فرخ منظور
لائبریرین
صبحِ نَو
اے دوست ! ہو نوید کہ پت جھڑ کی رت گئی
چٹکی ہے میرے باغ میں پہلی نئی کلی
پھر جاگ اٹھی ہیں راگنیاں آبشار کی
پھر جھومتی ہیں تازگیاں سبزہ زار کی
پھر بس رہا ہے اک نیا عالم خمار کا
پھر آ رہا ہے لوٹ کے موسم بہار کا
اے دوست ! اس سے بڑھ کے نہیں کچھ بھی میرے پاس
یہ پہلا پھول بھیج رہا ہوں میں تیرے پاس
کومل سا ، مسکراتا ہوا ، مشک بار پھول
پروردگارِ عشق کا یہ بے زباں رسول
آتا ہے اک پیام رسانی کے واسطے
بسرے دنوں کی یاد دہانی کے واسطے
اے دوست ایک پھول کی نکہت ہے زندگی
اے دوست ایک سانس کی مہلت ہے زندگی
وہ دیکھ پَو پھٹی ، کٹی رات اضطراب کی
اچھلی خطِ افق سے صراحی شراب کی
آ آ یہ صبح نَو ہے غنیمت ، مرے حبیب !
آیا ہے پھر بہار کا موسم ! زہے نصیب !
دسمبر 1938ء
اے دوست ! ہو نوید کہ پت جھڑ کی رت گئی
چٹکی ہے میرے باغ میں پہلی نئی کلی
پھر جاگ اٹھی ہیں راگنیاں آبشار کی
پھر جھومتی ہیں تازگیاں سبزہ زار کی
پھر بس رہا ہے اک نیا عالم خمار کا
پھر آ رہا ہے لوٹ کے موسم بہار کا
اے دوست ! اس سے بڑھ کے نہیں کچھ بھی میرے پاس
یہ پہلا پھول بھیج رہا ہوں میں تیرے پاس
کومل سا ، مسکراتا ہوا ، مشک بار پھول
پروردگارِ عشق کا یہ بے زباں رسول
آتا ہے اک پیام رسانی کے واسطے
بسرے دنوں کی یاد دہانی کے واسطے
اے دوست ایک پھول کی نکہت ہے زندگی
اے دوست ایک سانس کی مہلت ہے زندگی
وہ دیکھ پَو پھٹی ، کٹی رات اضطراب کی
اچھلی خطِ افق سے صراحی شراب کی
آ آ یہ صبح نَو ہے غنیمت ، مرے حبیب !
آیا ہے پھر بہار کا موسم ! زہے نصیب !
دسمبر 1938ء