خرد اعوان
محفلین
کلیات اسمعٰیل میرٹھی
صفحہ نمبر 54
بارہ سنگھے غریب پر ہے لتاڑ
سینگ ہیں اُس کے جھاڑ اور جھنکار
وہ چوہے ہند کا بڑا ساگر
واں سے چلتا ہے ابر کا لشکر
کوچ در کوچ روز بڑھتا ہے
پھر ہمالہ پہ آکے پڑھتا ہے
کبھی دیتا ہے باندھ مینہ کا تار
کبھی کرتا ہے برف کی بھرمار
جا پڑھا یوں پہاڑ پر پانی
کی ہے قدرت نے کیا ہی آسانی
واں سے چشمے بہت اُبل نکلے
ندی نالے ہزار چل نکلے
سندھ و ستلج ہیں مغربی دریا
اور پورب میں میکھنا گنگا
ہیں یہ دریا بہت بڑے چاروں
جن میں بہتا ہے پانی الغاروں
پس سمندر سے جو رسد آئی
یوں ہمالہ نے بانٹ کر کھائی
ہوا سرسبز ہند کا میداں
تیری حکمت کے اے خدا قرباں
ہند کی سرزمیں ہے اَن ماتا
اور ہمالہ پہاڑ جل داتا
اے ہمالہ پہاڑ ! تیری شان
دنگ رہ جائے دیکھکر انسان
ساری دُنیا میں ہے تو ہی بالا
پہونچے جب پاس دیکھنے والا
سامنے اِک سیاہ دل بادل
دیو کی طرح سے کھڑا ہے اٹل
گھاٹیاں جن میں گونجتی ہے صدا
آبشاروں کا شور ہے برپا
دبدبہ اپنا تو دکھاتا ہے
گویا میدان کو دوڑاتا ہے
ہے میرے دل میں یہ خیال آتا
کاش چوٹی پر تیرے چڑھ جاتا
واں سے نیچے کا دیکھتا میداں
جس میں گنگ وجمن ہیں تیز رواں
دو لکیریں سی وہ نظر آتیں
دائیں بائیں کو صاف لہراتیں
اس تماشے سے جب کہ جی بھرتا
تو شمالی طرف نظر کرتا
شام کو دیکھتا بہار بڑی
گویا سونے کی ہے فصیل کھڑی
پھر وطن میں جب آن کر رہتا
دوستوں سے یہ ماجرا کہتا
صفحہ نمبر 54
بارہ سنگھے غریب پر ہے لتاڑ
سینگ ہیں اُس کے جھاڑ اور جھنکار
وہ چوہے ہند کا بڑا ساگر
واں سے چلتا ہے ابر کا لشکر
کوچ در کوچ روز بڑھتا ہے
پھر ہمالہ پہ آکے پڑھتا ہے
کبھی دیتا ہے باندھ مینہ کا تار
کبھی کرتا ہے برف کی بھرمار
جا پڑھا یوں پہاڑ پر پانی
کی ہے قدرت نے کیا ہی آسانی
واں سے چشمے بہت اُبل نکلے
ندی نالے ہزار چل نکلے
سندھ و ستلج ہیں مغربی دریا
اور پورب میں میکھنا گنگا
ہیں یہ دریا بہت بڑے چاروں
جن میں بہتا ہے پانی الغاروں
پس سمندر سے جو رسد آئی
یوں ہمالہ نے بانٹ کر کھائی
ہوا سرسبز ہند کا میداں
تیری حکمت کے اے خدا قرباں
ہند کی سرزمیں ہے اَن ماتا
اور ہمالہ پہاڑ جل داتا
اے ہمالہ پہاڑ ! تیری شان
دنگ رہ جائے دیکھکر انسان
ساری دُنیا میں ہے تو ہی بالا
پہونچے جب پاس دیکھنے والا
سامنے اِک سیاہ دل بادل
دیو کی طرح سے کھڑا ہے اٹل
گھاٹیاں جن میں گونجتی ہے صدا
آبشاروں کا شور ہے برپا
دبدبہ اپنا تو دکھاتا ہے
گویا میدان کو دوڑاتا ہے
ہے میرے دل میں یہ خیال آتا
کاش چوٹی پر تیرے چڑھ جاتا
واں سے نیچے کا دیکھتا میداں
جس میں گنگ وجمن ہیں تیز رواں
دو لکیریں سی وہ نظر آتیں
دائیں بائیں کو صاف لہراتیں
اس تماشے سے جب کہ جی بھرتا
تو شمالی طرف نظر کرتا
شام کو دیکھتا بہار بڑی
گویا سونے کی ہے فصیل کھڑی
پھر وطن میں جب آن کر رہتا
دوستوں سے یہ ماجرا کہتا