، اخلاص، قربانی،مرو ّت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم

زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کری ہم

ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

کیا تھا عہد جب لحموں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم

اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم

جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم

نہیں دُنیا کو جب پرواہ ہماری
تو پھر دُنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم

برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردا کیوں کریں ہم

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم

پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم

یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم

جون ایلیا​
 

عرفان سرور

محفلین
ہم جو گاتے چلے گئے ہوں گے
زخم کھاتے چلے گئے ہوں گے

تھا ستم بار بار کا ملنا
لوگ بھاتے چلے گئے ہوں گے

دور تک باغ اُسکی یادوں کے
لہلہاتے چلے گئے ہوں گے

دشتِ آشفتگی میں خاک بسر
خاک اُڑاتے چلے گئے ہوں گے

فکر اپنے شرابیوں کی نہ کر
لڑکھڑاتے چلے گئے ہوں گے

ہم خود آزار تھے سو لوگوں کو
آزماتے چلے گئے ہوں گے

ہم جو دُنیا سے تنگ آئے ہیں
تنگ آتے چلے گئے ہوں گے

جون ایلیا​
 

عرفان سرور

محفلین
شوق کا رنگ بُجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے
کیا میری فصل ہو چُکی کیا میرے دن گُزر گئے

راہگُزرِ خیال میں دوش بدوش تھے جو لوگ
وقت کے گردباد میں جانے کہاں بکھر گئے

شام ہے کتنی بے تپاک شہر ہے کتنا سہم ناک
ہم نفسو کہاں ہو تم جانے یہ سب کدھر گئے

آج کی شام ہے عجیب کوئی نہیں میرے قریب
آج سب اپنے گھر رہے آج سب اپنے گھر گئے

رونقِ بزمِ زندگی طُرفہ ہیں تیرے لوگ بھی
اک تو کبھی نہ آئے تھے، گئے تو رُوٹھ کر گئے

خوش نفسانِ بےنوا، بے خبرانِ خوش ادا
تِیرہ نصیب تھے مگر شہر میں نام کر گئے

آپ بھی جون ایلیا سوچئے اب دھرا ہے کیا
آپ بھی اب سدھاریئے آپ کے چارہ گر گئے

جون ایلیا​
 

عرفان سرور

محفلین
چاہتا ھوں کہ بھول جاؤں تمہیں
چاہتا ھوں کہ بھول جاؤں تمہیں

اور یہ سب دریچہ ھائے خیال
جو تمہاری ھی سمت کھلتے ھیں

بند کر دوں کہ کچھ اسطرح کہ یہاں
یاد کی اک کرن بھی آ نہ سکے

چاھتا ھوں کہ بھول جاؤں تمہیں
اور خود بھی نہ یاد آؤں تمہیں

جیسے تم صرف اک کہانی تھیں
جیسے میں صرف اک فسانہ تھا

جون ایلیا
 

عرفان سرور

محفلین
سو وہ آنسو ھمارے آخری آنسو تھے
جو ھم نے گلے ملکر بہائے تھے
نہ جانے وقت ان آنکھوں سے پھر کس طور پیش آیا
مگر میری فریب وقت کی بہکی ھوئی آنکھوں نے
اس کے بعد بھی
آنسو بہائے ھیں
مرے دل نے بہت سے دکھ رچائے ھیں
مگر یوں ھے کہ ماہ و سال کی اس رائیگانی میں
مری آنکھیں
گلے ملتے ھوئے رشتوں کی فرقت کے وہ آنسو
پھر نہ رو پائیں
 

عرفان سرور

محفلین
جانے کب سے
مجھے یاد بھی تو نہیں جانے کب سے
ھم اک ساتھ گھر سے نکلتے ھیں
اور شام کو
ایک ھی ساتھ گھر لوٹتے ھیں
مگر ھم نے اک دوسرے سے
کبھی حال پرسی نہیں کی
نہ اک دوسرے کو
کبھی نام لے کر مخاطب کیا
جانے ھم کون ھیں؟
 

عرفان سرور

محفلین
عشق پیچاں کی صندل پر جانے کس دن بیل چڑھے
کیاری میں پانی ٹھہرا ھے دیواروں پر کائی ھے

حسن کے جانے کتنے چہرے حسن کے جانے کتنے نام
عشق کا پیشہ حسن پرستی عشق بڑا ھرجائی ھے

آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا
جوں ھی دروازہ کھولا ھے اس کی خوشبو آئی ھے

ایک تو اتنا حبس ھے پھر میں سانسیں روکے بیٹھا ھوں
ویرانی نے جھاڑو دے کے گھر میں دھول اڑائی ھے
 

عرفان سرور

محفلین
کون سا قافلہ ھے یہ ، جس کے جرس کا ھے یہ شور
میں تو نڈھال ھو گیا ، ھم تو نڈھال ھو گئے

خار بہ خار گل بہ گل فصل بہار آ گئی
فصل بہار آ گئی ، زخم بحال ھو گئے

شور اٹھا مگر تجھے لذت گوش تو ملی
خوں بہا مگر ترے ھاتھ تو لال ھو گئے

ھم نفسان وضع دار ، مستمعان بردبار
ھم تو تمہارے واسطے ایک وبال ھو گئے

جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر ھو چکے اب کئی سال ھو گئے
 

عرفان سرور

محفلین
شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ھوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ھوں میں

اک حسن بے مثال کی تمثیل کے لیے
پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رھا ھوں میں

اپنا مثالیہ مجھے اب تک نہ مل سکا
ذروں کو آفتاب بناتا رھا ھوں میں

کیا مل گیا ضمیر ھنر بیچ کر مجھے
اتنا کہ صرف کام چلاتا رھا ھوں میں

کل دوپہر عجیب سی اک بےدلی رھی
بس تیلیاں جلا کے بجھاتا رھا ھوں میں
 

عرفان سرور

محفلین
تم حقیقت نہیں ھو حسرت ھو
جو ملے خواب میں وھی دولت ھو

میں تمہارے ھی دم سے زندہ ھوں
مر ھی جاؤں جو تم سے فرصت ھو

تم ھو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ھی بے مروت ھو

تم ھو انگڑائی رنگ و نکہت کی
کیسے انگڑائی سے شکایت ھو

کس طرح تمہیں چھوڑ دوں جاناں
تم مری زندگی کی عادت ھو

کس لیے دیکھتی ھو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ھو

داستاں ختم ھونے والی ھے
تم مری آخری محبت ھو
 

عرفان سرور

محفلین
ہم رہے پر نہیں رہے آباد
یاد کے گھر نہیں رہے آباد

کتنی آنکھیں ہوئی ہلاک ِ نظر
کتنے منظر نہیں رہے آباد

ہم کہ اے دل سخن تھے سر تا پا
ہم لبوں پر نہیں رہے آباد

شہرِ دل میں عجب محلے تھے
جن میں اکثر نہیں رہے آباد

جانے کیا واقعہ ہوا، کیوں لوگ
اپنے اندر نہیں رہے آباد
 

عرفان سرور

محفلین
ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

کیا تکلف کریں‌ یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں

ہے اُسے دُور کا سفر درپیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں

تم بنو رنگ، تم بنو خوش بُو
ہم تو اپنے سخن میں‌ ڈھلتے ہیں

ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پائوں جلتے ہیں
 

عرفان سرور

محفلین
دل نے وفا کے نام پر کارِ وفا نہیں کیا
خود کو ہلاک کر لیا، خود کو فدا نہیں کیا

کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا

تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا

جو بھی ہو تم پہ معترض، اُس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں، آپ نے کیا نہیں کیا

جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خُدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں باخُدا نہیں کیا

نسبتِ علم ہے بہت حاکمِ وقت کو عزیز
اُس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیاچ
 

عرفان سرور

محفلین
ایک سایہ مرا مسیحا تھا
کون جانے، وہ کون تھا، کیا تھا

وہ فقط صحن تک ہی آتی تھی
میں بھی حُجرے سے کم نکلتا تھا

تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کے جو
تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا

جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ
وصل سے انتظار اچھا تھا

بات تو دل شکن ہے پر، یارو!
عقل سچی تھی، عشق جھوٹا تھا

اپنے معیار تک نہ پہنچا میں
مجھ کو خود پر بڑا بھروسہ تھا

جسم کی صاف گوئی کے با وصف
روح نے کتنا جھوٹ بولا تھا
 

عرفان سرور

محفلین
مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میں
زہر جیسی کچھ دوائیں چاہییں
پوچھتی ہیں آپ، آپ اچھے تو ہیں
جی میں اچھا ہوں‌، دعائیں چاہییں
 

عرفان سرور

محفلین
میری عقل و ہوش کی سب حالتیں
تم نے سانچے میں جنوں‌ کے ڈھال دیں
کر لیا تھا میں نے عہدَ ترکَ عشق
تم نے پھر بانہیں‌ گلے میں‌ ڈال دیں
 

عرفان سرور

محفلین
حال خوش تذکرہ نگاروں کا
تھا تو اک شہر خاکساروں کا

پہلے رہتے تھے کوچہء دل میں
اب پتہ کیا ہے دل فگاروں کا

کوئے جاناں کی ناکہ بندی ہے
بسترا اب کہاں ہے یاروں کا

چلتا جاتا ہے سانس کا لشکر
کون پُرساں ہے یادگاروں کا

اپنے اندر گھسٹ رہا ہوں میں
مجھ سے کیا ذکر رہ گزاروں کا

ان سے جو شہر میں ہیں بے دعویٰ
عیش مت پوچھ دعویداروں کا

کیسا یہ معرکہ ہے برپا جو
نہ پیادوں کا نہ سواروں کا

بات تشبیہہ کی نہ کیجو تُو
دہر ہے صرف استعاروں کا

میں تو خیر اپنی جان ہی سے گیا
کیا ہوا جانے جانثاروں کا

کچھ نہیں اب سوائے خاکستر
ایک جلسہ تھا شعلہ خواروں کا
 

عرفان سرور

محفلین
ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے
پاؤں پھسلا تو آسمان میں تھے

ہے ندامت لہو نہ رویا دل
زخم دل کے کسی چٹان میں تھے

میرے کتنے ہی نام اور ہمنام
میرے اور میرے درمیان میں تھے

میرا خود پر سے اِعتماد اُٹھا
کتنے وعدے مری اُٹھان میں تھے

تھے عجب دھیان کے در و دیوار
گرتے گرتے بھی اپنے دھیان میں تھے

واہ! اُن بستیوں کے سنّاٹے
سب قصیدے ہماری شان میں تھے

آسمانوں میں گر پڑے یعنی
ہم زمیں کی طرف اُڑان میں تھے
 

عرفان سرور

محفلین
وہ جو کیا کچھ نا کرنے والے تھے
بس کوئی دم نہ بھرنے واے تھے

تھے گلے اور گرد باد کی شام
اور ہم سب بکھرنے والے تھے

وہ جو آتا تو اس کی خوشبو میں
آج ہم رنگ بھرنے والے تھے

صرف افسوس ہے یہ طنز نہیں
تم نہ سنوارے ، سنوارنے والے تھے

یوں تو مرنا ہے اک بار مگر
ہم کئی بار مرنے والے تھے
 

عرفان سرور

محفلین
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو

تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو

تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو

جنوں وہی ہے، وہی میں، مگر ہے شہر نیا
یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو

کسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پھر بھی
میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو

تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو
 
Top