نوید صادق
محفلین
ردیف " جیم فارسی"
شیفتہ ہجر میں تو نالہء شب گیر نہ کھینچ
صبح ہونے کی نہیں خجلتِ تاثیر نہ کھینچ
اے ستم گر رگِ جاں میں ہے مری پیوستہ
دم نکل جائے گا سینے سے مرے تیر نہ کھینچ
حور پر بھی کوئی کرتا ہے عمل دنیا میں
رنجِ بے ہودہ بس اے عاملِ تسخیر نہ کھینچ
عشق سے کیا ہے تجھے شکل تری کہتی ہے
حسنِ تقریر کو آہیں دمِ تقریر نہ کھینچ
ہے یہ سامان صفائی کا عدو سے کیوں کر
دستِ مشاطہ سے یوں زلفِ گرہ گیر نہ کھینچ
اے ستم پیشہ کچھ امیدِ تلافی تو رہے
دستِ نازک سے مرے قتل کو شمشیر نہ کھینچ
چارہ گر فکر کر اس میں، کہ مقدر بدلے
ورنہ بے ہودہ اذیت پئے تدبیر نہ کھینچ
کون بے جرم ہے جو شائقِ تعزیر نہیں
شوقِ تعزیر سے تو حسرتِ تقصیر نہ کھینچ
وجد کو زمزمہء مرغِ سحر کافی ہے
شیفتہ نازِ مغنئ و مزامیر نہ کھینچ
'
شیفتہ ہجر میں تو نالہء شب گیر نہ کھینچ
صبح ہونے کی نہیں خجلتِ تاثیر نہ کھینچ
اے ستم گر رگِ جاں میں ہے مری پیوستہ
دم نکل جائے گا سینے سے مرے تیر نہ کھینچ
حور پر بھی کوئی کرتا ہے عمل دنیا میں
رنجِ بے ہودہ بس اے عاملِ تسخیر نہ کھینچ
عشق سے کیا ہے تجھے شکل تری کہتی ہے
حسنِ تقریر کو آہیں دمِ تقریر نہ کھینچ
ہے یہ سامان صفائی کا عدو سے کیوں کر
دستِ مشاطہ سے یوں زلفِ گرہ گیر نہ کھینچ
اے ستم پیشہ کچھ امیدِ تلافی تو رہے
دستِ نازک سے مرے قتل کو شمشیر نہ کھینچ
چارہ گر فکر کر اس میں، کہ مقدر بدلے
ورنہ بے ہودہ اذیت پئے تدبیر نہ کھینچ
کون بے جرم ہے جو شائقِ تعزیر نہیں
شوقِ تعزیر سے تو حسرتِ تقصیر نہ کھینچ
وجد کو زمزمہء مرغِ سحر کافی ہے
شیفتہ نازِ مغنئ و مزامیر نہ کھینچ
'