فرخ منظور
لائبریرین
ہونٹوں کالمس
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
جس سے میرا جسم طوفانوں کی جولاں گاہ ہے
جس سے میری زندگی، میرا عمل گمراہ ہے
میری ذات اور میرے شعر افسانہ ہیں!
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
اور پھر "لمسِ طویل"
جس سے ایسی زندگی کے دن مجھے آتے ہیں یاد
میں نے جو اب تک بسر کی ہی نہیں
اور اک ایسا مقام
آشنا جس کے نظاروں سے نہیں میری نگاہ!
تیرے اک لمسِ جنوں انگیز سے
کیسے کھُل جاتی ہے کرنوں کے لیے اک شاہراہ
کیسے ہو جاتی ہے، ظلمت تیز گام،
کیسے جی اٹھتے ہیں آنے وا لے ایّامِ جمیل!
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
جس کے آگے ہیچ جرعاتِ شراب
یہ سنہری پھل، یہ سیمیں پھول مانندِ سراب
سوزِ شمع و گردشِ پروانہ گویا داستاں
نغمۂ سیارگاں، بے رنگ و آب
قطرۂ بے مایہ طغیانِ شباب!
تیرے ان ہونٹوں کے اک لمسِ جنوں انگیز سے
چھا گیا ہے چار سُو
چاندنی راتوں کا نورِ بیکراں
کیف و مستی کا وفورِ جاوداں
چاندنی ہے اور میں اک "تاک" کے سائے تلے
اِستادہ ہوں
جان دینے کے لیے آمادہ ہوں
میری ہستی ہے نحیف وبے ثبات
"تاک" کی ہر شاخ ہے آفاق گیر!
حملۂ مرگ و خزاں سے بے نیاز
سامنے جس کے مری دنیا ہے، دنیائے مجاز
میرے جسم و روح جس کی وسعتوں کے سامنے
رفتہ رفتہ مائلِ حلّ وگداز!
ہاں مگر اتنا تو ہے،
میری دنیا کو مٹا کر ہو چلی ہیں آشکار
اور دنیائیں مقام و وقت کی سرحد کے پار
جن کی تو ملکہ ہے میں ہوں شہریار!
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس،
جس سے میری سلطنت تابندہ ہے
انتہائے وقت تک پائندہ ہے!
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
جس سے میرا جسم طوفانوں کی جولاں گاہ ہے
جس سے میری زندگی، میرا عمل گمراہ ہے
میری ذات اور میرے شعر افسانہ ہیں!
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
اور پھر "لمسِ طویل"
جس سے ایسی زندگی کے دن مجھے آتے ہیں یاد
میں نے جو اب تک بسر کی ہی نہیں
اور اک ایسا مقام
آشنا جس کے نظاروں سے نہیں میری نگاہ!
تیرے اک لمسِ جنوں انگیز سے
کیسے کھُل جاتی ہے کرنوں کے لیے اک شاہراہ
کیسے ہو جاتی ہے، ظلمت تیز گام،
کیسے جی اٹھتے ہیں آنے وا لے ایّامِ جمیل!
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
جس کے آگے ہیچ جرعاتِ شراب
یہ سنہری پھل، یہ سیمیں پھول مانندِ سراب
سوزِ شمع و گردشِ پروانہ گویا داستاں
نغمۂ سیارگاں، بے رنگ و آب
قطرۂ بے مایہ طغیانِ شباب!
تیرے ان ہونٹوں کے اک لمسِ جنوں انگیز سے
چھا گیا ہے چار سُو
چاندنی راتوں کا نورِ بیکراں
کیف و مستی کا وفورِ جاوداں
چاندنی ہے اور میں اک "تاک" کے سائے تلے
اِستادہ ہوں
جان دینے کے لیے آمادہ ہوں
میری ہستی ہے نحیف وبے ثبات
"تاک" کی ہر شاخ ہے آفاق گیر!
حملۂ مرگ و خزاں سے بے نیاز
سامنے جس کے مری دنیا ہے، دنیائے مجاز
میرے جسم و روح جس کی وسعتوں کے سامنے
رفتہ رفتہ مائلِ حلّ وگداز!
ہاں مگر اتنا تو ہے،
میری دنیا کو مٹا کر ہو چلی ہیں آشکار
اور دنیائیں مقام و وقت کی سرحد کے پار
جن کی تو ملکہ ہے میں ہوں شہریار!
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس،
جس سے میری سلطنت تابندہ ہے
انتہائے وقت تک پائندہ ہے!