صفحہ۔۲۵۱
باغباں کی کار فرمائی سے دیتا ہے خبر
گلشنِ عالم میں چلنا صرصرِ تغیر کا
اسُ کے آنے کی توقع کر رہی ہے نفخِ روح
صورِ اسرافیل ہے کھٹکا مجھے زنجیر کا
غایتِ ترکیبِ اعضا ہے یہی کچھ کام کر
کاہلی اے بے خبر منشا نہیں تقدیر کا
جرم بھی اور خیرگی! یہ سیرتِ ابلیس ہے
ابنِ آدم کو ہے شایاں عزر ہی تقصیر کا
ہے اشارہ پر قلم کے لشکروں کی صلح و جنگ
دو گروہ کی چوب سے دم بند ہے شمشیر کا
آہ کھانا ہی پڑا داغِ فراقِ دائمی
قہر تھا ہونا کبھی اک لمحہ کی تاخیر کا
۱/۵
دل گیا ہاتھ سے کیا ہاتھ سے داماں نکلا
کہ تیرے پائوں کی مانند گریباں نکلا
مرگئے دیکھ کے آثارِ سحر شامِ وصال
دشمنِ جانِ ستم کش رُخِ جاناں نکلا
دیکھ بے ہوش مجھے اشک فشاں ہیں احباب
جذبۂ شوق تو بد خواہِ عزیزاں نکلا
چارہء جوشِ جنوں خانہ خرابی نہ ہوئی
گھر سمجھتے تھے جسے ہم سو بیاباں نکلا
کس قدر دل میں مرے جوشِ شکستِ دل ہے
کوئی سالم نہ ترے تیر کا پیکاں نکلا
بس کہ ہے نقشِ قدم دامِ گرفتاری جاں
اُن کے ہر گام پہ اک گنجِ شہیداں نکلا
پھر گئے دل ہی بیک گردشِ چشمِ کافر
دور میں کوئی بھی تیرے نہ مسلماں نکلا
آخری وقت کے وعدہ نے کیا شادی مرگ
ہمرہِ جاں دلِ مایوس کا ارماں نکلا
نکلے تم غیر کے گھر سے کہ مری جاں نکلی
جس کو دشوار سمجھتے تھے وہ آساں نکلا
صفحہ۔۲۵۲
تو اور عزرِ طعنِ رقیباں غضب ہوا
دل پارہ پارہ جب نہ ہوا تھا تو اب ہوا
ڈر کر ہلاک بوالہوسِ بے ادب ہوا
اُن کو بھی میری جان شکنی سے عجب ہوا
لبریز شکوہ ہائے تغافل تھا میں ولے
لو شکر کا سبب گلۂ بے سبب ہوا
لیتے ہیں ترکِ عشق سکھانے کے واسطے
دل نزر جاں فزائی حُسنِ طلب ہوا
کیا آگے اُس کے ولولہ شوق سر اٹھائے
سجدہ کیا تو ملزمِ ترکِ ادب ہوا
میرے سوا حریف ستم کوئی بھی نہ تھا
اب مہرباں ہو گئے یہ کیا غضب ہوا
ان کا نہ آستانہ سے باہر قدم بڑھا
سو بار انتظار میں میں جاں بلب ہوا
۲/۷
ہے بے لب و زباں بھی غُل تیرے نام کا
محرم نہیں ہے گوش مگر اسِ پیام کا
خوش ہے ملامت اہلِ خرابات کےلئے
اس سلسلہ میں نام نہیں ننگ و نام کا
نخوت ہے جس کے کاسۂ سر میں بھری ہوئی
کب مستحق ہے محفلِ رنداں میں جام کا
جاگیرِ دَرد پر ہمیں سرکارِ عشق نے
تحریر کردیا ہے وثیقہ دوام کا
وادی عشق میں نہ ملا کوئی ہم سفر
سنتے تھے نام خضر علیہٰ سلام کا
آسودگی نہ ڈھونڈ کہ جاتا ہے کارواں
لے مُستعار برق سے وقفہ قیام کا
کھولا ہے مُجھ پہ سرِّ حقیقت مجاز نے
یہ پُختگی صِلہ ہے خیالاتِ خام کا
کھاتا نہیں فریب تمنّائے دو جہاں
خوگر نہیں ہے توسنِ ہمّت لگام کا
مت رکھ طمع سے چشمِ تمتّع۔ کہ ہے یہاں
دانہ ہر ایک مرد مکِ دیدہ دام کا
صفحہ۔۲۵۳
پہونچادیا حدودِ عالم سے بھی پرے
مُطرب نے راگ چھیڑدیا کس مقام کا
ظلمت میں کیا تمیز سفید و سیاہ کی
فرقت میں کُچھ حساب نہیں صبح و شام کا
جس کی نظر ہے صنعتِ ابرونگار پر
ہے وہ قتیلِ تیغ۔ نہ کشتہ نیام کا
کھانے کو اے حریص غمِ عشق کم نہیں
یہ ہو تو کچھ بھی فکر نہ کر قرض و دام کا
میں بے قرار ۔ منزلِ مقصود بے نشاں
رستہ کی انتہا نہ ٹھکانا مقام کا
گر دیکھئے تو خاطرِ ناشاد شاد ہے
سچ پوچھئے تو ہے دلِ ناکام کام کا
اُٹھے تِری نقاب تو اُٹھ جائے ایک بار
سب تفرقہ یہ روز و شب و صبح شام کا
۱/۸
رسوا ہوئے بغیر نہ نازِ بتاں اُٹھا
جب ہو گئے سبک تو یہ بارِ گراں اُٹھا
معنی میں کر تلاشِ معاشِ دماغ و دل
حیواں صفت نہ لذّتِ کام و دہاں اُٹھا
یا آنکھ اُٹھا کے چشمِ فسوں ساز کو ندیکھ
یا عمر بھر مصائبِ دورِ زماں اُٹھا
بے یادِ دوست عمرِ گرامی نہ صرف کر
اسِ گنجِ شائگاں کو نہ یوں رائگاں اُٹھا
وصل و فراق و وہم سہی دل لگی تو ہے
پھر کہاں جو پردہء رازِ نہاں اُٹھا
پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں
کیا کہدیا ۔ کہ شمع کے سر سے دھواں اُٹھا
باغباں کی کار فرمائی سے دیتا ہے خبر
گلشنِ عالم میں چلنا صرصرِ تغیر کا
اسُ کے آنے کی توقع کر رہی ہے نفخِ روح
صورِ اسرافیل ہے کھٹکا مجھے زنجیر کا
غایتِ ترکیبِ اعضا ہے یہی کچھ کام کر
کاہلی اے بے خبر منشا نہیں تقدیر کا
جرم بھی اور خیرگی! یہ سیرتِ ابلیس ہے
ابنِ آدم کو ہے شایاں عزر ہی تقصیر کا
ہے اشارہ پر قلم کے لشکروں کی صلح و جنگ
دو گروہ کی چوب سے دم بند ہے شمشیر کا
آہ کھانا ہی پڑا داغِ فراقِ دائمی
قہر تھا ہونا کبھی اک لمحہ کی تاخیر کا
۱/۵
دل گیا ہاتھ سے کیا ہاتھ سے داماں نکلا
کہ تیرے پائوں کی مانند گریباں نکلا
مرگئے دیکھ کے آثارِ سحر شامِ وصال
دشمنِ جانِ ستم کش رُخِ جاناں نکلا
دیکھ بے ہوش مجھے اشک فشاں ہیں احباب
جذبۂ شوق تو بد خواہِ عزیزاں نکلا
چارہء جوشِ جنوں خانہ خرابی نہ ہوئی
گھر سمجھتے تھے جسے ہم سو بیاباں نکلا
کس قدر دل میں مرے جوشِ شکستِ دل ہے
کوئی سالم نہ ترے تیر کا پیکاں نکلا
بس کہ ہے نقشِ قدم دامِ گرفتاری جاں
اُن کے ہر گام پہ اک گنجِ شہیداں نکلا
پھر گئے دل ہی بیک گردشِ چشمِ کافر
دور میں کوئی بھی تیرے نہ مسلماں نکلا
آخری وقت کے وعدہ نے کیا شادی مرگ
ہمرہِ جاں دلِ مایوس کا ارماں نکلا
نکلے تم غیر کے گھر سے کہ مری جاں نکلی
جس کو دشوار سمجھتے تھے وہ آساں نکلا
صفحہ۔۲۵۲
تو اور عزرِ طعنِ رقیباں غضب ہوا
دل پارہ پارہ جب نہ ہوا تھا تو اب ہوا
ڈر کر ہلاک بوالہوسِ بے ادب ہوا
اُن کو بھی میری جان شکنی سے عجب ہوا
لبریز شکوہ ہائے تغافل تھا میں ولے
لو شکر کا سبب گلۂ بے سبب ہوا
لیتے ہیں ترکِ عشق سکھانے کے واسطے
دل نزر جاں فزائی حُسنِ طلب ہوا
کیا آگے اُس کے ولولہ شوق سر اٹھائے
سجدہ کیا تو ملزمِ ترکِ ادب ہوا
میرے سوا حریف ستم کوئی بھی نہ تھا
اب مہرباں ہو گئے یہ کیا غضب ہوا
ان کا نہ آستانہ سے باہر قدم بڑھا
سو بار انتظار میں میں جاں بلب ہوا
۲/۷
ہے بے لب و زباں بھی غُل تیرے نام کا
محرم نہیں ہے گوش مگر اسِ پیام کا
خوش ہے ملامت اہلِ خرابات کےلئے
اس سلسلہ میں نام نہیں ننگ و نام کا
نخوت ہے جس کے کاسۂ سر میں بھری ہوئی
کب مستحق ہے محفلِ رنداں میں جام کا
جاگیرِ دَرد پر ہمیں سرکارِ عشق نے
تحریر کردیا ہے وثیقہ دوام کا
وادی عشق میں نہ ملا کوئی ہم سفر
سنتے تھے نام خضر علیہٰ سلام کا
آسودگی نہ ڈھونڈ کہ جاتا ہے کارواں
لے مُستعار برق سے وقفہ قیام کا
کھولا ہے مُجھ پہ سرِّ حقیقت مجاز نے
یہ پُختگی صِلہ ہے خیالاتِ خام کا
کھاتا نہیں فریب تمنّائے دو جہاں
خوگر نہیں ہے توسنِ ہمّت لگام کا
مت رکھ طمع سے چشمِ تمتّع۔ کہ ہے یہاں
دانہ ہر ایک مرد مکِ دیدہ دام کا
صفحہ۔۲۵۳
پہونچادیا حدودِ عالم سے بھی پرے
مُطرب نے راگ چھیڑدیا کس مقام کا
ظلمت میں کیا تمیز سفید و سیاہ کی
فرقت میں کُچھ حساب نہیں صبح و شام کا
جس کی نظر ہے صنعتِ ابرونگار پر
ہے وہ قتیلِ تیغ۔ نہ کشتہ نیام کا
کھانے کو اے حریص غمِ عشق کم نہیں
یہ ہو تو کچھ بھی فکر نہ کر قرض و دام کا
میں بے قرار ۔ منزلِ مقصود بے نشاں
رستہ کی انتہا نہ ٹھکانا مقام کا
گر دیکھئے تو خاطرِ ناشاد شاد ہے
سچ پوچھئے تو ہے دلِ ناکام کام کا
اُٹھے تِری نقاب تو اُٹھ جائے ایک بار
سب تفرقہ یہ روز و شب و صبح شام کا
۱/۸
رسوا ہوئے بغیر نہ نازِ بتاں اُٹھا
جب ہو گئے سبک تو یہ بارِ گراں اُٹھا
معنی میں کر تلاشِ معاشِ دماغ و دل
حیواں صفت نہ لذّتِ کام و دہاں اُٹھا
یا آنکھ اُٹھا کے چشمِ فسوں ساز کو ندیکھ
یا عمر بھر مصائبِ دورِ زماں اُٹھا
بے یادِ دوست عمرِ گرامی نہ صرف کر
اسِ گنجِ شائگاں کو نہ یوں رائگاں اُٹھا
وصل و فراق و وہم سہی دل لگی تو ہے
پھر کہاں جو پردہء رازِ نہاں اُٹھا
پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں
کیا کہدیا ۔ کہ شمع کے سر سے دھواں اُٹھا