مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

فرخ منظور

لائبریرین
میں اْسے واقفِ الفت نہ کروں

سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیرِغمِ الفت نہ کروں
اس کو رسوا نہ کروں ، وقفِ مصیبت نہ کروں

سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں ، خوگرِ آلام نہیں
سحرِ عیش میں اس کی اثرِ شام نہیں
زندگی اُس کے لیے زہر بھرا جام نہیں!

سوچتا ہوں کہ محبت ہے جوانی کی خزاں
اس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا
نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا
سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا

سوچتا ہوں کہ غمِ دل نہ سناؤں اس کو
سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کروں
خلشِ دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں
اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں

سوچتا ہوں کہ جلا دے گی محبت اس کو
وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی
خود تو وہ آتشِ جذبات میں جل جائے گی
اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
____ میں اسے واقفِ الفت نہ کروں
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
رخصت

ہے بھیگ چلی رات، پر افشاں ہے قمر بھی
ہے بارشِ کیف اور ہوا خواب اثر بھی
اب نیند سے جھکنے لگیں تاروں کی نگاہیں
نزدیک چلا آتا ہے ہنگامِ سحر بھی!
میں اور تم اس خواب سے بیزار ہیں دونوں
اس رات سرِ شام سے بیدار ہیں دونوں
ہاں آج مجھے دور کا در پیش سفر ہے
رخصت کے تصور سے حزیں قلب و جگر ہے
آنکھیں غمِ فرقت میں ہیں افسردہ و حیراں
اک سیلِ بلا خیز میں گم تار نظر ہے
آشفتگیِ روح کی تمہید ہے یہ رات
اک حسرتِ جاوید کا پیغام سحر ہے
میں اور تم اس رات ہیں غمگین و پریشاں
اک سوزشِ پیہم میں گرفتار ہیں دونوں!

گہوارۂ آلامِ خلش ریز ہے یہ رات
اندوہِ فراواں سے جنوں خیز ہے یہ رات
نالوں کے تسلسل سے ہیں معمور فضائیں
سرد آہوں سے، گرم اشکوں سے لبریز ہے یہ رات
رونے سے مگر روح تن آساں نہیں ہوتی
تسکینِ دل و دیدۂ گریاں نہیں ہوتی!

میری طرح اے جان، جنوں کیش ہے تُو بھی
اک حسرتِ خونیں سے ہم آغوش ہے تُو بھی
سینے میں مرے جوشِ تلاطم سا بپا ہے!
پلکوں میں لیے محشرِ پُر جوش ہے تُو بھی
کل تک تری باتوں سے مری روح تھی شاداب
اور آج کس انداز سے خاموش ہے تو بھی
وارفتہ و آشفتہ و کاہیدۂ غم ہیں
افسردہ مگر شورشِ پنہاں نہیں ہوتی

میں نالۂ شب گیر کے مانند اٹھوں گا
فریادِ اثر گیر کے مانند اٹھوں گا
تو وقتِ سفر مجھ کو نہیں روک سکے گی
پہلو سے تیرے تیر کے مانند اٹھوں گا
گھبرا کے نکل جاؤں گا آغوش سے تیری
عشرت گہِ سر مست و ضیا پوش سے تیری!
ہوتا ہوں جدا تجھ سے بصد بیکسی و یاس
اے کاش، ٹھہر سکتا ابھی اور ترے پاس
مجھ سا بھی کوئی ہو گا سیہ بخت جہاں میں
مجھ سا بھی کوئی ہو گا اسیرِ الم و یاس
مجبور ہوں، لاچار ہوں کچھ بس میں نہیں ہے
دامن کو مرے کھینچتا ہے ’’فرض‘‘ کا احساس
بس ہی میں نہیں ہے مرے لاچار ہوں مَیں بھی
تو جانتی ہے ورنہ وفادار ہوں میں بھی!

ہو جاؤں گا مَیں تیرے طرب زار سے رخصت
اس عیش کی دنیائے ضیا بار سے رخصت
ہو جاؤں گا اک یادِ غم انگیز کو لے کر
اس خلد سے، اس مسکنِ انوار سے رخصت
تو ہو گی مگر بزمِ طرب باز نہ ہو گی
یہ ارضِ حسیں جلوہ گہِ راز نہ ہو گی

مَیں صبح نکل جاؤں گا تاروں کی ضیا میں
تُو دیکھتی رہ جائے گی سنسان فضا میں
کھو جاؤں گا اک کیف گہِ روح فزا میں
آغوش میں لے لے گی مجھے صبح درخشاں
"او میرے مسافر، مرے شاعر، مرے راشدؔ"
تُو مجھ کو پکارے گی خلش ریز نوا میں!
اُس وقت کہیں دور پہنچ جائے گا راشدؔ
مرہونِ سماعت تری آواز نہ ہو گی!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
انسان
(سانیٹ)

الٰہی تیری دنیا جس میں ہم انسان رہتے ہیں
غریبوں، جاہلوں، مُردوں کی، بیماروں کی دنیا ہے
یہ دنیا بے کسوں کی اور لاچاروں کی دنیا ہے
ہم اپنی بے بسی پر رات دن حیران رہتے ہیں!
ہماری زندگی اک داستاں ہے ناتوانی کی
بنا لی اے خدا اپنے لیے تقدیر بھی تُو نے
اور انسانوں سے لے لی جرأتِ تدبیر بھی تُو نے
یہ داد اچھی ملی ہے ہم کو اپنی بے زبانی کی!
اسی غور و تجسس میں کئی راتیں گزری ہیں
میں اکثر چیخ اُٹھتا ہوں بنی آدم کی ذلّت پر
جنوں سا ہو گیا ہے مجھ کو احساسِ بضاعت پر
ہماری بھی نہیں افسوس، جو چیزیں "ہماری" ہیں!
کسی سے دور یہ اندوہِ پنہاں ہو نہیں سکتا!
خدا سے بھی علاجِ دردِ انساں ہو نہیں سکتا!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
خواب کی بستی
(سانیٹ)

مرے محبوب، جانے دے، مجھے اُس پار جانے دے
اکیلا جاؤں گا اور تیر کے مانند جاؤں گا
کبھی اس ساحلِ ویران پر میں پھر نہ آؤں گا
گوارا کر خدارا اس قدر ایثار جانے دے!
نہ کر اب ساتھ جانے کے لیے اصرار جانے دے!
میں تنہا جاؤں گا، تنہا ہی تکلیفیں اٹھاؤں گا
مگر اُس پار جاؤں گا تو شاید چین پاؤں گا
نہیں مجھ میں زیادہ ہمتِ تکرار جانے دے!
مجھے اُس خواب کی بستی سے کیا آواز آتی ہے؟
مجھے اُس پار لینے کے لیے وہ کون آیا ہے؟
خدا جانے وہ اپنے ساتھ کیا پیغام لایاہے
مجھے جانے دے اب رہنے سے میری جان جاتی ہے!
مرے محبوب! میرے دوست اب جانے بھی دے مجھ کو
بس اب جانے بھی دے اس ارضِ بے آباد سے مجھ کو!
 

فرخ منظور

لائبریرین
گناہ اور محبت

گناہ:
گناہ کے تند و تیز شعلوں سے روح میری بھڑک رہی تھی
ہوس کی سنسان وادیوں میں مری جوانی بھٹک رہی تھی
مری جوانی کے دن گزرتے تھے وحشت آلود عشرتوں میں
مری جوانی کے میکدوں میں گناہ کی مَے چھلک رہی تھی
مرے حریمِ گناہ میں عشق دیوتا کا گزر نہیں تھا
مرے فریبِ وفا کے صحرا میں حورِ عصمت بھٹک رہی تھی
مجھے خسِ ناتواں کے مانند ذوقِ عصیاں بہا رہا تھا
گناہ کی موجِ فتنہ ساماں اُٹھا اُٹھا کر پٹک رہی تھی
شباب کے اوّلیں دنوں میں تباہ و افسردہ ہو چکے تھے
مرے گلستاں کے پھول، جن سے فضائے طفلی مہک رہی تھی
غرض جوانی میں اہرمن کے طرب کا سامان بن گیا مَیں
گنہ کی آلائشوں میں لتھڑا ہوا اک انسان بن گیا میں

محبت:
اور اب کہ تیری محبتِ سرمدی کا بادہ گسار ہوں میں
ہوس پرستی کی لذتِ بے ثبات سے شرمسار ہوں میں
مری بہیمانہ خواہشوں نے فرار کی راہ لی ہے دل سے
اور اُن کے بدلے اک آرزوئے سلیم سے ہمکنار ہوں میں
دلیلِ راہِ وفا بنی ہیں ضیائے الفت کی پاک کرنیں
پھر اپنے "فردوسِ گمشدہ" کی تلاش میں رہ سپار ہوں میں
ہوا ہوں بیدار کانپ کر اک مہیب خوابوں کے سلسلے سے
اور اب نمودِ سحر کی خاطر ستم کشِ انتظار ہوں میں
بہارِ تقدیسِ جاوداں کی مجھے پھر اک بار آرزو ہے
پھر ایک پاکیزہ زندگی کے لیے بہت بے قرار ہوں میں
مجھے محبت نے معصیت کے جہنموں سے بچا لیا ہے
مجھے جوانی کی تیرہ و تار پستیوں سے اٹھا لیا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک دن ۔۔۔لارنس باغ میں

(ایک کیفیت)
بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں
افکار کا ہجوم ہے میرے دماغ میں
چھایا ہوا ہے چار طرف باغ میں سکوت
تنہائیوں کی گود میں لپٹا ہوا ہوں میں
اشجار بار بار ڈراتے ہیں بن کے بھوت
جب دیکھتا ہوں اُن کی طرف کانپتا ہوں میں
بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں!

لارنس باغ! کیف و لطافت کے خلد زار
وہ موسمِ نشاط! وہ ایّامِ نو بہار
بھولے ہوئے مناظرِ رنگیں بہار کے
افکار بن کے روح میں میری اُتر گئے
وہ مست گیت موسمِ عشرت فشار کے
گہرائیوں کو دل کی غم آباد کر گئے
لارنس باغ! کیف و لطافت کے خلد زار!

ہے آسماں پہ کالی گھٹاؤں کا اِزدِحام
ہونے لگی ہے وقت سے پہلے ہی آج شام
دنیا کی آنکھ نیند سے جس وقت جھک گئی
جب کائنات کھو گئی اسرارِ خواب میں
سینے میں جوئے اشک ہے میرے رُکی ہوئی
جا کر اُسے بہاؤں گا کُنجِِ گلاب میں
ہے آسماں پہ کالی گھٹاؤں کا اِزدِحام
افکار کا ہجوم ہے میرے دماغ میں
بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
ستارے
(سانیٹ)

نکل کر جوئے نغمہ خلد زارِ ماہ و انجم سے
فضا کی وسعتوں میں ہے رواں آہستہ آہستہ
بہ سوئے نوحہ آبادِ جہاں آہستہ آہستہ
نکل کر آ رہی ہے اک گلستانِ ترنم سے!
ستارے اپنے میٹھے مد بھرے ہلکے تبسم سے
کیے جاتے ہیں فطرت کو جواں آہستہ آہستہ
سناتے ہیں اسے اک داستاں آہستہ آہستہ
دیارِ زندگی مدہوش ہے اُن کے تکلم سے
یہی عادت ہے روزِ اوّلیں سے ان ستاروں کی
چمکتے ہیں کہ دنیا میں مسرّت کی حکومت ہو
چمکتے ہیں کہ انساں فکرِ ہستی کو بھلا ڈالے
لیے ہے یہ تمنا کہ ہرکرن ان نور پاروں کی
کبھی یہ خاک داں گہوارۂ حسن و لطافت ہو
کبھی انسان اپنی گم شدہ جنت کو پھر پالے!​
 

فرخ منظور

لائبریرین
مری محبت جواں رہے گی

مثالِ خورشید و ماہ و انجم مری محبت جواں رہے گی
عروسِ فطرت کے حسنِ شاداب کی طرح جاوداں رہے گی
شعاعِ امید بن کے ہر وقت روح پر ضو فشاں رہے گی
شگفتہ و شادماں کرے گی، شگفتہ و شادماں رہے گی
مری محبت جواں رہے گی

کیا ہے جب سے غمِ محبت نے دیدۂ التفات پیدا
نئے سرے سے ہوئی ہے گویا مرے لیے کائنات پیدا
ہوئی ہے میرے فسردہ پیکر میں آرزوئے حیات پیدا
یہ آرزو اب رگوں میں میری شراب بن کر رواں رہے گی
مری محبت جواں رہے گی!

مجھے محبت نے ذوقِ تقدیس مثلِ رنگِ سحر دیا ہے
زمانہ بھر کی لطافتوں سے مری جوانی کو بھر دیا ہے
مرے گلستاں کو آشنائے بہارِ جاوید کر دیا ہے
مرے گلستاں میں رنگ و نکہت کی نزہتِ جاوداں رہے گی
مری محبت جواں رہے گی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
بادل
(سانیٹ)
چھائے ہوئے ہیں چار طرف پارہ ہائے ابر
آغوش میں لیے ہوئے دنیائے آب و رنگ
میرے لیے ہے اُن کی گرج میں سرودِ چنگ
پیغامِ انبساط ہے مجھ کو صدائے ابر
اٹھی ہے ہلکے ہلکے سروں میں نوائے ابر
اور قطر ہائے آب بجاتے ہیں جلترنگ
گہرائیوں میں روح کی جاگی ہے ہر امنگ
دل میں اُتر رہے ہیں مرے نغمہائے ابر
مدت سے لٹ چکے تھے تمنا کے بار و برگ
چھایا ہوا تھا روح پہ گویا سکوتِ مرگ
چھوڑا ہے آج زیست کو خوابِ جمود نے
ان بادلوں سے تازہ ہوئی ہے حیات پھر
میرے لیے جوان ہے یہ کائنات پھر
شاداب کر دیا ہے دل اُن کے سرود نے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
فطرت اور عہدِ نَو کا انسان
(دو سانیٹ)

فطرت:
شام ہونے کو ہے اور تاریکیاں چھانے کو ہیں
آ مرے ننھے، مری جاں، آ مرے شہکار آ!
تجھ پہ صدقے خلد کے نغمات اور انوار آ
آ مرے ننھے! کہ پریاں رات کی آنے کو ہیں
ساری دنیا پر فسوں کا جال پھیلانے کو ہیں
تیری خاطر لا رہی ہیں لوریوں کے ہار آ
دل ترا کب تک نہ ہو گا "کھیل" سے بیزار آ
جب "کھلونے" بھی ترے نیندوں میں کھو جانے کو ہیں؟
کھیل میں کانٹوں سے ہے دامانِ صد پارا ترا
کاش تُو جانے کہ سامانِ طرب ارزاں نہیں
کون سی شے ہے جو وجہِ کاہشِ انساں نہیں
کس لیے رہتا ہے دل شیدائے نظّارا ترا؟
آ کہ ہے راحت بھری آغوش وا تیرے لیے؟
آ کہ میری جان ہے غم آشنا تیرے لیے؟

انسان:
جانتا ہوں مادرِ فطرت! کہ میں آوارہ ہوں
طفلِ آوارہ ہوں لیکن سرکش و ناداں نہیں
میری اس آوارگی میں وحشتِ عصیاں نہیں
شوخ ہوں لیکن ابھی معصوم اور بیچارہ ہوں
تجھ کو کیا غم ہے اگر وارفتۂ نظارہ ہوں؟
شکر ہے زندانیِ اہریمن و یزداں نہیں
ان سے بڑھ کر کچھ بھی وجۂ کاہشِ انساں نہیں
میں مگر اُن کے افق سے دور اک سیارہ ہوں!
شام ہونے کو ہے اور تاریکیاں چھانے کو ہیں
تُو بلاتی ہے مجھے راحت بھری آغوش میں
کھیل لوں تھوڑا سا آتا ہوں، ابھی آتا ہوں میں
اب تو "دن" کی آخری کرنیں بھی سو جانے کو ہیں
اور کھو جانے کو ہیں وہ بھی کنارِ دوش میں
بہہ چلی ہے روح نیندوں میں مری آتا ہوں میں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
مکافات

رہی ہے حضرتِ یزداں سے دوستی میری
رہا ہے زہد سے یارانہ استوار مرا
گزر گئی ہے تقدس میں زندگی میری
دل اہرمن سے رہا ہے ستیزہ کار مرا
کسی پہ روح نمایاں نہ ہو سکی میری
رہا ہے اپنی امنگوں پہ اختیار مرا

دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو
وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انھیں
زبانِ شوق بنایا نہیں نگاہوں کو
کیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب انھیں
خیال ہی میں کیا پرورش گناہوں کو
کبھی کیا نہ جوانی سے بہرہ یاب انھیں
یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو
کہ ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا
اذیتوں سے بھری ہے ہر ا یک بیداری
مہیب و روح ستاں ہے ہر ایک خواب مرا
الجھ رہی ہیں نوائیں مرے سرودوں کی
فشارِ ضبط سے بے تاب ہے رباب مرا
مگر یہ ضبط مرے قہقہوں کا دشمن تھا
پیامِ مرگ جوانی تھا اجتناب مرا

لو آگئی ہیں وہ بن کر مہیب تصویریں
وہ آرزوئیں کہ جن کا کیا تھا خوں میں نے
لو آگئے ہیں وہی پیروانِ اہریمن
کیا تھا جن کو سیاست سے سرنگوں میں نے
کبھی نہ جان پہ دیکھا تھا یہ عذابِ الیم
کبھی نہیں اے مرے بختِ واژگوں میں نے
مگر یہ جتنی اذیت بھی دیں مجھے کم ہے
کیا ہے روح کو اپنی بہت زبوں میں نے
اسے نہ ہونے دیا میں نے ہم نوائے شباب
نہ اس پہ چلنے دیا شوق کا فسوں میں نے
اے کاش چھپ کے کہیں اک گناہ کر لیتا
حلاوتوں سے جوانی کو اپنی بھر لیتا
گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں میں نے؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
شاعر کا ماضی

یہ شب ہائے گزشتہ کے جنوں انگیز افسانے
یہ آوارہ پریشاں زمزمے سازِ جوانی کے
یہ میری عشرتِ برباد کی بے باک تصویریں
یہ آئینے مرے شوریدہ آغازِ جوانی کے!
یہ اک رنگیں غزل لیلیٰ کی زلفوں کی ستائش میں
یہ تعریفیں سلیمیٰ کی فسوں پرور نگاہوں کی
یہ جذبے سے بھرا اظہار، شیریں کی محبت کا
یہ اک گزری کہانی آنسوؤں کی اور آہوں کی
کہاں ہو او مری لیلیٰ۔۔۔ کہاں ہو او مری شیریں؟
سلیمیٰ تم بھی تھک کر رہ گئیں راہِ محبت میں؟
مرے عہدِ گزشتہ پر سکوتِ مرگ طاری ہے
مری شمعو، بجھی جاتی ہو کس طوفانِ ظلمت میں؟
مرے شعرو، مرے "فردوسِ گم گشتہ" کے نظّارو!
ابھی تک ہے دیارِ روح میں اک روشنی تم سے
کہ میں حسن و محبت پر لٹانے کے لیے تم کو
اڑا لایا تھا جا کر محفلِ مہتاب و انجم سے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
خواب ِآوارہ

مجھے ذوقِ تماشا لے گیا تصویر خانوں میں
دکھائے حُسن کاروں کے نقوشِ آتشیں مجھ کو
اور ان نقشوں کے محرابی خطوں میں اور رنگوں میں
نظر آیا ہمیشہ ایک رؤیائے حسیں مجھ کو
سرود و رقص کی خاطر گیا ہوں رقص گاہوں میں
تو اہلِ رقص کے ہونٹوں پہ آوارہ تبسم میں
شباب و شعر سے لبریز اعضا کے ترنم میں
تھرکتے بازوؤں میں، شوق سے لرزاں نگاہوں میں
ہمیشہ جھانکتا پایا وہی خوابِ حسیں میں نے
گزارے ہیں بہت دن حافظ و خیّام سے مل کر
بہت دن آسکر و وائیلڈ کی مدہوش دنیا میں
گزاری ہیں کئی راتیں تیاتر میں، سنیما میں
اسی خوابِ فسوں انگیز کی شیریں تمنا میں
بہت آوارہ رکھتا ہے یہ خوابِ سیم گوں مجھ کو
لیے پھرتا ہے ہر انبوہ میں اس کا جنوں مجھ کو
مگر یہ خواب کیوں رہتا ہے افسانوں کی دنیا میں
حقیقت سے بہت دور، اور رومانوں کی دنیا میں
چھپا رہتا ہے رقص و نغمہ کے سنگیں حجابوں میں
ملا رہتا ہے نقاشوں کے بے تعبیر خوابوں میں؟
مرا جی چاہتا ہے ایک دن اس خوابِ سیمیں کو
حجابِ فن و رقص و نغمہ سے آزاد کر ڈالوں
ابھی تک یہ گریزاں ہے محبت کی نگاہوں سے
اسے اک پیکرِ انسان میں آباد کر ڈالوں!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
زندگی، جوانی، عشق، حسن

م___
"مری ندیم کھلی ہے مری نگاہ کہاں
ہے کس طرف کو مری زیست کا سفینہ رواں
"وطن" کے بحر سے دور، اُس کے ساحلوں سے دور؟
ہے میرے چار طرف بحرِ شعلہ گوں کیسا؟
ہے میرے سینے میں ایک ورطۂ جنوں کیسا؟
مری ندیم کہاں ایسے شعلہ زار میں ہم
جہاں دماغ میں چھپتی ہوئی ضیائیں ہیں
مہیب نور میں لپٹی ہوئی فضائیں ہیں!

"کہاں ہے آہ، مرا عہدِ رفتہ، میرا دیار
مرا سفینہ کنارے سے چل پڑا کیسے؟
یہ ہر طرف سے برستے ہیں ہم پہ کیسے شرار
ہماری راہ میں یہ "آتشیں خلا" کیسے؟

"وہ سامنے کی زمیں ہے مگر جزیرۂ عشق
جو دور سے نظر آتی ہے جگمگاتی ہوئی
کہ "سر زمینِ عجم" کے کہیں قریب ہیں ہم
ترے وطن کے نواحی میں اے حبیب ہیں ہم؟
یہ کیا طلسم ہے، کیا راز ہے، کہاں ہیں ہم؟
تہِ زمیں ہیں کہ بالائے آسماں ہیں ہم؟
کہ ایک خواب میں بے مدعا رواں ہیں ہم؟

ع____
"یہ ایک خواب ہے، بے مدعا رواں ہیں ہم
یہ اک فسانہ ہے کردارِ داستاں ہیں ہم
ابھی یہاں سے بہت دورہے جہانِ عجم
تصورات میں جس خلد کے جواں ہیں ہم
وہ سامنے کی زمیں ہے مگر جزیرۂ عشق
جو دور سے نظر آتی ہے جگمگاتی ہوئی
فضا پہ جس کی درخشاں ہے اک ستارۂ نور
شعاعیں رقص میں ہیں زمزمے بہاتی ہوئی‘‘

م____
"اگر یہاں سے بہت دور ہے "جہانِ عجم"
مری ندیم چل اس سرزمیں کی جانب چل"

ع____
"اُسی کی سمت رواں ہیں، سفینہ راں ہیں ہم
یہیں پہنچ کے ملے گی مگر نجات کہیں
ہمیں زمان ومکاں کے حدودِ سنگیں سے
نہ خیروشر ہے نہ یزدان واہرمن ہیں یہاں
کہ جاچکے ہیں وہ اس سرزمینِ رنگیں سے‘‘

م____
"مری ندیم چل اس سرزمیں کی جانب چل!"

ع____
"اُسی کی سمت رواں ہیں، سفینہ راں ہیں ہم
یہاں عدم ہے نہ فکرِ وجود ہے گویا
یہاں حیات مجسّم سرود ہے گویا"
 

فرخ منظور

لائبریرین
رفعت
(سانیٹ)

کوئی دیتا ہے بہت دُور سے آواز مجھے
چھپ کے بیٹھا ہے وہ شاید کسی سیّارے میں
نغمہ و نور کے اک سرمدی گہوارے میں
دے اجازت جو تری چشمِ فسوں ساز مجھے
اور ہو جائے محبت پرِ پرواز مجھے
اڑ کے پہنچوں میں وہاں روح کے طیّارے میں
سرعتِ نور سے یا آنکھ کے "پلکارے" میں
کہ فلک بھی نظر آتا ہے درباز مجھے!
سالہا سال مجھے ڈھونڈیں گے دنیا کے مکیں
دوربینیں بھی نشاں تک نہ مرا پائیں گی
اور نہ پیکر ہی مرا آئے گا پھر سوئے زمیں
عالمِ قدس سے آوازیں مری آئیں گی
بحرِ خمیازہ کش وقت کی امواجِ حسیں
اک سفینہ مرے نغموں سے بھرا لائیں گی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
دل سوزی

یہ عشقِ پیچاں کے پھول پتے جو فرش پر یوں بکھر رہے ہیں
یہ مجھ کو تکلیف دے رہے ہیں، یہ مجھ کو غمگین کر رہے ہیں
انھیں یہاں سے اٹھا کے اک بار پھر اسی بیل پر لگا دو
وگرنہ مجھ کو بھی ان کے مانند خواب کی گود میں سلا دو!

خزاں زدہ اک شجر ہے، اُس پر ضیائے مہتاب کھیلتی ہے
اور اُس کی بے رنگ ٹہنیوں کو وہ اپنے طوفاں میں ریلتی ہے
کوئی بھی ایسی کرن نہیں جو پھر اس میں روحِ بہار بھر دے
تو کیوں نہ مہتاب کو بھی یا رب تو یونہی بے برگ و بار کر دے!

ندیم، آہستہ زمزموں کے سرودِ پیہم کو چھوڑ بھی دے
اُٹھا کے ان نازک آبگینوں کو پھینک دے اور توڑ بھی دے
وگرنہ اک آتشیں نوا سے تو پیکر و روح کو جلا دے
عدم کے دریائے بیکراں میں سفینۂ زیست کو بہا دے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
جرأتِ پرواز

بجھ گئی شمع ضیا پوشِ جوانی میری!
آج تک کی ہے کئی بار "محبت" میں نے
اشکوں اور آہوں سے لبریز ہیں رومان مرے
ہو گئی ختم کہانی میری!
مٹ گئے میری تمناؤں کے پروانے بھی
خوفِ ناکامی و رسوائی سے
حسن کے شیوۂ خود رائی سے
دلِ بے چارہ کی مجبوری و تنہائی سے!
میرے سینے ہی میں پیچاں رہیں آہیں میری
کر سکیں روح کو عریاں نہ نگاہیں میری!

ایک بار اور محبت کر لوں
سعیِ ناکام سہی
اور اک زہر بھرا جام سہی
میرا یا میری تمناؤں کا انجام سہی
ایک سودا ہی سہی، آرزوئے خام سہی
ایک بار اور محبت کر لوں؟
ایک "انسان" سے الفت کر لوں؟
میرے ترکش میں ہے اک تیر ابھی
مجھ کو ہے جرأتِ تدبیر ابھی
بر سرِ جنگ ہے تقدیر ابھی
اور تقدیر پہ پھیلانے کو اک دام سہی؟

مجھ کو اک بار وہی "کوہ کنی" کرنے دو
اور وہی "کاہ بر آوردن" بھی___؟
یا تو جی اٹھوں گا اس جرأتِ پرواز سے میں
اور کر دے گی وفا زندۂ جاوید مجھے
خود بتا دے گی رہِ جادۂ امید مجھے
رفعتِ منزلِ ناہید مجھے
یا اُتر جاؤں گا میں یاس کے ویرانوں میں
اور تباہی کے نہاں خانوں میں
تاکہ ہو جائے مہیّا آخر
آخری حدِ تنزل ہی کی اک دید مجھے
جس جگہ تیرگیاں خواب میں ہیں
اور جہاں سوتے ہیں اہریمن بھی
تاکہ ہو جاؤں اسی طرح شناسا آخر
نور کی منزلِ آغاز سے میں
اپنی اس جرأتِ پرواز سے میں
 

فرخ منظور

لائبریرین
وادیِ پنہاں

وقت کے دریا میں اٹھی تھی ابھی پہلی ہی لہر
چند انسانوں نے لی اک وادیِ پنہاں کی راہ
مل گئی اُن کو وہاں
آغوشِ راحت میں پناہ
کر لیا تعمیر اک موسیقی و عشرت کا شہر،
مشرق و مغرب کے پار
زندگی اور موت کی فرسودہ شہ راہوں سے دور
جس جگہ سے آسماں کا قافلہ لیتا ہے نور
جس جگہ ہر صبح کو ملتا ہے ایمائے ظہور
اور بُنے جاتے ہیں راتوں کے لیے خوابوں کے جال
سیکھتی ہے جس جگہ پروازِ حور
اور فرشتوں کو جہاں ملتا ہے آہنگِ سُرور
غم نصیب اہریمنوں کو گریہ و آہ و فغاں!

کاش بتلا دے کوئی
مجھ کو بھی اس وادیِ پنہاں کی راہ
مجھ کو اب تک جستجو ہے
زندگی کے تازہ جولاں گاہ کی
کیسی بیزاری سی ہے
زندگی کے کہنہ آہنگِ مسلسل سے مجھے
سر زمینِ زیست کی افسردہ محفل سے مجھے
دیکھ لے اک بار کاش
اس جہاں کا منظر رنگیں نگاہ
جس جگہ ہے قہقہوں کا اک درخشندہ وفور
جس جگہ سے آسماں کا قافلہ لیتا ہے نُور
جس کی رفعت دیکھ کر خود ہمتِ یزداں ہے چُور
جس جگہ ہے وقت اک تازہ سُرور
زندگی کا پیرہن ہے تار تار!
جس جگہ اہریمنوں کا بھی نہیں کچھ اختیار
مشرق و مغرب کے پار!
 

فرخ منظور

لائبریرین
طلسمِ جاوداں

رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت،
اب رہنے دے،
اپنی آنکھوں کے طلسمِ جاوداں میں بہنے دے
میری آنکھوں میں ہے وہ سحرِ عظیم
جو کئی صدیوں سے پیہم زندہ ہے
انتہائے وقت تک پایندہ ہے!
دیکھتی ہے جب کبھی آنکھیں اٹھا کر تو مجھے
قافلہ بن کر گزرتے ہیں نگہ کے سامنے
مصر و ہند و نجد و ایراں کے اساطیرِ قدیم:
کوئی شاہنشاہ تاج و تخت لٹواتا ہوا
دشت و صحرا میں کوئی شہزادہ آوارہ کہیں
سر کوئی جانباز کہساروں سے ٹکراتا ہوا
اپنی محبوبہ کی خاطر جان سے جاتا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
قافلہ بن کر گزر جاتے ہیں سب
قصہ ہائے مصر و ہندوستان و ایران و عرب!

رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت،
اب رہنے دے،
آج میں ہوں چند لمحوں کے لیے تیرے قریب،
سارے انسانوں سے بڑھ کر خوش نصیب!
چند لمحوں کے لیے آزاد ہوں
تیرے دل سے اخذ نور و نغمہ کرنے کے لیے
زندگی کی لذتوں سے سینہ بھرنے کے لیے؛
تیرے پیکر میں جو روحِ زیست ہے شعلہ فشاں
وہ دھڑکتی ہے مقام و وقت کی راہوں سے دور
بیگانۂ مرگ و خزاں!
ایک دن جب تیرا پیکر خاک میں مل جائے گا
زندہ، تابندہ رہے گی اس کی گرمی، اُس کا نور
اپنے عہدِ رفتہ کے جاں سوز نغمے گائے گی
اور انسانوں کا دیوانہ بناتی جائے گی

رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت
اب رہنے دے!
وقت کے اس مختصر لمحے کو دیکھ
تُو اگر چاہے تو یہ بھی جاوداں ہو جائے گا
پھیل کر خود بیکراں ہو جائے گا
مطمئن باتوں سے ہو سکتا ہے کون؟
روح کی سنگین تاریکی کو دھو سکتا ہے کون؟
دیکھ اس جذبات کے نشّے کو دیکھ
تیرے سینے میں بھی اک لرزش سی پیدا ہو گئی!
زندگی کی لذتوں سے سینہ بھر لینے بھی دے
مجھ کو اپنی روح کی تکمیل کر لینے بھی دے!
 
Top