بالکل ایسا ہی ہے۔ دنیا کے تمام کلچرز سائنس و ٹیکنالوجی کے تابع ہیں۔کیا "کلچر کی تمام صورتیں ٹیکنالوجی کے سامنے سرنگوں ہیں"؟
آپ اس حوالے سے کیا سوچتے ہیں؟
اس پوسٹ کی کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ایک زمانہ تھا کہ عیدین جو مسلم کلچر کا جز ہے پر عید کارڈز بھیجنا معمول تھا۔ لیکن پھر جدید مواصلاتی نظام، سمارٹ فونز کی آمد کے بعد اب کوئی خطوط بھیجتا ہے نہ عید کارڈز۔ آپ کو شاید یہ ابھی عجیب لگے لیکن وہ ممالک جو سائنس و ٹیکنالوجی میں پاکستان سے کہیں آگے ہیں اپنی تمام تر تجارت کرنسی نوٹوں سے ڈیجیٹل کرنسی پر منتقل کر چکے ہیں۔ مجھے خود یہاں یورپ میں کرنسی نوٹ استعمال کئے کئی سال بیت گئے ہیں۔ اب سارا بزنس بینک ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈز پر ہوتا ہے۔ یا پھر آن لائن خریداری کے وقت کرپٹو کرنسی کا استعمال معمول کا حصہ ہے۔ یوں اس تبدیلی سے وہ تمام کلچرل عوال جو کرنسی نوٹس کے تابع تھے جیسے بچوں کی عیدی، شادی کی رسمیں وغیرہ آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہیں۔ٹیکنالوجی سائنس کی مرہون منت ہے اور اس میں کیا شک کہ بیسویں صدی میں بالخصوص سائنس کے حرکی رخ یعنی ٹیکنالوجی نے دنیا کو اپنی گرفت میں لیا اور بنی نوع انسان کو سحر زدہ کر دیا۔ تاہم، کلچر اس لہر کے سامنے کُلی طور پر سرنگوں شاید نہ ہو پائے۔ یہ ٹیکنالوجی صرف مثبت رخ لیے ہوئے نہ ہے اور تہذیب و ثقافت پر اس کی بے طرح اثرانگیزی کے باوصف اس کی منفی جہات ایسی ہیں کہ اب بھی مختلف تہذیبوں اور کلچرز سے جڑے افراد مذاہب اور فلسفیانہ نظریات میں جائے امان تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اسے دقیانوسی سوچ گردانا جائے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی چکا چوند کے باوجود آج کا انسان اس ٹیکنالوجی کے سحر سے باہر نکلنے کی تمنا بھی کرنے لگ جاتا ہے، چاہے یہ خواہش اور آرزو قلیل مدتی ہو۔ خیر یہ تو فلسفیانہ باتیں ہیں، دراصل اس کا عمومی جواب ہاں میں ہی ہے۔یہ تو بظاہر ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی نے کلچر کی مختلف النوع صورتوں کو بدل کر رکھ دیا۔
میرے خیال میں انسانی فلاح کیلئے سائنس و ٹیکنالوجی کا استعمال ایک آلہ سے زیادہ نہیں ہے۔ جو اس آلہ کا صحیح وقت پر صحیح استعمال کرے گا وہ فلاح حاصل کر لے گا۔ باقی اس کا غلط استعمال اور اس کے سنگین نتائج تو بہت سے انسان روز بھگت ہی رہے ہیں۔لیکن کیا صرف ٹیکنالوجی ہی انسانی فلاح کا واحد راستہ ہے
ہمارے خیال میں، آپ محترم عدنان عمر کا بالا مراسلہ پڑھ لیجیے۔ ہمارا جواب بھی کم و بیش یہی ہے سر!اس پوسٹ کی کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ایک زمانہ تھا کہ عیدین جو مسلم کلچر کا جز ہے پر عید کارڈز بھیجنا معمول تھا۔ لیکن پھر جدید مواصلاتی نظام، سمارٹ فونز کی آمد کے بعد اب کوئی خطوط بھیجتا ہے نہ عید کارڈز۔ آپ کو شاید یہ ابھی عجیب لگے لیکن وہ ممالک جو سائنس و ٹیکنالوجی میں پاکستان سے کہیں آگے ہیں اپنی تمام تر تجارت کرنسی نوٹوں سے ڈیجیٹل کرنسی پر منتقل کر چکے ہیں۔ مجھے خود یہاں یورپ میں کرنسی نوٹ استعمال کئے کئی سال بیت گئے ہیں۔ اب سارا بزنس بینک ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈز پر ہوتا ہے۔ یا پھر آن لائن خریداری کے وقت کرپٹو کرنسی کا استعمال معمول کا حصہ ہے۔ یوں اس تبدیلی سے وہ تمام کلچرل عوال جو کرنسی نوٹس کے تابع تھے جیسے بچوں کی عیدی، شادی کی رسمیں وغیرہ آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہیں۔
بہت عمدہ مثالیں اور وضاحتکلچر ہو یا ٹیکنالوجی، دونوں انسانی معاشرے کا حصہ ہیں۔ میری نظر میں اِن میں سے کسی ایک کو اپنے وجود یا بقا کے لیے مطلقاً دوسرے کا مرہونِ منت قرار دینا درست نہیں۔
بہت سے کیسز میں کلچر نہیں بلکہ ٹیکنالوجی، کلچر کے آگے سرنگوں دکھائی دیتی ہے۔
مثلاً ایک ہی کمپنی بھارت اور پاکستان کے لیے شہر کے اندر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ بسیں تیار کر رہی ہے۔ بھارت کے لیے تیار شدہ بسوں میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ کمپارٹمنٹ نہیں ہو گا، لیکن پاکستانی بسوں میں ہوگا۔ یہاں ٹیکنالوجی نے کلچر کو تبدیل نہیں کیا، الٹا خود کو کلچر کے مطابق ڈھالا ہے۔
ایک مثال اردو محفل کی ہی لیجیے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نہ ہوتی تو اردو محفل فورم نہ ہوتا۔ لیکن اس محفل کا کلچر ٹیکنالوجی نے وضع نہیں کیا۔ ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی کے باوجود اردو محفل روایتی مشرقی اقدار پر قائم ہے اور سماجی رابطے کی دیگر ویب سائٹس کی طرح یہ فورم "کھلا ڈلا" نہیں ہے۔
اس نکتے کو ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ مختلف کلچر اپنے فروغ کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسان کی سرشت تبدیل نہیں کی۔ انسان آج بھی پتھر کے دور کے انسان کی طرح ظالم، جابر، مہربان، رحم دل، کٹھور، شہوت پرست، بندہ پرور، قاتل، ایثار کیش، مطلبی وغیرہ ہے۔
انسان کے یہ مثبت اور منفی جذبات ٹیکنالوجی اور ٹیکنالوجی سے زیادہ اس کے استعمال میں جھلکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص مہربان دل کا مالک ہوگا تو وہ سائیکل چلاتے ہوئے بھی کسی ضعیف شخص کو لفٹ دے دے گا۔ اور سنگ دل انسان خالی جیپ بھی چلا رہا ہوگا تو وہ لاغر و ضعیف راہ گیر کے سامنے سے فراٹے بھرتا گزر جائے گا۔
بھائی یہ تو ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ہم نے فرقان احمد بھائی کے مراسلے کی وضاحت کی ہے۔ ورنہ ہم تو ہمیشہ فرقان بھیا کی قادر الکلامی اور شیریں بیانی دیکھ کر دانتوں تلے انگلی دبا لیتے ہیں۔صحیح۔ آپ کے مراسلہ کی وضاحت عدنان عمر بھائی نے کر دی ہے
سر! پوسٹ مین کی جگہ بھی اب کسی اور فلسفی نے لے لی ہو گی سو، شانت رہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کے اس دور میں بھی مذاہب یا نظام اقدار کسی نہ کسی طور اپنی معنویت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ انسانی زندگی کی معنویت کا تعین فی زمانہ محض مشینیں اور ٹیکنالوجی ہی تو نہیں کر رہی ہیں، بلکہ، بغور دیکھا جائے تو، آج کا انسان ٹیکنالوجی سے مستفید تو ہو رہا ہے مگر اس کی سوچ اور فکر کیا کُلی طور پر، سائنس و ٹیکنالوجی کے زیر اثر تشکیل پا رہی ہے؛ ہمیں تو یہ تجزیہ مبنی بر مبالغہ معلوم ہوتا ہے۔ ہمیں تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں، قدیمی نظریات کا احیاء ہوتا ہوا بھی دکھائی دے رہا ہے اور نظریات کی جنگ بھی ہر محاذ پر لڑی جا رہی ہے۔ گو کہ ٹیکنالوجی کا سحر اب بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے تاہم جس طرح تصور کیا جا رہا تھا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے سامنے ہر طرح کا نظریہ دم توڑ جائے گا، ایسا شاید نہ ہو سکا اور عالمگیریت کا چلن بھی اس طور نہ ہوا، جیسا کہ متوقع تھا۔ یا پھر ہم غلط سوچ رہے ہیں اور ہمیں اپنی عینک بدلنا ہو گی ۔خورشید ندیم لکھتے ہیں:
پوسٹ مین کا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی نے جس طرح انسانی سماج کو متاثر کیا، اسے پیشِ نظر رکھیں تو انسان کے تہذیبی سفر کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور وہ ہے جب آلات (Tools) وجود میں آئے۔ اس عہد میں مذہب اور الہیات کا غلبہ تھا۔ اس دور میں آلات کی مدد سے کسی حد تک جسمانی مشقت کو کم کیا جا سکا لیکن بحیثیت مجموعی کلچر مذہبی اور ما بعدالطبیعیاتی تصورات ہی کے زیرِ اثر رہا۔
دوسرا دور وہ ہے جسے پوسٹ مین ”ٹیکنوکریسی‘‘ کا عنوان دیتا ہے۔ اس میں آلات نے آگے بڑھ کر انسانی نظامِ فکر پر اثر انداز ہونا شروع کیا اور یوں ٹیکنالوجی مذہب یا ما بعدالطبیعیاتی علوم کے متبادل کے طور پر سامنے آئی‘ جو انسانی افکار اور نظریات کے تعین میں بنیادی کردار ادا کر رہی تھی۔ وہ دور بین کو اس عہد کی نمائندہ مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ دور بین کی ایجاد نے ان مسیحی تعلیمات کو بدل ڈالا جو زمین کی مرکزیت کے عقیدے پر کھڑی تھیں۔ اسی سے اس خیال کو تقویت ملی کی انسان اس کائنات کا علم حاصل کر سکتا اور ایجادات کی مدد سے انسانی زندگی کو نہ صرف آسودہ بنا سکتا ہے بلکہ اپنی آزاد حیثیت میں اس کی ترقی اور ارتقا کا تصور بھی پیش کر سکتا ہے۔ اس طرح انسان کی فکری باگ مذہب یا الہیات کے ہاتھوں سے ٹیکنالوجی کو منتقل ہونے لگی۔ اس سے پہلے ترقی کا تصور مذہب یا الہیات کی عطا تھا۔
تیسرا دور وہ ہے جس سے آج کا سماج گزر رہا ہے۔ اسے پوسٹ مین ‘ٹیکنوپولی‘ کہتا ہے۔ ٹیکو کریسی میں کسی حد تک مذہب یا روایت کا کردار باقی تھا۔ اس دور میں تو ٹیکنیک نے انسانی معاشرت کی باگ پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ ‘معلومات‘ کو ایک ما بعدالطبیعاتی تصور کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ معلومات اب انسانی سرگرمی کا ذریعہ (means) بھی ہے اور مقصود End of means) ( بھی۔ اب انسانی کاوش کا حاصل ترقی نہیں بلکہ معلومات کا حصول ہے۔ وہ ترقی جو مادی ہی نہیں، روحانی بھی ہے۔
ٹیکنوپولی میں ٹیکنیک کو انسانی مہارت اور اس کی فکری صلاحیت پر برتری حاصل ہے۔ اب مرض کی تشخیص طبیب کی مہارت نہیں، مریض کی مشینی رپورٹس کر تی ہیں۔ انسانی رویے اور معاشرے کو آئی کیو ٹیسٹس، سروے یا اس طرح کے دیگر ٹیکنیکل مہارتوں سے جانچا جاتا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کلچر کی تمام صورتیں ٹیکنالوجی کے سامنے سرنگوں ہیں۔ انسانی زندگی کی معنویت کا تعین اب مشینیں اور ٹیکنالوجی کریں گی۔ کلچر کے قدیم مباحث اب بے معنی ہو چکے۔ حسنِ کارکردگی (Efficiency) اب واحد معیارِ انسانیت ہے۔ پوسٹ مین کا خیال ہے کہ اس وقت اگر کوئی معاشرہ پوری طرح ‘ٹیکنوپولی‘ کہلانے کا مستحق ہے تو وہ امریکی معاشرہ ہے۔ یہ کم و بیش پچیس سال پہلے کا قیاس ہے۔ اب دیگر ممالک بھی کہیں آگے جا چکے۔
پوسٹ مین کا خیال ہے کہ ٹیکنوپولی کی اساس اس نظریے میں ہے جو ‘سائنٹیسزم (Scientism)‘ کے نام سے علم کی دنیا میں معروف ہے۔ اس کے تحت سائنسی انقلاب کے بعد، یہ سماجی اور طبعی علوم کا فطری بہاؤ ہے جو انسانی رویے کی تشکیل کرے گا اور اس طرح یہ اخلاقی اتھارٹی کا متبادل بن جائے گا۔ یہ اتھارٹی اس سے پہلے مذہب یا نظامِ اقدار کے پاس تھی۔ پوسٹ مین کی تنقید یہ ہے کہ کسی سیاق و سباق سے ماورا معلومات کا وفور انسان کا رشتہ ہر طرح کی معنویت سے توڑ دے گا‘ اور ٹیکنالوجی کا یہ وہ خطرناک نتیجہ ہے‘ جو سامنے آ رہا ہے۔ اس معنویت کا تعین کلچر اور مذہب جیسی دیگر روایتی اور انسانی فکر کے حامل نظریات کرتے ہیں جن کی ٹیکنوپولی میں کوئی جگہ نہیں۔
میں اس نتیجۂ فکر سے اتفاق رکھتے ہوئے، اس کا تعلق ‘پوسٹ ماڈرنزم‘ سے جوڑتا ہوں۔ اس تصور میں بھی زندگی کی معنویت کا تعین کسی نظامِ اقدار یا مذہب کو نہیں دیا جا سکتا۔ اس تصور کے تحت زندگی اپنی معنویت خود تلاش کرتی ہے اور انسان کا کام اسے قبول کرنا ہے، اسے اپنے خود ساختہ تصورات کے تابع بنانا نہیں۔ تاہم ٹیکنو پولی میں جبر کا عنصر اس طرح شامل ہے کہ اس کی نوعیت ایک طوفان کی ہے۔ وہ آ چکا اور ہم اس کے سامنے بند نہیں باندھ سکتے۔ ہمارے پاس ایک ہی انتخاب ہے کہ ہم اس کے بہاؤ میں بہتے چلے جائیں۔