حسن نظامی
لائبریرین
کلمہ طیبہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
اَلَم تَرَکَیفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیبَہً کَشَجَرَۃٍ طَیبَۃٍ اَصلُھَا ثَابِتُ وَفَرعُھا فِی السَّمآء۔تُوتِی اُکُلَہَا کلَّ حِینٍ بِاذنِ ربّھَا وَیضرِبُ اللّٰہُ الاَمثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُم یَتَذَ کَّرُونَ ۔(سورۃ ابراہیم پارہ ۱۳)
برادرانِ اسلام ! سورۃ ابراہیم کی دو آیتیں میں نے آپ کے سامنے تلاوت کیں ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ ایک مشکل اور پیچیدہ حقیقت کو ایک مثال دے کر سمجھاتے ہیں کیونکہ جو بات مشکل ہوتی ہے آسانی سے سمجھ نہیں آتی ۔ استاد اس کی مثال پیش کر کے سمجھاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی ایک مشکل بات کو ، ایک پیچیدہ مسئلے کو سمجھانے کے لئے ایک مثال ذکر کرتے ہیں تاکہ وہ حقیقت سب پر آشکارا ہو جائے ، عیاں ہو جائے ، سارے لوگ اس کو سمجھ لیں، خواہ وہ ذہین ہوں یاکند طبع ، خواہ وہ عالم ہوں یا ان پڑھ ۔ تا کہ ہر ایک کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے وہ کون سی حقیقت ہے ، وہ کلمہ طیبہ کی حقیقت ہے کہ کلمہ طیبہ کیا چیز ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے اثرات کیا ہیں؟ اس کی برکات کیا ہیں؟ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ ایک مثال دے کر بیان فرماتے ہیں۔
ارشاد فرمایا:
’’الم ترکیف ضرب اللّٰہ کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ۔‘‘
کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو اللہ تعالیٰ کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال بیان فرما رہے ہیں۔ کہ کلمہ طیبہ کو یوں سمجھو ۔ جس طرح ایک شجرہ طیبہ ایک پاکیزہ درخت ہوا کرتا ہے۔ جو خوبیاں ، جو صفات ، جو کمالات ، جو محاسن اس میں پائے جاتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح کی صفات ، اسی طرح کی خصوصیات کلمہ طیبہ میں ہیں۔ اللہ پاک اس شجرہ طیبہ کی خصوصیات بیان کرتے ہیں کہ شجرہ طیبہ آپ کس کو کہتے ہیں؟ کس درخت کو ہم پاکیزہ درخت کہہ سکتے ہیں۔
ارشاد فرمایا:
کلمہ طیبہ کی مثال ایک شجرہ طیبہ کی مانند ہے، اَصلُھَا ثَابِت’‘ اس کی پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کی جڑیں بہت گہری چلی گئی ہیں۔ اس کی جڑیں تحت الثریٰ تک پہنچی ہوئی ہیں۔ سنتے ہیں جس درخت کی جڑیں اوپر اوپر ہوں، جس درخت کی جڑیں مضبوط اور پختہ نہ ہوں، ایک تو یہ ہوتا ہے کہ وہ پائیدار نہیں ہوتا، کچھ مہینوں کے بعد وہ خود بخود خشک ہو جاتا ہے۔ آپ اسے کھاد دیتے ہیں ، پانی دیتے ہیں، سپرے کرتے ہیں۔ جس درخت کی جڑیں اوپر اوپر ہوں گی وہ خود بخود خشک ہو جائے گا۔ آپ خواہ کتنی بھی کوشش کریں ۔ گندم کا بوٹا ہے اس کی جڑیں اوپر اوپر ہوا کرتی ہیں آپ اس کو بہترین قسم کی کھاد ڈالیں اور اسے بروقت پانی دیں، آپ اسے سپرے کریں ، ہر قسم کے کیڑوں مکوڑوں سے اس کا بچائو کریں۔ جب بیساکھ کا مہینہ آئے گا ، اس کاوہ رنگ بدلنا شروع ہو جائے گا۔ اور جب بیساکھ گزر جائے گا وہ پودا سوکھنا شروع ہو جائے گا۔ اور جب بیساکھ گزر جائے گا اس مہینہ میں آپ کاٹ لیں تو کاٹ لیں، اگر نہ کاٹیں اور جیٹھ کا مہینہ آ جائے، ہاڑ کا مہینہ آجائے تو وہ خود بخود زمین بوس ہونا شروع ہو جائے گا۔ کوئی سہارا، کوئی خوراک، کوئی قوت، کوئی سپرے، اس کو برقرار نہیں رکھ سکتی ۔
کیونکہ اس کی جڑیں چھوٹی ہیں اس کی جڑیں زمین کے اوپر اوپر ہیں،توجس چیز کی جڑیں اوپر اوپر ہوتی ہیں، اس کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ اصلھا ثابت ‘‘ یہ کلمہ طیبہ ایسا درخت نہیں ہے جس کی جڑیں گہری نہ ہوں، زمین کی اوپر والی سطح تک ہی محدود ہوں کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد خود ہی اس پر خزاں کے آثار نمودار ہو جائیں، خود ہی اس کی رنگت بدل جائے، خود ہی اس کی تازگی ختم ہو جائے، خود ہی زمین بوس ہو جائے، یہ ایسا درخت نہیں بلکہ یہ کیا ہے۔
’’ اصلھا ثابت ‘‘ اس کی جڑیں زمین میں بہت گہری ہیں۔ تحت الثریٰ تک چلی گئی ہیں۔ اور جس درخت کی جڑ گہری ہوا کرتی ہے، وہ کبھی خشک نہیں ہوتا۔ صحرائوں میں چلے جائیی جہاں بارش نہیں برستی ہے، جہاں ندی نالے کا پانی مہیا نہیں ہوتا ، جہاں کوئی کنواں نہیں ہوتا، جہاں کوئی وسائل نہیں ہوتے ، جو درخت آپ وہاں دیکھیں وہ آپ کو سر سبز و شاداب نظر آئیں گے تو اس کاسبب کیا ہے؟ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ان کی جڑیں بہت گہری ہیں اور گہری جڑیں نیچے سے پانی حاصل کر کے اپنی زندگی اور اپنے شباب کو برقرار رکھتی ہیں۔ لیکن وہ درخت جس کی جڑیں گہری نہیں ہوتیں وہ خود حوادثات دہر کی نذر ہو جاتا ہے۔ اور جس درخت کی جڑیں گہری ہوا کرتی ہیں۔ جتنی گہریں ہوں گی اتنا ہی وہ دیرپا ہوگا۔ جتنی گہری ہوں گی موسمی حوادثات کا آسانی سے مقابلہ کر سکے گا۔ جتنی ہی اس کی جڑیں گہری ہوں گی وہ اتنا ہی خشکی کو برداشت کر سکے گا۔
کلمہ طیبہ کی پہلی خصوصیت :
اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی ایک خصوصیت تو یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کی مثال شجر طیبہ کی ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ’’ اصلھا ثابت ‘‘ کلمہ طیبہ جب ایسا درخت ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ تو اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس پر کبھی خزاں نہیںٓ آسکتی،مصائب و آلام کی کوئی آندھی اسے اکھیڑ نہیں سکتی۔ تکلیفیں آپ اسے پہنچائیں،ظلم کی انتہا کر دیں، جہاں لا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ کا درخت لگ جایا کرتا ہے ، وہ جان تو دے سکتا ہے مگر اس درخت پر خزاں نہیں آنے دیتا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ اصلھا ثابت کیونکہ کلمہ طیبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ جب دل میں جڑ پکڑ لیتا ہے جب ذہن اس کو قبول کر لیتا ہے ، جب روح میں یہ رچ بس جاتا ہے، تو دنیا کا کوئی انقلاب، کوئی زلزلہ، دنیا کا کوئی طوفان، دنیا کی کوئی آندھی، اس کو گرا نہیں سکتی۔ اسے اکھیڑ نہیں سکتی ۔ یہ تمام حوادثات دہر کا مقابلہ سینہ تان کر کیا کرتا ہے۔میں نے اور آپ نے بھی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ایسی مثالیں سنی ہیں،کہ جن کو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پاک سے لا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ محمّد رَسُول اللّٰہ کا سبق پڑھایا تھا۔ جن کے دلوں کی زمین میں کلمہ توحید کا بیج نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا۔ ان پر کتنی تکلیفیں آئیں ، اُنہیں کن کن مصائب و آلام کا مقابلہ کرنا پڑا۔
لیکن کوئی مثال ایسی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی جان بچانے کے لئے ،اپنا مال بچانے کے لئے ،اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لئے یا آرام حاصل کرنے کے لئے دین کے اس رشتے کو، اس تعلق کو چھوڑ دیا ، اور پھر کفر کی طرف لوٹ گئے ہوں۔ تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی بلکہ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ کا بیج لگایا۔ اس سے جو تن آور درخت پیدا ہوا وہ ہماری روح میں بس گیا، وہ ہمارے ذہن میں رچ گیا۔ ہمارے قلب کی گہرائیوں تک اس کی جڑیں پہنچ گئیں اور جس درخت کی جڑیں گہری اور پختہ ہوا کرتی ہیں اس کو حوادثات کی آندھیاں گرا نہیں سکتیں۔
سید نافاروق اعظم اور نُورقرآن:
آپ نے سناہوگا کہ! سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالےٰ عنہ ابھی نہ فاروق اعظم تھے، نہ رضی اللہ عنہ تھے ، ابھی صرف عمر بن خطاب تھے، ابھی دنیا ان کو یہ کہہ کر یاد کرتی تھی کہ وہ خطاب کا بیٹا ہے ۔ اس کا عمر نام ہے۔ کفر کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ کی عداوت کا آتش کدہ ان کے سینے میں دہکتا رہتا ہے۔ ان کی ساری کوششیں، ان کی ساری کاوشیں، ان باتوں پر مرکوز تھیں کہ دین کے جھنڈے کو ہم سر نگوں کر دیں۔ اس دین کی شمع کو ہم گل کر دیں۔ اور یہ جو دعوت لے کر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں۔ اس کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیں۔ انہوں نے بڑی کوششیں کیں۔ لیکن اس دین کے ماننے والوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ کہ آج فلاں مشرف بہ اسلام ہو رہا ہے۔ آج فلاںنے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر ہاتھ رکھ کر کلمہ پڑھ رہا ہے۔ ہر روز اور ہر رات اسلام کے ماننے والوں سے عداوت کا جذبہ تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا ۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک دن یہ فیصلہ کیا کہ اس شخص کو ختم کر کے رکھ دوں گا۔ میں اس کو زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔ اگر یہ زندہ رہا تو ہمارے خدائوں کی بادشاہی، ہمارے خدائوں کی خدائی کا تختہ الٹ جائے گا اور ایک وقت آئے گا جب ان کا نام لینے والا کوئی نہ ہو گا۔ تو اس وقت کے آنے سے پہلے میں یہ آخری قدم اٹھانا چاہتا ہوں۔
وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلتے ہیں۔ ننگی تلوار گلے میں لٹک رہی ہے۔ غصے اور ناراضگی کے آثار چہرے پر نمودار ہو رہے ہیں۔ گلی سے گزر رہے ہیں کسی نے پوچھا عمر ؔکہاں غصے سے طوفان بنے بھاگتے جا رہے ہو ۔ انہوں نے کہا تمہیں تو معلوم ہے کہ اس شخص نے ہمیں تباہ برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ہمارے خدائوں کی عظمت کا چاند اس کی آمد سے گہنا رہا ہے۔ جب تک میں اس کو ختم نہ کر لوں اس کی زندگی کا چراغ گل نہ کر دوں اس وقت تک مجھے چین نہیں آسکتا۔ آج میں آخری اقدام کے لئے جا رہا ہوں اور تلوار میں نے اس لئے بے نیام کی ہے کہ اس ذاتِ پاک کی زندگی کا خاتمہ کر دوں جو سارے عالم کی زندگی کا باعث ہے۔ تو اس نے کہا تم عجیب آدمی ہو تمہاری نادانی کی کوئی حد بھی ہے تم اس کو شہید کرنے کے لئے جارہے ہو تمہاری بہن جس کا کلمہ پڑھ چکی ہے۔ اور اس کی غلام بن چکی ہے وہ اس کے دستِ مبارک پر بیعت کر چکی ہے۔ پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو تب ان کا قصد کرنا۔ جب انہوں نے سنا کہ میری بہن لات وعزّٰی کو چھوڑ کر محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا پر ایمان لا چکی ہے تو ان کے غصے کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ اپنی بہن کے گھر کی طرف لوٹے دیکھا کہ دروازے بند ہیں اور اند ر سے گنگنانے کی سی آواز آ رہی ہے ۔ آپ نے زور سے دستک دی ۔ فاطمہ سہم گئیں آواز دی میں عمر ہوں دروازہ کھولو۔ وہ اپنے استاد سے قرآن کریم پڑھ رہی تھیں۔ سنا کہ عمر آ رہا ہے اور کفر وشرک کی آلودگی سے ابھی ملوث ہے تو اس اندیشہ سے کہ مبادا! وہ کافر !خدا کے پاک کلام کو ہاتھ لگائے یا اس کی بے ادبی کرے انہوں نے اسے غلاف میں لپیٹا اور اونچی جگہ پر رکھ دیا تا کہ ان کا ہاتھ وہاں تک نہ پہنچے ۔
عمر داخل ہوئے پوچھا کیا کر رہی تھی ، اس نے کہا کچھ نہیں ٹال مٹول کرنا چاہا عمر کہتے ہیں کہ میں نے سن لیا ہے مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ تم مسلمان ہو گئی ہو ۔ مارنا شروع کر دیا۔ عمر کا ہاتھ اور وہ ایک صنفِ لطیف جسم لہو لہان ہو گیا۔ لیکن آپ نے فرمایاکہ! اے عمر! تم میری جان تو نکال سکتے ہو لیکن مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میرے دل سے نہیں نکال سکتے ۔ ’’اصلھا ثابت‘‘جب ایمان کی جڑیں مضبوط ہو جاتی ہیں جب اس درخت کی جڑیں تحت الثریٰ تک پہنچ جایا کرتی ہیں۔ تو مصائب و آلام تکلیف و تعذیب کی کوئی آندھی اور طوفان اس کو اکھیڑ نہیں سکتا ، اس کو ساقط نہیں کر سکتا۔ ’’اصلھا ثابت‘‘
حضرت بلال اور عشق خدا :
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بار بار دھکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا جاتا، آپ کے ہوش اڑ جایا کرتے تھے ۔ لیکن بے ہوشی کے عالم میں بھی آپ کی زبان سے یہی نکلتا تھا۔ اَحَد’‘ ، اَحَد’‘ ، اَحَد’‘ جس خدا کو میں نے مانا ہے وہ وحدہ ٗ لاشریک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے، اس کاکوئی نِد نہیں ہے، اس کی کوئی ضد نہیں ہے۔
تو اللہ تعالےٰ فرماتے ہیں اے میرے بندو!تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں کلمہ طیبہ کی حقیقت کو کس طرح تمہارے سامنے عیاں کر رہا ہوں۔ کس طرح اس کی حقیقت کو تمہارے سامنے واضح کر رہا ہوں۔ اور وہ بھی ایک مثال دے کر، فرمایا کلمہ طیبہ کی مثال ایسی ہے جس طرح کہ ایک پاکیزہ درخت اور پاکیزہ درخت کی جو تین صفات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں۔
ایک تو یہ کہ اس کی جڑیں گہری ہیں لَا اَلٰہَ اِلا اللّٰہ شجرہ طیبہ کا مالی میرا محبوب مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جس کے دل کی مبارک اور زرخیز زمین میں میرے محبوب نے اپنے دست مبارک سے اس کلمے کا بوٹا لگایا ہے۔ جس کی جڑیں اس کے رگ و پے میں پہنچ گئی ہیں دنیا کی کوئی طاقت ان کو اکھیڑ نہیں سکتی۔
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
اَلَم تَرَکَیفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیبَہً کَشَجَرَۃٍ طَیبَۃٍ اَصلُھَا ثَابِتُ وَفَرعُھا فِی السَّمآء۔تُوتِی اُکُلَہَا کلَّ حِینٍ بِاذنِ ربّھَا وَیضرِبُ اللّٰہُ الاَمثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُم یَتَذَ کَّرُونَ ۔(سورۃ ابراہیم پارہ ۱۳)
برادرانِ اسلام ! سورۃ ابراہیم کی دو آیتیں میں نے آپ کے سامنے تلاوت کیں ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ ایک مشکل اور پیچیدہ حقیقت کو ایک مثال دے کر سمجھاتے ہیں کیونکہ جو بات مشکل ہوتی ہے آسانی سے سمجھ نہیں آتی ۔ استاد اس کی مثال پیش کر کے سمجھاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی ایک مشکل بات کو ، ایک پیچیدہ مسئلے کو سمجھانے کے لئے ایک مثال ذکر کرتے ہیں تاکہ وہ حقیقت سب پر آشکارا ہو جائے ، عیاں ہو جائے ، سارے لوگ اس کو سمجھ لیں، خواہ وہ ذہین ہوں یاکند طبع ، خواہ وہ عالم ہوں یا ان پڑھ ۔ تا کہ ہر ایک کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے وہ کون سی حقیقت ہے ، وہ کلمہ طیبہ کی حقیقت ہے کہ کلمہ طیبہ کیا چیز ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے اثرات کیا ہیں؟ اس کی برکات کیا ہیں؟ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ ایک مثال دے کر بیان فرماتے ہیں۔
ارشاد فرمایا:
’’الم ترکیف ضرب اللّٰہ کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ۔‘‘
کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو اللہ تعالیٰ کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال بیان فرما رہے ہیں۔ کہ کلمہ طیبہ کو یوں سمجھو ۔ جس طرح ایک شجرہ طیبہ ایک پاکیزہ درخت ہوا کرتا ہے۔ جو خوبیاں ، جو صفات ، جو کمالات ، جو محاسن اس میں پائے جاتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح کی صفات ، اسی طرح کی خصوصیات کلمہ طیبہ میں ہیں۔ اللہ پاک اس شجرہ طیبہ کی خصوصیات بیان کرتے ہیں کہ شجرہ طیبہ آپ کس کو کہتے ہیں؟ کس درخت کو ہم پاکیزہ درخت کہہ سکتے ہیں۔
ارشاد فرمایا:
کلمہ طیبہ کی مثال ایک شجرہ طیبہ کی مانند ہے، اَصلُھَا ثَابِت’‘ اس کی پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کی جڑیں بہت گہری چلی گئی ہیں۔ اس کی جڑیں تحت الثریٰ تک پہنچی ہوئی ہیں۔ سنتے ہیں جس درخت کی جڑیں اوپر اوپر ہوں، جس درخت کی جڑیں مضبوط اور پختہ نہ ہوں، ایک تو یہ ہوتا ہے کہ وہ پائیدار نہیں ہوتا، کچھ مہینوں کے بعد وہ خود بخود خشک ہو جاتا ہے۔ آپ اسے کھاد دیتے ہیں ، پانی دیتے ہیں، سپرے کرتے ہیں۔ جس درخت کی جڑیں اوپر اوپر ہوں گی وہ خود بخود خشک ہو جائے گا۔ آپ خواہ کتنی بھی کوشش کریں ۔ گندم کا بوٹا ہے اس کی جڑیں اوپر اوپر ہوا کرتی ہیں آپ اس کو بہترین قسم کی کھاد ڈالیں اور اسے بروقت پانی دیں، آپ اسے سپرے کریں ، ہر قسم کے کیڑوں مکوڑوں سے اس کا بچائو کریں۔ جب بیساکھ کا مہینہ آئے گا ، اس کاوہ رنگ بدلنا شروع ہو جائے گا۔ اور جب بیساکھ گزر جائے گا وہ پودا سوکھنا شروع ہو جائے گا۔ اور جب بیساکھ گزر جائے گا اس مہینہ میں آپ کاٹ لیں تو کاٹ لیں، اگر نہ کاٹیں اور جیٹھ کا مہینہ آ جائے، ہاڑ کا مہینہ آجائے تو وہ خود بخود زمین بوس ہونا شروع ہو جائے گا۔ کوئی سہارا، کوئی خوراک، کوئی قوت، کوئی سپرے، اس کو برقرار نہیں رکھ سکتی ۔
کیونکہ اس کی جڑیں چھوٹی ہیں اس کی جڑیں زمین کے اوپر اوپر ہیں،توجس چیز کی جڑیں اوپر اوپر ہوتی ہیں، اس کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ اصلھا ثابت ‘‘ یہ کلمہ طیبہ ایسا درخت نہیں ہے جس کی جڑیں گہری نہ ہوں، زمین کی اوپر والی سطح تک ہی محدود ہوں کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد خود ہی اس پر خزاں کے آثار نمودار ہو جائیں، خود ہی اس کی رنگت بدل جائے، خود ہی اس کی تازگی ختم ہو جائے، خود ہی زمین بوس ہو جائے، یہ ایسا درخت نہیں بلکہ یہ کیا ہے۔
’’ اصلھا ثابت ‘‘ اس کی جڑیں زمین میں بہت گہری ہیں۔ تحت الثریٰ تک چلی گئی ہیں۔ اور جس درخت کی جڑ گہری ہوا کرتی ہے، وہ کبھی خشک نہیں ہوتا۔ صحرائوں میں چلے جائیی جہاں بارش نہیں برستی ہے، جہاں ندی نالے کا پانی مہیا نہیں ہوتا ، جہاں کوئی کنواں نہیں ہوتا، جہاں کوئی وسائل نہیں ہوتے ، جو درخت آپ وہاں دیکھیں وہ آپ کو سر سبز و شاداب نظر آئیں گے تو اس کاسبب کیا ہے؟ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ان کی جڑیں بہت گہری ہیں اور گہری جڑیں نیچے سے پانی حاصل کر کے اپنی زندگی اور اپنے شباب کو برقرار رکھتی ہیں۔ لیکن وہ درخت جس کی جڑیں گہری نہیں ہوتیں وہ خود حوادثات دہر کی نذر ہو جاتا ہے۔ اور جس درخت کی جڑیں گہری ہوا کرتی ہیں۔ جتنی گہریں ہوں گی اتنا ہی وہ دیرپا ہوگا۔ جتنی گہری ہوں گی موسمی حوادثات کا آسانی سے مقابلہ کر سکے گا۔ جتنی ہی اس کی جڑیں گہری ہوں گی وہ اتنا ہی خشکی کو برداشت کر سکے گا۔
کلمہ طیبہ کی پہلی خصوصیت :
اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی ایک خصوصیت تو یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کی مثال شجر طیبہ کی ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ’’ اصلھا ثابت ‘‘ کلمہ طیبہ جب ایسا درخت ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ تو اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس پر کبھی خزاں نہیںٓ آسکتی،مصائب و آلام کی کوئی آندھی اسے اکھیڑ نہیں سکتی۔ تکلیفیں آپ اسے پہنچائیں،ظلم کی انتہا کر دیں، جہاں لا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ کا درخت لگ جایا کرتا ہے ، وہ جان تو دے سکتا ہے مگر اس درخت پر خزاں نہیں آنے دیتا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ اصلھا ثابت کیونکہ کلمہ طیبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ جب دل میں جڑ پکڑ لیتا ہے جب ذہن اس کو قبول کر لیتا ہے ، جب روح میں یہ رچ بس جاتا ہے، تو دنیا کا کوئی انقلاب، کوئی زلزلہ، دنیا کا کوئی طوفان، دنیا کی کوئی آندھی، اس کو گرا نہیں سکتی۔ اسے اکھیڑ نہیں سکتی ۔ یہ تمام حوادثات دہر کا مقابلہ سینہ تان کر کیا کرتا ہے۔میں نے اور آپ نے بھی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ایسی مثالیں سنی ہیں،کہ جن کو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پاک سے لا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ محمّد رَسُول اللّٰہ کا سبق پڑھایا تھا۔ جن کے دلوں کی زمین میں کلمہ توحید کا بیج نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا۔ ان پر کتنی تکلیفیں آئیں ، اُنہیں کن کن مصائب و آلام کا مقابلہ کرنا پڑا۔
لیکن کوئی مثال ایسی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی جان بچانے کے لئے ،اپنا مال بچانے کے لئے ،اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لئے یا آرام حاصل کرنے کے لئے دین کے اس رشتے کو، اس تعلق کو چھوڑ دیا ، اور پھر کفر کی طرف لوٹ گئے ہوں۔ تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی بلکہ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لا اِلٰہَ اِلا اللّٰہ کا بیج لگایا۔ اس سے جو تن آور درخت پیدا ہوا وہ ہماری روح میں بس گیا، وہ ہمارے ذہن میں رچ گیا۔ ہمارے قلب کی گہرائیوں تک اس کی جڑیں پہنچ گئیں اور جس درخت کی جڑیں گہری اور پختہ ہوا کرتی ہیں اس کو حوادثات کی آندھیاں گرا نہیں سکتیں۔
سید نافاروق اعظم اور نُورقرآن:
آپ نے سناہوگا کہ! سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالےٰ عنہ ابھی نہ فاروق اعظم تھے، نہ رضی اللہ عنہ تھے ، ابھی صرف عمر بن خطاب تھے، ابھی دنیا ان کو یہ کہہ کر یاد کرتی تھی کہ وہ خطاب کا بیٹا ہے ۔ اس کا عمر نام ہے۔ کفر کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ کی عداوت کا آتش کدہ ان کے سینے میں دہکتا رہتا ہے۔ ان کی ساری کوششیں، ان کی ساری کاوشیں، ان باتوں پر مرکوز تھیں کہ دین کے جھنڈے کو ہم سر نگوں کر دیں۔ اس دین کی شمع کو ہم گل کر دیں۔ اور یہ جو دعوت لے کر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں۔ اس کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیں۔ انہوں نے بڑی کوششیں کیں۔ لیکن اس دین کے ماننے والوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ کہ آج فلاں مشرف بہ اسلام ہو رہا ہے۔ آج فلاںنے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر ہاتھ رکھ کر کلمہ پڑھ رہا ہے۔ ہر روز اور ہر رات اسلام کے ماننے والوں سے عداوت کا جذبہ تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا ۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک دن یہ فیصلہ کیا کہ اس شخص کو ختم کر کے رکھ دوں گا۔ میں اس کو زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔ اگر یہ زندہ رہا تو ہمارے خدائوں کی بادشاہی، ہمارے خدائوں کی خدائی کا تختہ الٹ جائے گا اور ایک وقت آئے گا جب ان کا نام لینے والا کوئی نہ ہو گا۔ تو اس وقت کے آنے سے پہلے میں یہ آخری قدم اٹھانا چاہتا ہوں۔
وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلتے ہیں۔ ننگی تلوار گلے میں لٹک رہی ہے۔ غصے اور ناراضگی کے آثار چہرے پر نمودار ہو رہے ہیں۔ گلی سے گزر رہے ہیں کسی نے پوچھا عمر ؔکہاں غصے سے طوفان بنے بھاگتے جا رہے ہو ۔ انہوں نے کہا تمہیں تو معلوم ہے کہ اس شخص نے ہمیں تباہ برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ہمارے خدائوں کی عظمت کا چاند اس کی آمد سے گہنا رہا ہے۔ جب تک میں اس کو ختم نہ کر لوں اس کی زندگی کا چراغ گل نہ کر دوں اس وقت تک مجھے چین نہیں آسکتا۔ آج میں آخری اقدام کے لئے جا رہا ہوں اور تلوار میں نے اس لئے بے نیام کی ہے کہ اس ذاتِ پاک کی زندگی کا خاتمہ کر دوں جو سارے عالم کی زندگی کا باعث ہے۔ تو اس نے کہا تم عجیب آدمی ہو تمہاری نادانی کی کوئی حد بھی ہے تم اس کو شہید کرنے کے لئے جارہے ہو تمہاری بہن جس کا کلمہ پڑھ چکی ہے۔ اور اس کی غلام بن چکی ہے وہ اس کے دستِ مبارک پر بیعت کر چکی ہے۔ پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو تب ان کا قصد کرنا۔ جب انہوں نے سنا کہ میری بہن لات وعزّٰی کو چھوڑ کر محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا پر ایمان لا چکی ہے تو ان کے غصے کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ اپنی بہن کے گھر کی طرف لوٹے دیکھا کہ دروازے بند ہیں اور اند ر سے گنگنانے کی سی آواز آ رہی ہے ۔ آپ نے زور سے دستک دی ۔ فاطمہ سہم گئیں آواز دی میں عمر ہوں دروازہ کھولو۔ وہ اپنے استاد سے قرآن کریم پڑھ رہی تھیں۔ سنا کہ عمر آ رہا ہے اور کفر وشرک کی آلودگی سے ابھی ملوث ہے تو اس اندیشہ سے کہ مبادا! وہ کافر !خدا کے پاک کلام کو ہاتھ لگائے یا اس کی بے ادبی کرے انہوں نے اسے غلاف میں لپیٹا اور اونچی جگہ پر رکھ دیا تا کہ ان کا ہاتھ وہاں تک نہ پہنچے ۔
عمر داخل ہوئے پوچھا کیا کر رہی تھی ، اس نے کہا کچھ نہیں ٹال مٹول کرنا چاہا عمر کہتے ہیں کہ میں نے سن لیا ہے مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ تم مسلمان ہو گئی ہو ۔ مارنا شروع کر دیا۔ عمر کا ہاتھ اور وہ ایک صنفِ لطیف جسم لہو لہان ہو گیا۔ لیکن آپ نے فرمایاکہ! اے عمر! تم میری جان تو نکال سکتے ہو لیکن مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میرے دل سے نہیں نکال سکتے ۔ ’’اصلھا ثابت‘‘جب ایمان کی جڑیں مضبوط ہو جاتی ہیں جب اس درخت کی جڑیں تحت الثریٰ تک پہنچ جایا کرتی ہیں۔ تو مصائب و آلام تکلیف و تعذیب کی کوئی آندھی اور طوفان اس کو اکھیڑ نہیں سکتا ، اس کو ساقط نہیں کر سکتا۔ ’’اصلھا ثابت‘‘
حضرت بلال اور عشق خدا :
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بار بار دھکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا جاتا، آپ کے ہوش اڑ جایا کرتے تھے ۔ لیکن بے ہوشی کے عالم میں بھی آپ کی زبان سے یہی نکلتا تھا۔ اَحَد’‘ ، اَحَد’‘ ، اَحَد’‘ جس خدا کو میں نے مانا ہے وہ وحدہ ٗ لاشریک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے، اس کاکوئی نِد نہیں ہے، اس کی کوئی ضد نہیں ہے۔
تو اللہ تعالےٰ فرماتے ہیں اے میرے بندو!تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں کلمہ طیبہ کی حقیقت کو کس طرح تمہارے سامنے عیاں کر رہا ہوں۔ کس طرح اس کی حقیقت کو تمہارے سامنے واضح کر رہا ہوں۔ اور وہ بھی ایک مثال دے کر، فرمایا کلمہ طیبہ کی مثال ایسی ہے جس طرح کہ ایک پاکیزہ درخت اور پاکیزہ درخت کی جو تین صفات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں۔
ایک تو یہ کہ اس کی جڑیں گہری ہیں لَا اَلٰہَ اِلا اللّٰہ شجرہ طیبہ کا مالی میرا محبوب مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جس کے دل کی مبارک اور زرخیز زمین میں میرے محبوب نے اپنے دست مبارک سے اس کلمے کا بوٹا لگایا ہے۔ جس کی جڑیں اس کے رگ و پے میں پہنچ گئی ہیں دنیا کی کوئی طاقت ان کو اکھیڑ نہیں سکتی۔