مکمل کلام مجید امجد

فرخ منظور

لائبریرین
سوکھا تنہا پتّا
اس بیری کی اونچی چوٹی پر وہ سوکھا تنہا پتّا!
جس کی ہستی کا بیری ہے پت جھڑ کی رت کا ہر جھونکا
کاش مری یہ قسمت ہوتی، کاش میں وہ اک پتّا ہوتا
ٹوٹ کے جھٹ اس ٹہنی سے گر پڑتا، کتنا اچھا ہوتا
گر پڑتا، اس بیری والے گھر کے آنگن میں گر پڑتا
یوں ان پازیبوں والے پاؤں کے دامن میں گر پڑتا
جس کو میرے آنسو پوجیں، اس گھر کے خاشاک میں مل کر
جس کو میرے سجدے ترسیں، اس دوارے کی خاک میں مل کر
اس آنگن کی دھول میں مل کر مٹتا مٹتا مٹ جاتا میں
عمر بھر ان قدموں کو اپنے سینے پر مضطر پاتا میں
ہائے! مجھ سے نہ دیکھا جائے، آیا ہوا کا جھونکا آیا
ڈالیاں لرزیں، ٹہنیاں کانپیں، لو، وہ سوکھا پتّا ٹوٹا
(14-2-1941)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جینے والے

کیا خبر صبح کے ستارے کو
ہے اسے فرصتِ نظر کتنی
پھیلتی خوشبوؤں کو کیا معلوم
ہے انہیں مہلتِ سفرکتنی
برقِ بےتاب کو خبر نہ ہوئی
کہ ہے عمرِ دمِ شرر کتنی
کبھی سوچا نہ پینے والے نے
جام میں مے تو ہے، مگر کتنی
دیکھ سکتی نہیں مآلِ بہار
گرچہ نرگس ہے دیدہ ور کتنی
جانے کیا زندگی کی جاگتی آنکھ
ہو گئی اس کی شب بسر کتنی
شمعِ خود سوز کو پتہ نہ چلا
دور ہے منزلِ سحر کتنی
مسکراتی کلی کو اس سے غرض
کہ ہے عمر اس کی مختصر کتنی
جینے والوں کو کام جینے سے
زندگی کا نظام جینے سے
(21-2-1941)

 

فرخ منظور

لائبریرین
ملاقات

تم کو شہروں نے پکارا ، سبزہ زاروں نے مجھے
تم کو پھولوں نے صدا دی اور خاروں نے مجھے
میں انہی پگڈنڈیوں پر بانسری چھیڑا کیا
بے ارادہ ، جانے کس کا ، راستہ دیکھا کیا
جب ندی پر ترمراتا شام کی مہندی کا رنگ
میرے دل میں کانپ اٹھتی کوئی اَن بوجھی امنگ
جب کھلنڈری ہرنیوں کی ڈار بن میں ناچتی
کوئی بے نام آرزو سی میرے من میں ناچتی
ریت کے ٹیلے پہ سرکنڈوں کی لہراتی قطار
نیم شب ! میں ! اور میری بنسری ! اور انتظار
آہ یہ سرسبز میداں ، دم بخود ، لامنتہی
جن کی وسعت میں جوانی میری آوارہ رہی
بعد مدت کے تمہارا آج ادھر آنا ہوا
وہ زمانہ بچپنے کا ، آہ ، افسانہ ہوا
کتنے سلجھے بال ، کیسی نرم و نازک آستیں
ہنس رہے ہو ؟ اک تمہارا قہقہہ بدلا نہیں
مجھ کو دیکھو میں ابھی وابستۂ آغاز ہوں
ان حسیں ویرانیوں میں گوش بر آواز ہوں
دوڑتی جاتی ہے دنیا وقت کے محمل کے سات
میرے حصے میں وہی بیتاب دن ، بیخواب رات
ڈھوندتا ہوں ، گم ہوئی ہے میری دنیائے حسیں
ہاں ، انہی پھیلے بیابانوں کے پچھم میں کہیں

ایک دن جب میرے مرنے کی خبر پائے گی وہ
میری تربت پر تو آئے گی ، ضرور آئے گی وہ

1941ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
راہگیر

کوئی تو مجھ کو بتائے یہ راہگیر ہے کون
حسین انکھڑیوں میں حسن شش جہات لیے
دمِ سحر ہے سر رہگزار محوِ سفر
سیاہ گیسوؤں میں بے کسی کی رات لیے
چلی ہے کونسی دنیائے بے نشاں کی طرف
ہزار گردشِ افلاک سات سات لیے
جبینِ ناز پہ دردِ مسافری کا ہجوم
پلک پلک پہ غبارِ رہِ حیات لیے
اداس چہرے پہ اک التجا کی گویائی
خموش لب پہ کوئی بے صدا سی بات لیے
خزاں کی سلطنتوں میں ہے ایک پھول رواں
ہر ایک خار سے امیدِ التفات لیے
لگی ہے اس کو لگن جانے کس زمانے کی
بھٹک گئی نہ ہو ٹھوکر کوئی زمانے کی

24، مارچ 1942ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
2942ء کا ایک جنگی پوسٹر

اک محافظ ستارے نے کل شام
کرۂ ارض کو خبر دی ہے !
ُملک مریخ کے لٹیروں نے
وادیِ مہ تباہ کر دی ہے
جادۂ کہکشاں کے دونوں طرف
گھاٹی گھاٹی لہو سے بھر دی ہے !
آندھیوں نے انہیں خرام دیا
بجلیوں نے انہیں نظر دی ہے
ڈوبتا سورج ان کا مغفر ہے
شفقِ سرخ ان کی وردی ہے !
آج انہوں نے نظام عالم کو
دعوتِ آتش و شرر دی ہے !
آن پہنچی ہے امتحاں کی گھڑی
خاکیو ! وقتِ پائے مردی ہے !
یہ تمہی نے ہی ماہ و پرویں کو
اپنی تابانیِ نظر دی ہے !
یہ تمہی نے ہی بزمِ انجم کو
تابشِ سلکِ صد گہر دی ہے !
یہ تمہی نے متاعِ نور اپنی
مشتری کو بھی مشت بھر دی ہے !
بارہا وقت کے اندھیرے کو
تم نے رنگینیِ سحر دی ہے !
جن مقامات کی خبر ہی نہیں
ان مقامات کی خبر دی ہے
تم وہ منزل ہو جس کے جلووں نے
منزلوں کو رہِ سفر دی ہے !
سینکڑوں ناشگفتہ پھولوں کی بُو
تم نے اس گلستاں میں بھر دی ہے
سینکڑوں ہستیوں کو صبحِ نمود
اپنی ہستی میں ڈوب کر دی ہے
سرمہ چشمِ صد جہاں کے لئے
اپنے ایواں کی خاکِ دَر دی ہے
کون بتلائے تم نے اپنی شراب
میکدے میں کدھر کدھر دی ہے
آج تقدیرِ زندگی نے صدا
پھر تمھیں نوبتِ دگر دی ہے
چشم برراہِ روحِ عالم ہے
منتظر چرخ لاجوردی ہے
کہو کس چیز کی کمی ہے تمہیں
دل دیا ہے تمھیں نظر دی ہے
زندگانی کے قافلوں کے لیے
تم کو آوازِ راہبر دی ہے
آب اور گِل کے اک کھلونے کو
شانِ دارائی بشر دی ہے

پھاند جاؤ حدیں زمانوں کی
تھام لو باگ آسمانوں کی

18، جولائی 1942ء
 
آخری تدوین:
Top