یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے
اک پل بھی اگر بھول سے ہم سو گئے ہوتے
اے شہر ترا نام و نشاں بھی نہیں ہوتا
جو حادثے ہونے تھے اگر ہو گئے ہوتے
ہر بار پلٹتے ہوئے گھر کو یہی سوچا
اے کاش کسی لمبے سفر کو گئے ہوتے
ہم خوش ہیں ہمیں دھوپ وراثت میں ملی ہے
اجداد کہیں پیڑ بھی کچھ بو گئے ہوتے
کس منھ سے کہیں تجھ سے سمندر کے ہیں حقدار
سیراب سرابوں سے بھی ہم ہو گئے ہوتے
٭٭٭
ہندی رسم الخط سے ٹرانسلٹریشن بذریعہ
http://uh.learnpunjabi.org/default.aspx
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید